Daily Ausaf:
2025-04-22@11:18:55 GMT

سماجی ابلاغ کے طوفان میں لرزتی سماجی روایات

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

موجودہ دور سوشل میڈیا کا دور ہے۔ یہ تیز اور عجیب بھی ہے۔ اسکی طوفانی آمد نے سب کچھ بدل دیا ہے ۔ وقت بدل گیا ہے۔ رواج اور مزاج بدل گئے ہیں۔ انٹرنیٹ ٹیکنالوجی نے سب کو موبائل فون کی ڈبیا میں بند کردیا ہے۔ اس ڈبیا کے دلفریبی نے اکثریت کو اسیر بنا لیا ہے۔ اس کے دامن کی رنگینی ،رونق اور روشنیوں نے چشم و اذہان کو جکڑ لیا ہے ۔بظاہر حقیقی دنیا میں موجود انسان دراصل ذہنی طور پر اک الگ دنیا میں رہنے لگا ہے۔حقیقی دنیا میں اس نے اک ورچوئل یا مصنوعی دنیا بنا لی ہے ۔ جس کی کشش اور گہرائی میں اکثریت غرقاب رہتی ہے۔ حقیقی ماحول پر مصنوعی ماحول چھا گیا ہے جس میں کھو کر انسان دنیا مافیہا سے بالکل بےخبر اورلاتعلق ہوجاتا ہے۔ گردش وقت کا احساس تک مٹ جاتا ہے۔ مجمع اور محفل میں موجود لوگوں میں آپسی ربط و ارتکاز نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ وجودحاضر جبکہ روح سوشل میڈیا کی وادیوں میں بھٹک رہی ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے انہیں کئی بار پکارنا پڑتا ہے۔ ایسی دماغی عدم موجودگی اور عدم دلچسپی باہمی کلام کے حسن اور ادبی تقاضوں کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا کی لت اک لعنت بنتی جارہی ہے ۔ اک مہلک نشہ کی صورت اختیار کرگئی ہے۔ اک خطرناک طوفان بن گیا ہے جس نے ہماری روایات اور سماجی اقدار کے شجر اکھاڑ دئیے ہیں۔ سماجی تقریبات اور میل جول کے خوبصورت پھول جھڑ گئے ہیں ۔گھر کے آنگن میں گونجنے والے قہقہے اور رات گئے تک گپ شپ کی خوبصورت رسم و ریت مٹتے جا رہے ہیں ۔ ستم تو یہ ہے کہ اس کے نقصانات کو جانتے ہوئے بھی ہم دھڑادھڑ اس کا استعمال کر رہے ہیں جس کے باعث تیزی سے ہمارے صدیوں پرانے آداب اور سلیقے متاثر ہو رہے ہیں ۔
ڈیڑھ دہائی پہلے کے دور میں پاس بیٹھے شخص کی بات کو پوری توجہ سے نہ سننا انتہائی برا اورخلاف آداب سمجھا جاتا تھا۔ گھر میں مہمان کی آمد اور موجودگی کے دوران غیر ضروری مصروفیات چھوڑ کر اس کو توجہ دی جاتی تھی ۔ اس کا خیال رکھا جاتا تھا۔ اس کو بھرپور وقت دیا جاتا تھا۔ گفت و شنید میں اسے انگیج رکھا جاتا تھا۔ بزم میں شامل ہر کوئی اپنے ہونے کااحساس دلاتاتھا ۔جب محفل میں کسی موضوع پہ بات ہوتی تو سب اس طرف متوجہ ہوجاتے تھے ۔ اس دوران آپسی کھسر پھسر کو معیوب سمجھا جاتا تھا ۔خلاف آداب عمل مانتے ہوئے اسکو ناپسند کیاجاتا تھا ۔ احترام محفل کی حالت یہ ہے کہ کوئی بھی ایک دوسرے کی موجودگی کا احساس کرتا ہےاور نہ پرواہ۔ اب تو یہ چلن ہی معمول عام بن چکا ہے۔پرانی روایات اورتکلفات تقریباً غیر اہم اور غیر ضروری سمجھے جانے لگے ہیں ۔ مجھے ایک روز تین گھنٹوں پر محیط سفر پہ جانا تھا ۔ ڈرائیور کو کہا گاڑی باہر نکالو ۔ اسی اثنامیرا ایک نو عمر عزیز ملنے آ گیا۔ اس کی خواہش جان کر میں نے اس کو ساتھ لے لیا۔ سوچا گپ شپ میں سفر اچھا گزر جائے گا ۔ گاڑی چلنے کے ساتھ ہی موصوف کے موبائل پہ میسج کی اطلاعی گھنٹی بجنے لگی ۔ اک ایک بعد دوسرا میسج ۔ درمیان میں کبھی کال بھی آجاتی ۔