Express News:
2025-04-22@18:50:43 GMT

بلوچستان میں دہشت گردی

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

گزشتہ برس دہشت گردی نے ملک میں ایک بار پھر سر اُٹھایا، تھنک ٹینک پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (پی آئی پی ایس) کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ملک میں دہشت گرد حملوں کی تعداد اور شدت میں پریشان کن اضافہ ہوا ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں اس خدشے کا بھی اظہارکیا گیا کہ اگر موجودہ صورت حال برقرار رہی تو ملک میں سیکیورٹی صورتحال 2014 سے پہلے کی طرح ہوسکتی ہے۔

تھنک ٹینک پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (پی آئی پی ایس) کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان کی مقامی کالعدم تنظیموں کے حملوں میں 119 فیصد اضافہ دیکھا گیا، جس میں بلوچستان میں 171 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، رواں سال 5 جنوری کو بلوچستان کے علاقے تربت کے مقام پر سیکیورٹی فورس پر حملے کے سبب ایف سی جوانوں سمیت 11 افراد شہید ہوچکے ہیں، سال کے ابتدا میں ہی ایسی صورتحال یقیناً باعث تشویش ہے۔

بلوچستان کا نوجوان طبقہ بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔ جس کا فائدہ کالعدم جماعتیں اور غیر ملکی دہشت گرد اُٹھا رہے ہیں، صوبے کا المیہ یہ بھی ہے کہ سردار اور نواب سمیت چند لوگ کروڑ اور ارب پتی ہیں اور اکثر عوام غریب، بے روزگار اور غیر تعلیم یافتہ ہیں، بدقسمتی سے سب سے زیادہ ناخواندگی بلوچستان میں ہے۔

 لڑکیوں کی تعلیم کی شرح 35 فیصد سے بھی کم ہے اور لڑکوں کی تعلیم 40 فیصد سے زیادہ نہیں ہے، یہ صورتحال کالعدم جماعتوں کے لیے آئیڈیل ہے، جب ہی وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو رہے ہیں۔

اس صوبے پر نواب اور سردار طویل عرصے سے حکمران رہے ہیں اور وہ اکثردعوے یہ کرتے ہیں کہ صوبے کے ساتھ وفاق اور ریاست کی طرف سے زیادتیاں ہو رہی ہیں مگر وہ یہ نہیں کہتے ہیں کہ بلوچستان کی محرومیوں کے ذمے دار وہ خود ہیں، جو نہ بلوچستان میں ترقی لاسکے اور نہ ہی اس صوبے کو دہشت گردی سے پاک کرا سکے۔

بلوچستان میں پہلی شورش 1948 میں ہوئی، جب ریاست قلات کے پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا گیا۔ اس وقت سے لے کر اب تک کئی بار علیحدگی پسند تحریکیں ابھری ہیں، جنھوں نے صوبے میں افراتفری پھیلائی ہے۔

بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں بلوچستان کے عوام کو اپنی سوچ کے مطابق مسلح جدوجہد کرنے کی ترغیب دیتی ہیں اور انھیں ریاست کے خلاف لڑنے پر مجبورکرتی ہیں۔ بلوچستان میں بھارت اور دیگر بیرونی طاقتوں کی مداخلت ایک حقیقت ہے۔

بھارت ہمیشہ سے بلوچستان میں علیحدگی پسند عناصرکو مالی اور اسلحے کی مدد فراہم کرتا رہا ہے۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور اس کے اعترافات اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارت بلوچستان میں دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بلوچستان میں دہشت گردی کا ایک اور بڑا سبب افغانستان کی غیر مستحکم صورتحال ہے۔

کلبھوشن یادیو کا کیس اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بھارت بلوچستان میں اپنی مذموم کارروائیوں میں ملوث ہے۔علیحدگی پسند تنظیم خواتین کے ذریعے سے دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہیں، لڑائیوں میں مستورات کا استعمال کرنا، کسی بھی غیرت مند کا کام نہیں ہوسکتا ہے۔

 اپنے آپ کو بلوچ کہلانے والی یہ کالعدم تنظیمیں صنف نازک سے خودکش دھماکے کروا رہی ہیں، جو نئی نسل کو پروان چڑھانے کی امین ہوتی ہیں، جنگ کا اصول ہوتا ہے کہ خواتین اور بچوں کو لڑائی سے دور رکھا جائے جب کہ بلوچستان کی مقامی کالعدم تنظیمیں خواتین کا استحصال کرتے ہوئے انھیں خود کش بمبار بنا رہی ہیں، جو ہر صورت قابل مذمت امر ہے، صاحب غیرت کو خواتین کا استعمال کرنا زیب نہیں دیتا ہے۔

بلوچستان کا المیہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ 77برسوں میں کتنی ہی حکومتوں نے بلوچستان کے لیے بڑے بڑے پیکیجزکا اعلان کیا مگر خاطر خواہ ترقی تاحال نظروں سے اوجھل ہے۔ بلوچستان معدنی وسائل سے مالا مال ہے اور اس سرزمین میں گیس،کوئلہ، سونا، چاندی اور تانبے کے وسیع ذخائر پوشیدہ ہیں مگر بدامنی اور انتشارکی فضا میں ان وسائل سے استفادہ کیونکر ہوگا؟

