Express News:
2025-04-22@18:58:32 GMT

بدلتی دنیا اور ہم

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

انتہائی پیچیدہ مسائل سے اس وقت دنیا نمٹ رہی ہے خاص طور پر ماحولیاتی مسائل سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ لاس اینجلس اور کیلی فورنیا میں آگ کا پھیلنا آج ہمارے سامنے ہے اور لاس اینجلس میں آگ کا پھیلاؤ اس دفعہ اس قدر شدید ہوگا اس بات کا اندازہ نہ تھا۔اس آگ کے پھیلاؤ کی اصل وجہ یہ ہے کہ کر ہ ارض اب دن بہ دن گرمائش کے گھیرے میں جا رہی ہے، سطح سمندر دن بہ دن بڑھے گی اور گلیشیر جو ہزاروںسال سے پگھلے نہیں ان کے پگھلنے کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ ہر آنیوالے برس پچھلے برس سے گرم ثابت ہوگا۔ اس ماحولیاتی نظام کی بربادی کا سبب ہے کیپٹل ازم ہے جس کو ہم سرمایہ دارا نہ نظام کہتے ہیں۔

دنیا کے دو بڑے ممالک جو ماحولیاتی تباہی میں بڑا حصہ ڈالتے ہیں، وہ ہیں امریکا اور چین۔ کیونکہ یہی دونوں ممالک دنیا کی بڑی معاشی طاقتیں ہیں،جتنی بڑی معاشی طاقت اتنا ہی بڑا حصہ ما حولیاتی آلودگی میں، معاشی پہیے کو چلانے کے لیے توانائی درکار ہے اور توانائی اور اس توانائی کے حصول کے لیے جو ذرائع ہیں وہ Fossil Fuels  پر مبنی ہیں۔یعنی تیل، کوئلہ اور گیس۔ یہ توانائی کے ذرائع کاربن کا دھواں Carbon emissionپیدا کرتے ہیں جو یقینا ماحولیاتی آلودگی پیدا کرتے ہیں اور انھیں ذرائع کے استعمال کی وجہ سے دنیا میں گرمی بڑھ رہی ہے اور گرمی اس دھرتی کی تمام زندہ مخلوق کے وجود کے  لیے خطرہ ہے۔

دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام جو اپنی حدوں کو چھو رہا ہے اور اس نظام کی انتہا میں امریکا کے نو منتخب صدر اور ایلون مسک جیسی سوچ کا ہاتھ ہے اور یہ سوچ کسی ایک یا دو کی سوچ نہیں بلکہ مجموعی طور پر پورے سرمایہ دارانہ نظام کی سوچ ہے۔توانائی کے دوسرے ذرائع کی طرف جس تیزی سے جا رہے ہیں یہ Fossil Fuels کی سرمایہ داری سوچ اتنی ہی تیزی سے اس عمل کو روک رہی ہے اور اس گروپ کے مفادات کے دعوے دار امریکا اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے ایوانوں میں بیٹھے ہیں۔

جہاں تمام فیصلہ سازی ان کے مفادات کی ترجمانی کرتی ہے۔اچھے خواص بھی ہیں اس نظام کے جیسا کہ رسد اور ترسیل کے فیصلے مارکیٹ کرتی ہے۔سرمایہ دار اپنی سرمایہ کاری کرتا ہے منافع کمانے کے لیے، اس طرح مقابلہ بازی ہوتی ہے تاکہ معیار بہتر ہو سکے اور اسی معیار کی خاطر بہت سی تخلیقات اور ایجادات بھی ہوئیں، لیکن اب یہ نظام اور یہ سوچ انتہائی خود غرضی کی ہے۔اس سوچ کا انسانیت کی بھلائی سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔انسانی فلاح و بہبود اس کے منافع کمانے کے ٹکراؤ میں ہے،لہٰذا یہ نظام انسانی ترقی اور فلاح و بہبود کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔

