Express News:
2025-04-22@06:11:18 GMT

فلسفیانہ سوچ کی حامل شاعرہ… ڈاکٹر صغریٰ صدف

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

ڈاکٹر صغریٰ صدف ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت خاتون ہیں۔ وہ بیک وقت شاعرہ، ادیبہ، مدیرہ، نظامت کار، براڈ کاسٹر، فلسفی دانشور، منتظم اور بیورو کریٹ ہیں اور آج کل وجدان ادبی، ثقافتی تنظیم سے منسلک ہیں۔

اس سے قبل وہ پنجابی ادب و ثقافت اور فنون کی بہترین اور ترویج کے لیے کوشاں سرکاری ادارے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج، آرٹ اینڈ کلچر (پلاک) کی ڈائریکٹر جنرل کے طور پر اپنی ذمے داریاں بہ حسن و خوبی نبھا چکی ہیں۔

ڈاکٹر صغریٰ صدف ادب و ثقافت کا وہ روشن نام ہیں جو اپنے اشعار میں بہت دبنگ نظر آتی ہیں۔ ان کی شاعری کا بنیادی موضوع بہت سے شعرا کی طرح محبت ہیں، ان کی پُرکشش شخصیت کا اصلی جوہر ان کے ہاں محبت کے بہت سے ایسے چراغ روشن ہیں جن کی روشنی کے رنگ مختلف انداز میں رقص کرتے ہوئے ہوائوں کے مقابل جلنے کا عزم رکھتے ہیں۔

ان کا غزلیات پر مبنی شعری مجموعہ ’’ وعدہ ‘‘ ان کے مزاج کے تمام پہلوئوں کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کی شاعری کو سمجھنے کے لیے کسی خاص تگ و دو کی بجائے ان کے مزاج کے موسموں سے آشنا ہونے کی ضرورت ہیں، وہ اپنے اندر کے موسم کا بدلتا ہُوا منظر بیان نہیں ہونے دیتیں مگر وہی اس بات کا اظہار یوں لفظوں میں کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

حال اندر کا جانتا ہے وہ

کون کرتا ہے مخبری میری

ڈاکٹر صغرا صدف خوبصورت شعر کہتی ہیں، ان کی حمد بھی بندگی تمثال اور نعت بھی عقیدت بھری!

رہوں میں حرفِ اماں کے حصار میں آقاؐ

صدفؔ ہوں، مجھ کو ثنا کا گہر عطا کردے

ڈاکٹر صاحبہ کی حمد و نعت کے علاوہ غزلیات میں ایسی دلکشی دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ وہ الفاظ کی مالا موتیوں کی مانند پرونے کا ہنر بخوبی جانتی ہیں۔

ان کی بعض غزلوں میں کہیں جسم و جاں پہ اَن دیکھا خوف طاری تو کہیں آنکھوں کے آئینے میں سنوارنے کی خواہش تو کہیں وصالِ ہجر کا دُکھ تو کہیں ہاتھوں سے ٹوٹے ہوئے آئینوں میں بکھرے ہوئے چہرے تو خون میں نہاتی ہوئی وادیوں کی جھلک، توکہیں صحن وطن میں اندھیروں کا سناٹا، تو کہیں بے خواب موسموں میں لیے ہوئے قافلوں کا منظر تو کہیں بے نام خیالوں کی تجسیم، توکہیں جینے کہیں مرنے اورکہیں تلخ یادوں کے ڈرنے کا خوف توکہیں محبت کا ادھورا سفر، توکہیں خوشبو کی کہانی، توکہیں خزاں رسیدہ شجر، تو کہیں درد آشنا کا غم، شدتِ جذبات کی تڑپ، تو کہیں زندہ رہنے کی خواہش میں شہرِ آرزو میں ایک گھر بنانے کی چاہ، تو کہیں احساس کے لفظوں کے چھوتے ہوئے نشتر تو دوسری طرف تتلیاں پھول جگنو اور ستاروں کے علاوہ بے جاں خواب تو کہیں بے بس ذات ، تو کہیں عشق کا معیار تو کہیں تنہائی میں اشک بہانا تو کہیں شہر ظلمت کا احوال ان کے کلام میں جا بجا پڑھنے کو ملتا ہے۔