بلوچستان کے مسائل کا جائزہ لیا جائے تو سرفہرست مسئلہ سیکیورٹی ہے۔ یہ بات سو فیصد درست ہے کہ یہاں کی زمینی صورتحال پر نظر رکھنا آسان نہیں ہے لیکن بلوچستان سے ایران و افغانستان میں موجود ملک دشمن عناصرکی سرکوبی کے لیے ان ممالک پر زور دینے اور ملک کے اندر سیکیورٹی نظام کو مزید بہتر بنانے سے دہشت گرد حملوں کو بروقت روکا جا سکتا ہے۔

 سیکیورٹی بہتر بنانے کے علاوہ ہمیں یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی چاہیے کہ بلوچستان کی محرومیاں دورکیے بغیر محض سیکیورٹی مسائل حل کرنے سے امن و امان کا قیام ممکن نہیں ہے۔ ب

لوچستان میں ریاست مخالف عناصرکو بیرونی بالخصوص بھارتی اعانت میسر ہونے کے دستاویزی ثبوت بارہا، دنیا کے سامنے رکھے جا چکے ہیں، ایسے عناصر سے آہنی ہاتھوں نمٹنے کے علاوہ صوبے میں وسائل کی بہتر تقسیم بھی ضروری ہے اور اس بات کی نگرانی بھی کہ وسائل کا مصرف عوام کی بھلائی اور فلاح ہو۔

یقینا گوادر پورٹ اور سی پیک اس حوالے سے گیم چینجر منصوبے ہیں، جس سے نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کو بہت امیدیں ہیں، البتہ ساری امیدیں کسی ایک منصوبے سے وابستہ کرنا درست روش نہیں ہے۔

 اس حوالے سے صوبائی اور وفاقی حکومت، دونوں کی اپنی اپنی ذمے داریاں ہیں اور دونوں کو ان کا ادراک ہونا چاہیے، صوبے کے عوام کو صاف پانی، بجلی،گیس اور بہترین طبی سہولتوں کے علاوہ تعلیم و ہنر کے اداروں کا قیام اولین حکومتی ترجیح ہونا چاہیے۔

 اگرچہ اس ضمن میں افواجِ پاکستان نے خاصا کام کیا ہے اور صوبے میں متعدد تعلیمی اور ووکیشنل ادارے قائم کیے ہیں مگر حکومت کو ایسے اداروں کا دائرہ پورے صوبے میں پھیلانا چاہیے، بلوچستان کے مسائل کا حل سیاسی و عسکری قیادت اور بلوچ عوام وعمائدین کی شراکت اور تعاون ہی سے ممکن ہے۔

 علیحدگی پسند تنظیموں کو شکست دینے کے لیے عوامی حمایت حاصل کرنا ضروری ہے اور اس کے لیے عوام کا اعتماد جیتنا ہوگا، تاکہ یہ صوبہ ترقی اور خوشحالی کی راہ پرگامزن ہو سکے، اگرچہ یہ سفر طویل اور صبرآزما ہے مگر یہی وہ راہ ہے جس پر چل کر بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ ہو سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: علیحدگی پسند بلوچستان میں بلوچستان کے رہی ہیں نہیں ہے ہیں اور ہیں کہ کے لیے ہے اور اور اس

پڑھیں:

