Jasarat News:
2025-04-22@17:22:41 GMT

مجھے تو اب معلوم ہوا

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

مجھے تو اب معلوم ہوا

ایک کہانی ہے‘ یہ سچی ہے یا نہیں‘ بہر حال ضرور آپ نے بھی سنی ہوگی‘ ایک بڑھیا تھی اس نے سرکار سے امداد حاصل کرنے کی خاطر ایک درخواست لکھوائی‘ درخواست لکھنے والا شخص اتفاق سے ادیب‘ شاعر‘ کسی صحافی اور لکھاری جیسا ہی تھا‘ اس نے بڑھیا کی درخواست میں اس کی غربت‘ بے چارگی کا ایسا نقشہ کھینچا کہ کمال کردیا‘ اور درخواست لکھ کر بڑھیا کو سنائی‘ لکھی ہوئی درخواست کا متن سن کر بڑھیا بولی‘ مجھے توآج پتا چلا کہ میں کتنی غریب اور مستحق خاتون ہوں‘ جناب ! ہمارے ہاں بھی بہت سے لکھاری‘ ادیب اور شاعرانہ طرز تحریر رکھنے و الے بہت سے لوگ موجود ہیں وہ جن کی تعریف میں لکھتے ہیں انہیں تو تب پتا چلتا ہے کہ وہ معاشرے کے لیے کس قدر اہمیت کے حامل اور ناگزیر انسان ہیں‘ اس انتہا پسندی کو ہمارے دین نے منع کر رکھا ہے‘ سورۃ الحجرات میں اللہ تعالیٰ نصیحت کرتے ہیں کہ میں نے قبیلے بنائے صرف پہچان کے لیے‘ اور صرف اہل تقویٰ ہی اللہ کی نظر میں با وزن لوگ ہیں‘ انہی کی اہمیت ہے‘ تقویٰ کیا ہے؟ تقویٰ صرف اور صرف اللہ کے خوف کا نام ہے‘ ہمارے دین اور ہمارے نبی محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ہمیں تعصب کے بارے میں بڑی واضح اور کھلی شفاف قیمتی رہنمائی دی کہ تعصب یہ ہے کہ کوئی ہر قیمت پر‘ چاہے وہ شخص ظالم ہی کیوں نہ ہو‘ کوئی انسان اس کی صرف اس لیے حمایت کرے کہ اس کا تعلق اس کے قبیلے سے ہے‘ ہمیشہ لکھتے ہوئے‘ بولتے ہوئے یہ نکتہ ہی نظر میں رہنا چاہیے‘ جب گواہی دینے کا موقع آئے تو جو بُرا ہے چاہے وہ اپنے ہی قبیلے سے کیوں نہ تعلق رکھنے والا ہو‘ اسے بُرا ہی کہا جائے‘ اور جو اچھا ہے چاہے اس کا تعلق مخالف قبیلے سے ہی کیوں نہ ہو‘ اسے اچھا ہی کہا جائے‘ ہر پڑھا لکھا شخص یہ جانتا ہے کہ اس وقت ملک میں معاشرے کی تقسیم بہت گہری ہوتی چلی جارہی ہے‘ جب بھی معاشروں میں ایسی تقسیم ہو تب ادیبوں‘ اور تعلیم یافتہ افراد کی ذمہ دار ی کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ وہ معاشرے کو درست نہج پر لے جائیں‘ منقسم معاشرے میں سدھار کے نام پر انتہا پسندی کی روشنائی سے لکھی ہوئی تحریر کبھی بھی معتدل بلکہ معتبر نہیں قرار دی جاسکتی، معتبر تحریر وہی ہوتی ہے جس کے حوالے بھی مستند ہوں اور حقائق کی میزان پر پورا اترتے ہوں‘ ابھی حال ہی میں‘ دو ماہ قبل‘ اسلام آباد میں ایک سیاسی جماعت نے ہلہ بولا‘ مطالبہ تھا کہ خان کو رہا کرو‘ قانون کے دائرے