جس کے باعث شہر، ظلمت کے حوالے ہو گئے

ہم کبھی شامل نہیں تھے وقت کی اس چال میں

ڈاکٹر صاحبہ کی شاعری میں یہ تمام وارداتیں موجودہ حالات کی عکاس ہیں۔ اس حوالے سے اُن کے نزدیک احساس کے نازک رخساروں پر بے رحم وقت کے طمانچوں سے پیدا ہونے والی آہ شاعری ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب کا نام ’’وعدہ‘‘ رکھا ہے۔

جس میں وہ اپنی رائے میں لکھتی ہیں کہ ’’ میں بیک وقت دو جہانوں کی باسی ہوں ایک مادی دنیا اور دوسری تخیل کی دنیا، جس کی میں خود خالق ہوں۔ جس میں میرا اپنا راج قائم ہے۔ ظاہری دنیا کے ناموافق حالات سے گھبرا جائوں تو باطنی دنیا میں بسیرا کر لیتی ہوں۔ نفع ونقصان اور علت و معلول میں جکڑی دنیا میرے خوابوں کا محور نہیں ہو سکتی۔

میری بے چینی کا سبب یہی ہے کہ میں دو دنیائوں کی مسافر ہوں۔ اپنے چین کے لیے میں ان دونوں دنیائوں کو ایک بنانے کا جتن کرتی ہوں جہاں صرف محبت اور خیرکی جستجوکی جائے کیونکہ میرا سفر تو محبت اور خیر کی جستجو کا سفر ہے۔‘‘

خوشبو بنا دیا ہے محبت کی لہر کو

پرواز میری دیکھ کے دنیا ہوئی ہے دنگ

ڈاکٹر صاحبہ ایک باوقار اور با شعور شاعرہ ہیں جو انسانی نیکی و بدی کا شعور رکھتی ہیں۔ وہ عاجز و انکساری سے کام لیتے ہوئے دوسروں کے کام آنا اپنی عبادت سمجھتی ہیں۔ وہ ایک بے نیاز دردِ دل رکھتے ہوئے ہزاروں دعائوں کی طلب گار رکھتی ہے۔

کسی فقیر کو اک سکہ دے کے سوچتی ہوں

کہ میرے حق میں ہزاروں کی وہ دعا کردے

ڈاکٹر صغریٰ صدف شاعری کے علاوہ کالم نگاری اور پنجابی کہانی اور تحقیق و تنقید میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکی ہیں۔ وہی وہ دنیا بھر کی ادبی کانفرنسوں اور مشاعروں میں شرکت کر چکی ہیں۔ بہرحال انھوں نے اپنے شعری مجموعہ ’’وعدہ‘‘ کا انتساب اپنی بیٹی پریا کے نام کیا ہے۔اس کتاب کا ٹائٹل ڈاکٹر صاحبہ کی سادگی کو نمایاں کرتا ہے۔ ان کا پسندیدہ شعر دیکھی۔

 قطرے سے میں بنوں گی سمندر مگر صدفؔ

یہ شرط ہے وہ جاں سے گزرنے تو دے مجھے

سمندر اور صدف (سیپ) کا بہت ساتھ ہے۔ لغت کے اعتبار سے صدف عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنی یہ بھی ہے کہ ’’ سمندری گھونگا جس میں سے موتی نکلتا ہے۔‘‘ اس کے علاوہ بلند عمارت، دیوار یا پہاڑ کو بھی صدف کہتے ہیں۔ اس حوالے سے ’’وعدہ‘‘ کی شاعرہ ڈاکٹر صغرا صدف کی شاعری کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شاعری پہاڑکی بلند چوٹی کے مانند ہے۔

اصل میں صدف کے بنیادی معنی جھکائوکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلندی اور جھکائو ان کی ذات اور شاعری میں ایک ساتھ چلتے ہیں۔