اسحاق ڈارکے دورہ کابل میں اعلانات حوصلہ افزا

اسلام آباد(طارق محمود سمیر) نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے افغانستان کا اہم دورہ کیا ،دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ صورتحال اور تحفظات
تھے ،افغانستان کی حدود سے جو دہشت گردی ہورہی تھی اس پر حکومت پاکستان کے تحفظات تھے،اس سارے معاملے میں اہم پیشرفت ہوئی ہے ، اسحاق ڈار کا کابل جانااور وہاں افغان قیادت کے ساتھ ملاقاتیںکرنا اور اس میں جو اعلانات کئے گئے وہ بڑے حوصلہ افزا اور خوش آئند ہیں ، اس میں سب سے بڑا اعلان جوکیا گیا وہ یہ کہ دہشت گردی کے لئے دونوں ممالک اپنی سرزمین کسی کو استعمال نہیںکرنے دیںگے ،پھر افغانستان سے تجارتی سامان کی نقل و حمل کے حوالے سے افغان حکومت کے مطالبے پر کہ بینک گارنٹی کے ساتھ ساتھ انشورنس گارنٹی قابل قبول ہوگی ، اس کے علاوہ وفودکے تبادلے ہونے ہیں،افغان مہاجرین کے حوالے سے بھی ایک کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے،افغان شہریوں کی پاکستان کے اندر جائیدادیں وہ جب پاکستان چھوڑ کر جائیں گے تو جائیداد فروخت کرنے کی اجازت ہوگی ،سازوسامان بھی ساتھ لے جانے کی اجازت ہوگی اور انہیں عزت واحترام کیساتھ بھیجا جائیگا،اس دورے کا مقصد اگر دیکھا جائے تو اس میں پاکستان کے لئے سب سے بڑے دو مسائل تھے ایک دہشت گردی اور دوسرا افغان مہاجرین کی باعزت طریقے سے واپسی یقینی بنانا تھا، دہشت گردی کے تناظر میں جو اعلان کیا گیا ہے وہ بڑا خوش آئند ہے ، پہلے بھی افغانستان کی جانب سے اعلانات کئے گئے لیکن عملاً کوئی اقدامات نہیںکئے گئے ،ٹی ٹی پی کے ساتھ 2021میں جو معاہدہ ہوا اس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں دہشتگرد تنظیم کے عہدیدار پاکستان آئے اوروہ منظم ہوگئے اور دہشت گردی بڑھتی گئی اور حالیہ عرصے میں دہشت گردی میں 60فیصد اضافہ ہوا،پاکستان کو دہشت گردی کا سب سے بڑا سامنا افغانستان کے اندر سے ہے، پھر بلوچستان کی جو صورتحال ہے، بی ایل اے کو بھارت کی حمایت حاصل ہے اور افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کیخلاف دہشتگردی کے لئے استعمال کر رہا ہے۔اگر اب افغان حکومت پاکستان کی شکایات دور نہیں کرتی تو یہ مناسب نہیں ہوگا کہ تجارت کے شعبے میں ان کے مطالبات من وعن پورے کئے جائیں۔کہا جارہا ہے کہ افغان وزیر خارجہ جلد پاکستان کے دورے پر آئیں گے ، اس دورے کے تناظر میں بھی دیکھا جائے توگفت وشنید بڑی اچھی بات ہے اور اس سارے معاملے میں پیشرفت کرانے میں افغانستان کیلئے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق خان کے رابطے کام آئے ہیں،ایک اور بھی رپورٹ آئی ہے کہ افغانستان کے اندر سے خطرناک اسلحہ جو امریکی فوج چھوڑ کر گئی وہ بھی دہشت گردوں کے ہاتھ لگا ہوا ہے ،اس میں مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کے اندر دہشتگردی کم ہو ، اگر افغانستان ہمارے ساتھ حقیقی معنوں میں تعاون کرتا ہے اوردہشت گردی پر قابو پالیا گیا تو پاکستان کے اندر بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے ۔لاہور کی سیشن عدالت میں ایک اہم کیس زیر سماعت ہے ،شہبازشریف کی جانب سے عمران خان کے خلاف دس ارب ہرجانے کا کیس، اپریل 2017 میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے ایک جلسے کے دوران الزام عائد کیا تھا کہ انہیں پاناما لیکس کے معاملے پر خاموش رہنے اور مؤقف سے دستبردار ہونے کے بدلے میں اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی جانب سے 10 ارب روپے کی پیشکش کی گئی۔اس الزام کے جواب میں شہباز شریف نے جولائی 2017 میں لاہور کی سیشن عدالت میں عمران خان کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا۔دعوے میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ شہباز شریف، جو اس وقت وزیراعظم نواز شریف کے بھائی اور خود پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے، ایک معزز سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں اور اُن کی عوامی خدمات کی وجہ سے انہیں قومی و بین الاقوامی سطح پر عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔اس سے قبل بھی شہباز شریف نے عمران خان کو ایک قانونی نوٹس بھیجا تھا جس میں جاوید صادق کو مبینہ فرنٹ مین قرار دے کر اربوں روپے کمانے کے الزام پر معافی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔عمران خان نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر جاری کردہ ایک ویڈیو میں کہا تھا کہ اگر وہ اور اُن کی جماعت پاناما لیکس پر خاموش ہو جائیں تو حکمران جماعت اُنہیں خاموش کرانے کے لیے بڑی مالی پیشکش کر سکتی ہے اور اس دعوے کی مثال کے طور پر انہوں نے 10 ارب روپے کی آفر کا ذکر کیا۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • اسحاق ڈار کا دورہ کابل
  • مغرب میں تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی
  • صدر مملکت نے 6 دہشت گردوں کو جہنم واصل کرنے پر سیکورٹی فورسز کو سراہا
  • ملک میں دہشت گردی کے نظریاتی مسائل کا حل فکر اقبال میں ہے: وفاقی وزیر
  • ملک میں دہشت گردی کے نظریاتی مسائل کا حل فکر اقبال میں ہے، وفاقی وزیر
  • جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت پھر ملتوی، وجہ بھی سامنے آگئی
  • بی ایل اے کی دہشت گردی کے خلاف کراچی میں خواتین کا احتجاج
  • بلوچستان کو خیرات نہیں، بلکہ حقوق دیں، مولانا ہدایت الرحمان
  • اسحاق ڈارکے دورہ کابل میں اعلانات حوصلہ افزا
  • وقف قانون میں مداخلت بی جے پی کی کھلی دہشت گردی