Jasarat News:
2025-12-13@23:16:11 GMT

عوامی لیگ پر انتخابات کے دروازے بند کیے جانے کا امکان

اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT

عوامی لیگ پر انتخابات کے دروازے بند کیے جانے کا امکان

بنگلا دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس کے معاونِ خصوصی نے کہا ہے کہ عوامی لیگ کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ اس حوالے سے جو بھی فیصلہ ہوگا وہ قانون کے مطابق ہوگا۔ عوامی لیگ نے ملک کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اُس کا بھرپور جائزہ لے کر قانونی اقدامات کے حوالے سے تیاریاں جاری ہیں۔

کچھ دن قبل بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل مرزا فخرالاسلام عالمگیر نے کہا تھا کہ بنگلا دیش کی عبوری حکومت اصلاحات کا جو ایجنڈا لے کر چل رہی ہے اُس کی تکمیل میں تو دس سال لگ سکتے ہیں اور ملک کو اِتنی طویل مدت تک غیر منتخب انتظامیہ کے تحت نہیں چلایا جاسکتا۔

ڈاکٹر یونس کے معاونِ خصوصی اور امتیازی کوٹے کے خلاف چلائی جانے والی تحریک میں کلیدی کردار ادا کرنے والے محفوظ عالم کا کہنا ہے کہ بنگلا دیش میں ہونے والا انتخابات میں صرف وہ جماعتیں حصہ لے سکیں گی جو بنگلا دیش کی حامی ہیں اور اُس سے محبت کا اظہار بھی کرتی ہیں۔

ملک کے وسطی ضلع چاندپور میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے فخرالاسلام نے کہا کہ سابق وزیرِاعظم بیگم خالدہ ضیا کی بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی، جماعتِ اسلامی اور دیگر محبِ وطن جماعتیں ہی انتخابات میں حصہ لے کر ایسی حکومت بناسکتی ہیں جو ملک کو امن، ترقی اور استحکام کی راہ پر ڈالے۔ ملک کو شفاف انتخابات کی ضرورت ہے۔ عوامی لیگ انتخابات میں دھاندلی کی تاریخ رکھتی ہے۔ اب اُسے ایسا کرنے کا موقع نہیں دیا جاسکتا۔

فخرالاسلام نے، جو کوئی قلم دان نہ رکھنے کے باوجود بنگلا دیش کی عبوری انتظامیہ میں وزیر کا منصب رکھتے ہیں، کہا کہ عوامی لیگ کی بحالی اب کسی بھی صورت برداشت نہیں کی جاسکتی۔ کم از کم طے شدہ اصلاحات کے واقع ہونے اور تباہ حال ریاستی اداروں کی معقول حد تک بحالی کے بغیر انتخابات نہیں کرائے جاسکتے۔

فخرالاسلام کو بنیادی طور پر ڈاکٹر یونس کے معاونِ خصوصی کے طور پر کابینہ میں لیا گیا تھا اور بعد میں انہوں نے مشیر کی حیثیت سے کام شروع کردیا تھا۔ گزشتہ برس اقوامِ متحدہ میں ایک تقریب کے دوران بنگلا دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر یونس نے فخرالاسلام کا تعارف کراتے ہوئے انہیں شیخ حسینہ کی حکومت کا تختہ الٹنے والی طلبہ تحریک کا ذہن، منصوبہ ساز اور روحِ رواں قرار دیا تھا۔

5 اگست 2024 کے بعد سے عوامی لیگ بنگلا دیش کے سیاسی منظرنامے سے غائب ہے۔ عوامی لیگ کے خلاف عوامی سطح پر اس قدر احتجاج کیا گیا تھا کہ شیخ حسینہ کی معزولی کے بعد پارٹی کے رہنما کھل کر کچھ کہنے اور کام کرنے کی ہمت اپنے اندر اب تک پیدا نہیں کرسکے ہیں۔

شیخ حسینہ اور اُن کے قریبی لوگوں کو قتل سمیت سنگین جرائم کے متعدد مقدمات کا سامنا ہے۔ ان مقدمات کا فیصلہ ہونے تک بنگلا دیش میں حقیقی امن و استحکام بہت دور کی منزل دکھائی دیتا ہے۔

بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کیے جانے کے حق میں نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ پارٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ کم از کم اصلاحات نافذ کرنے کی صورت ہی میں انتخابات کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: بنگلا دیش کی عبوری انتخابات میں عوامی لیگ

