علی امین گنڈاپور کی پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کی صدارت سے چھٹی
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کو پاکستان تحریک انصاف( پی ٹی آئی) کے پی کی صدارت سے ہٹا دیا گیا۔پی ٹی آئی رہنما سلمان اکرم راجا نے راولپنڈی میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ وزیراعلی علی امین گنڈا پور کو پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کی صدارت سے ہٹا دیا گیا ہے ۔ رکن قومی اسمبلی جنید اکبر کو پی ٹی آئی کے پی کا صدر نامزد کردیا گیا ہے ۔سلمان اکرم راجا نے کہا کہ علی امین گنڈا پور پر بطور وزیراعلیٰ بہت سے ذمہ داریاں ہیں اور کے پی میں امن امان کی صورتحال بھی سب کے سامنے ہے ۔ علی امین گنڈاپور کو کے پی کی وزارت سے ہٹانے کا فیصلہ ان کی اپنی خواہش پر کیا گیا۔ مشال یوسفزئی بشریٰ بی بی کی ترجمان ہیں جبکہ پارٹی کی ترجمانی کے لیے پارٹی میں ہی مختلف ذمہ دار موجود ہیں۔سلمان اکرم راجا کا مزید کہنا تھا کہ یہ فیصلہ جنید اکبر کی عمران خان سے جیل میں ملاقات کے دوران کیا گیا۔ ملاقات میں ایم این اے عاطف خان، اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان بچھر، ایم پی اے پنجاب میاں فرحت عباس بھی شریک تھے ۔ پی ٹی ائی کی سابق رکن قومی اسمبلی عالیہ حمزہ کو بھی پنجاب میں اہم تنظیمی عہدہ ملنے کا امکان ہے ۔پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ اگر حکومت مذاکراتی کمیٹی ملاقات 28 جنوری کو کراتی ہے تو پھر دیکھیں گے ۔ ہمارا موقف یہی ہے کہ پہلے کمیشن بنائیں۔ بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ 28 جنوری کو حکومت ملاقات کرائے ۔دوسری جانب پی ٹی آئی کے نومنتخب صوبائی صدر جنید اکبر نے سوشل میڈیا پر پیغام دیا اور کہا ہے کہ میں اپنے قائد عمران خان کا بے حد مشکور ہوں کے مجھے صوبائی صدر نامزد کیا، مجھے علی امین، عاطف خان اور شاہ فرمان کے مشورے سے چنا گیا۔انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز گاؤں کی صدارت سے شروع کیا، مڈل کلاس کا بندہ ہوں اور یہ پوزیشن مجھے محنت کے وجہ سے ملی جس کی مثال دوسرے پارٹیوں میں نہیں ملتی، انشائاللہ میں عمران خان اور کارکنان کی امیدوں پر پورا اترنے کی کوشش کروں گا، تمام کارکنان میرے لیے ہمیشہ کی طرح دعا کریں۔انہوں نے مزید کہا کہ پارٹی میں کسی گروپ بندی کی گنجائش نہیں، ہم ایک تھے ، ایک ہیں اور انشاء اللہ ایک رہیں گے ۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: کی صدارت سے پی ٹی آئی علی امین
پڑھیں:
ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کے ہل چل سے بھرپور پہلے 100 دن
ناقدین نے پہلے 100 دنوں کی حکومت کو "آمرانہ طرزِ حکومت" قرار دیا ہے اور ان کی پالیسیوں کو انتشار کا باعث قرار دیا۔ سیاسی مورخ میٹ ڈالک کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا دوسرا دورِ صدارت پہلے سے کہیں زیادہ آمرانہ ذہنیت اور اقدامات سے بھرپور ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں دوبارہ واپسی کے بعد ان کے اقدامات اور بیانات نے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کے پہلے 100 دن 30 اپریل کو مکمل ہو رہے ہیں اور اب تک صدر ٹرمپ نے صدارتی اختیارات کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ 78 سالہ صدر ٹرمپ نے ایک ایونٹ میں کہا کہ میرا دوسرا دورِ حکومت پہلے سے زیادہ طاقتور ہے۔ جب میں یہ کہتا ہوں یہ کام کرو تو وہ کام ہو جاتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ٹیرف پالیسی کا دفاع کیا اور سب سے پہلے امریکا کے اپنے ایجنڈے کو پورا کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ امریکی صدر نے اپنی سمت کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بڑی کامیابی کے ساتھ اپنے اہداف کو حاصل کر رہے ہیں۔ البتہ ان کے ناقدین نے پہلے 100 دنوں کی حکومت کو "آمرانہ طرزِ حکومت" قرار دیا ہے اور ان کی پالیسیوں کو انتشار کا باعث قرار دیا۔ سیاسی مورخ میٹ ڈالک کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا دوسرا دورِ صدارت پہلے سے کہیں زیادہ آمرانہ ذہنیت اور اقدامات سے بھرپور ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ روزانہ اوول آفس میں صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرتے اور ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کرتے ہوئے خود کو ایک "ریئلٹی شو" کے مرکزی کردار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ٹرمپ کے ناقدین کا بھی کہنا ہے کہ نئے صدر کے دوسرے دور میں وائٹ ہاؤس میں مخصوص اور من پسند نیوز اداروں کو رسائی دی جارہی ہے۔ علاوہ ازیں عدلیہ کے ساتھ بھی صدر ٹرمپ کا رویہ جارحانہ رہا ہے جہاں انہوں نے ماضی کے مقدمات میں شریک کئی لاء فرمز کو سخت معاہدوں میں جکڑ دیا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے پہلے 100 دنوں کی تکمیل پر ان کی مقبولیت تمام جنگ عظیم دوم کے بعد صدور میں سب سے کم ہے۔ سوائے خود ان کے پہلے دور کے۔ ریپبلکن سینیٹر لیزا مرکاؤسکی نے کہا کہ ہم سب خوف زدہ ہیں جبکہ پروفیسر باربرا ٹرش کا کہنا تھا کہ صدر آئینی پابندیوں کی پرواہ کیے بغیر فیصلے کر رہے ہیں۔ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے روس کے توسیع پسندانہ عزائم کی تقلید میں گرین لینڈ، پاناما اور کینیڈا پر علاقائی دعوے کرتے ہوئے امریکی اثرورسوخ بڑھانے کا عندیہ دیا ہے۔
ٹرمپ نے تعلیمی اداروں، جامعات اور ثقافتی مراکز کو نشانہ بناتے ہوئے خود کو ایک اہم آرٹس سینٹر کا سربراہ مقرر کیا اور ڈائیورسٹی پروگرامز کو ختم کر دیا ہے۔ اسی طرح تارکین کو پکڑ پکڑ کر دور دراز علاقے میں قائم خطرناک جیلوں میں زبردستی بھیجا جا رہا ہے۔ یاد رہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو عہدے کا حلف اُٹھایا تھا اور اسی دن چند اہم لیکن متنازع اقدامات کی منظوری دی تھی۔