چئیرمین پبلک اکاونٹس کمیٹی کا توشہ خانہ کا 5 دہائیوں کا ریکارڈ پبلک کرنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 25 جنوری2025ء) چئیرمین پبلک اکاونٹس کمیٹی کا توشہ خانہ کا 5 دہائیوں کا ریکارڈ پبلک کرنے کا فیصلہ ۔ تفصیلات کے مطابق ایک سال کے عرصے کے التوا کے بعد قومی اسمبلی کی پبلک اکاونٹس کمیٹی کی سربراہی حاصل کرنے والے جنید اکبر نے اہم اعلان کیا ہے۔ تحریک انصاف کے ایم این اے اور پبلک اکاونٹس کمیٹی کے چئیرمین جنید اکبر نے توشہ خانہ کا 5 دہائیوں کا ریکارڈ پبلک کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ توشہ خانہ کا 50 سال کا ریکارڈ نکالوں گا اور قوم کے سامنے لاؤں گا کہ کس نے کیا لیا ہے۔
واضح رہے کہ تلخ تعلقات اور حالیہ مذاکرات کے قبل از وقت اختتام کے باوجود قومی اسمبلی میں پبلک اکاونٹس کمیٹی کی سربراہی کیلئے مسلم لیگ ن کی اتحادی حکومت اور تحریک انصاف کی اپوزیشن کے درمیان غیر متوقع اتفاق طے پا گیا۔(جاری ہے)
حکومت کی جانب سے مسلسل اصرار کے بعد جمعہ کے روز بالآخر تحریک انصاف کی جانب سے پبلک اکاونٹس کمیٹی کے چئیرمین کیلئے 5 ناموں کی فہرست بھجوائی گئی۔
فہرست میں عمر ایوب خان، جنید اکبر، عادل بازئی، عامر ڈوگر کے نام شامل تھے۔ فہرست بھجوانے کے چند ہی گھنٹوں کے بعد حکومت اور اپوزیشن کی اتفاق رائے سے پاکستان تحریک انصاف کے جنید اکبر خان کو قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین منتخب کر لیا گیا۔ جمعہ کے روز پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس اسپیشل سیکریٹری محمد مشتاق کی زیر صدارت ہوا جہاں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، قائد حزب اختلاف عمر ایوب اور شبلی فرازنے پاکستان تحریک انصاف کے جنید اکبر کا نام چیئرمین کے لیے تجویز کیا۔ مسلم لیگ ن کے سینیٹر افنان اللہ خان اور قاسم نون نے بھی جنید اکبر کے نام کی تائید کی۔ پی ٹی آئی کے ریاض فتیانہ اور مسلم لیگ ن کے تمام اراکین پبلک اکاونٹس کمیٹی نے بھی جنید اکبر کے نام کی تائید کی، جس کے بعد جنید اکبرخان کو بلا مقابلہ چیئرمین پی اے سی منتخب کیا گیا۔ پبلک اکاونٹس کمیٹی کا چیئرمین منتخب ہونے کے بعد جنید اکبر خان نے کہا کہ تمام اراکین کا شکر گزار ہوں، ہماری خواہش تھی شیخ وقاص اکرم چیئرمین پبلک اکاونٹس کمیٹی بنیں۔ جنید اکبر خان نے کہا کہ میں حکومت اور پارٹی کا شکر گزار ہوں، میں کوشش کروں گا کہ اچھے سے ذمہ داری نبھاؤں، میرے لیے یہ نئی چیز ہے، سارے سینئر لوگ ہیں، ہم ان سے سیکھیں گے، ساتھی اراکین کے ساتھ بہتر انداز میں ذمہ داریاں نبھانے کی کوشش کروں گا۔ جو ذمہ داری میرے قائد نے دی اسے اچھے طریقے سے نبھاؤں گا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پبلک اکاونٹس کمیٹی توشہ خانہ کا 5 تحریک انصاف مسلم لیگ ن کا ریکارڈ جنید اکبر کمیٹی کا کے بعد
پڑھیں:
تحریک انصاف اپنے بنیادی مطالبات سے پیچھے ہٹ چکی، نامور صحافی کا انکشاف
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن ) نامور صحافی انصار عباسی نے اپنے بلاگ میں لکھاہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) گزشتہ ایک سال کے دوران نئے عام انتخابات، حکومت کی تبدیلی اور 2024 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی مکمل تحقیقات کے اپنے بنیادی مطالبات سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔
نجی ٹی وی جیونیوز کے مطابق اب پارٹی کی مکمل توجہ جیل میں قید پارٹی قیادت بشمول سابق وزیر اعظم عمران خان کیلئے ریلیف کے حصول اور مخالفانہ ماحول میں سیاسی مقام کے دوبارہ حصول پر مرکوز ہے۔
پارٹی ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے بیشتر رہنما اب سمجھ چکے ہیں کہ تاریخی لحاظ سے پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والی طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست تصادم فضول ہے۔ پی ٹی آئی کی سینئر شخصیات کے ساتھ پس منظر میں ہونے والی بات چیت سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اعتماد کا گہرا فقدان ٹھیک نہیں ہو سکتا اور پس پردہ کوئی ڈیل ایسی ثابت نہیں ہو سکتی کہ جس سے عمران خان کی اڈیالہ جیل سے رہائی اور اقتدار کے ایوانوں میں دوبارہ واپسی کو ممکن بنایا جا سکے۔
پارٹی کی ایک سینئر شخصیت نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس بات کا اعتراف کیا کہ فی الوقت ہمارے لئے سب سے بہتر چیز یہ ہو سکتی ہے کہ اقتدار میں واپسی کے بجائے سیاسی بقاءکی حکمت عملی اختیار کی جائے تاکہ پارٹی کو سانس لینے کا موقع مل سکے اور 2028ء میں منصفانہ الیکشن ملے۔ پارٹی اب سمجھتی ہے کہ موجودہ ”ہائبرڈ سسٹم” (ایک اصطلاح جو اکثر اسٹیبلشمنٹ کے زیر تسلط سیاسی فریم ورک کو بیان کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے) جاری رہے گا۔ یہ نظام ختم کرنے یا اسے کمزور کرنے کی پی ٹی آئی کی کوششیں ناکام رہی ہیں جس کیلئے پارٹی عوامی تحریکیں، عدالتی دباﺅ یا بین الاقوامی برادری سے اپیلوں
کا راستہ اختیار کر چکی ہے۔
پارٹی کا اپنا تجزیہ یہ ہے کہ عدلیہ اپنی غیر جانبداری کھو چکی ہے جبکہ غیر ملکی حکومتوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ملک کے کئی حصوں میں خاص طور پر نوجوانوں اور شہری متوسط طبقے میں پی ٹی آئی کی مقبولیت زیادہ ہے۔ تاہم پارٹی رہنما مانتے ہیں کہ اس عوامی حمایت سے سیاسی فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکا کیونکہ یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ فوج کے ساتھ براہِ راست تصادم کی پالیسی غلط رہی۔ پارٹی کی صفوں میں ایک پریشان کن سوال جنم لے رہا ہے کہ اگر کوئی سمجھوتا ہوا بھی تو کیا اسٹیبلشمنٹ عمران خان پر دوبارہ بھروسہ کرے گی؟ اس کے ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ عمران خان کے بغیر پی ٹی آئی سیاسی لحاظ سے ناقابل تصور ہے۔پی ٹی آئی کیلئے پریشان کن بات یہ ہے کہ مفاہمت کی خواہشات کے باوجود پارٹی کے بانی چیئرمین نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے کیلئے پارٹی سوشل میڈیا کو بیان بازی میں نرمی لانے یا حکمت عملی تبدیل کرنے کیلئے نہیں کہا۔ اس کے برعکس، پارٹی سوشل میڈیا کا بیانیہ سخت تنقید پر مبنی ہے جس سے حالات مزید خراب ہوتے ہیں۔
آئندہ کے حوالے سے پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کو ایک عملی نقطہ نظر اختیار کرنا چاہئے، اپنے قیدی رہنماو¿ں کیلئے قلیل مدتی ریلیف حاصل کرنا، نچلی سطح پر دوبارہ منظم ہونا اور آئندہ عام انتخابات کیلئے تیاری شروع کرنا۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ پارٹی اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے تصادم کے بجائے بقائے باہمی کا راستہ چنتی ہے یا نہیں۔
لاہور سمیت ملک بھر میں زلزلے کے شدید جھٹکے
مزید :