لکھی ہے اس کے واسطے میں نے صدفؔ غزل

ہر حرف جس کے واسطے حرفِ دعا ہوا

وہی وہ لکھتی ہیں کہ

مرے سخن سے پرندے کلام کرتے ہیں

تو خامشی کو مری بے بسی شمار نہ کر

ڈاکٹر صغریٰ صدف کی شاعری کا جہاں محبت موضوع ہے، وہیں ان کا بنیادی مضمون فلسفہ ہے جس میں انھوں نے ڈاکٹریٹ کر رکھا ہے، اس لیے ان کی شاعری میں فلسفیانہ انداز کا در آنا حیرت کا باعث ٹھہرتا ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں بہت سی چیزوں کو ایک فلسفی کی آنکھ سے دیکھنے اور ان پر غور و فکر کرنے کے لیے بہت سے نکتے بھی بیان کیے ہیں۔

 اسی لیے ان کے شعری مجموعہ ’’وعدہ‘‘ میں پختگی اور اعتماد جیسی کیفیات اُسے ثابت قدم رہنے کا حوصلہ دیتی ہیں،کیوں کہ وہ وعدہ کرنا اور اُسے نبھانا بھی خوب جانتی ہیں۔ منیر نیازی کے اس شعر کے مصداق:

جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھا سکتے نہیں

اس نے وعدہ کر لیا میں نے بھی وعدہ کر لیا

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ڈاکٹر صاحبہ ان کی شاعری ڈاکٹر صغری کے علاوہ انھوں نے کے لیے

پڑھیں:

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، ایک ہمہ جہت شخصیت

سائنس، فلسفہ، ادب اور فنونِ لطیفہ میں بیک وقت مہارت رکھنا صرف غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل افراد کا امتیازی وصف ہوتا ہے۔ یہ انسانی فطرت، ذہنی ساخت ، رجحانات اور مزاج کی وہ ہم آہنگی ہے جو کسی فرد کو بیک وقت مختلف علوم و فنون پر عبور عطا کرتی ہے۔

اگر اس پر مختلف زبانوں کا ادراک بھی شامل ہو جائے تو وہ شخص نہ صرف ایک انفرادی شناخت قائم کرتا ہے بلکہ علمی افق پر اپنے ان مٹ نقوش بھی چھوڑتا ہے۔اس مد میں اگر یونان کی سرزمین سے آغاز کریں تو ارسطو کی شخصیت سامنے آتی ہے، جو فلسفہ، سائنس، ادب اور منطق میں یکتائے روزگار تھا۔

اسی سلسلے کی کڑیاں عمر خیام، بو علی سینا، ابن الہثیم، گوئٹے، ٹیگور، آئن سٹائن اور پاکستان کے عظیم نوبل انعام یافتہ سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام جیسے نابغہ افراد تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ وہ ہستیاں تھیں جنھیں محض اپنے اپنے شعبے ہی سے رغبت نہ تھی بلکہ دیگر علوم و فنون سے بھی دلی لگاؤ تھا۔ ان کی علمی وسعت دراصل ان کے لامحدود تجسس، ذہنی جستجو اور ہمہ جہت دلچسپیوں کا مظہر ہے۔

اسی قبیل سے تعلق رکھنے والی ہمیں ایک ایسی عبقری ہستی نظر آتی ہیں جن کا سائنس اور آرٹس کے ساتھ نہ صرف باقاعدہ گہرا تعلق تھا بلکہ وہ ان میں یدِ طولی رکھتے تھے۔ یہ گم نام اور فراموش نابغہ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی شخصیت ہیں۔ ڈاکٹر سلیم الزماں بیک وقت کیمیا دان، مصور، دانش ور، نقاد، ادیب، شاعر اور مترجم تھے۔ اس کے علاوہ موسیقی کے تال و سر، رقص اور دیگر فنون سے ان کی گہری وابستگی تھی۔ یوں آپ کی شخصیت سائنس اور آرٹس کے حسین امتزاج سے مزین نظر آتی ہے۔

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی اکتوبر 1897 کو بھارت ، لکھنو کے قریب قصبہ بارہ بنکی میں پیدا ہوئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ لکھنو معاشرتی اور تہذیبی روایات کا نمائندہ رہا ہے اور صدیقی صاحب خود بتاتے ہیں کہ انھوں نے لکھنوی تہذیب کو اپنے اندر اس قدر جذب کیا کہ ساری عمر ان پر اس کا سایہ رہا۔ لکھنو ایک ایسا نگارخانہ اور زرخیز قطعہ عرض ہے جو ایرانی و ہندوستانی تہذیب کا حسین امتزاج اور مرکز تھا اور یہاں پر فنون لطیفہ کو خوب فروغ ملا اور پذیرائی حاصل ہوئی۔

