Express News:
2025-04-22@18:59:20 GMT

نظامِ حکمرانی کے تضادات

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

یہ بات سوچنی ہوگی یا اس پر غور و فکر کیا جانا چاہیے، کیا وجہ ہے کہ ہم دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں سے سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں؟اجتماعی طور پر ہم کیوں بضد ہیں کہ وہی کام کریں گے جو ہمارے مسائل میں مزید اضافہ کرنے کا سبب بنے گا۔اس سوچ اور فکر کی وجہ سے سفید پوش لوگ حکومتی منصوبوں سے استفادہ حاصل کرنے کے لیے بھی تیارنہیں ہوتے۔بنیادی طور پر سیاسی جماعتوں کی قیادت کے پاس کوئی ایسا حکمرانی یا گورننس کا ماڈل نہیں ہے جس کو وہ عوام اور دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔

سیاسی جماعتوں کا کام اس پر بہت کمزور ہے بلکہ سول سوسائٹی کے بحث و مباحثہ میں بھی یہ موضوعات کم دیکھنے کو ملتے ہیں ۔میڈیا بھی مسائل کی نشاندہی تو ضرور کرتا ہے لیکن وہ اس بات کو نظر انداز کر رہا ہے کہ اصل وجوہات کیا ہیں۔ ہم گورننس کے نظام کوموثر نہیں بنا پارہے تو اس میں ہماری اپنی خامیاں کیا ہیں؟ انسانی ترقی یا انسانوں پر خرچ کرنے کی سوچ بہت کمزور نظر آتی ہے۔

عام آدمی کو ترقی کے نام پر خیراتی سوچ اور فکر کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے اور ایسے لگتا ہے جیسے ہم ان کی ترقی سے زیادہ ان کو بھکاری بنانا چاہتے ہیں۔ جب تک افرادکی ذاتی ترقی اور ریاست کے اختیارات کے درمیان توازن پیدا نہیں ہوگا ، اچھی حکمرانی کے تصور کو ممکن نہیں بنایا جاسکتا۔

یہ جو ہم نے عالمی سطح پر مختلف نوعیت کے معاہدے کیے ہوئے ہیں جس کا مقصد عام لوگوں کی ترقی ہے، وہ بھی اس وقت تک ممکن نہیں ہوگااگر ہم نے اپنی ترجیحات میں ایک مضبوط اور خود مختار مقامی حکومتوں کی اہمیت کو تسلیم نہیں کریں گے۔عورتیں، بچیاں، نوجوان، مزدور، کسان، اقلیتیں اور خواجہ سرا جو کمزور طبقات ہیں، ان کے مسائل پر توجہ نہ دینا بھی بری حکمرانی کے زمرے میں آتا ہے۔

اصل مسئلہ مرض کی درست تشخیص کا ہے، مرض کچھ اور ہے اور ہم اس کا علاج کچھ اور طریقے سے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔یہ بات سمجھنی ہوگی کہ صوبائی خود مختاری بھی اس وقت تک ممکن نہیں ہوتی جب تک اضلاع کو خود مختار نہیں کیا جاتا۔ہمارے جیسے ملکوں میں سیاسی اور سماجی سطح پر ایسی کوئی بھی تحریکیں نہیں ہیں جو حکمرانی کے نظام میں شفافیت کے سوالات اٹھائیں یا حکمرانوں کو مجبور کریں کہ وہ اپنی سمت درست کریں۔

ایک رد عمل کی سیاست ہے اور اسی رد عمل کے اندر ہی ہم حکمرانی کے نظام کو چلانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر ہماری ہر کوشش بے نتیجہ ثابت ہو رہی ہے۔

یہ جو ہم پاکستان میں سیاسی ،معاشی استحکام اور ادارہ جاتی توازن کی بات کر رہے ہیں، یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم حکمرانی سے جڑے مسائل کو اپنی سیاسی ترجیحات کا حصہ بنائیں۔ہمیں اپنی موجودہ ترجیحات کو بدلنا ہے اور اس میں بنیادی نوعیت کی تبد یلی کو تبدیلیوں کو لے کر آنا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی سیاسی اشرافیہ یا طاقت کے مراکز اپنی طاقت اپنی طاقت چھوڑنے کے لیے تیار ہیں اور عام آدمی کو خود مختار بنانا چاہتے ہیں۔یہ وہ سوال ہے جو ہمارے ریاستی حکومتی اور سیاسی نظام کے دائرہ کار کے گرد گھوم رہاہے اور یہ عمل سنجیدگی کی بحث کا تقاضہ کرتا ہے۔

