کراچی:پاکستان میں بچوں کو ماں کا دودھ نہ پلانے کی شرح تشویشناک حد تک بڑھ گئی ہے، جس کے سنگین اثرات نومولود بچوں کی صحت پر مرتب ہو رہے ہیں۔

پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کی کراچی پریس کلب میں منعقدہ پریس کانفرنس کے دوران ڈاکٹر خالد شفیع اور ڈاکٹر حیات بزدار سمیت دیگر ماہرین نے انکشاف کیا کہ ملک میں صرف 48.

3 فیصد مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں، جبکہ 52 فیصد مائیں اس اہم عمل سے گریز کرتی ہیں۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ ماں کے دودھ سے محروم بچوں کو قوتِ مدافعت کی کمی، بار بار انفیکشنز اور غذائیت کی کمی جیسے مسائل کا سامنا رہتا ہے جو پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں بچوں کی بلند اموات کی شرح کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔ ہر سال ہزاروں نومولود نمونیا، اسہال اور دیگر بیماریوں کے باعث اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔

ماہرین نے واضح کیا کہ ماں کے دودھ میں موجود قدرتی غذائی اجزا اور اینٹی باڈیز بچوں کو نہ صرف بیماریوں سے تحفظ فراہم کرتی ہیں بلکہ ان کی جسمانی اور ذہنی نشوونما کے لیے بھی نہایت ضروری ہیں۔ ماں کا دودھ پلانا بچوں کی ابتدائی زندگی میں صحت مند بنیاد قائم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

سندھ حکومت نے اس حوالے سے باضابطہ طور پر ایک ایکٹ بھی نافذ کیا ہے، جس کے تحت بغیر ڈاکٹری نسخے کے مصنوعی فارمولا دودھ کی فروخت پر پابندی عائد کی گئی ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس قانون کا مقصد بچوں کی صحت کو بہتر بنانا اور ان کی اموات کی شرح میں کمی لانا ہے۔

ماہرین نے زور دیا کہ بچوں کو دودھ پلانے سے  متعلق عوامی شعور اجاگر کرنے کے لیے خصوصی مہمات کا آغاز کیا جانا چاہیے۔ حکومتی قوانین پر مؤثر عمل درآمد اور ماں کے دودھ کی اہمیت کو اجاگر کرنے سے نومولود بچوں کی صحت اور شرح اموات میں بہتری ممکن ہو سکتی ہے۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: بچوں کی بچوں کو

پڑھیں:

پاکستان میں پولیو کے خلاف سال کی دوسری قومی مہم کا آغاز

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 اپریل 2025ء) پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق پولیو کی بیماری کے خلاف پاکستان میں سال 2025ء کی اس دوسری ملک گیر مہم کا مقصد یہ ہے کہ ملک میں بچوں کو متاثر کرنے والی اس بیماری کے نئے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔

اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق پوری دنیا میں اس وقت صرف پاکستان اور اس کا ہمسایہ ملک افغانستان ہی دو ایسی ریاستیں ہیں، جہاں اس بیماری کا تاحال مکمل خاتمہ نہیں ہو سکا۔

پولیو کی بیماری ممکنہ طور پر بچوں کے لیے مہلک بھی ثابت ہو سکتی ہے اور اپنے کم عمر متاثرہ مریضوں کو یہ کلی یا جزوی طور پر جسمانی معذوری کا شکار تو بنا ہی دیتی ہے۔ جنوری سے اب تک پاکستان میں پولیو کے چھ نئے کیسز

پاکستان میں اس سال جنوری سے لے کر اب تک پولیو کے چھ نئے کیسز کی تصدیق ہو چکی ہے۔

(جاری ہے)

لیکن اس میں بھی کچھ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ فروری کے مہینے سے اب تک اس مرض کا پاکستان میں کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا۔

اس سے قبل گزشتہ برس پاکستان میں، جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے، پولیو کے نئے کیسز میں واضح اضافہ دیکھا گیا تھا اور ان کی تعداد 74 رہی تھی۔

حیران کن بات یہ بھی ہے کہ 2024ء میں پولیو کے 74 نئے کیسز سے قبل پاکستان میں اس سے پہلے 2021ء میں اس بیماری کا صرف ایک نیا واقعہ سامنے آیا تھا۔

ماہرین کے مطابق یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ماضی قریب میں پولیو کے خلاف جو جنگ بظاہر حتمی کامیابی کی طرف جاتی دکھائی دے رہی تھی، وہ 2024ء میں واضح طور پر ناکام ہوتی دکھائی دی۔

اسی لیے اب حکومت نے ملک میں اس سال کی دوسری قومی ویکسینیشن مہم کا آغا زکیا ہے۔ پاکستانی وزیر صحت کی طرف سے والدین سے اپیل