پڑھیں:

مذاکرات کے دروازے بند پی ٹی آئی کے دھرنے پر پولیس کا دھاوا،حکومت کا عمران خان کواڈیالہ سے منتقل کرنے پر غور

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251211-01-25
راولپنڈی، اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) مذاکرات کے دروازے بند، پی ٹی آئی کے دھرنے پر پولیس کا دھاوا۔حکومت کا عمران خان کواڈیالہ سے منتقل کرنے پر غور۔تفصیلات کے مطابق راولپنڈی پولیس کی جانب سے گزشتہ روز رات گئے واٹر کینن کے استعمال کے بعد اڈیالہ جیل کے باہر موجود سابق وزیر اعظم عمران خان کی بہنوں اور تحریک انصاف کے کارکنوں نے اپنا احتجاجی دھرنا ختم کر دیا ہے۔منگل کی دوپہر علیمہ خان، نورین خان اور عظمیٰ خان اور پارٹی رہنما و کارکن سابق وزیر اعظم سے ملاقات کی غرض سے اڈیالہ جیل کے باہر پہنچے تھے تاہم جیل حکام کی جانب سے ملاقات کی اجازت نہ ملنے پر انھوں نے احتجاج دھرنے کا اعلان کیا تھا۔ رات لگ بھگ ڈھائی بجے تک جاری رہنے والے اس دھرنے میں عمران خان کی بہنوں اور کارکنوں سمیت لگ بھگ 30 افراد موجود تھے۔پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن استعمال کیا جبکہ اس دوران پولیس نے وہاں موجود گاڑیوں کو اپنے قبضے میں لیا اور انھیں تھانہ روات منتقل کیا گیا ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ قبضے میں لی گئی زیادہ تر گاڑیاں سرکاری ہیں اور وہ خیبر پختوانخوا کے مختلف محکموں کی ہیں۔پاکستان تحریک انصاف نے ’ایکس‘ اکاؤنٹ پر اڈیالہ جیل کے باہر پولیس کے کریک ڈؤان کی ویڈیوز جاری کی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس رات کے اندھیرے میں واٹر کینن کی مدد سے شرکا پر پانی پھینک رہی ہیں اور خواتین سمیت احتجاج میں شامل افراد اس پر احتجاج کرتے ہوئے دھرنے کے مقام سے واپس جا رہے ہیں۔موقع پر موجود ایک مقامی صحافی اور ایک پولیس اہلکار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مظاہرین کے خلاف واٹر کینن کے استعمال کی تصدیق کی ہے۔تحریک انصاف نے اس عمل کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتی احکامات کے باوجود عمران خان کے اہلخانے کو اْن سے ملاقات نہیں کرنے دی گئی اسی لیے اڈیالہ جیل کے باہر دھرنا دیا جا رہا تھا۔پی ٹی آئی نے اپنے بیان میں کہا کہ رات دیر گئے تک دھرنا جاری تھا جب شدید سرد موسم میں اچانک واٹر کینن سے اْن (مظاہرین) پر پانی پھینکا گیا، اس سے قطع نظر کہ اس احتجاج میں خواتین بھی شامل تھیں۔ذرائع نے بتایا کہ سابق سینیٹر مشتاق بھی بانی پی ٹی آئی کی بہنوں سے اظہاریکجہتی کے لیے فیکٹری ناکے پر پہنچے تھے جو پولیس کی جانب سے استعمال کییجانے والے واٹرکینن کی زد میں آ گئے۔ذرائع نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے پولیس پرپتھراؤ کیا۔ پولیس نے متعدد کارکنوں کو حراست میں لے لیا۔علیمہ خان کا کہنا تھا کہ ملاقات کی اجازت عرصے سے نہیں دی جارہی، میری بہن نے گزشتہ ملاقات پر کوئی سیاسی گفتگو نہیں کی، بانی پی ٹی آئی کو کس کے احکامات پر قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔علاوہ ازیں سابق اسپیکر ، مرکزی رہنماء پی ٹی آئی اسد قیصر نے کہا ہے کہ عمران خان کی بہنوں اور ہمارے ارکان کی بے توقیری کی گئی ان پر شدید سردی میں پانی پھینکا گیا، واقعے کے ذمہ داروں کیخلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو انصاف دیا جائے اور میرٹ پر ان کے کیسز کی سماعت کی جائے۔اڈیالہ جیل کے باہر جو افسوس ناک واقعہ پیش آیا، اس کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔شدید سردی میں پانی پھینکا گیا، عمران خان کی بہنوں اور ہمارے اراکینِ اسمبلی کی بے توقیری کی گئی، اور ہمارے پارلیمانی لیڈر کا پاؤں فریکچر ہوا۔ان شاء اللہ ہم ڈٹے ہوئے ہیں۔ اگر کسی کو لگتا ہے کہ ہم ڈر جائیں گے تو وہ جان لے کہ نہ ڈر ہوگا اور نہ خوف ہوگا۔ رہنماء پی ٹی آئی اسد قیصر نے کہا کہ یہ اپنا اصل چہرہ پوری دنیا کو دکھا رہے ہیں کہ ملک میں نہ کوئی آئین ہے اور نہ قانون، اور نہ ہی کسی کے بنیادی حقوق محفوظ ہیں۔ کل جو کچھ ہوا، ہم اس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ یہ ملک کو انارکی کی طرف لے جا رہے ہیں اور ملک میں بے چینی مزید بڑھا رہے ہیں۔فیصل واڈا غیر سنجیدہ آدمی ہے، میں اس پر زیادہ تبصرہ نہیں کروں گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کے علاوہ پی ٹی آئی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ حکومت جو بھی قدم اٹھانا چاہتی ہے، پی ٹی آئی کے خلاف سو بسم اللہ کرے۔ ہم اپنی قانونی جدوجہد جاری رکھیں گے، حکومت اگر زور لگانا چاہتی ہے تو لگا لے۔دوسری جانب دھرنے کے معاملے پر راولپنڈی پولیس کا بیان سامنے آگیا، پنڈی پولیس نے کہا ہے کہ رات کو نہ تو ملاقات کا وقت ہوتا ہے اور نہ ہی بغیر عدالتی حکم کے کسی کو ملاقات کی اجازت دی جاسکتی ہے۔