 پراپیگنڈا مہم کی بنیاد پر ترقی کا ماڈل کچھ وقت کے لیے تو لوگوں پر اپنا اثر چھوڑتا ہے مگر طویل مدت کے لیے اس میں لوگوں کے لیے کوئی اچھائی کا پہلو نہیں ہے۔لوگوں کو لگتا ہے کہ ان کو بے وقوف بنایا گیا ہے اور سیاست کا نام ہی بے وقوف بنانا ہے۔

اچھی حکمرانی کا تصور سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں کے اپنے اندر اصلاحات سے جڑا ہوا ہے۔محض حکمرانی کے نظام میں نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کے داخلی نظام میں جب تک اصلاحات نہیں ہوں گی اس وقت تک ہم بڑی تبدیلی کا عمل بھی نہیں دیکھ سکیں گے۔

اس وقت سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھنا ہوگا اگر وہ اس نظام میں اپنی سیاسی بقا چاہتی ہیں تو ان کو گورننس کے نظام میں خودکو ایک بہتر ماڈل کے طور پر پیش کریں۔فرسودہ طور طریقے اور پرانے خیالات کے ساتھ وہ اب نئی نسل کو سیاست میں آپ نہ تو متاثر کرسکتے ہیں اور نہ ہی اپنے قریب لاسکتے ہیں۔

ماضی میں ہم نے حکومتی سطح پر گورننس کے نظام میں اصلاحات کے لیے کئی کمیشن بنائے اور ان کمیشنوں کی تجاویز پرمبنی کئی رپورٹس بھی منظر عام آئیںمگر کمزورسیاسی کمٹمنٹ، کمزور سیاسی نظام اور مخلوط حکومتیں اور درست سیاسی ترجیحات کا تعین سمیت مربوط منصوبہ بندی اوروسائل کی بہتر منصفانہ تقسیم،محاذآرائی یا سیاسی نظام کے عدم تسلسل نے وہ کچھ نہیں کیا جو اس ملک میں ہونا چاہیے تھا۔

پاکستان کو گورننس کے نظام میں بہتری کے لیے مضبوط سیاسی نظام اور ایسی حکومتیں درکار ہیںجوبڑے فیصلے کرسکیں کیونکہ کمزور اور اتحادیوں پرکھڑی حکومتیںبڑے فیصلے خود کرنے سے قاصر ہوتی ہیں اور آسانی سے سمجھوتوں کی سیاست کا شکار ہوتی ہیں۔

گورننس کے نظام میں ہماری ترجیحات میں بیوروکریسی اور پولیس،تعلیم، صحت ،انصاف،سماجی اور معاشی تحفظ،عام آدمی کی اداروں تک رسائی،شفافیت، جوابدہی ،احتساب اور کمزور طبقات کی ترقی کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہوگا۔گورننس کی خرابی کے ان غیر معمولی حالات میں غیرمعمولی اقدامات درکار ہیں۔

یہ جو شاہانہ اخراجات یاعیاشی پر مبنی نظام ہے، اس میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔پاکستان کا موجودہ انتظامی اور ادارہ جاتی ڈھانچہ کم ہونا چاہیے اور 18ویں ترمیم کے بعد وفاق میں وزارتوں کا بوجھ کم اورغیر ضروری وزارتوں کا خاتمہ،پہلے سے موجود اداروں کے مقابلے میں نئے اداروں کی تشکیل سمیت بڑے ترقیاتی منصوبوں کی پارلیمنٹ سے منظوری،چھوٹے اور دیہی ترقی کا جامع منصوبہ بندی،نئی نسل کے لیے روزگار پیدا کرنا اور بالخصوص ڈیجیٹل گورننس کے مسائل کا حل ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔

آج کی گلوبل دنیا میں گورننس کی بنیاد پر ملکوں کی ترقی کی درجہ بندی کی جاتی ہے اور اسی بنیاد پر ہماری گورننس پربھی اعتراضات سامنے آتے ہیں یاہماری درجہ میں کمی دکھائی جاتی ہے۔یاد رکھیں گورننس سے مراد ایک ایسا نظام جو شفافیت کی بنیاد پر لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرے اور ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے یا اس کی ریاستی نظام میں سیاسی،سماجی اور معاشی حیثیت کو مضبوط بنائے۔

یہ عمل ایک مکمل سیاسی اور جمہوری نظام کا پیکیج ہے جہاں سیاست،جمہوریت اور گورننس کے معاملات میں بہتری پیدا ہوتی ہے اور ترقی کے نئے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔گورننس کا بہتر نظام لوگوں کو مچھلیاں کھلانا نہیں بلکہ پکڑنا سکھاتا ہے تاکہ لوگ خود اپنے قدموں پر کھڑے ہوسکیں۔

اگر پاکستان میں سب ریاستی یا حکومتی ادارے اپنے اپنے سیاسی، قانونی اور انتظامی ڈھانچوں میں کام کرنا شروع کردیں تو ہم گورننس کے نظام میں بہتری کی طرف پیش رفت کو ممکن بناسکتے ہیں۔اگرچہ یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔اصل مسئلہ جدید طرز کی حکمرانی اور دنیا کے بہتر تجربات سے خود کو جوڑنا ہے یا دنیا کے تجربات سے سیکھ کر اپنی اصلاح کرنا ہے۔گورننس کے موجودہ نظام کے مقابلے میںاب ایک نیا نظام ہماری ضرورت بن گیا ہے اور جتنی جلدی ہم اجتماعی طور پر یہ با ت سمجھ سکیں ہمارے حق میں بہتر ہوگا۔

لیکن اگر ہم یہ سب کچھ نہیں کرتے تو پرانے نظام کی سیاسی ضد گورننس کے نظام میں مزید خرابیوں کو جنم دے گی۔یہ سب کچھ اس لیے ہوگا کہ ہماری ریاست ، سیاسی اشرافیہ اور حکمران طبقات کسی بڑی تبدیلی کے لیے تیار نہیں اور اس کی بھاری قیمت ریاست عوام سمیت کمزور طبقات کو ادا کرنا پڑرہی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: گورننس کے نظام میں سیاسی جماعتوں حکمرانی کے سیاسی نظام ممکن نہیں بنیاد پر میں بہتر ہیں اور کی ترقی کے لیے ہے اور اور اس

پڑھیں:

میں نے کچھ غلط نہیں کیا’ سیریز ایڈولینس پر ایک مختلف نقطہ نظر‘

’میں نے کچھ غلط نہیں کیا‘ یہ وہ جملہ ہے جو حال ہی میں ریلیز ہونے والی برطانوی منی سیریز Adolescence (ایڈولینس) میں ایک تیرہ سالہ بچہ بارہا دہراتا ہے، جو اپنی ہی کلاس فیلو کو سفاکی سے قتل کر دیتا ہے، یہی جملہ میرے لیے اس تحریر کا نقطہ آغاز بنا، کیونکہ یہ جملہ صرف ایک بچے کے دفاع کا بیان نہیں بلکہ ایک پورے ذہنی، سماجی اور خاندانی بحران کی عکاسی کرتا ہے۔

ایڈولینس یعنی بلوغت، یہی وہ عمر ہے جہاں شخصیت کی بنیاد رکھی جاتی ہے، یہ دور کسی بھی انسان کی زندگی کی سب سے نازک، پیچیدہ اور فیصلہ کن منزل ہوتا ہے۔ تربیت میں جو کمی یا زیادتی اس عمر میں ہو، اس کا اثر باقی زندگی پر لازمی طور پر پڑتا ہے، اس عمر میں بچوں کا ذہن ایک خالی کینوس کی مانند ہوتا ہے، جہاں یا تو رنگ بھرے جاتے ہیں یا دھندلا دھواں۔ سیریز کے پہلے سین اور پہلے ہی مکالمے نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا اور پلک جھپکتے میں میں 2000 کے انگلینڈ، کاؤنٹی یارکشائر کے شہر لیڈز پہنچ چکی تھی، جہاں میں اپنی فیملی کے ساتھ کئی برس مقیم رہی ہوں۔