یہ سب اوصاف آپ کے خاندان میں کوٹ کوٹ کر بھرے تھے۔جس کے اثرات کے واضح نقوش صدیقی صاحب کی شخصیت میں نظر آتے ہیں۔آپ کے والد شیخ محمد زمان اعلی پایہ کے وکیل اور کمشنر کے عہدے پر فائز رہے۔ نیز آپ اردو اور فارسی کے عمدہ شاعر بھی تھے۔ اس کے علاوہ وہ ایک بہترین خطاط کے طور پر بھی جانے جاتے تھے۔ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کا پورا خاندان شعر و ادب سے گہرا شغف رکھتا تھا جبکہ آپ کے نانا کا رجحان علمِ کیمیا میں تھا۔ صدیقی صاحب کے بقول انھیں شعر و ادب کا ذوق والد کی طرف سے اور سائنس کا رجحان ننھیال کی طرف سے ملا ہے۔

ڈاکٹر سلیم الزماں کی دو شادیاں ہوئیں ، پہلی شادی ماموں زاد ’’شاکرہ بیگم‘‘ سے ہوئی۔ جبکہ دوسری شادی جرمن نژاد ’’اوتھلیے رنل بیل جی اوشنے‘‘ سے ہوئی۔یہ آپ کی پسند کی شادی تھی۔آپ اپنی بیگم کو پیار سے ’’ٹلے‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔

صدیقی صاحب نے کم عمری میں ہی گلستان و بوستان ، طلسم ہوش ربا اور عبدالحلیم شرر کے سبھی ناولوں سمیت شبلی کی المامون کا مطالعہ کر رکھا تھا اور یہی وہ زمانہ تھا جب آپ کے اندر شعر و ادب کا چراغ روشن ہوا اور آپ شعر بھی کہنے لگے۔آپ نے گنج ہائی سکول لکھنو سے 1914 میں میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔اس کے بعد آپ کا داخلہ علی گڑھ کالج میں ہوا یہاں آپ نے انٹر سائنس کے ساتھ پاس کیا۔آپ نے ایم اے او کالج علی گڑھ سے فلاسفی اور فارسی میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔

بعد ازاں 1920میں آپ انگلستان روانہ ہوگئے اور یونی ورسٹی کالج آف لندن میں میڈیسن کی تعلیم حاصل کی۔ اس کورس کے مکمل ہونے کے بعد آپ اپنے بھائی خلیق الزماں (تحریکِ آزادی کے اہم قائدین میں شامل) کے کہنے پر جرمنی چلے گئے اور یہاں آپ کا یونی ورسٹی آف فرینکفرٹ کے شعبہ کیمسٹری میں داخلہ ہوا۔ یہاں آپ باقاعدہ کیمسٹری کے ساتھ منسلک رہے اور الکلائیڈ کے موضوع پر اپنی ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ الکلائڈز قدرتی طور پر پائے جانے والے مرکبات کا ایک ایسا گروپ ہے جو پودوں اور کچھ فنجائی میں پائے جاتے ہیں۔ مثلاً کیفین، نیکوٹین ، مورفین اور کوکین وغیرہ۔ ان کے جانداروں پر مختلف اثرات ہوتے ہیں۔یہ درد سے نجات ، پْر سکون نیند ، ملیریا اور دیگر امراض میں شفا بخش ثابت ہوتے ہیں۔

ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے بعد آپ واپس بھارت چلے آئے اور یہاں بر عظیم کے مشہورِ زمانہ حکیم ،حکیم مسیح الملک اجمل خان کے کہنے پر دہلی میں یونانی طب اور آیورویدک پر تحقیق کے ادارے قائم کیے۔ اس سلسلے میں آپ کو حکیم اجمل خاں جیسے غیر معمولی حکیم کی خصوصی رہنمائی حاصل رہی۔ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی ایک کہنہ مشق اور باریک بین کیمیا دان تھے آپ نے پودوں سے کئی الکلائڈ کشید کیے اور انھیں ادویات میں استعمال کیا اور اپنی ایجاد کردہ ادویات کا نام حکیم اجمل خان کے نام پر رکھا جیسے کہ اجملین ، جو ان کی ایجاد کردہ مقبول دوا ہے۔