راولپنڈی پولیس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ راولپنڈی میں دفعہ 144 نافذ ہے جس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا بھی راولپنڈی پولیس کی ذمہ داری ہے، اڈیالہ جیل کا علاقہ حساس اور گنجان آباد ہے جہاں سیکورٹی اور ٹریفک کا نظام بحال رکھنا پولیس کی ذمہ داری ہے۔راولپنڈی پولیس نے سیاسی جماعت کے دھرنے کے دوران توڑ پھوڑ اور پولیس سے مزاحمت کی تمام کوششوں کے باوجود انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا۔پنڈی پولیس کے مطابق گزشتہ شب پولیس کی جانب سے بارہا سمجھانے اور انتہائی تحمل کے باوجود سیاسی جماعت کے ارکان کی جانب سے پولیس پر پتھراؤ اور جلاؤ گھیراؤ کیا گیا جس پر قانون کو اپنا راستہ اختیار کرنا پڑا، شرانگیز سرگرمی اور حملے کی روک تھام کے لیے انتہائی تحمل اور حکمت عملی سے شر پسندوں کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن کا استعمال کرنا پڑا۔پنڈی پولیس نے مزید کہا ہے کہ قانون کی خلاف ورزی کسی صورت قبول نہیں کی جاسکتی، اڈیالہ جیل حساس علاقہ ہے جہاں اس قسم کی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جائے گی۔دوسری جانب وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر برائے اطلاعات و امور خیبر پختونخوا اختیار ولی خان نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور احتجاج کے نام پر فتنہ و فساد پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے، حکومت نے قیدی نمبر 804 (عمران خان) کو اڈیالہ جیل سے منتقل کرنے پر سنجیدگی سے غور شروع کردیا ہے۔اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے اختیار ولی خان نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے تمام دروازے بند ہو چکے ہیں اور ملک میں عشق پاکستان اور عشق عمران میں واضح لکیر کھینچ دی گئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اس فوج پر حملہ آور ہوئی جس نے پوری دنیا میں پاکستان کا سر فخر سے بلند کیا، بانی پی ٹی آئی نے جو ٹویٹ کیا نہ پی ٹی آئی اسے نگل سکتی ہے نہ اگل سکتی ہے۔گورنر راج کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ گورنر راج کو جمہوری قوتیں پسند نہیں کرتیں اور اگر ہم نے گورنر راج لگانا ہوتا تو تب لگاتے جب آپ نے 26 نومبر والا واقعہ کیا تھا۔انہوں نے الزام لگایا کہ پی ٹی آئی لاشوں کی سیاست کرتی ہے، پی ٹی آئی کو خون چاہیے اور ہمیشہ پی ٹی آئی کی جانب سے انتشار اور تشدد کا راستہ اپنایا گیا جبکہ حکومت کبھی بھی تشدد کا راستہ نہیں اختیار کرتی۔انہوں نے غیر ملکی مداخلت کا اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھارت اور اسرائیل سے آپریٹ کیے جا رہے ہیں اور بھارتی میڈیا بانی پی ٹی آئی کی بہنوں کے جھوٹے بیانیے کو بڑھ چڑھ کر پیش کر رہا ہے۔انہوں نے دو ٹوک اعلان کیا کہ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کیلیے تمام دروازے بند ہو چکے ہیں اور ملک میں عشق پاکستان اور عشق عمران میں واضح لکیر کھینچ دی گئی ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ ہم کسی کو غدار یا کسی جماعت پر پابندی لگانے کی بات نہیں کرتے اور اپنے عزم کا اعادہ کیا کہ میرا انتخاب پاکستان ہے، پاکستان ہمیشہ زندہ باد رہے گا۔دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ عمران خان کی کسی دوسری جیل منتقلی کی سازش حکومت کی شکست اور بوکھلاہٹ کی علامت ہے۔ حکومتی ترجمانوں کے عمران خان کو کسی اور جیل منتقلی کے بیانات پر پاکستان تحریک انصاف کا ردعمل آیا ہے۔ اس حوالے سے پارٹی کے مرکزی شعبہ اطلاعات کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اس بات پر شدید تحفظات کا اظہار کرتی ہے کہ وفاقی وزراء کی جانب سے عمران خان کو کسی اور جیل میں منتقل کرنے پر غور کیے جانے کی خبریں سامنے آ رہی ہیں، یہ ذہنی کمزوری، خوف اور سیاسی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔ ساڑھے تین سال کی مسلط حکومت اور ڈھائی سال کی غیر قانونی قید کے باوجود آج بھی یہ لوگ عمران خان کے نام سے کانپ رہے ہیں۔ہم حکومت کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ جہاں بھی عمران خان کو شفٹ کیا جائے گا وہاں ان کی بہنیں، پاکستان تحریک انصاف کی قیادت، کارکنان اور پاکستان کی عوام اسی جوش، ولولے اور عزم کے ساتھ موجود ہوگی۔ نہ عمران خان کو عوام سے الگ کیا جا سکتا ہے، نہ عوام کو عمران خان سے الگ کرنا ممکن ہے، اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ عمران خان کو کسی بھی جیل میں منتقل کرنے کی ہر سازش حکومت کی اپنی شکست اور بوکھلاہٹ کی علامت ہے۔ پاکستان تحریک انصاف یہ واضح کرتی ہے کہ عمران خان نہ مائنس ہو سکتے ہیں، نہ سیاسی میدان سے نکالے جا سکتے ہیں اور نہ ہی جیل کی دیواروں کے پیچھے ان کی گونج کم ہو سکتی ہے۔