ایک طرف دنیا میں فاصلے کم ہو رہے ہیںانفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کی بنیاد پر۔مگر غربت نے اس دنیا کے شکنجے میں لیا ہوا ہے۔ دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر کے نیچے رہنے پر مجبور ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کا شوشہ ایک لحاظ سے جمہوریت کے تابع بھی ہے۔ وہ ترقی یافتہ ممالک جو سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے تحت چلتے ہیں ، ان کے پاس آئین ہے اور اس آئین کی ریڑھ کی ہڈی ہے شہر یوں کے بنیادی حقوق۔

مگر ان ممالک کی سوچ وہ ہی پرانی نو آبادیاتی والی سوچ ہے۔جو ان ممالک کی کالونی میں رہے وہ ممالک نہ ہی ترقی یافتہ بن سکے اور نہ ہی خودکفیل ہو سکے۔یہ ممالک بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اور ان قرضوں کی وجہ سے یہ ممالک ان بڑی طاقتوں کے شکنجے میں ہیں۔

ان ممالک نے ہم جیسی ریاستوں کے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔سرد جنگ کے زمانوں میں ہمیں اپنی فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر استعمال کیا اور کامیابی سے اپنے مقاصد پائے۔مسلم ممالک کو خصوصی طور پر آگے بڑھنے سے روکا گیا اور یہی وجہ ہے اسلامی ممالک میں جمہوریت پنپ نہیں پائی۔

دنیا کیپٹل ازم کی سمت چلنا چاہتی ہے مگر انسان پرستی اور ماحولیاتی تباہی کی خاطر کیپٹل ازم کے نظام کو اپنی ماہیت تبدیل کرنا ہوگی۔ہم نے اس بات کامشاہدہ کیا ہے کہ سوا برس سے پٹرول پر چلنے والی گاڑیوں کو الیکٹرک گاڑیوں نے پیچھے چھوڑ دیا ہے اور آیندہ دس برسوں میں پٹرول گاڑیوں کی وقعت نہ رہے گی۔

مصنوعی ذہانت نے اس دنیا کو جدید دور داخل میں کیا، اس ٹیکنالوجی کے اثرات آنیوالے دس برسوں میں مزیدواضح ہونگے۔توانائی کے متبادل ذرائع بڑی تیزی سے دریافت کیے جا رہے ہیں۔شمسی توانائی اور ونڈ انرجی کے ذرائع بڑے کامیاب متبادل رہے ہیں۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد اور سرد جنگ کے زمانوں میں ، مشرق وسطیٰ بین الاقوامی ٹکراؤ اور تضادات میں صف اول پر رہا، خصوصاستر کی دہائی کے بعد ان تضادات میںمزید شدت آگئی تھی، اس دفعہ یہ خطہ ، شام میں انقلاب کے بعد ایک نئی سمت کی طرف جا رہا ہے۔

ایران میں موجودہ نظام بھی زیادہ عرصے تک نہیں چل پائے گا اس لیے تبدیلی اب ناگزیر ہے۔سعودی عرب اپنے اندر بہت سی تبدیلیاں لارہا ہے تاکہ وہ دنیا کے ساتھ چل سکیں۔امریکا میں دوبارہ ٹرمپ کا صدر منتخب ہونا، دنیا کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں سمجھا جا رہا ہے۔امریکا کی اندرونی سیا ست میں بھی یہی چہ مگوئیاں ہیں کہ ٹرمپ امریکا میں بگاڑ پیدا کریگا اور امریکا کی خارجہ پالیسی اس سے شدید متاثر ہوگی او ر یہاں کیپٹل ازم ایک انتہائی صورت اختیار کرے گا۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ آنے والے دس برس تاریخی اعتبار سے بڑی تبدیلی کے سال ہیں۔انھی دس برسوں میں اگلے پچاس سال کی حکمت عملی چھپی ہو ئی ہے کہ یہ دنیا کس سمت رواں ہوگی۔انھی دس برسوں میں یہ ثابت ہوگا کہ انسان مارس پر اتر سکتا ہے کہ نہیں،جس کے امکانات زیادہ ہیں اور یہ بھی کہ ہم دھرتی کے مدار پر ایک ایسا گھر یا پھر ہوٹل بنائیں جہاں سیکڑوں لوگ رہیں اور واپس آجائیں۔ان دس برسوں میں کائنات کے حوالے بہت بڑی آگاہی ملنے کی توقعات ہیں۔