جو ہائی بلڈ پریشر، ہسٹریا اور دیوانگی کے علاج میں بہت مقبول ہے۔یہ دوا یورپ میں بھی مذکورہ امراض کا تیر بہ ہدف علاج تسلیم کی جاتی ہے۔ اسی طرح انھوں نے مزید پودوں سے ایسے الکلائیڈ حاصل کیے جو پیچس اور امراض قلب کے لیے دوا ثابت ہوئے۔ یوں ڈاکٹر سلیم الزماں نے دوا سازی میں انقلاب بپا کیا۔ یاد رہے کہ عام انتخابات میں ان مٹ سیاہی جو انتخابات کے دوران ووٹروں کی شہادت کی انگلی پر لگائی جاتی ہے تاکہ انتخابی دھوکہ دہی جیسے دوہرے ووٹنگ کو روکا جا سکے ، وہ ڈاکٹر سلیم الزماں نے پہلی مرتبہ لیبارٹری میں تیار کی اور یہی سیاہی پاک و ہند کے عام انتخابات میں استعمال ہوتی آرہی ہے۔

سائنس کے میدان میں آپ کی ایسی کئی خدمات اور کارنامے قابل تحسین ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق آپ نے تین سو تحقیقی مقالے اور قریباً پچاس ادویات کے فارمولے تیار کیے۔ آپ کی سائنسی شخصیات سے بہت اچھی رفاقت تھی اور انھوں نے آپ کی سائنسی خدمات کا اعتراف بھی کیا ہے۔

ڈاکٹر عبدالسلام اس حوالے سے ایک اہم نام ہیں جنھوں نے آپ کو رائل سوسائٹی آف لندن کا فیلو بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی سال آپ کو ’’سوویٹ اکیڈمی آف سائنسز‘‘ کی جانب سے گولڈ میڈل عطا ہوا۔ یورپ کے ممتاز تعلیمی اور تحقیقی اداروں سے آپ نے کئی اہم اعزازات اپنے نام کیے۔آپ کا شمار ان سائنس دانوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے سماج سے سائنسی محرومیوں کی تاریکیوں کو دور کرنے کے لیے سائنس اور سائنسی شعور کے فروغ کا چراغ روشن کیا۔

سائنس کے علاوہ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی آرٹس کے میدان میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ آپ کا خاندان علم و ادب اور تخلیقی فنون کا گہوارا تھا۔ ڈاکٹر سلیم الزماں مصوری کے میدان میں کمال مہارت رکھتے تھے اور یہ فن انھیں ورثہ میں ملا تھا۔ آپ کے والد ایک عمدہ خطاط اور آپ کے بڑے بھائی سمیع الزماں صدیقی بھی اسی فن سے وابستہ تھے جو بذاتِ خود رابندر ناتھ ٹیگور کے شاگردوں میں سے تھے۔

اس طرح آپ نے اس روایت کو مستحکم رکھا اور مصوری کے ایوان میں اپنے فن کا لوہا منوایا۔ صدیقی صاحب تجربہ گاہ میں کیمیائی مادوں اور کیمیائی شیشیوں سے فرصت کے بعد مصوری کی مشق میں مصروف ہو جاتے۔ ان کی مصوری کی نمائش پاک و ہند سمیت بیرون ممالک میں بھی منعقد ہوئی۔پہلی دفعہ آپ کی پینٹنگ کی نمائش فرینکفرٹ (جرمنی) میں ہوئی۔ انھوں نے اپنی پہلی کمائی مصوری سے حاصل کی۔

یہاں یہ بات قابلِ اعتنا ہے کہ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نہ صرف اعلی و ارفع مصور تھے بلکہ فنِ مصوری کے زبردست نقاد بھی تھے۔ مصوری اور مجمسہ سازی کی تاریخ ، ارتقا ، عروج و زوال اور مصر سے لے کر ہندوستان کے نام ور مصوروں پر آپ کی عمیق نظر تھی۔ جن سے ان کے تنقیدی شعور کا پتہ ملتا ہے۔