میں رہ کر احتجاج کرنا‘ اپنی بات کے حق میں رائے عامہ منظم کرنا‘ یہ حق تو ہر شہری کو ہمارا آئین بھی دیتا ہے اور ہمیں یہ سب کے لیے حق تسلیم بھی ہے‘ لیکن ہوا کیا؟ سچی بات ہے کہ ہم نے اسے اس وقت رپورٹ نہیں کیا‘ مبادہ خرابی بڑھ نہ جائے‘ اس وقت ہوا یہ تھا‘ اور بلیو ایریا کے سب لوگ اس احتجاجی فضا سے اچھی طرح واقف ہیں‘ نعرے کیا لگ رہے تھے‘ کہاں ہے پنجابی؟ سامنے آئے پنجابی‘ ایسے نعرے‘ کبھی نہیں سنے تھے‘ ہم یہ بات کبھی نہ لکھتے‘ کیونکہ یہ ملک یک جہتی مانگ رہا ہے‘ تعصب کو ہوا دینا مناسب ہی نہیں ہے بلکہ غیر قانونی عمل بھی ہے، اسے ہمارا دین بھی پسند نہیں کرتا اور ایسے نعروں کا وزن ہماری قومی یک جہتی بھی نہیں سہہ سکتی‘ اللہ نہ کرے کہ کبھی ہم کوئی ایسی بات لکھیں کہ جس سے کسی کا دل دکھے‘ یا یہ تحریر قومی یک جہتی کے منافی ہو‘ دین کی تعلیم کے خلاف ہو‘ اللہ ہمیں ایسے وقت سے بچائے رکھے‘ آمین۔ سب سے اچھی بات یہ ہوتی ہے کہ جس نے بھی اچھا بول سیکھ لیا‘ گویا اس نے دوسروں کا دل جیت لیا‘ ہمیں تعصب پھیلانے کے لیے نہیں‘ دل جیت لینے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے‘ قومی یک جہتی کے لیے اپنی رائے کی قربانی دینے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے‘ ہاں البتہ ہمیں بطور قوم‘ ہمارے قومی اداروں کو‘ ہماری پارلیمنٹ کو‘ قومی اور علاقائی سیاسی جماعتوں کو‘ خود کو آئین پاکستان کے سامنے سرنگوں کرنا چاہیے اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر ملک میں ایسا نظام بنانا جانا چاہیے کہ عاقل اور بالغ ووٹرز کی جانب سے آئینی انتخابات میں ووٹ جس کے لیے بھی ڈالا گیا ہے یہ ووٹ اس کے حق میں ہی شمار کیا جائے اور اس کے حق میں ہی گنا جائے‘ جس نے بھی اس ملک کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے یا کر رہے ہیں وہ کوئی شخص ہے یا گروہ اسے بھی اب اپنی ساری توانائی‘ طاقت‘ رعب دبدبہ‘ آئین پاکستان کے پاؤں پر رکھ دینا چاہیے‘ یہ اس لیے ضروری ہے کہ اگر اس ملک میں جمہوریت ہے تو پھر جمہوریت نظر بھی آنی چاہیے‘ باالکل اسی طرح جس طرح کہا جاتا ہے کہ انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے‘ اگر یک جہتی ہماری قوت ہے‘ تو پھر ہمیں قبیلوں کی گروہ بندیوں کا اسیر نہیں بنے رہنا چاہیے بلکہ یک جہتی بڑھانے کے لیے اس برے فعل والے عمل سے آزاد ہونا چاہیے‘ لیکن اگر ہم اپنے پسند کے رہنماء کے لیے ایسی ایسی تحریر لکھیں گے کہ جس سے وہ کہہ اٹھے کہ مجھے تو آج پتا چلا کہ میرے اندر کیا کیا خوبیاں ہیں تو ایسی تحریر کا جس کے بھی حق میں لکھی جائے کبھی بھی فائدہ نہیں ہوگا‘ بلکہ نقصان ہونے کا اندیشہ زیادہ ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: یک جہتی نے بھی کے لیے