 مصنوعی ذہانت دنیا کو ایک ہونے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔انگریزی زبان آفاقی زبان بن جائے گی۔اگلے دس برس ، ٹیکنالوجی کے دس برس اور اگلے پچاس سال،انھیں دس برسوں کے نقش پر چلیں گے۔

پاکستان آگے جا کر آبادی کے حساب سے دنیا کا پانچواں ملک بننے جا رہا ہے اور اسی حوالے سے پاکستان کو بڑے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ان چیلنجز کے ساتھ آگے بڑھنے کی ہماری کوئی تیاری نہیں۔ ہمارے لیڈر صاحبان اور شرفاء ،ہندوستان کی طرح ٹیکنالوجی میں کوئی جوہر نہیں دکھا سکتی ۔

ان کی زندگی کا المیہ ہے اقتدار۔ ہماری بڑی سیاسی جماعتوں میں ایسے الیکٹبلز موجود ہیں جن کے مفادات کی ترجمان ہیں بڑی پارٹیاں۔لوگوں میں کبھی سرمایہ کاری نہیں کی ،لہٰذا کبھی انسانی ذرائع بہتر نہ ہو سکے اور جو انفرااسٹرکچر بہتر کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے اس پر کئی سوالیہ نشان ہیں۔

وفاق کی پیچیدگیاں ہم سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں۔اس ملک کے چار صوبے، چار ثقافتیں، چار زبانیں ان کا آپس میں گہرا تعلق اور پنجاب کا کردار ایک بڑے کے مانند ان تمام باتوں کو سوچنے کی اشد ضرورت ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سرمایہ دارانہ توانائی کے کیپٹل ازم جا رہا ہے ہے اور اس ہے اور ا دنیا کے رہے ہیں ہیں اور رہی ہے اور یہ کے لیے

پڑھیں:

پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان

جب دنیا کی سپر پاورز خاموشی کی دبیز چادر اوڑھے غزہ کی مٹی پر بکھرے معصوم بچوں کے جسموں سے نظریں چرا رہی ہوں، جب عالمِ اسلام کے حکمران بے حسی کی چپ میں اپنی کرسیوں کو مضبوطی سے تھامے بیٹھے ہوں ، ایسے میں ایک بوڑھا پادری جس کے جسم پر بیماریوں کے نشان ہیں، جسے بار بار اسپتال لے جایا جاتا ہے، وہ اپنی تھرتھراتی آواز میں انسانیت کا مقدمہ لڑتا ہے، وہ پوپ فرانسس ہے۔ ویٹیکن کے عالی شان محل میں رہنے والا لیکن دل سے فقیروں کا ساتھی، زبان سے مظلوموں کی آواز اور عمل سے ایک نئی روایت کا آغازکرنے والا۔

اس نے کہا کہ جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے، وہ جنگ نہیں قتلِ عام ہے۔ یہ انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ یہ الفاظ کسی جلے ہوئے کیمپ میں پناہ گزین کسی فلسطینی کے نہیں تھے، نہ ہی یہ کسی انقلابی شاعر کے قلم سے نکلے مصرعے تھے۔ یہ ایک ایسے مذہبی ادارے کے سربراہ کے الفاظ تھے جو صدیوں سے طاقتوروں کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ یہ ویٹیکن کے اندر سے آنے والی وہ صدا تھی جو صدیوں کے جمود کو توڑ رہی تھی۔

