اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 جنوری 2025ء) پاکستان جیسے پدر شاہی معاشروں میں مرد اور عورت کے مابین تعلق میں مرد کا فائدہ اور عورت کا نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے یہاں وہی خواتین بہتر رہتی ہیں، جو اس معاشرے کے رسم و رواج کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
ایسی خواتین خود مختار ہو سکتی ہیں لیکن وہ اپنی خود مختاری کو مردوں کی نظروں اور خیالات سے اوجھل رکھتی ہیں اور انہیں ایسے تاثر دیتی ہیں جیسے وہی ان کی زندگی چلا رہے ہوں اور وہ ان کے بغیر اپاہج اور لاچار ہوں۔
وہ مردوں کے ساتھ ایک بوجھ بن کر رہتی ہیں۔ ایسا بوجھ جسے وہ خوشی خوشی اپنے اوپر لادتے ہیں اور پوری زندگی لادے رکھتے ہیں۔میری ایک جاننے والی خاتون خواتین کے گاڑی چلانے کے سخت خلاف ہیں۔
(جاری ہے)
ان کا ماننا ہے کہ اگر مردوں کو پتہ ہو کہ ان کی بیوی، بہن یا بیٹی خود گاڑی چلا کر کہیں بھی جا سکتی ہیں تو وہ ان کے ساتھ آنا جانا ہی ختم کر دیں گے۔
انہیں گاڑی چلانی آتی ہے لیکن اپنی شادی کے بعد انہوں نے کبھی گاڑی کی چابی بھی نہیں پکڑی۔ انہوں نے کہیں جانا ہو تو وہ کئی دن پہلے سے اپنے شوہر کے کان کھانا شروع ہو جاتی ہیں۔ ان کے شوہر ان کے شیڈول کے مطابق انہیں جہاں جانا ہو لے کر جاتے ہیں۔دوسری طرف میری ایک سری لنکن دوست ہیں۔ یہ ایک یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔ ان کی تنخواہ ان کے شوہر سے زیادہ ہے۔
گھر کا کرایہ ان کی تنخواہ سے جاتا ہے۔ گروسری کے پیسے بھی یہ دیتی ہیں۔ اکثر بِلوں کی ادائیگی بھی ان کی تنخواہ سے ہوتی ہے۔ گاڑی ان کی ہے لیکن اس پر قبضہ ان کے شوہر کا ہے۔ وہ صبح انہیں یونیورسٹی چھوڑ کر اپنے دفتر جاتے ہیں۔ اگر کبھی یہ گھر سے نکلنے میں دیر کر دیں تو وہ غصے میں گاڑی بھگا کر لے جاتے ہیں۔ انہیں پھر بس سے یونیورسٹی جانا پڑتا ہے۔ ان کے شوہر گھر کے کسی کام میں ان کا ہاتھ نہیں بٹاتے۔ انہیں گھر آ کر اپنے اور ان کے لیے کھانا بنانا پڑتا ہے، صفائی کرنی پڑتی ہے اور اگلے دن کے لیکچر کی تیاری بھی کرنی ہوتی ہے۔ ان کے شوہر پھر بھی ان سے خوش نہیں ہوتے۔ کبھی غصہ آئے تو ایک دو تھپڑ بھی جڑ دیتی ہیں۔ ہر ویک اینڈ پر اپنے دوستوں کی دعوت رکھ لیتے ہیں جس کی تیاری میری دوست کو ہی کرنی پڑتی ہے۔پدرشاہی معاشروں میں خواتین ایک لمبی جدوجہد کے بعد خود مختار ہوتی ہیں۔ اس کے بعد بھی معاشرہ ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ وہ ان سے مختلف طریقوں سے ان کی خود مختاری کی قیمت وصول کرتا ہے۔ یہاں وہی عورت کامیاب رہتی ہے جو اپنی خود مختاری کے فائدے اپنے آپ تک محدود رکھتی ہے اور اپنے سے منسلک مردوں کو یہی تاثر دیتی ہے کہ وہ اب بھی اپنی کئی ضروریات کے لیے ان پر انحصار کرتی ہے۔