میں صبر اورخاموشی سے اس کے فارغ ہونے کا انتظار کرتا رہا ۔ اللہ اللہ کر کے کافی دیر کے بعد میسجز اور کالز کا سلسلہ کچھ تھما ۔ میں نے اس سے بات چیت کا آغاز کیا ۔ ابھی چند جملے ہی بولے تھے کہ پھر اس کے موبائل پہ کوئی میسج آ گیا ۔مجھ سے توجہ ہٹا کراس نے وہ پڑھنا شروع کردیا ۔ میں جاری گفتگو کا آدھا حصہ حلق میں روکے اس کا منہ تکنے لگا ۔ سارا سفر خیر سےہمارا ایسا ہی گزرا ۔مجال ہے تین گھنٹے کے سفر میں ہم نے کوئی گپ شپ کی ہو ۔ منزل پہ پہنچے تو گاڑی سے نکلتے ہوئے بڑی خوشی اور اطمینان سے کہتا ہےکہ سفر کا پتہ ہی نہیں چلا ۔ بجائے کچھ ندامت محسوس کرنے کہ راستہ بھر اس نے مجھے وقت اور نہ وقعت دی اوپر سے کمال اطمینان سے سفر کے خوش گزرنے کا اظہار کر رہا تھا ۔
سکول سے بچے واپس آتے ہیں تو اکثر دل چاہتا ہے ان سے ان کے دن کا حال جانا جائے۔ گھر میں داخل ہوتے ہی ہیلو ہائے کے بعد کہیں سے موبائل یا ٹیبلٹ اٹھا لیتے ہیں ۔ یونیفارم اتارنے کی بھی تکلیف نہیں کرتےجس کے لئے ماں بار بار کہہ رہی ہوتی ہے ۔ کسی گیم یا کارٹون مووی میں اسقدر محو ہو جاتے ہیں کہ چیختی ماں کی آواز بھی ان کو سنائی نہیں دیتی ۔ مجبوراً بازو سے پکڑ کر یونیفارم بدلنے اور کھانا کھانے کےلئےانہیں اٹھانا پڑتا ہے۔اس دوران ان کا ردعمل انتہائی سست اور مزاحمتی ہوتا ہے ۔نظریں موبائل پر جمائے لڑکھڑاتے ، چیزوں سے ٹکراتےگھر کےاندر چل رہےہوتے ہیں۔ ان کی توجہ اور ارتکاز بری طرح متاثر ہو گیا ۔ اس سارے بگاڑ کی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے ۔ خاص طور پر ماں جو دور شیر خواری سے ہی بچے کو چپ کرانے کے لئے اس کو موبائل دے دیتی ہے ۔ جب بچہ چار پانچ سال کا ہوتا ہے تو وہ موبائل کا پکا عادی بن چکا ہوتا ہے ۔ یہی وہ مرحلہ ہے جب بچے کی مزاج سازی میں خرابی ہوتی ہے۔ گردو پیش اور قریبی رشتوں سے بےخبر اور دور رہتا ہے ۔ ان کی اہمیت ، عزت اور احساس محبت سے نابلد اور محروم رہتا ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ خلا مزید بڑھ جاتا ہے ۔ ان میں اپنوں میں بیٹھنے اور مکالمہ کرنے کی خواہش اور نہ عادت پنپتی ہے ۔ روائتی اپنائیت اور چاہت کی چاشنی سے وہ بےخبر ہی رہتے ہیں جس کے نتیجے میں معاشرے کا ہر فرد ساتھ رہتے ہوئے بھی الگ دنیا میں بس رہا ہوتا ہے ۔ حقیقی دنیا سے صرف اسکا ظاہری سا تعلق محسوس ہوتا ہے ۔ اس کی ذہنی تسکین اور تشفی مکمل طور پر سوشل میڈیا کے مواد سے مشروط ہے ۔ جس معاشرے میں سوشل میڈیا کا جادو اتنا بری طرح لوگوں کے ذہنوں، عادات اور طرز زندگی پہ اثرانداز ہو جائے پھر وہی ہوتا ہے جو سفر کے دوران میرے نو عمر عزیز نے مجھ سے کیا تھا ۔ اس روش کو روکا اور بدلا نہ گیا تو خاندانی نظام اور باہمی محبت اور مروت کے رشتے بکھر جائیں گے ۔ اس سے پہلے کہ یہ بھیانک صورتحال پیدا ہو نئی نسل کی پرورش اور تربیت کو اپنی شاندار اخلاقی، سماجی و مذہبی اقدارکی سطور پرکریں ۔ ترجیحات بدلیں ،بچے کو خوش کرنے کےچکر میں آسان لگنے والے مضر نفسیات طریقوں سے اجتناب کریں ۔ پھر نہ کہنا کسی نے بتایا نہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: سوشل میڈیا جاتا تھا دنیا میں ہوتا ہے ہوتی ہے