پڑھیں:

کوئی کتنا ہی ناراض ہو انصاف دباؤ کے بغیر ہونا چاہیے، آغا رفیق

کراچی (جنگ نیوز) سابق چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ آف پاکستان جسٹس آغا رفیق احمد خان نے کہا ہے کہ کوئی کتنا ہی ناراض ہو انصاف کسی بھی دباؤ کے بغیر ہونا چاہیے۔ 

اپنی کتاب ”عدلیہ میں میرے 44 سال“ کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ ججوں کو انصاف کے طالب لوگوں کی داد رسی کرنی چاہیے۔

تقریب سے خطاب میں منیر اے ملک نے کہا کہ آغا رفیق نے چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کی کہانی لکھی ہے لہٰذا لوگوں کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ 

معروف معاشی ماہر جہانگیر صدیقی نے کہا کہ آغا صاحب سے پرانی رفاقت ہے، جب پاکستان میں ہوتا ہوں تو ہر ہفتے ملتے ہیں، ان کے گھر دسترخوان لگتا تھا، وہ نیک اور پر خلوص آدمی ہیں، کسی کا کام ہو تو ان کے لئے نکل کھڑے ہوتے تھے، یہ بہت ہی اعلیٰ ظرف کی بات ہے۔ مجھے یہ چیز میری والدہ نے سکھائی تھی کہتی تھی کوئی آپ کے پاس آئے اس کا کام کریں، آغا رفیق ہر ممکن کام کرنے کی کوشش کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ کام اللہ نے کرنا ہے آپ جہاں تک وسیلہ بن سکتے ہیں بن جائیں، یہی خوبی آغا صاحب میں تھی۔
1972 میں کراچی اسٹاک ایکسچینج کا ڈائریکٹر بنا تھا۔ 

کراچی میں تقریب رونمائی سے میاں محمد سومرو، معین الدین حیدر، غوث علی شاہ، اقبال حمید الرحمان، منیر اے ملک، آغا سراج درانی اور محمود شام نے بھی خطاب کیا۔ 

اُن کا کہنا تھا کہ میں وزیر داخلہ تھا تو مشرف نے پوچھا کہ حمودالرحمان کمیشن رپورٹ کو پبلش کیا جائے یا نہیں، اس پر کمیٹی بنائی گئی اور ہم نے تجویز دی کہ دو چیپٹرز کے علاوہ رپورٹ شائع کی جائے۔ 

معین الدین حیدر نے انکشاف کیا کہ پرویز مشرف رپورٹ شائع نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ فوج کے خلاف ہے، میں نے کہا کہ ہمیں اپنی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے۔ 

سابق وزیر داخلہ نے مزید بتایا کہ جو لوگ ایگزیکٹیو پوزیشن میں ہوتے ہیں انہیں مشورے خوش کرنے کےلیے نہیں دینے چاہئیں بلکہ ملک کو تباہی سے بچانے کے لیے بڑی غلطیوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ 

اپنی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میری سندھ میں بڑی سروس رہی ہے۔ بینظیر جب شاہنواز کو تدفین کےلیے لائیں تھیں تو میں وہیں تھا۔ شاید میں یہ بیان نہ دیتا مگر زرداری صاحب نے یہ بیان کر دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ زرداری کےلیے پنجاب سے پولیس منگوائی گئی، ان کی زبان کاٹی گئی اور ایک اور مقدمہ درج ہوا۔

