ایسا پلیٹ فارم چاہتے ہیں، جہاں معاملات پر غور اور مجموعی سیاسی حل سامنے آئے:مولانا فضل الرحمٰن
اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT
ڈیرہ اسما عیل خان (ڈیلی پاکستان آن لائن )امیر جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ ملکی سیاست میں ایسا پلیٹ فارم چاہتے ہیں، جہاں مل کر تمام معاملات پر تبادلہ خیال کریں اور مجموعی سیاسی حل سامنے آجائے۔
ڈان نیوز کے مطابق ڈیرہ اسمعٰیل خان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بار بار دہرا رہا ہوں کہ موجودہ اسمبلیاں عوام کی نمائندہ اسمبلیاں نہیں ہیں، حکومت بہر حال اسٹیبلشمنٹ کی ہے۔
جس حالت میں جرگہ لے کر میرے پاس تشریف لائے ہیں، جس امید سے وہ آئے ہیں، خدا کرے ہماری ریاست اور ریاستی اداروں کو اللہ وہ آنکھیں عطا کرے، جس سے وہ ان کی مشکل کو دیکھ سکیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم آگے ایک جرگہ اور کریں گے، اس میں ایک وفد تشکیل دیا جارہا ہے جو پشتون بیلٹ کی سیاسی جماعتیں ہیں، ان کے ساتھ وہ رابطہ کریں، اس کے بعد ہم اگلا لائحہ عمل طے کریں۔
ان سے سوال پوچھا گیا کہ قبائلی علاقوں میں امن و امان کے لئے یہ جرگہ آپ کی طرف دیکھ رہا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کی تمام توانائیاں وہ سب ان کے سپرد کی ہیں، اور انشا اللہ متحدہ جدوجہد کے ساتھ اس معاملے کو آگے بڑھائیں گے، ہم تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیں گے۔
صحافی نے سوال کیا کہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان مذاکرات ختم ہو رہے ہیں، جس پر مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ شروع کب ہوئے تھے؟ مجھے اس کا بھی پتا نہیں، انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی والے 100 بار ہمارے پاس آئیں، ان سے بات کریں گے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ ملکی سیاست میں ایسا پلیٹ فارم ہو کہ جہاں مل کر تمام معاملات پر تبادلہ خیال کریں اور مجموعی سیاسی حل سامنے آجائے، بار بار دہرا رہا ہوں کہ موجودہ اسمبلیاں عوام کی نمائندہ اسمبلیاں نہیں ہیں۔
سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کا کہنا تھا کہ حکومت بہر حال اسٹیبلشمنٹ کی ہے، دوسری دنیا کے ساتھ بھی روابط انہی کے ہیں، معاملات وہی چلا رہے ہیں، یہ انہی کے نمائندے ہیں، یہ عوام کے نمائندے نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ بدامنی نے قبائلی علاقوں کا برا حال کر رکھا ہے، نہ وہاں سکول کی کوئی افادیت ہے، نہ کسی کالج کی افادیت ہے، نہ کسی ہسپتال اور سڑک کی افادیت ہے، کوئی چیز ایسی نہیں ہے کہ جس سے لوگ استفادہ کر سکیں۔