پڑھیں:

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

کسی شاعر نے توکہا تھا کہ

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

مگر حادثہ کا شکار ہونے والوں سے جب پوچھا جاتا ہے تو وہ بتاتے ہیں کہ اْنہیں تو پتہ ہی نہیں چلا ، اگر اْنہیں علم ہوتا کہ اْن کے ساتھ کوئی حادثہ ہونے والا ہے تو وہ گھر سے نکلتے ہی نہیں جبکہ اْسی حادثے میں جو لوگ کچھ بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے اْن کے لواحقین بتاتے ہیں کہ اِس حادثے میں زخمی ہونے یا جان بحق ہونے سے پہلے اْنہوں نے کتنے جتن کئے تھے اور وہ کون کون سی رکاوٹ پھلانگ کر حادثے کا حصہ بنے تھے ۔ بہرحال اللہ تعالی ہم سب کو ہر قسم کے حادثے سے محفوظ رکھے۔

پرانے زمانے میں حادثات کی خبروں کے حصول کا واحد ذریعہ اخبارات ہوتا تھا اور عموما صفحہ اول پر ہی ٹریفک حادثات کی خبریں شائع ہوا کرتی تھیں۔ آج کے برعکس ریڈیو اور ٹی وی پر ایسی خبریں نشر نہیں ہوتی تھیں۔ آج تو معمولی سے معمولی حادثے کی خبر بھی ٹی وی پر دیکھی اور سنی جا سکتی ہے۔ لوگ پوری ذمہ داری اور دلچسپی کے ساتھ وہ خبریں دیکھتے بھی ہیں اور ساتھ ساتھ یہ تبصرہ بھی کرتے ہیں کہ اگر یہ خبر نشر نہ کرتے تو کیا حرج تھا ۔

چند سال پہلے تک صورتحال یہ تھی کہ کوئی ٹریفک حادثہ ہونے کے بعد یہ طے کرنا مشکل ہوتا تھا کہ حادثہ کس کی غلطی کی وجہ سے ہوا ہے، جبکہ آج یہ بات طے کرنا مشکل نہیں رہا کہ حادثے کا اصل ذمہ دار کون ہے ۔ کیونکہ اکثر گاڑیوں میں لگے کیمرے یہ راز کھول دیتے ہیں اور اگر کسی گاڑی میں کیمرہ نہ بھی ہو تو آس پاس کے کلوز سرکٹ کیمرے یہ راز فاش کر دیتے ہیں۔ اس سب کے باوجود بھی آج بھی ایسے کئی حادثات ہوتے رہتے ہیں جن کے ذمہ داروں کا تعین نہیں کیا جا سکتا یا نہیں ہو پاتا ۔( خصوصا ہمارے ہاں)