یارکشائر کے اس مخصوص لہجے کو سمجھنے میں مجھے تب کئی ماہ لگے تھے، لیکن یہ سیریز دیکھتے ہوئے ہر لفظ بغیر سب ٹائٹل کے میرے اندر اترتا چلا گیا، یہ سیریز دراصل اداکار اسٹیفن گراہم کا ’برین چائلڈ‘ ہے، جس میں انہوں نے ہدایتکاری، کاسٹنگ اور پیشکش میں کئی تخلیقی تجربات کیے، خاص طور سے تمام کاسٹ غیرمانوس اداکاروں پر مشتمل رکھی گئی جبکہ سیریز میں یارکشائر کے عام گھرانوں کا ماحول، طرز رہائش اور بول چال من وعن دکھائی گئی ہے، فلم کے کئی سین اور مکالمے فی البدیہہ تھے اور ہر قسط ایک سنگل شاٹ میں فلمائی گئی تھی، لیکن یہ تمام فنی کامیابیاں اپنی جگہ مگر میری گفتگو کا محور اس سیریز کی فنی جہتیں نہیں بلکہ اس کا وہ سماجی و نفسیاتی پس منظر ہے جسے یہ سیریز بے مثال انداز میں پیش کرتی ہے۔

جیسا کہ آج کے دور میں سوشل میڈیا کے بے لگام استعمال، نامناسب تبصروں اور توہین آمیز ایموجیز کو نئی نسل کی بگاڑ کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے تو کسی حد تک یہ بات درست ہے کیونکہ سوشل میڈیا نے پوری دنیا کے معاشروں پر جو اثرات مرتب کیے ہیں ان سے انکار ممکن نہیں۔

مگر آئیے، میں آپ کو 2002 کے انگلستان کا منظر دکھاتی ہوں، ایک ایسا وقت جب انسٹاگرام، فیس بک، ٹوئٹر، واٹس ایپ تو دور کی بات، اسمارٹ فونز کا بھی کوئی وجود نہیں تھا۔

اس زمانے میں جب میں پہلی بار سٹی آف لیڈز اسکول گئی جو ساتویں سے دسویں جماعت تک کا ایک وسیع و عریض تعلیمی ادارہ تھا، جدید سہولیات سے آراستہ، جہاں اساتذہ و طلبہ کے لیے ہر ممکن آسائش موجود تھی، لیکن میں نے اپنی آنکھوں سے وہاں کے طلبہ کا جو طرزِ عمل دیکھا، وہ ایڈولینس کی دوسری قسط میں اسکول کے مناظر میں دکھائی گئی ’طوفانِ بدتمیزی‘ کا عشر عشیر بھی نہیں تھا۔

جب سیریز میں پولیس کے دونوں اہلکار اسکول کے باہر کھڑے ہو کر دل گرفتہ لہجے میں گفتگو کرتے ہیں، تو ان کا ہر جملہ کڑوی سچائی کو آشکار کرتا ہے، ان مناظر کو دیکھ کر مجھے وہاں پیش آنے والے اپنے تجربات اور اس معاشرے کی تہہ در تہہ پیچیدگیاں شدت سے یاد آئیں۔

سیریز کا ایک اہم پہلو والدین اور اولاد کے درمیان فاصلہ اور خالی پن ہے، مغربی معاشروں میں بچوں پر ہونے والے پرانے تشدد کے خلاف قوانین تو ضرور بنائے گئے، لیکن ان قوانین کے نفاذ نے بچوں کی خودمختاری کو اس حد تک بڑھا دیا کہ اب والدین بے بس اور بےاثر ہو چکے ہیں، برطانیہ میں وقت کے ساتھ ’چائلڈ پروٹیکشن‘ کے قوانین اتنے سخت ہوگئے ہیں کہ معمولی ڈانٹ ڈپٹ بھی ’ابیوز‘ کے زمرے میں شمار کی جانے لگی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بچوں میں ضبط، ہمدردی اور خوداحتسابی جیسی صلاحیتیں ناپید ہوتی چلی گئیں۔ میں نے یہ خالی پن اپنی آنکھوں سے برطانیہ کے اسکولوں میں محسوس کیا تھا، جہاں سہولتیں تو جدید تھیں، مگر طلبہ کا رویہ بدتمیزی اور تشدد کی حد تک بے قابو تھا۔