پاکستان وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے انسداد پولیو کی اس نئی مہم کے آغاز پر ملک بھر میں چھوٹے بچوں کے والدین سے اپیل کی ہے کہ وہ رواں ہفتے اپنے اپنے رہائشی علاقوں میں گھر گھر جانے والے طبی عملے سے تعاون کریں اور اپنے بچوں کے پولیو کے خلاف حفاظتی قطرے پلوائیں، تاکہ ملک سے اس بیماری کا خاتمہ کیا جا سکے۔

پاکستان میں ماضی میں مختلف عسکریت پسند گروہوں سے تعلق رکھنے والے مسلح حملہ آور خاص طور پر ملکی صوبوں بلوچستان اور خیبر پختوانخوا میں بچوں کو پولیو ویکسین پلانے والی طبی ٹیموں کے ارکان اور ان کی حفاظت پر مامور سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔

ان حملوں کی وجہ عام طور پر مغرب مخالف عناصر کی طرف سے پھیلائی جانے والی یہ دانستہ غلط معلومات بنتی ہیں کہ عام بچوں کو یہ ویکیسن مبینہ طور پر اس لیے پلائی جاتی ہے کہ وہ بالغ ہو کر افزائش نسل کے قابل نہ رہیں اور یہ بھی کہ یہ عمل مبینہ طور پر مسلم بچوں کے خلاف ایک نام نہاد مغربی سازش کا حصہ ہے۔

انسداد پولیو مہم کے کارکنوں کا اغوا

پاکستان میں انہی بےبنیاد افواہوں اور غلط معلومات کے تناظر میں 1990 کی دہائی سے لے کر اب تک پولیو ویکسینیشن ٹیموں پر ملک کے مختلف حصوں میں کیے جانے والے مسلح حملوں میں 200 سے زائد اینٹی پولیو ورکرز اور ان کی حفاظت کرنے والے پولیس اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

ان میں سے تقریباﹰ 150 پولیو ورکر اور سکیورٹی اہلکار 2012ء کے بعد مارے گئے ہیں۔

ابھی گزشتہ ہفتے ہی پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا میں مسلح عسکریت پسندوں نے کم از کم دو ایسے اینٹی پولیو ورکرز کو اغوا بھی کر لیا تھا، جن کا تعلق عالمی ادارہ صحت سے تھا۔ ان حملہ آوروں نے ڈیرہ اسماعیل خان نامی شہر میں ان کارکنوں کی گاڑی پر فائرنگ کر کے پہلے اسے رکنے پر مجبور کر دیا تھا اور پھر اس میں سوار دو کارکنوں کو اغوا کر کے یہ عسکریت پسند اپنے ساتھ لے گئے تھے۔

یہ دونوں ہیلتھ ورکرز پاکستانی شہری بتائے گئے تھے، جو آج پیر سے شروع ہونے والی ویکسینیشن مہم کے لیے فیلڈ سٹاف کو تربیت دینے کے بعد واپس اپنے دفتر جا رہے تھے۔

ان دونوں مغویوں کو تاحال برآمد نہیں کیا جا سکا اور نہ ہی یہ واضح ہے کہ انہیں اغوا کس مسلح گروہ نے کیا ہے۔

ادارت: امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • وفاقی وزیر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی سے کنوینئر پارلیمانی کاکس آن چائلڈ رائٹس ڈاکٹر نکہت شکیل خان کی سربراہی میں وفد کی ملاقات
  • قومی انسداد پولیو مہم شروع، ساڑھے 4 کروڑ بچوں کو قطرے پلانے کا ہدف
  • پاکستان میں پولیو کے خلاف سال کی دوسری قومی مہم کا آغاز
  • بارشوں سے صورتحال میں بہتری، ارسا نے صوبوں کو پانی کی فراہمی بڑھادی
  • دوسری شادی کرنے کی صورت میں بچے کی کسٹڈی کا حق دار کون؟ عدالت کا بڑا فیصلہ سامنے آگیا
  • فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری
  • دوسری شادی کرنے کی صورت میں بچے کی کسٹڈی کا حق دار کون؟ عدالت کا بڑا فیصلہ سامنے آگیا  
  • تحریک طالبان پاکستان کا بیانیہ اسلامی تعلیمات، قانون، اخلاقیات سے متصادم قرار
  •    دوسری شادی کرنے کے باوجود ماں ہی بچے کی کسٹڈی کی حق دار ہے، لاہور ہائیکورٹ نے فیصلہ سنا دیا
  • پاکستان، ترکی، یونان، میانمار، افغانستان میں شدید ترین زلزلہ آنے کا خدشہ،ماہرین ارضیات کی نئی وارننگ جاری