عرب اور خیانت کار حکمران کوفی ہو سکتے ہیں مگر حسینی نہیں، علامہ جواد نقوی
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ مقاومت کا چراغ ہمیشہ روشن رہے گا، شہداء مقاومت قرآن کے اس وعدے کی عملی تصویر ہیں جو اپنا عہد نبھا چکے ہیں، ہم پر فرض ہے کہ شہداء کے خون کا قرض چکائیں اور ان کے مشن کو آگے بڑھائیں، یہ راہ کبھی رکے گی نہیں، کیونکہ شہداء کا خون ہمیشہ بیداری کی علامت ہے، جو اہلِ غزہ کیساتھ ہے، وہ حضرت امام مہدی کا سپاہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے زیراہتمام، علامہ سید جواد نقوی کی صدارت میں جامعہ عروۃ الوثقیٰ میں ’’تکریمِ شہدائے مقاومت کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔ اجتماع میں شہید قاسم سلیمانی، سید حسن نصراللہ، یحییٰ سنوار، اسماعیل ہانیہ اور دیگر شہدائے مقاومت کو شاندار انداز میں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔ کانفرنس میں شہریوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ تقریب کے مقررین میں پیر سید ہارون علی گیلانی مرکزی امیر ہدیۃ الہادی پاکستان و سجادہ نشین آستانہ عالیہ حضرت میاں میر لاہور، مولانا محمد جاوید قصوری امیر جماعت اسلامی وسطی پنجاب، پروفیسر حافظ عبدالماجد سلفی سربراہ مرکز القدس ٹاؤن شپ لاہور، حافظ ناصر محمود شاگردِ رشید شیخ الاسلام علامہ طاہرالقادری اور ڈاکٹر اصغر مسعودی ڈائریکٹر جنرل خانہ فرہنگ جمہوریہ اسلامی ایران، لاہور شامل تھے۔ کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے علامہ سید جواد نقوی کا کہنا تھا کہ مقاومت کا چراغ ہمیشہ روشن رہے گا، کیونکہ باطل قوتیں جتنی بھی کوشش کریں، حق کا یہ الٰہی پیغام دبایا نہیں جا سکتا۔ شہداء کا خون محض ایک تاریخ نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے، جو نسل در نسل بیداری کا پیغام دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان شہداء مقاومت کی بارگاہ میں خود کو حقیر سمجھتے ہیں، جنہوں نے اپنے لہو سے مقتل کو زینت بخشی اور حق و صداقت کی معراج کو پایا۔
انہوں نے کہا کہ کربلا کا پیغام یہی ہے کہ قربانیوں سے لکھی گئی داستانیں کبھی مٹتی نہیں، بلکہ ہر دور میں حق و باطل کے معرکوں کو نئی زندگی بخشتی ہیں۔ شہداء سکھاتے ہیں کہ مقصدِ حیات صرف جینا نہیں، بلکہ باطل کیخلاف ڈٹ جانا ہے۔ ان کا خوف یہ نہیں کہ دشمن غالب آ جائے، بلکہ یہ ہے کہ ہم کہیں تھک کر رک نہ جائیں، کہیں راہِ حسینؑ سے،راہ مقاومت سے،راہِ آزادی سے ہٹ نہ جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس الٰہی مشن کو پورے جوش و جذبے کیساتھ آگے بڑھائیں، اپنے عزم کو شہداء کے خون کی سرخی سے تازہ کریں، اور میدانِ عمل میں اتریں۔ حسینؑ کا راستہ، مقاومت کا راستہ رکنے کے لیے نہیں، بلکہ باطل کو مٹانے کے لیے ہے،اور مقاومت اسرائیل کے صفحہ ہستی سے مٹنے تک آب و تاب سے جاری رہے گی اور مقاومت کا راستہ ہر دور میں ظلم کی دیواروں کو گراتا رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ عرب کوفی ہو سکتے ہیں، مگر حسینی نہیں۔ حکمران کوفی اور خیانت کار ہو سکتے ہیں، مگر حسینی نہیں۔ حسینی ہمیشہ مظلوم کے حامی اور ظالم کے دشمن ہیں، کیونکہ حسینؑ کا راستہ قربانی، عدل، اور حق کا راستہ ہے، جس میں ظالموں اور غداروں کیلئے کوئی جگہ نہیں۔
