Jasarat News:
2025-04-22@14:24:01 GMT

کشمیر میں’’ گڈ فرائیڈے ایگریمنٹ‘‘ ؟

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

کشمیر میں’’ گڈ فرائیڈے ایگریمنٹ‘‘ ؟

کشمیر کے معروف صحافی یوسف جمیل کی بھارت کے اخبار ’’دکن کرانیکل‘‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ میں حریت کانفرنس اور نریندر مودی حکومت کے درمیان تعلقات کی منجمد برف پگھلنے کا انکشاف کیا گیا ہے۔ یوسف جمیل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پس پردہ چینلز کی کوششوں کے بعد دہلی نے امن عمل کو وسعت دینے کی خاطر حریت کانفرنس کے کچھ رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی ظاہرکر دی ہے۔ یہ مذاکرات کشمیر کے سب سے اہم مذہبی رہنما میر واعظ عمر فاروق کی قیادت میں حریت کانفرنس کے ساتھ متوقع ہیں۔ مودی حکومت نے دل بدلنے کی پالیسی کے تحت اپنی سخت گیر پالیسی میں تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس بات کی تصدیق بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک لیڈر نے بھی کی ہے جس کا کہنا تھا کہ اس عمل میں حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین پروفیسر عبدالغنی بٹ کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک گفتگو نے اہم کردار کیا ہے۔ نجی محفل میں ہونے والی اس گفتگو میں پروفیسر عبدالغنی بٹ نے کہا تھا کہ کشمیری حریت پسندوں کی چلائی جانے والی سیاسی تحریک بے سمت تھی اور اس نے کشمیری عوام کے مفاد کو نقصان پہنچایا۔ رپورٹ کے مطابق حریت کانفرنس کے ایک لیڈر نے بھی دکن کرانیکل کو بتایاکہ پس پردہ مذاکرت ایک ’’گرے ایریا‘‘ ہیں اور کسی بامقصد سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے ہم کبھی مذاکرات کے ذریعے مسئلے کے حل کے خلاف نہیں رہے۔ حریت کانفرنس کی قیادت نے پہلے بھی اٹل بہاری واجپائی کے انسانیت جمہوریت اور کشمیریت کے جذبے کے تحت دوجہتی (دہلی اور اسلام آبادسے) مذاکرات کیے تھے۔ یہ بات چیت منطقی انجام تک بھی پہنچ سکتی تھی مگر اس سے پہلے 2009ء میں واجپائی حکومت ختم ہوگئی۔ کانگریس اس مذاکراتی عمل کو آگے نہ بڑھا سکی۔ حریت کانفرنس کی من موہن سنگھ کے ساتھ ملاقاتیں رسمی اور بے سود رہیں، من موہن سنگھ نے حریت کانفرنس کی طرف سے دی جانے والی ایک تجویز پر بھی عمل نہیں کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2014ء میں نریندر مودی نے واجپائی کی پالیسی کو آگے بڑھانے کا اعلان تو کیا مگر یہ پالیسی واجپائی کے مقصد کی روح ’’انسانیت جمہوریت اور کشمیریت‘‘ سے خالی ہی رہی۔ اس دوران برہان وانی کا واقعہ ہوا اور کشمیر میں پیدا ہونے والے حالات کے باعث دہلی کا رویہ مزید سخت ہوگیا۔ یوسف جمیل کشمیر کے ایک سینئر اور معتبر صحافی اور کشمیر کے چار عشروں پر محیط حالات کے چشم دید گواہ ہیں۔ انہیں حالات کے باعث متاثر ہونے والوں میں شمار نہ کیا جائے تو یہ زیادتی ہوگی کیونکہ 90 کی دہائی میں جب وہ بی بی سی کے ساتھ وابستہ تھے تو ان کے دفتر پر ایک پارسل بم کا دھماکا ہوا تھا جس میں ان کے فوٹو گرافر جاں بحق ہوئے تھے جبکہ یوسف جمیل شدید زخمی ہوئے تھے۔ اس سے اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ یوسف جمیل نے تحقیق اور شواہد کے ساتھ ہی خبر بریک کی ہوگی۔ نریندرمودی کی تیسری بار کامیابی کا اسٹائل ہی بتا رہا تھا کہ اس بار وہ ماضی کی طرح ہوا کے گھوڑے کے سوار نہیں ہوں گے کیونکہ ان کی حکومت دہلی میں بھی دو اتحادیوںکی بیساکھی پر کھڑی ہے اور کشمیر اسمبلی کے انتخابات میں بھی وہ سری نگر میں اپنا وزیر اعلیٰ لانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ شاید حالات سے مجبور ہو کر اب تیسری بار وزیر اعظم بننے کے بعد نریندرمودی نے واجپائی کے راستے پر بوجھل اور ٹوٹے ہوئے قدم رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، توحقیقت میں یہ ایک نیا آغاز ہے۔ گوکہ میر واعظ عمر فاروق کی قیادت میں کام کرنے والی حریت کانفرنس کے لیے دہلی کے حکمرانوں سے ملاقات اور مذاکرات کوئی نئی بات نہیں۔ گزشتہ دہائیوں میں حریت کانفرنس کا ماڈریٹ دھڑا اٹل بہاری واجپائی اور من موہن سنگھ سے مذاکرات کرتا چلا آیا ہے۔ جبکہ سید علی گیلانی کا دھڑا مذاکرات کا شدید مخالف اور ناقد تھا۔ اب سرِ دست سید علی گیلانی کی قیادت میں کام کرنے والی حریت کانفرنس کشمیر کے سیاسی منظر سے غائب ہوچکی ہے اور اس وقت میر واعظ عمر فاروق ہی کشمیر میں حریت جذبات کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ میر واعظ عمر فاروق بھی 5 اگست 2019ء سے نظر بندی کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس عرصے میں حریت کانفرنس کئی حادثات کا شکار ہو چکی ہے‘اس کے دوسابق چیئرمین سید علی گیلانی اور مولانا عباس انصاری اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ محمد یاسین ملک 8 برس سے تہاڑ جیل میں مقید ہیں اور حریت کے ایک اور سابق چیئرمین پروفیسر عبدالغنی بٹ خرابی صحت اورپیرانہ سالی کا شکار ہوکر رفتہ رفتہ سیاسی منظر سے غیر متعلق ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ وہی پروفیسر عبدالغنی بٹ ہیں انہی صفحات پر شائع ہونے والی جن کی حالیہ گفتگو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اوریوسف جمیل کی رپورٹ میں اس گفتگو کو حالات کا ٹرننگ پوائنٹ کہا گیا ہے۔ پروفیسر عبدالغنی بٹ کے خیالات بہت معنی خیز اور گہرائی کے حامل تھے۔ جس میں ایک احساس زیاں واضح طور پرنظر آرہا تھا اور یہی احساسِ زیاں دہلی کے حکمرانوں کو کشمیری قیادت کے ساتھ بات چیت کرنے کی راہ دینے کی بنیاد بن رہا ہے۔ اس گفتگو میں پروفیسر عبدالغنی بٹ نے واجپائی کو بھارت کا سب سے بڑا مدبر حکمران قراردیا تھا۔ میر واعظ عمر فاروق کی زندگی ابھی پوری طرح پابندیوں سے آزاد نہیں ہوئی۔ وہ جامع مسجد کے منبر پر کبھی کبھار جمعہ کا خطبہ بھی دیتے ہیں مگر اب اس خطبے میں مسئلہ کشمیر کی جہتوں، پیچیدگیوں، باریکیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے زیادہ سماجی اور مذہبی موضوعات پر بات کی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب جامع مسجد میں دلوں کو گرمانے والے آزادی کے نعرے بھی بلند نہیں ہوتے۔ انہی پابندیوں کے دوران جب عمر عبداللہ کی حکومت قائم ہوئی تو ابتدائی دنوں میں ہی حریت کانفرنس کے دو رہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ اور بلال لون میر واعظ عمر فاروق کی رہائش گاہ پر ملنے گئے اور ان کے درمیان ایک فوٹو سیشن ہوا اوریہ تصویر میڈیا کے لیے بھی جاری ہوئی۔ اس تصویر میں بھی یہ پیغام تھا کہ اب کشمیر میں حریت کیمپ کو نیم دلانہ انداز اور آہستہ روی سے ہی سہی مگر اسپیس دینے کا عمل شروع ہونے جا رہا ہے۔ بعد میں پروفیسر عبدالغنی بٹ کی ایک نجی محفل کی گفتگو نے بھی ایک مستور پیغام کا کام دیا۔ دہلی اور سری نگر کے درمیان بات چیت کن نکات پر ہوگی اور آگے چل کر یہ کسی باضابطہ سمجھوتے پر منتج ہوگی اس بارے میں کچھ واضح نہیں۔ فی الحال پس پردہ کوششوں سے صرف بات چیت شروع کرنے پر آمادگی ظاہر کی گئی ہے۔ بادی النظر میں پاکستان اس بات چیت میں سائیڈ لائن ہو رہا ہے۔ عین ممکن ہے کہ پاکستان نے اس بات چیت کو راہ دینے کے لیے سری نگر اور دہلی کے درمیان حائل نہ ہونے کا رضاکارانہ یا کسی دباؤ میں فیصلہ کیا ہو۔ مشرف دور میں حریت کانفرنس تکونی مذاکرات کر رہی تھی یعنی ایک طرف وہ دہلی کے ساتھ تو اگلے لمحے پاکستان کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے۔ آنے والے دنوں میں پاکستان ان مذاکرات میں کہیں موجود دکھائی نہیں دے رہا مگر پاکستان اس صورت حال سے مائنس نہیں ہوسکتا الایہ کہ وہ خود حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر مائنس ہونے پر آمادہ ہوجائے۔ یہ وہ صورت حال ہے جو1975ء کے اندرا عبداللہ ایکارڈ میں پیدا ہوئی تھی جس کے ردعمل میں اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے ہڑتال کی کال دے کر ایکارڈ کی ساری بساط ہی اُلٹ ڈالی تھی۔ آنے والے دنوں میںمذاکرات کی بیل منڈھے چڑھنے کی صورت میں بات چیت جب کھلے انداز سے شروع ہوگی تو اندازہ ہوگا کہ فریقین کے درمیان کس انداز کا سمجھوتا ہوتا ہے۔گمان غالب ہے کہ یہ 1998ء میں ہونے والا شمالی آئرلینڈ طرز کا سمجھوتا ہوسکتا ہے جس میں ایک جانب آئرش ری پبلکن آرمی اور دوسری جانب برطانوی حکومت تھی۔ اس سمجھوتے کو گڈ فرائیڈے ایگریمنٹ کہا جاتا ہے۔ جس کے تحت آئرش ری پبلکن آرمی نے اپنے کیتھولک اتحادی ری پبلک آف آئر لینڈ کو مائنس کرتے ہوئے تاج برطانیہ کی زیر اثر پروٹسٹنٹ بالادستی کی حامل بلفاسٹ کی حکومت اور اسمبلی کا حصہ بن کر خود کو سیاسی دھارے میں شامل کر لیا تھا۔ حریت کانفرنس کے لیے سیاسی اور انتخابی عمل میں حصہ لینے کا ایک آپشن تو90ء کی دہائی ہی میں موجودتھا اور بند کمروں میں یہ تجویز میز پر بھی رکھی جاتی تھی۔ میاں نواز شریف نے اپنی وزارت عظمیٰ کے پہلے دور میں بھی حریت کانفرنس کی قیادت کو الیکشن لڑ کر اپنی نمائندہ حیثیت ثابت کرنے کا مشورہ دیا تھا مگر اس وقت ماحول کچھ اور تھا عسکری تنظیمیں اس عمل کی مخالف تھیں، وادی کشمیر کے عوام ایسی کسی بھی سرگرمی کو شہیدوں کے خون کا سودا ہو جانے سے تعبیر کر رہے تھے اور خود حریت کانفرنس کی قیادت میں اس سوچ کی مخالفت اور مزاحمت موجود تھی مگر اب شاید حالات اورزمینی حقائق میں واضح تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: میر واعظ عمر فاروق کی پروفیسر عبدالغنی بٹ میں حریت کانفرنس حریت کانفرنس کے حریت کانفرنس کی کی قیادت میں یوسف جمیل ہونے والی رپورٹ میں اور کشمیر کے درمیان حالات کے کشمیر کے نے والے بات چیت دہلی کے میں بھی کے ساتھ اور اس گیا ہے کے لیے کے ایک تھا کہ کر رہے