وہ اپنی بہت سی ضروریات اور ذمہ داریاں مردوں پر ڈالتی ہے۔ مرد خوشی خوشی، روتے دھوتے یا غصے میں اس کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔ اگر وہ عورت ایسے نہ کرے تو اس کا حال بھی میری سری لنکن دوست جیسا ہوگا۔جو مرد اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے اخراجات ادا کر رہا ہے، وہ بیوی اور بچوں کے اخراجات بھی برداشت کر سکتا ہے۔ اسے ان اخراجات سے آزادی دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
اگر اس کا یہاں ساتھ دینا ہے تو اسے کئی دیگر جگہوں سے ایک طرف کرنا ہوگا۔ وہ بیوی کے اوپر حکم نہیں چلائے گا۔ اس کی زندگی کے فیصلے نہیں کرے گا۔ اس پر اپنے گھر اور گھر والوں کی ذمہ داری نہیں ڈالے گا۔ گھر کے کچھ کام اپنے ذمے لے گا تاکہ وہ ہر جگہ اپنی بیوی کے ساتھ برابری میں ہو۔ نہ اس کا نقصان ہو رہا ہو نہ بیوی کا۔ جہاں اس کا فائدہ ہو رہا ہے اسے صرف وہیں برابری کیوں دی جائے؟جب تک خواتین کو مردوں کے ساتھ ہر میدان میں برابری نہیں ملتی انہیں مردوں پر بوجھ بن کر رہنا چاہیے۔
مرد عورت کی معاشی ذمہ داری اٹھائیں۔ اسے کہیں جانا ہو تو اسے وہاں لے کر جائیں۔ چھٹی والے دن اس کے بتائے گئے کام مکمل کریں۔ وہ روئے تو پریشان ہو جائیں، وہ ہنسے تو سکھ کا سانس لیں۔اس کے لیے خواتین کو مردوں کے سروں پر سوار ہونا ہوگا۔ انہیں اپنی ضروریات بتانی ہوں گی۔ انہیں ان ضروریات کو پورا کرنے کا کہنا ہوگا۔ خواتین بولیں گی تو مرد سنیں گے۔
اس لیے شرمانا چھوڑیں اور مردوں پر بوجھ بنیں۔یہ پدر شاہی ہے۔ یہاں مرد دنیا چلاتے ہیں۔ انہیں دنیا چلانے دیں اور خود بیک سیٹ پر بیٹھ کر آرام کریں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ان کے شوہر کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
عورتیں جو جینا چاہتی تھیں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 اپریل 2025ء) گزشتہ ہفتے سندھ کی دو مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والی دو خودمختار خواتین کو بے دردی سے قتل کیا گیا لاڑکانہ کی سرکاری اسکول ٹیچر صدف حاصلو اور میرپورخاص کی پولیس اہلکار مہوش جروار۔ دونوں کے قاتل پولیس سے تعلق رکھنے والے مرد تھے۔ یعنی اسی ادارے کے نمائندے، جس پر ان کے تحفظ کی ذمہ داری تھی۔
صدف حاصلو، لاڑکانہ کی ایک باہمت لڑکی تھی، جس نے والد کے انتقال کے بعد اپنی ماں کے ساتھ مل کر گھر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ وہ کبھی پرائیویٹ اسکولوں میں معمولی تنخواہ پر پڑھاتی رہی، کبھی بچوں کو ٹیوشن دیتی رہی اور بالآخر اپنی محنت سے ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر لگ گئیں۔ لیکن ایک خودمختار عورت اس معاشرے کو کب قبول ہوتی ہے؟