مانیٹرنگ ڈیسک سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • کاٹی میں شاندارنمائش ،پاکستان سے تجارت کے دروازے کھل رہے ہیں ، ایرانی قونصل جنرل
  • عدالت نے سیما ضیا کا نام نو فلائی لسٹ میں شامل کیے جانے سے متعلق درخواست نمٹا دی
  • بنگلا دیش کی سابق وزیراعظم خالدہ ضیا وینٹی لیٹر پر منتقل
  •  عراق جانے والے زائرین کا قیام مقررہ مدت سے زائد نہیں ہوگا، محسن نقوی
  • کاٹی میں نمائش شاندار،پاکستان سے تجارت کے دروازے کھل رہے ہیں، ایرانی قونصل جنرل
  • جیل میں سینڈوچ بھی مجھ تک نہیں پہنچے، نہ جانے کون کھا گیا؟ ڈکی بھائی
  • اسلام آباد سندھ کی تقسیم سے باز رہے ،عوامی تحریک
  • فن لینڈ : 3لڑکوں نے فٹ بال اسٹیڈیم کو آگ لگا دی
  • مذاکرات کے دروازے بند پی ٹی آئی کے دھرنے پر پولیس کا دھاوا،حکومت کا عمران خان کواڈیالہ سے منتقل کرنے پر غور
  • اصل ویزے کے باوجود یورپ جانیوالوں کو بھی روکا جانے لگا