 شدید دھند کے موسم میں ہمارے ہاں تو بے شک موٹرویز اور ایکسپریس ویز بند کر دی جاتی ہیں مگر کئی ممالک میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا تاہم ڈرائیورز کو بہت زیادہ محتاط رہنے کی تلقین کی جاتی ہے ، مگر پھر بھی حادثات ہو ہی جاتے ہیں ۔ اس صورتحال میں عموماً غلطی تو کسی ایک ڈرائیور کی ہوتی ہے مگر اْس کے پیچھے آنے والے کئی ڈرائیورز اِس سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ اچانک بریک لگانے سے پیچھے آنے والی گاڑیاں ایک دوسرے میں دھنستی چلی جاتی ہیں ۔ امریکہ کی ریاست لوزیانہ کی ہائی وے پر چند سال پہلے ایسی صورت میں چند منٹوں میں کم از کم ڈیڑھ سو سے زیادہ گاڑیاں ایک دوسرے میں دھنس جانے کی وجہ سے سات افراد جان بحق ہو گئے۔

شدید سردی کے موسم میں جبکہ دھند کے باعث حدِ بصارت بہت کم ہو جاتی ہے تو ایسے میں موٹرویز تو بند ہو جاتی ہیں مگر ہائی ویز پر ٹریفک کا دباؤ پہلے سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے اور وہاں حادثات کی شرح خاصی بڑھ جاتی ہے ۔ ایسے میں زیادہ تر حادثات رات کے وقت ہوتے ہیں جب ڈرائیور کو یہ اندازہ کرنے میں غلطی لگ جاتی ہے کہ اْسے کہاں سے مڑنا ہے۔ ایسے میں وہ بعض اوقات گاڑی کو سڑک کے درمیان بنی دیوار سے ٹکرا دیتا ہے ۔ بعض اوقات اچھے خاصے خوشگوار موسم میں جب سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہوتا ہے تو کوئی جانورکسی بھی طرح سے موٹروے کی ’سیر و سیاحت‘ کے لیے آ جائے تو اْس سے بچنے یا اْس کو بچانے کے لیے ڈرائیور یکدم بریک لگا دیتا ہے تو اِس سے بھی اْس کے پیچھے آنے والی گاڑیاں اْس میں آ کر لگنے لگتی ہیں ۔

 ہمارے ہاں ٹریفک حادثات کو مقدر کا لکھا ہی تصور کیا جاتا ہے، بہت پہلے جبکہ موٹرویز ، ایکسپریس ویز اور ون ویز نہیں ہوتی تھیں اور ایک ہی سڑک پر دونوں اطراف سے گاڑیاں آ جا رہی ہوتی تھیں تو سامنے سے آنے والی گاڑی کو دیکھ کر زبان پر بے ساختہ کلمہ طیبہ کا ورد شروع ہو جاتا تھا ۔ اْس وقت دوسرے شہر جانے کے لیے زیادہ تر لوگ بسوں پر ہی سفر کیا کرتے تھے۔ سنگل سڑک پر اوورٹیک کرتے ہوئے یا سامنے سے آنے والی ٹریفک سے بچتے ہوئے بعض اوقات بس بے قابو ہو کر سڑک سے نیچے اْتر جاتی اور سامنے آئے کسی درخت سے ٹکرا کر رک جاتی ۔ ایسے ہی کسی حادثے میں بچ جانے والی ایک بڑھیا نے ڈرائیور سے سوال کیا ؛ "بیٹا جہاں درخت نہیں ہوتے، تم بس کو کیسے روکتے ہو؟‘‘۔