پوپ فرانسس کا اصل نام خورخے ماریو بیرگولیو ہے۔ وہ ارجنٹینا کے شہر بیونس آئرس میں پیدا ہوا۔ کیتھولک چرچ کے روایتی مزاج سے ہٹ کر وہ پوپ بننے کے بعد پہلی بار چرچ کی فضاؤں میں ایک ایسی روشنی لے کر آیا جس نے اسٹیبلشمنٹ کے اندھیروں میں لرزش پیدا کر دی۔ اُس نے ویٹیکن کی دولت جاہ و جلال اور طاقت کی دنیا کو خیر باد کہہ کر عام انسانوں کے درمیان بیٹھنا پسند کیا۔ اس نے چرچ کے نچلے طبقوں، پسے ہوئے لوگوں اور باہر دھکیلے گئے انسانوں کی آواز بننے کو اپنا منصب سمجھا۔

وہ ایک ایسی دنیا کا داعی ہے جہاں عقیدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانیت کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں۔ اس نے ہم جنس پرست افراد کے لیے نرم الفاظ استعمال کیے، اس نے موسمیاتی بحران کو ایک مذہبی اور اخلاقی مسئلہ قرار دیا، وہ مہاجرین کے ساتھ بیٹھا، ان کے پاؤں دھوئے ان کے بچوں کو گود میں لیا اور کہا کہ مذہب صرف عبادت نہیں یہ عمل ہے، یہ انصاف ہے۔ اس نے دنیا کو بتایا کہ گرجا ہو یا مسجد جب تک وہ ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھائیں، وہ خاموشی کے مجرم ہیں۔

جب وہ پوپ منتخب ہوا تو اس نے اپنا لقب’’ فرانسس‘‘ رکھا جو سینٹ فرانسس آف اسّیسی کی یاد میں تھا، وہ درویش پادری جو فقیری میں جیتا تھا، پرندوں سے بات کرتا تھا اور جنگ کے خلاف کھل کر بولتا تھا۔ پوپ فرانسس نے اسی روایت کو اپنایا۔ اس نے ویٹیکن کے محلات میں رہنے سے انکار کیا، ایک چھوٹے سے کمرے میں قیام کیا، عام گاڑی استعمال کی اور قیمتی جوتوں، گھڑیوں اور زیورات سے گریزکیا۔ اس نے نہ صرف کہا بلکہ عمل سے دکھایا کہ مذہب کی اصل طاقت اخلاقی سچائی میں ہے نہ کہ شان و شوکت میں۔

پھر جب فلسطین کی زمین پر بمباری ہوئی، جب اسپتالوں کو نشانہ بنایا گیا، جب بچوں کے جسم ملبے تلے دب گئے تو پوپ فرانسس نے اپنے سادہ سے دفتر سے وہ بات کہی جو بڑے بڑے صدر نہ کہہ سکے۔ اس نے کہا ’’ یہ جنگ نہیں، یہ قتلِ عام ہے۔ یہ انسانیت کی توہین ہے۔‘‘

جب مغربی میڈیا اسرائیل کے بیانیے کو آگے بڑھا رہا تھا جب یورپی حکومتیں دفاعِ اسرائیل کو اپنا حق سمجھ رہی تھیں،جب عالمی ادارے بے بسی کی تصویر بنے ہوئے تھے، تب اس نے انسانیت کی طرفداری کا علم اٹھایا۔وہ چاہتا تو خاموش رہ سکتا تھا۔

وہ کہہ سکتا تھا کہ یہ ایک پیچیدہ تنازع ہے کہ ہم فریق نہیں بن سکتے کہ ہمیں غیر جانبدار رہنا چاہیے، لیکن اس نے غیرجانبداری کو منافقت قرار دیا۔ اس نے کہا کہ ظلم کے وقت خاموش رہنا ظالم کا ساتھ دینا ہے۔ یہ وہ تعلیم ہے جو ہر مذہب دیتا ہے لیکن کم ہی لوگ اس پر عمل کرتے ہیں۔