ایک پولیس اہلکار صدف سے شادی کا خواہشمند تھا۔
(جاری ہے)
صدف کی ماں نے اس کا نکاح تو اس پولیس اہلکار سے پڑھوا دیا، لیکن رخصتی سے پہلے کچھ شرائط رکھی۔ مگر چونکہ لڑکا پولیس میں تھا، اس نے سمجھا کہ اب صدف پر اس کا مکمل حق ہے۔ وہ بار بار صدف کے گھر آتا، دھمکاتا اور ایک دن بندوق اٹھا کر زبردستی کرنے پہنچ گیا۔ صدف نے ہمت دکھائی، خلع کا فیصلہ کیا اور تحفظ کے لیے عدالت سے رجوع بھی کیا۔ لیکن کون سنتا ہے ایک عام سی اسکول ٹیچر کی فریاد؟ نہ تحفظ ملا، نہ انصاف۔چند دن بعد، جب صدف اسکول سے واپس آ رہی تھی، تو اسی پولیس اہلکار نے سرِعام اسے گولی مار کر قتل کر دیا۔ آج بھی وہ قاتل آزاد گھوم رہا ہے، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
دوسری خاتون، مہوش جروار جو ایک پولیس کانسٹیبل تھی۔ مہوش جروار، ایک یتیم لڑکی، جس کا باپ برسوں پہلے دنیا سے رخصت ہو چکا تھا، اپنی ماں کے ساتھ غربت کے سائے میں پلی بڑھی۔
دو سال پہلے اسے پولیس میں کانسٹیبل کی نوکری ملی۔ یہ نوکری اس کے لیے ایک امید تھی، ایک نئی زندگی کی راہ۔ مگر اس نظام میں نوکری نہیں، صرف کمزوروں کا استحصال بکتا ہے۔مہوش کی پوسٹنگ میرپورخاص سینٹرل جیل میں ہوئی۔ پھر پولیس اہلکار یوسف کھوسہ نے اسے مسلسل بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔ تنگ آ کر مہوش نے اپنی پوسٹنگ حیدرآباد کروالی، لیکن حالات اور غربت اسے دوبارہ میرپورخاص کھینچ لائی۔
پھر ایک دن وہی وردی جو اس کی پہچان تھی، اس کی لاش پر موجود تھی۔ مہوش اپنی پولیس کی وردی ہی میں پھندے سے جھولتی پائی گئی۔ایک بات طے ہے، مہوش اس بلیک میلنگ سے تھک چکی تھی، اس نے آواز اٹھانے کی کوشش کی، مقام بدلا، شکایات درج کروائیں، مگر سسٹم نے کبھی اس کی بات سننا گوارا نہ کی۔ حیدرآباد میں ایف آئی اے کے دفتر میں ایک شکایت 2 جنوری کو درج ہوئی اور ابھی اپریل چل رہا ہے۔
مگر اس کی تفتیش کا کوئی پتہ نہیں۔ نہ کوئی فون، نہ کوئی طلبی، نہ کوئی پیش رفت۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اگر صدف اور مہوش جیسی تعلیم یافتہ، بہادر، محنتی عورتیں بھی اس معاشرے میں محفوظ نہیں، تو پھر تحفظ کی ضمانت کس کے پاس ہے؟ یہ دو کہانیاں محض دو عورتوں کی نہیں، بلکہ اس پورے نظام کی ناکامی کی کہانی ہیں۔ ایک ایسا نظام جو عورت کو صرف اس وقت برداشت کرتا ہے جب وہ خاموشی سے سر جھکائے، "ہاں" کہنا سیکھ لے اور اپنی خودمختاری قربان کر دے۔
صدف اور مہوش جیسے بے شمار چہرے ہیں جو روز کام پر جاتے ہیں، خود کو اور اپنے گھر والوں کو سنبھالتے ہیں اور اس امید پر زندہ رہتے ہیں کہ شاید ایک دن یہ معاشرہ انہیں جینے کا حق دے گا۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