 اْن دنوں میں زمینی علاقوں میں سفر پہاڑی علاقوں میں سفر کی نسبت زیادہ محفوظ ہوتا تھا۔ پہاڑی راستے چونکہ تنگ اور بل کھاتے ہوئے جاتے ہیں ، اِس لیے وہاں پر گاڑی چلانے کے لیے اضافی مہارت کی ضرورت ہوتی تھی ، بلکہ آج بھی ہے۔ ایسے میں معمولی سی غفلت گاڑی کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتی تھی۔ پہاڑوں میں بل کھاتی سڑکوں کے کسی موڑ سے نیچے کھائی کی طرف دیکھیں تو کوئی گری ہوئی گاڑی یا بس نظر آ جاتی ہے۔

پرانے زمانے میں تو بسیں ہی گری ہوئی نظر آتی تھیں مگر اب کاریں ، خصوصاً چھوٹی اور کم طاقت والی کاریں گرتی ہیں خصوصاً جن کے ڈرائیورز نا تجربہ کار ہوتے ہیں ۔ ایسی گاڑیاں اگر ناقابل مرمت ہوں یا اْن کی ملکیت کا کوئی دعوی دار نہ ہو تو متعلقہ ادارے ایسی گاڑیاں کھائی سے نکال کر کسی ایسی جگہ رکھ دیتے ہیں کہ جہاں ہر آنے جانے والے ڈرائیور کی نظر پڑے اور وہ اْس گاڑی کی حالت سے عبرت پکڑتے ہوئے محتاط ڈرائیونگ کرے مگر اِس کے باوجود بھی جو حادثات رونما ہونا ہوتے ہیں ہو کر ہی رہتے ہیں ۔

 گاڑیوں کی ریس کو دنیا کا مہنگا ترین کھیل تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اِس میں استعمال ہونے والی عام سی گاڑی بھی پاکستانی کرنسی کے اعتبار سے کئی کروڑ روپے کی ہوتی ہے اور اْس میں بیٹھے ڈرائیور کی زندگی کی کیا قیمت ہو گی ،آپ خود اندازہ لگا لیں ۔ پھر بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ کروڑوں کی گاڑی دوسری مرتبہ ریس میں حصہ لینے کے قابل بھی نہیں رہتی۔ ایسے میں بعض اوقات تو دہرا نقصان بھی ہو جاتا ہے کہ ایک تو کار بیکار ہو گئی اور دوسرا اعزاز بھی ہاتھ نہیں آیا ۔ منظم کار ریس میں عام طور پر نقصان کار کا ہی ہوتا ہے، ڈرائیور بہرحال محفوظ ہی رہتا ہے۔ یہ ریس شائقین کو دکھانے کے لیے عام طور پر مختلف کیمروں کی مدد سے بڑی سکرینوں کا سہارا لیا جاتا ہے ۔

بعض اوقات اِس کی فلم بندی میں مصروف فوٹوگرافر کسی حادثے کی صورت میں ڈرائیورز سے زیادہ زخمی ہو جاتے ہیں ۔ عام لوگ دوران ریس گاڑیوں کے اْلٹنے اور ٹوٹنے کے مناظر سے بہت لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اْن کا لطف بے شک ویسا ہی ہوتا ہے جیسا ریسلنگ، فٹبال ، کرکٹ یا کسی بھی میچ کے دوران شائقین کا ہوتا ہے۔ گاڑیوں کے اْلٹنے کی خبریں، فوٹو یا ویڈیوز تو اکثر لوگوں نے دیکھ رکھی ہیں اور اْس سے حسبِ ضرورت لوگ عبرت بھی حاصل کرتے ہیں اور لذت بھی۔ مگر اْلٹی ہوئی بس ہو یا ٹرین ، اس سے تو لوگوں نے ہمیشہ عبرت ہی حاصل کی ہے ۔