منظور مغل نے بتایا کہ اگر زرداری صاحب کو مار دیا گیا تو بڑا ہنگامہ کھڑا ہو جائے گا۔ سیف الرحمان پیپلز پارٹی والوں کو زرداری سے نہیں ملنے دے رہے تھے۔ پی پی والے میرے پاس آئے، میں نے سیف الرحمان سے بات کی تو وہ بولے کہ جنرل صاحب بزدل نہ بنیں، مشکل سے موقع دیا ہے۔ میں نے نواز شریف سے کہا کہ کورٹ کا آرڈر ہے، ایسا نہ کریں۔ رات تین بجے چیف سیکریٹری کو بلا کر زرداری کو لانڈھی جیل واپس بھجوایا۔ 

رانا مقبول کو کہا کہ دیر ہو گئی ہے، زرداری کو واپس بھیج دیں، اور انہیں عام قیدی نہ سمجھا جائے۔ یہ واقعہ میں نے پہلے کبھی کسی کو نہیں سنایا۔ انہوں نے کہا کہ جب بینظیر کی شہادت پر زرداری سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ یہ میرے محسن ہیں، انہوں نے میری جان بچائی ہے۔ مگر آج زرداری صاحب ہمیں پوچھتے بھی نہیں۔ 

سابق قائم مقام صدر و نگران وزیراعظم محمد میاں سومرونے آغا رفیق احمد کو اصولوں پر قائم اور شفیق شخصیت قرار دیا۔ 

عبداللہ حسین ہارون نے انہیں سندھ اور پاکستان کے لیے اثاثہ قرار دیا۔ 

غوث علی شاہ نے کہا کہ آغا رفیق نہ صرف بہادر جج تھے بلکہ نبھانے والے انسان بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ججز میں بہادری کم دیکھی جاتی ہے، آغا صاحب کسی سے ڈرنے والوں میں نہیں تھے۔ 

جسٹس (ر) آغا رفیق احمد نے اپنے خطاب میں کہا کہ ''عبداللہ ہارون اور غوث علی شاہ دونوں کی موجودگی میرے لیے اعزاز ہے۔ 

سابق اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے کہا کہ ''آغا رفیق کے سامنے پیش ہونا بند کر دیا تھا، ان میں کبھی غرور نہیں آیا۔ انہوں نے کتاب میں چیف جسٹس پاکستان کی تقرری کا احوال بھی لکھا ہے، سب کو یہ کتاب پڑھنی چاہیے۔

ایڈووکیٹ غلام حسین شاہ نے کہا کہ آغا رفیق نے کبھی اپنی آزادی پر سمجھوتہ نہیں کیا، سیاسی اور سماجی حقائق بہت دلیری سے لکھے ہیں۔

سینئر صحافی محمود شام نے خطاب میں کہا کہ ''ججوں کی موجودگی میں میں ایک ملزم ہوں۔ گیارہ سال تک ایک مقدمہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت چلتا رہا، جج نے کہا کہ میرے دائرہ اختیار میں نہیں۔ ایف آئی اے چاہے تو مقدمہ دوبارہ شروع ہو سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ہانیہ عامر کو دیکھ کر محسوس ہوا کہ انسان کو ایسا ہونا چاہیے: کومل میر
  • سیاستدان کو الیکشن اور موت کیلئے ہر وقت تیار رہنا چاہیے، عمر ایوب
  • سیاستدان کو الیکشن اور موت کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے : عمر ایوب
  • سیاستدان کو الیکشن اور موت کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے ، عمر ایوب
  • میرا نہیں خیال کہ کینال کے معاملے پر کوئی کنفیوژن ہے: سعید غنی
  • لگتا تھا طلاق ہوگئی تو مرجاؤں گی، عمران خان کی سابق اہلیہ کا انکشاف
  • کومل میر کی کاسمیٹک سرجری اور وزن میں اضافے پر لب کشائی
  • کئیل داس کوھستانی پر حملے کی ایف آئی آر اہم سیاسی جماعت کے عہدیداران پر درج
  • معاشی ترقی اور اس کی راہ میں رکاوٹ
  • کوئی کتنا ہی ناراض ہو انصاف دباؤ کے بغیر ہونا چاہیے، آغا رفیق