فن مصوری پر آپ کے مضامین تقریروں کی صورت ریڈیو کے سلسلوں میں ملتے ہیں۔ اس حوالے سے آپ کا ایک مضمون ریڈیو پر تقریر کی صورت ایک اہم ہندوستانی مصور ’’جامینی رائے‘‘ پر ملتا ہے جو فن مصوری میں شاندار تخلیقی نمونوں کے سبب مقبول تھا اور اس فن میں ٹیگور کا شاگرد رہا۔ بڑے بڑے مصوروں نے ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کے فن مصوری کو نہ صرف سراہا بلکہ انھیں اساتذہِ فن کا درجہ بھی دیا جن میں احمد پرویز، منصور راہی، صادقین اور امام علی وغیرہ شامل ہیں۔

ڈاکٹر سلیم الزماں متنوع صلاحتیوں کی دولت سے مالا مال تھے۔ ان کی شخصیت کا ایک اہم پہلو ادیب، شاعر اور مترجم کی حیثیت سے اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔ شعر و ادب سے انھیں خاص شغف تھا۔ وہ خود بھی شعر کہتے تھے۔ مصوری کی طرح یہ فن بھی انھیں وراثت میں ملا۔ صدیقی صاحب کو اردو، انگریزی، فارسی، عربی اور جرمن زبان پر عبور حاصل تھا۔اس بات سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ انھوں نے جرمنی کے مشہور شاعر رلکے کی منتخب نظموں کا براہ ِ راست ترجمہ کیا اور اس کی شاعری کو اردو زبان میں منتقل کیا۔

ترجمے کے ساتھ ساتھ رلکے کی شاعری پر آپ کی تنقیدی بصیرت کا راز بھی کھلتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایک عمدہ نقاد بھی تھے اور اس تنقیدی بحث کو ہم ریڈیو پر محفوظ ان کے ادبی مباحثوں اور تقریروں میں سن سکتے ہیں۔ صدیقی صاحب کا علمی و ادبی مطالعہ بہت وسیع تھا۔آپ نے فارسی اور اردو شعرا سمیت مغربی شاعروں کا مطالعہ بھی کر رکھا تھا۔ڈاکٹر سلیم الزماں ، غالب اور میر کے عشاق میں سے ایک تھے۔

فکرِ غالب پر پروفیسر ممتاز حسین کی میزبانی میں، مجنوں گورکھ پوری کے ساتھ ایک ادبی مباحثہ صدیقی صاحب کی غالب فہمی پر دال ہے۔ غالب کے سائنسی شعور کے حوالے سے آپ کئی اشعار کی سائنسی تعبیر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کا کہنا تھا کہ لوگ مجھ سے ایک سائنس دان کی حیثیت سے غالب اور اقبال پر سائنسی نقطہ نظر سے کچھ کہنے کی فرمائش کرتے ہیں تو میں فکرِ غالب کو سائنسی تناظر میں بھی دیکھتا ہوں اور ساتھ وہ اشعار کی مثالیں بھی پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح غزل اور دیگر اصناف سمیت قافیہ و ردیف اور استعارے پر ان کے ادبی مذاکرے سننے سے تعلق رکھتے ہیں۔ (راقم نے جن مضامین، تقاریر اور علمی و ادبی مباحثوں کا تذکرہ کیا وہ بحوالہ یوٹیوب پر ’’خورشید عبد اللہ :آواز خزانہ‘‘ چینل پر موجود ہیں)

مزید براں آپ کے حلقہ احباب میں ادبا و شعرا کی ایک اہم فہرست شامل تھی۔جن کے ساتھ آپ علمی و ادبی مذاکروں میں شامل ہوتے اور تبادلہ خیال کرتے۔ فیض احمد فیض کی شاعری اور شخصیت سے ان کو خاص رغبت تھی۔فیض کی وفات کے بعد صدیقی صاحب نے فیض پر ایک مضمون ’’فیض کی یاد میں‘‘ بھی قلم بند کیا۔ جہاں تک موسیقی کی بات ہے ، تو ان کی ایک جہت موسیقار کی حیثیت سے بھی ہے۔اس سلسلے میں آپ اورینٹل اور یورپین کلاسیکل میوزک سے منسلک رہے۔ ڈاکٹر سلیم الزماں ، ہمہ گیر شخصیت کے مالک اور مشرقی تہذیب کے نمائندہ فرزند تھے۔ علمی و ادبی مذاکروں میں ، ان کی مسحور کن گفتگو ، شائستہ و دل آویز لہجہ ، بر جستہ و برمحل اشعار کے حوالے، بذلہ سنجی اور دلچسپ لطیفوں سے ان کی نستعلیق شخصیت میں اضافہ ہوتا ہے۔