چیئرمین سنی کونسل پاکستان اصغر عارف چشتی صاحب کا کہنا تھا کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں فلسطین کے حق میں آوازیں اُٹھیں، مگر وقت کیساتھ حکومتی، ریاستی اور دیگر عناصر نے انہیں دبا دیا۔ تاہم، سید جواد نقوی کی آواز کسی دھمکی سے نہ دبی، نہ رکی، بلکہ اپنے عزم و حوصلے کیساتھ مسلسل بلند ہوتی رہی۔ آج بھی جامعہ عروۃ الوثقیٰ وہی آواز بلند کر رہا ہے، جو ظلم کے خلاف ہمیشہ مضبوط اور جرات مندانہ رہی ہے۔ پروفیسر حافظ عبدالماجد سلفی سربراہ مرکز القدس کا کہنا تھا کہ اگر امت میں اتحاد ہوتا، تو اسرائیل کو غزہ کو ویران کرنے کی جرات نہ ہوتی۔ حماس کی مزاحمت میں جو قوت تھی، یقیناً اس میں حزب اللہ کی بھرپور معاونت شامل تھی۔ اسرائیل کے گھٹنے ٹیکنے کی اصل وجہ سنی اور شیعہ کا اتحاد تھا۔ اگر یہ اتحاد نہ ہوتا، تو نتیجہ کچھ اور ہی ہوتا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کا کہنا تھا کہ مقاومت کا جواد نقوی کا راستہ
پڑھیں:
یہودیوں کا انجام
دنیا ایک بار پھر ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں حق اور باطل کی جنگ واضح ہو چکی ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر بہنے والا معصوم خون، بچوں کی لاشیں، ماں کی آہیں اور بے گھر ہوتے خاندان ہمیں ایک بار پھر اس یاد دہانی کی طرف لے جا رہے ہیں کہ ظلم جب حد سے بڑھ جائے تو اللہ کی پکڑ بھی قریب آ جاتی ہے۔ آج جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے وہ صرف ایک انسانی المیہ نہیں بلکہ ایک روحانی اور ایمانی آزمائش بھی ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق یہودیوں کا ماضی، حال اور مستقبل واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں بنی اسرائیل کی سرکشی، ان کی نافرمانیاں اور اللہ تعالیٰ کے نبیوں کے ساتھ ان کے سلوک کا بارہا ذکر آیا ہے۔ ان کی فطرت میں دھوکہ، فریب، اور سازش شامل ہے۔ انہوں نے نہ صرف اللہ کے انبیا ء کو جھٹلایا بلکہ انہیں قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک وقت کی نشاندہی فرمائی ہے جب یہودیوں کا مکمل خاتمہ ہو گا۔ اس وقت حق اور باطل کا آخری معرکہ ہو گا جسے ’’ملحمہ کبریٰ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس معرکے میں مسلمان غالب آئیں گے اور اللہ کے وعدے کے مطابق زمین پر عدل اور انصاف قائم ہو گا۔
حدیث مبارکہ میں آتا ہے ۔ ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک مسلمان یہودیوں سے جنگ نہ کر لیں، اور مسلمان انہیں قتل کریں گے یہاں تک کہ یہودی پتھروں اور درختوں کے پیچھے چھپیں گے مگر وہ درخت اور پتھر بھی پکار اٹھیں گے: اے مسلمان! اے اللہ کے بندے! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے، آئو اور اسے قتل کرو، سوائے ’’غرقد‘‘ کے درخت کے، کیونکہ وہ یہودیوں کا درخت ہے۔(صحیح مسلم: 2922)
یہ حدیث نہ صرف مستقبل کے ایک یقینی واقعے کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ یہودیوں کا انجام عبرتناک ہو گا۔ وہ جہاں بھی چھپیں گے قدرت انہیں بے نقاب کر دے گی۔یہ حدیث ہمیں نہ صرف یہ بتاتی ہے کہ یہودیوں کا انجام تباہی ہو گا بلکہ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ اس معرکے میں اللہ کی قدرت براہِ راست کام کرے گی۔ یہاں تک کہ جمادات(درخت اور پتھر) بھی بول اٹھیں گے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ ایک الہامی سچائی ہے جس پر ہمیں کامل یقین رکھنا ہے کیونکہ یہ بات بات دنیا کے سب سے عظیم ، سچے انسان اور خاتم النبیین جناب محمد الرسول اللہ نے ارشاد فرمائی ہے۔
فلسطین میں ہونے والی نسل کشی انسانی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب بن چکی ہے۔ ہزاروں بچوں، عورتوں اور معصوم لوگوں کا قتلِ عام، ہسپتالوں، مساجد اور سکولوں پر بمباری، اور عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جنگ صرف زمینی نہیں بلکہ ایمانی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ وہ طاقت کب، کہاں اور کیسے مسلمانوں کو حاصل ہو گی جس کے ذریعے وہ یہودیوں کو شکست دیں گے؟ اس کا جواب بھی قرآن اور سنت میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہیں’’ان تنصروا اللہ ینصرکم ویثبت اقدامکم‘‘ (سورۃ محمد: 7)