پڑھیں:

علامہ اقبال کا پیغام حریت آج بھی ہمارے لیے راہ نجات ہے، علامہ مقصود ڈومکی

اپنے بیان میں ایم ڈبلیو ایم رہنماء علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ علامہ اقبالؒ اتحاد بین المسلمین کے علمبردار تھے۔ انکے کلام میں وحدت امت مسلمہ، استعماری طاقتوں سے بیزاری، ظالم نظاموں کی مخالفت اور مظلوم اقوام کی حمایت جیسے موضوعات نمایاں طور پر موجود ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے حکیم الامت، مصور پاکستان حضرت علامہ محمد اقبالؒ کے یوم وفات کے موقع پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ علامہ اقبالؒ ایک عظیم فلسفی، عہد ساز مفکر، شاعر اور انقلابی رہنماء تھے۔ ان کے افکار و نظریات آج بھی پاکستانی قوم اور پوری امت مسلمہ کے لیے مشعل راہ ہیں۔ ہم آج 21 اپریل کو شاعر مشرق، مفکر پاکستان، حکیم الامت علامہ اقبالؒ کے ساتھ تجدید عہد کرتے ہیں کہ ان کے افکار کی روشنی میں ہم ایک باوقار، خوددار اور متحد امت کے خواب کو شرمندہ تعبیر بنائیں گے، اور وطن عزیز پاکستان کو امریکی غلامی سے نکال کر ایک آزاد خود مختار ترقی یافتہ عظیم ملک بنائیں۔