ہم مسلم دنیا میں اکثر خود کو مظلوموں کا وکیل سمجھتے ہیں لیکن جب وقت آتا ہے تو ہماری زبانیں سوکھ جاتی ہیں۔ ہم اپنے تجارتی معاہدے اپنے خارجہ تعلقات اور اپنی کرسیوں کو مظلوموں کے خون پر ترجیح دیتے ہیں۔ پوپ فرانسس ہمیں آئینہ دکھاتا ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ مذہب کا اصل جوہر کیا ہے۔ وہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر ہم ظالم کے خلاف کھڑے نہیں ہوتے تو ہمارا ایمان محض رسم ہے روح نہیں۔

پوپ فرانسس کی اپنی صحت بھی ان دنوں کمزور ہے۔ اسے کئی بار سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہوا ،اسپتال میں داخل کیا گیا، آپریشن ہوئے لیکن جیسے ہی وہ اسپتال سے باہر نکلا ،اس نے دنیا کے زخموں کو اپنی صحت پر ترجیح دی۔ وہ پھر سے کیمروں کے سامنے آیا اور کہا کہ ہمیں غزہ کے بچوں کے لیے دنیا کے مظلوموں کے لیے اور انسانیت کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے۔

انھیں زندہ رہنا چاہیے کیونکہ ان جیسے مذہبی رہنما کی دنیا کو ضرورت ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ ایک مذہبی رہنما ہے بلکہ اس لیے کہ وہ ضمیر کی آواز ہے۔ ایسی آوازیں اب کم رہ گئی ہیں۔ ایسی آوازیں جو نہ رنگ دیکھتی ہیں نہ قوم نہ مذہب نہ سرحد۔ جو صرف انسان دیکھتی ہیں اور جو ہر انسان کے لیے انصاف مانگتی ہیں۔

اس دنیا میں جہاں ہر دوسرا مذہبی پیشوا سیاست دانوں کا ترجمان بنا ہوا ہے، جہاں روحانیت طاقت کی غلامی بن چکی ہے، وہاں پوپ فرانسس ایک مختلف روایت کا پرچم بردار ہے۔ وہ جس سوچ کا حامی ہے، اس میں وہ تنہا نہیں ہے مگر وہ سوچ بہت سوں کی نہیں ہے۔

وہ جو ویٹیکن کی دیواروں سے نکل کر مہاجر کیمپوں میں جاتا ہے، وہ جو عبادت گاہوں سے نکل کر میدانِ سچ میں آتا ہے، وہ جو خاموشی کو توڑتا ہے۔اس کی زندگی اس کی زبان اس کا طرزِ قیادت ہمیں بتاتا ہے کہ انسانیت اب بھی زندہ ہے اگر ہم اسے سننا چاہیں اگر ہم اسے اپنانا چاہیں۔ہم سب کے لیے اور خاص طور پر ہمارے مذہبی رہنماؤں کے لیے پوپ فرانسس کی زندگی ایک سبق ہے۔ وہ سبق جو ہمیں مذہب کی اصل روح سے جوڑتا ہے اور بتاتا ہے کہ اگر دل زندہ ہو تو ضمیر بولتا ہے اور جب ضمیر بولتا ہے تو دنیا کی خاموشی ٹوٹتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • یہ سونا بیچنے کا نہیں بلکہ خریدنے کا وقت ہے، مگر کیوں؟
  • امریکی ٹیرف مذاکرات میں پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک خوشامد سے باز رہیں، چین کا انتباہ
  • پاکستان‘ افریقی ممالک میں سرمایہ کاری و تجارتی خلاء دور کرنا ہو گا: شافع حسین
  • نظام کی بہتری کے لیے 26 ویں ترمیم کی گئی، ضرورت ہوئی تو مزید قانون سازی کریں گے، وزیر قانون
  • پاکستان اور روانڈا تعلقات میں پیشرفت؛ سرمایہ کاری سمیت دیگر مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط
  • معاشی اثاثہ
  • پیچیدہ ٹیکس نظام،رشوت خوری رسمی معیشت کے پھیلاؤ میں رکاوٹ
  • پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان
  • گورننس سسٹم کی خامیاں
  • جمہوریت کی مخالفت کیوں؟