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی پاک و ہند میں کئی اہم عہدوں پر فائز رہے۔ تقسیم ہند کے بعد آپ پاکستان چلے آئے اور یہاں آپ نے میں پاکستان کونسل آف سائنٹفک انڈسٹریل ریسرچ ادارہ قائم کیا۔ 1966 میں آپ جامعہ کراچی کے شعبہ کیمسٹری سے وابستہ ہوگئے اور یہاں اپنے قائم کردہ تحقیقی ادارے حسین ابراھیم جمال (Hej) سے آخری دم تک منسلک رہے اور علم و تحقیق میں طلبہ کی رہنمائی کرتے رہے۔ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کو ملک اور بیرون ملک کئی اعزازات ملے۔ حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز سے نوازا۔

مگر انھیں مقتدر اور سرکاری افسروں سے کچھ گلے شکوے رہے۔اس حوالے سے جناب عمران اختر اپنے تحقیقی مضمون ’’ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی ادبی خدمات‘‘ میں بتاتے ہیں کہ آپ کو ہمیشہ یہی گلہ رہا کہ ارباب ِ اختیار نے ان کی صلاحیتوں سے ہمیشہ رو گردانی کی اور خاطر خواہ فائدہ حاصل نہ کیا۔ سائنس اور آرٹس کے میدان کا یہ شہوار اور دلِ درد مند 14 اپریل 1994 کو ستانوے سال کی عمر میں انتقال کر گیا اور آپ کو جامعہ کراچی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ایک طرف ڈاکٹر عبدالسلام جیسا عالمی شہرت کا حامل سائنس دان ہے جسے اپنے ہی وطن میں تسلیم نہیں کیا گیا اور دوسرے ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی ہیں جن کی سائنس و فنون سے متعلقہ خدمات کو فراموش کردیا گیا۔ ہمارے ہاں جینوئن شخصیات کو قعرِ گمنامی میں پھینک دیا جاتا ہے اس لیے آج نسل نو ان نابغہ روزگار شخصیات کی خدمات تو دور کی بات ہے۔

 ان کے نام تک سے واقف نہیں۔ ہر سماج اور معاشرے کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں جن کے سبب وہ ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں آتے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک کی ترجیحات علمی و ادبی اور سائنسی نوعیت کی نہیں اور ایسے مثالی کردار آہستہ آہستہ محض تاریخ کی کتابوں تک محدود رہتے ہیں۔ ریاست اور تعلیمی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے حوالے سے کانفرنسز اور سیمینار کا انعقاد کرے تاکہ ان سے شناسائی ہونے کے ساتھ ساتھ نسل نو کے دل میں تحقیق اور جستجو کی امنگ پیدا ہو اور ہمارے سماج میں سائنسی شعور کا احیا و فروغ ممکن ہو سکے۔ 

متعلقہ مضامین

  • ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کی 87 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے۔
  • شاعر مشرق، مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کی آج 87 ویں برسی
  • پاک فوج کردار،مہارت جیسے اعلیٰ فوجی اوصاف کی حامل ہے ،آرمی چیف
  • ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، ایک ہمہ جہت شخصیت
  • پاک فوج کردار، حوصلہ اور مہارت جیسے اعلیٰ فوجی اوصاف کی حامل ہے، آرمی چیف
  • وعدہ کرتا ہوں بلاول بھٹو زرداری اس ملک کے وزیراعظم بنیں گے، سردار سلیم حیدر
  • علامہ اقبال کی لاہور میں ہاسٹل لائف، رہائش گاہیں اور شاعری
  • کراچی:کپڑے وقت پر نہ دینے پر شہری دکاندار کیخلاف عدالت پہنچ گیا
  • پنجاب میں کہیں بارش، کہیں گرد آلود ہوائیں، گرمی میں مزید اضافے کا امکان
  • پاکستان آرمی کردار، حوصلہ اور مہارت جیسے اعلیٰ فوجی اوصاف کی حامل ہے، آرمی چیف