انہوں نے کہا کہ علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری، فلسفے اور دور اندیشی سے نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں کو خواب خودی، خود شناسی اور خود باوری دکھایا بلکہ تحریک آزادی کے لیے فکری بنیادیں فراہم کیں۔ ان کا پیغام حریت آج بھی ہمارے لیے راہ نجات ہے۔ علامہ اقبالؒ کے کلام میں وحدت امت مسلمہ، استعماری طاقتوں سے بیزاری، ظالم نظاموں کی مخالفت اور مظلوم اقوام کی حمایت جیسے موضوعات نمایاں طور پر موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علامہ اقبال اتحاد بین المسلمین کے علمبردار تھے۔ اقبال کا یہ ایمان تھا کہ مسلمان ایک جسد واحد کی مانند ہیں، اور جب تک امت اپنے اندر اتحاد و اخوت کو قائم نہیں کرتی، وہ اپنی حقیقی منزل کو حاصل نہیں کر سکتی۔ ان کے نزدیک ملت اسلامیہ کا بکھرا ہوا وجود سامراجی قوتوں کے لیے ایک آسان ہدف ہے، اس لیے انہوں نے ہمیشہ استعماری قوتوں سے آزادی اور خود انحصاری کا پیغام دیا۔

ایم ڈبلیو ایم رہنماء نے کہا کہ علامہ اقبال نے ہمیشہ امت مسلمہ کو جگانے، بیدار کرنے اور ایک لڑی میں پرونے کی بات کی۔ ان کے نزدیک مسلمان صرف قوم نہیں بلکہ ایک عالمی ملت ہیں جنہیں رنگ، نسل، زبان اور جغرافیہ کے خول سے باہر نکل کر ایک اللہ، ایک رسول اور ایک کتاب کے پرچم تلے متحد ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف اس وقت احتجاج کیا تھا۔ علامہ اقبالؒ نے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کی اور استعماری قوتوں کی سازشوں کو بے نقاب کیا۔ آج جب فلسطین خاک و خون میں نہایا ہوا ہے، اقبال کا یہ پیغام ہمیں جھنجھوڑتا ہے کہ اخوت اس کو کہتے ہیں، چبھے کانٹا جو کابل میں۔ تو ہندستان کا ہر پیر و جواں بے تاب ہو جائے۔

علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ اقبال دشمنان اسلام کے مقابل ڈٹ جانے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ وہ ہمیں سکھاتے ہیں کہ عزت، غیرت، آزادی اور خودی کے بغیر قومیں ذلت کا شکار ہو جاتی ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان اس عزم کا اظہار کرتی ہے کہ ہم علامہ اقبالؒ کے افکار کو فروغ دیں گے، نوجوان نسل کو ان کی فکر سے روشناس کرائیں گے، اور پاکستان کو ایک اسلامی، خودمختار اور فلاحی ریاست بنانے کی جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • مودی سرکار اور مقبوضہ کشمیر کے حالات
  • حریت کانفرنس کی کشمیریوں سے جمعہ کو مکمل ہڑتال کی اپیل
  • حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ کی طرف سے شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کو شاندار خراج عقیدت
  • حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ کے وفد کی او آئی سی کے سفیر یوسف الدوبی سے ملاقات
  • علامہ اقبال کا پیغام حریت آج بھی ہمارے لیے راہ نجات ہے، علامہ مقصود ڈومکی
  • پائیدار امن و ترقی کیلئے تنازعہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے
  • کشمیری بی جے پی کے کشمیر دشمن ہندوتوا ایجنڈے کے خلاف متحد ہیں، حریت کانفرنس
  • وادی کشمیر کے ضلع بارہمولہ میں "بین المسالک بیداری کانفرنس" کا اہتمام
  • کل جماعتی حریت کانفرنس کا حریت قیادت سمیت تمام کشمیری نظربندوں کی رہائی کا مطالبہ
  • جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن و ترقی کیلئے تنازعہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے، حریت کانفرنس