سیریز میں کئی مناظر ایسے ہیں جو نہ صرف ایک تیرہ سالہ بچے کی نفسیاتی الجھنوں کو بے نقاب کرتے ہیں بلکہ مردانگی کے طاقتور مگر زہریلے اظہار کو بھی نہایت خوبی سے دکھاتے ہیں۔ خاص طور پر جیمی اور اس کی سائیکاٹرسٹ کے درمیان ہونے والی گفتگو کے مناظر نہایت متاثر کن ہیں، جہاں یہ واضح ہوتا ہے کہ بچے میں سوسیوپیتھ جیسے رجحانات موجود ہیں۔

اکثر لوگ سوسیوپیتھ اور سائیکوپیتھ کو ایک ہی سمجھتے ہیں، حالانکہ دونوں کا تعلق اگرچہ Antisocial Personality Disorder (ASPD) سے ہوتا ہے، لیکن ان کی علامات، وجوہات اور طرزِ عمل میں نمایاں فرق ہے۔ سوسیوپیتھ اکثر اپنے ماحولیاتی پس منظر جیسے گھریلو تشدد، والدین کی عدم موجودگی یا مسلسل تنقید کے نتیجے میں ایسے رویے اپناتے ہیں، جبکہ سائیکوپیتھ عموماً پیدائشی طور پر جذباتی طور پر سرد اور بے حس ہوتے ہیں۔ جیمی کی شخصیت میں ماحولیاتی عنصر کی جھلک نمایاں ہے، ایک مصروف گھریلو نظام، والدین کی عدم توجہی اور ایک بےبس معاشرہ۔

سیریز میں سماج کا سب سے خطرناک پہلو ’مردانگی کا پاور شو اور مردانہ مائنڈ سیٹ‘ کو بھی بڑی خوبی سے اجاگر کیا گیا ہے جو ہمارے جیسے معاشروں میں تو معمول کی بات سمجھا جاتا ہے لیکن اب یہ صرف جنوبی ایشیا یا مشرقی دنیا کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ رویہ اب مغربی معاشروں میں بھی واضح طور پر نظر آنے لگا ہے۔ ہم پاکستان یا انڈیا میں عورتوں پر ہونے والے تشدد یا اجتماعی ریپ جیسے واقعات پر ماتم کناں ہیں، مگر برطانیہ جیسے آزاد خیال معاشرے کے نوعمر لڑکوں کے ذہنی سانچے بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔

سیریز میں جیمی اپنی کلاس فیلو کیٹی کو اس لیے قتل کرتا ہے کیونکہ وہ اس سے تعلق قائم نہیں کرتی، جبکہ وہ اپنی تصاویر کسی اور کو بھیج دیتی ہے، یہ مائنڈ سیٹ دراصل وہی ہے جو نور مقدم کے بہیمانہ قتل کے پیچھے کارفرما تھا، عورت کا انکار، مرد کی انا کو چیلنج دیتا ہے اور پھر اس انا کی تسکین کے لیے طاقت کا اظہار کیا جاتا ہے، جس میں ریپ اور قتل جیسے جرائم بھی شامل ہوتے ہیں۔

اسکول میں پولیس اہلکاروں کی کیٹی کی قریبی دوست جیڈ سے بات چیت کا سین بھی قابل توجہ ہے جس میں بظاہر مرد پولیس اہلکار کیٹی کی لڑکوں سے دوستی کے بارے میں سوال کرتا ہے جس پر جیڈ غصے سے پوچھتی ہے کہ کیا اس برتے پر قتل کیا جاسکتا ہے؟ نور مقدم کے لیے ایسے نامناسب جملے یقیناً سب کو ہی یاد ہوں گے جو اس کے بہیمانہ قتل کو جواز مہیا کرتے تھے، مائنڈ سیٹ اسی کو کہتے ہیں۔