 بسوں اور گاڑیوں کے بعد زیادہ تر حادثات ٹرینوں کے ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک لطیفہ یاد آگیا۔ ایک مرتبہ ریل گاڑی کا کانٹا بدلنے والی کسی پوسٹ کے لیے انٹرویو ہو رہے تھے۔ انٹرویو لینے والے نے پہلے سے سوچ رکھا تھا کہ اْس نے کسے چننا ہے اور وہ حاضر امیدواروں میں موجود بھی نہیں تھا ۔ اْس نے ایک امیدوار سے پوچھا کہ اگر اْسے معلوم ہو جائے کہ دو گاڑیاں ایک ہی ٹریک پر آمنے سامنے سے آرہی ہیں تو تم کیا کرو گے؟

 اْس نے جواب دیا کہ میں اسٹیشن ماسٹر سے کہوں گا کہ وہ اِس کا کوئی بندوبست کرے ۔

انٹرویو لینے والے نے کہا کہ اگر وہ موجود نہ ہو تو؟

امیدوار نے کہا پھر میں اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر سے کہوں گا۔

 اور اگر وہ بھی نہ ملے تو پھر ۔۔

پھر میں سگنل مین سے کہوں گا کہ وہ دونوں گاڑیوں کو دور دور رْک جانے کا سگنل دے۔

اور اگر وہ بھی نہ ملے تو پھر؟

 امیدوار نے کہا میں اپنی دادی کو بلا لاؤں گا۔

 تمہاری دادی وہاں کیا کرے گی؟ انٹرویو لینے والے نے حیرت سے پوچھا

اْنہیں ٹرینوں کی ٹکر خصوصاً ہیڈ کولیڑن دیکھنے کا بڑا شوق ہے ، وہ اپنا شوق پورا کر لیں گی ۔ امیدوار نے جواب دیا۔

 ٹرینوں کا ہیڈ کولیڑن یا ٹیل کولیڑن پاکستان میں ہوتا ہی رہتا ہے ۔ اس طرح کے حادثات پہلے تو جنوری کے مہینے میں جب کہ دھند کا راج ہوتا ہے ، ہوا کرتے تھے مگر اب جنوری تا دسمبر کسی بھی مہینے کی کسی بھی تاریخ کو رونما ہو جاتے ہیں ۔ اِن حادثات کی وجوہات اور تفصیلات بیان کرنا چونکہ اِس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے اِس لیے آگے بڑھتے ہوئے یہ بتاتے ہیں کہ ہیڈ کولیڑن یا آمنے سامنے سے ٹکر کاروں، بسوں اور ٹرینوں کے علاوہ جہازوں کی بھی ہو جاتی ہے۔

چند سال پہلے تک صورتحال یہ تھی کہ ہوائی جہازکے حادثات عموماً دورانِ لینڈنگ یا ٹیک آف رن وے پر ہی رونما ہوتے تھے، پھر پرندوں کے ٹکرانے کی وجہ سے حادثات کی خبریں آنے لگیں ۔ پھر 9/11 کو جب امریکہ کے ٹوین ٹاورز سے دو جہاز ٹکرائے تو بعد میں اونچی عمارتوں سے جہاز ٹکرانے کی خبریں بھی ملتی رہیں۔ مگر گزشتہ چند سالوں سے" کند ہم جنس باہم پرواز کبوتر با کبوتر باز با باز" کے مصداق دو ایک جیسے طیارے آپس میں ٹکرانے کی خبریں بھی آنا شروع ہو گئی ہیں یعنی مسافر اور کمرشل طیاروں کی ٹکریں رن وے کے علاوہ کھلی فضا میں بھی ہوتی ہیں ۔

 ہوائی جہاز کا سفر بے شک سب سے تیز سفر ہوتا ہے یعنی ٹرین یا بس کے ذریعے دنوں کا سفر محض چند گھنٹوں میں ہو جاتا ہے ۔ یوں تو فضائی سفر کی کمپنیاں دعوی کرتی ہیں کہ ہوائی سفر ہی سب سے زیادہ محفوظ سفر ہے اور اس کے لیے وہ مختلف تجربات بھی کرتی رہتی ہیں اور نئی نئی ٹیکنالوجیز بھی استعمال کرتی رہتی ہیں مگر پھر بھی حادثات جو ہونا ہوتے ہیں وہ ہو ہی جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں امریکہ میں اوپر تلے کئی ہوائی حادثات رونما ہوئے تو لوگوں نے اِس کی ذمہ داری بھی نو منتخب صدر ٹرمپ پر ڈال دی مگر پھر دوسرے ممالک میں بھی ہوائی جہازوں کے حادثات ہوئے تو خاموشی چھا گئی کہ یہ تو ہوتے ہی رہتے ہیں ۔