ترجمہ: اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا۔یعنی جب مسلمان دین اسلام پر مکمل عمل پیرا ہوں گے، جب وہ فرقوں، تعصبات، اور دنیاوی لالچ سے نکل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں گے تب ہی اللہ کی نصرت نازل ہو گی۔میرا رب وہ ہے جو تقدیر بھی بدلتا ہے اور حالات بھی۔ غم کا موسم کبھی ہمیشہ کے لیے نہیں رہتا۔ مگر یہ معرکہ جسے ہم دیکھ رہے ہیں اس نے نہ صرف دشمن کو بے نقاب کیا ہے بلکہ ہمارے اپنے مسلمان حکمرانوں کو بھی۔ وہ حکمران جن کی زبانیں خاموش، ضمیر مردہ اور آنکھیں بند ہیں۔ جن کے محلات تو چمک رہے ہیں مگر ان کے دل سیاہ ہو چکے ہیں۔ وہ یہودیوں کے سامنے اس لیے جھک چکے ہیں کیونکہ انہیں مسلمانوں کی جانیں اور عزتیں نہیں بلکہ اپنی بادشاہتیں، اپنی دولت اور دنیاوی آسائشیں عزیز ہیں۔یہی معرکہ ہم عام مسلمانوں کے ایمان کا بھی امتحان ہے۔ اربوں کی تعداد میں ہم مسلمان دنیا بھر میں بستے ہیں مگر افسوس کہ ہمارا طرزِ زندگی، ہماری خریداری، ہماری ترجیحات سب اسرائیل کی مدد کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ ہم ان ہی یہودی مصنوعات کو خریدتے ہیں جن کا منافع اسرائیل کے فوجی بجٹ میں شامل ہوتا ہے۔ہم میں سے کتنے ہی افراد روزانہ یہودی مصنوعات کا استعمال کرتے ہیں۔ ہم انہی کمپنیوں کی چیزیں خریدتے ہیں جن کا منافع اسرائیلی فوج کے اسلحہ اور بارود پر خرچ ہوتا ہے۔ ہم اپنی لاعلمی، غفلت یا لاپرواہی کے باعث اس ظلم میں شریک ہو رہے ہیں۔ ہم خود اپنے ہاتھوں سے ان ظالموں کی پشت پناہی کر رہے ہیں جو ہمارے ہی بھائیوں کا خون بہا رہے ہیں۔افسوس، صد افسوس! کہ ہم صرف سوشل میڈیا پر پوسٹس اور احتجاج تک محدود ہو چکے ہیں جبکہ عمل کے میدان میں ہماری موجودگی ناپید ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سب سے پہلے خود کو بدلیں، اپنی ترجیحات کو ایمان کی روشنی میں دیکھیں، اور ہر وہ قدم اٹھائیں جو ظالم کی طاقت کو کمزور کرے۔اللہ کی مدد صرف انہی کو حاصل ہوتی ہے جو خود کو اس کے دین کے لیے وقف کرتے ہیں۔ ہمیں آج سے یہ عہد کرنا ہو گا کہ ہم صرف باتوں سے نہیں، بلکہ عمل سے اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اپنے گھر سے، اپنی خریداری سے، اپنی دعائوں سے اور اپنی زندگی کے ہر شعبے میں ہم ظالم کے خلاف اور مظلوم کے ساتھ ہوں گے۔دنیا اس وقت ظلم، فتنہ اور نفاق کے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر جو خون بہایا جا رہا ہے جو لاشیں گرائی جا رہی ہیں اور جو بچے ماں کی گود سے چھینے جا رہے ہیں تاریخِ انسانی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایک منظم نسل کشی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور دنیا بالخصوص مسلم حکمران تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔یہودیوں کا انجام اللہ کے فیصلے کے مطابق ہونا ہے۔ مگر وہ دن کب آئے گا؟ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہم مسلمان کب جاگتے ہیں؟ کب ہم دنیا کی محبت اور موت کے خوف کو ترک کر کے اللہ کی راہ میں نکلتے ہیں؟ کب ہم قرآن کو صرف ثواب کے لیے نہیں بلکہ رہنمائی کے لیے پڑھنا شروع کرتے ہیں؟یقین رکھیں! وہ وقت ضرور آئے گا جب ہر درخت اور پتھر بھی گواہی دے گا، اور مظلوموں کے آنسو ظالموں کے لیے آگ بن جائیں گے۔یہودیوں کا انجام طے شدہ ہے لیکن اس انجام کو لانے کے لیے ہمارا کردار کیا ہو گا؟ یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے۔