سیریز میں Incel کی ایک جدید اصطلاح بھی استعمال کی گئی، جو انٹرنیٹ کلچر سے ابھری ہے یعنی Involuntarily Celibate وہ شخص جو نہ چاہتے ہوئے بھی جنسی یا رومانوی تعلق سے محروم رہتا ہے، ایسے افراد اکثر عورتوں، معاشرے یا کامیاب مردوں کو اپنی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اصطلاح 1990 کی دہائی میں ایک خاتون نے ہمدردانہ فورم کے طور پر متعارف کروائی تھی، لیکن آج یہ عورت دشمن اور مخالف کمیونٹیز میں تبدیل ہو چکی ہے۔

اسی ذہنیت کو مزید ہوا دی سوشل میڈیا انفلوئنسر اینڈریو ٹیٹ نے، جس نے عورت کو مرد کی ملکیت قرار دینے جیسے کئی متنازع بیانات دیے اور 20/80 جیسے تصورات کو فروغ دیا، یعنی 80 فیصد عورتیں صرف 20 فیصد مردوں میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ ایسے نظریات اب مغرب میں کئی پوڈ کاسٹ میزبانوں اور انفلوئنسرز کے ذریعے عام ہو رہے ہیں، اور نوعمر لڑکے ان خیالات سے متاثر ہورہے ہیں، یہ زہر محض سوشل میڈیا تک محدود نہیں بلکہ کلاس رومز، گھروں اور عدالتوں تک سرایت کر چکا ہے۔

سیریز ایڈولینس میں جیمی کا یہ جملہ ’میں نے کچھ غلط نہیں کیا‘ ایک فرد کی نہیں، ایک نظام کی گواہی ہے، یہ صرف ایک بچہ نہیں کہہ رہا یہ دراصل ایک پورے سماجی اور ذہنی ڈھانچے کی سوچ ہے۔ ایک ایسا نظام جو بچے، مرد اور عورت تینوں کو اذیت میں رکھتا ہے۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ یہ ذہنیت، یہ مردانگی کا زہر، یہ احساسِ محرومی اور برتری کا ملاپ کب، کہاں اور کیسے پیدا ہوتا ہے؟ اور اسے روکنے کے لیے ہمیں تربیت، مکالمہ، خاندانی نظام اور نظامِ انصاف میں کن گہرائیوں تک اتر کر تبدیلی لانی ہوگی؟

اس سیریز کو محض ایک کرائم ڈرامہ نہ سمجھیے، یہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم سب کے چہرے نظر آ رہے ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

wenews ایشیا خاندانی نظام سیریز ایڈولینس صنوبر ناظر ظاہر جعفر عورت مرد معاشرہ مغرب نقطہ نظر نور مقدم قتل وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • جے یو آئی کسی سیاسی اتحاد کا حصہ نہیں بنے گی، حافظ حمداللّٰہ
  •  قانون کی حکمرانی ہوتی تو ہمارے رہنما جیل میں نہ ہوتے :  عمرایوب
  • نظام کی بہتری کے لیے 26 ویں ترمیم کی گئی، ضرورت ہوئی تو مزید قانون سازی کریں گے، وزیر قانون
  • قانون کی حکمرانی، مالی استحکام، امن ناپید ہو تو ترقی کے دعوے جھوٹے ثابت ہوجاتے ہیں، عمر ایوب
  • اقبال کے نظریات کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں اپنائیں ؛ وزیر اعظم شہباز شریف
  • پی پی پی کا پنجاب میں مسلم لیگ (ن) سے پانی، ترقیاتی فنڈز اور گورننس پر تحفظات کا اظہار
  • میں نے کچھ غلط نہیں کیا’ سیریز ایڈولینس پر ایک مختلف نقطہ نظر‘
  • پیچیدہ ٹیکس نظام،رشوت خوری رسمی معیشت کے پھیلاؤ میں رکاوٹ
  • گورننس سسٹم کی خامیاں
  • جمہوریت کی مخالفت کیوں؟