چند سال قبل عید سے ایک دن پہلے پی آئی اے کی لاہور سے کراچی جانے والی پرواز کو کراچی لینڈ کرنے سے پہلے ایسا حادثہ پیش آیا کہ ایک کے سوا مسافروں اور عملے کے تمام افراد جان بحق ہوگئے۔ اِس کے علاوہ جہاز کا ملبہ آس پاس کی عمارتوں کی چھتوں پر گرنے سے الگ نقصان ہوا۔ اس حادثے کے بعد معلوم ہوا کہ قومی ائیر لاین کے بہت سے پائلٹس کی تربیت معیار کے مطابق نہیں ہے تو وزیراعظم نے اس کا سنجیدگی سے نوٹس لیتے ہوئے ایسے پائلٹس کو گراؤنڈ کر دیا جس سے قومی ائیر لائن کی مقبولیت کا گراف خاصا گر گیا ، بہت سے ممالک نے تو قومی ائیر لائن کا داخلہ ہی بند کر دیا تھا۔ اْس وقت کی اپوزیشن نے اعتراض کیا کہ وزیراعظم کے اس اقدام سے پاکستان کی معیشت کو بہت نقصان پہنچا ہے۔

فضائی حادثات کی فہرست بنائی جائے تو بہت طویل بن سکتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی وجوہات میں تو مماثلت ہو سکتی ہے مگر فضائی حادثات کی صورت میں ہمیشہ نئی صورت حال ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں کینیڈا ٹورنٹوکے پیرسون ائیر پورٹ پر ڈیلٹا ائیر کاطیارہ شدید سردی کے موسم میں لینڈ کرنے کے بعد اِس طرح اْلٹ گیا کہ اِس سے پہلے کسی طیارے کو اِس حالت میں نہیں دیکھا گیا تھا۔ اِس حادثے میں کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا مگر طیارہ ناصرف ناکارہ ہو گیا بلکہ کئی دنوں تک اْس کا ملبہ ائیر پورٹ پر ایسے پڑا رہا کہ حادثہ کینیڈا جیسے ترقی یافتہ ملک میں نہیں ہوا بلکہ کسی انتہائی پسماندہ ملک میں ہوا ہے۔ جہاز ساز کمپنیاں ایسے حادثات کی وجوہات کو عوام سے چھپانے میں عموماً کامیاب ہو ہی جاتی ہیں ، ممکن ہے اِس مرتبہ بھی اْنہیں کامیابی ہو جائے ۔

متعلقہ مضامین

  • نوجوان جمہوری اقدار، پارلیمانی روایات ،قانون سازی میں حصہ لیں:محمد احمد خان  
  • کشمور، ڈاکوؤں کا پولیس موبائل پر حملہ، ایس ایچ او سمیت چار اہلکار زخمی
  • نئے پوپ کا انتخاب کیسےکیا جاتا ہے؟
  • امرود
  • حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
  • عالمی چلینجز اور سماجی تقسیم کو ختم کرنے کیلیے علامہ اقبال کی تعلیمات مشعل راہ ہیں، وزیراعظم
  • کوئٹہ میں افغان مہاجرین کی تذلیل کی جا رہی ہے، سماجی و سیاسی رہنماء
  • حج انتظامات، عازمین کو حاجی کیمپ سے ٹکٹ، ویزہ، شناختی لاکٹ، اسٹیکرز اور موبائل سم فراہم کی جائے گی
  • ٹیرف کے طوفان میں صارفین کی یہ شاندار ایکسپو  زیادہ قیمتی ہے
  • ٹیرف کے طوفان  میں صارفین کی یہ شاندار ایکسپو  زیادہ قیمتی ہے