سیاسی انتشار سے متعلق سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ریاست کھل کر بات کرے، یہ نہ کہے کہ ہم نے 10 یا 20 سال بعد یہاں تک پہنچنا ہے، کبھی جرگے ہو رہے ہیں، کبھی کچھ ہو رہا ہے، ہمیں واضح بتایا جائے کہ عالمی قوتوں کا ایجنڈا کیا ہے اور سٹیٹ کا ایجنڈا کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ جہاں 20 سال سے زیادہ عرصہ ایک ہی منطقے پر جنگ فوکس کر رہا ہو، خون بہہ رہا ہو، یہ چیز کسی جغرافیائی تبدیلیوں کی نشاندہی کر رہی ہوتی ہے، میں اس بارے میں پریشان ہوں کہ کہیں ہمارے جغرافیے میں تو کوئی تبدیلی نہیں لائی جارہی، میرا وہم ہے کہ یہ خطرہ موجود ہے، میری خواہش ہوگی کہ میری بات صحیح ثابت نہ ہو۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ہمارے صوبے میں کوئی امن ہے نہ حکومت، ہر طرف کرپشن ہی کرپشن ہو رہی ہے، ایک طرف بدامنی کی صورتحال ہے کہ اسے کنٹرول نہیں کیا جاسکتا، ہمارا صوبہ ان خرابیوں کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔
جدید ٹیکنالوجی کے دور میں فیک نیوز کے چیلنج کا سامنا ہے:بلاول بھٹو زرداری
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: مولانا فضل الرحم ن ن کا کہنا تھا کہ نے کہا کہ رہا ہو ہوں کہ رہا ہے
پڑھیں:
" ب "فارم آن لائن بنوانے کا طریقہ ، فیس کتنی؟
ویب ڈیسک:چائلڈ رجسٹریشن سرٹیفکیٹ (سی آر سی) جسے ب فارم بھی کہا جاتا ہے، یہ نادرا کے ریکارڈ میں نوزائیدہ بچے کے اندراج کے لیے ایک ضروری دستاویز ہے۔
نادرا نے والدین کے لیے اپنے بچوں کے لیے ب فارم کے حصول کو آسان بنانے کے لیے اس عمل کو آسان بنا دیا ہے۔
ب فارم یونین کونسل کی طرف سے جاری کردہ پیدائش کا دستاویزی ثبوت فراہم کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
نادرا نے ایک مخصوص عمر کے بچوں کے لیے ب فارم جاری کرنے کے لیے آن لائن سروس شروع کی ہے، درخواست دہندگان ایک سال تک بچوں کے لیے سی آر سی حاصل کرنے کے لیے پاک آئی ڈی موبائل ایپ استعمال کرسکتے ہیں۔
اسحاق ڈار کی افغان حکام سے اہم ملاقاتیں، مشترکہ امن و ترقی کا عہد
طریقہ کار:
پاک آئی ڈی اکاؤنٹ میں لاگ ان کریں یا اگر آپ کے پاس نہیں ہے تو نیا اکاؤنٹ بنائیں، ’درخواست دیں‘ پر کلک کریں، اور ’شناختی دستاویز کا اجرا‘ کو منتخب کریں۔
شناختی کارڈ کا انتخاب کریں پھر ’چائلڈ رجسٹریشن سرٹیفکیٹ کو منتخب کریں، اس کے بعد ہاں کو منتخب کریں اور 13 ہندسوں کا شناختی کارڈ درج کریں پھر ایپلی کیشن شروع کریں کو کلک کریں۔
سرکاری گاڑی کا استعمال، سوشل میڈیا پر وڈیو وائرل کرنیوالے ڈان ساتھی سمیت گرفتار
اس کے بعد پہلے سے درج معلومات کا جائزہ لیں، پروسیسنگ کی ترجیح منتخب کریں۔
بچے کی تصویر کھینچیں یا اپ لوڈ کریں، اپنے ڈیجیٹل دستخط فراہم کریں، بچے کی تفصیلات درج کریں، مطلوبہ دستاویزات اپ لوڈ کریں، ایک والدین کے فنگر پرنٹس کی تصدیق کریں اور درخواست کا جائزہ لیں اور جمع کرائیں۔
واضح رہے کہ والدین کو ایک سال سے زیادہ عمر کے بچوں کا ب فارم حاصل کرنے کے لیے نادرا کے دفاتر میں جانا پڑتا ہے۔
کاروباری افراد کے جان و مال کا تحفظ ریاست کا فرض ہے؛ طلال چوہدری
نادرا بی فارم کی فیس:
نادرا ب فارم کی عام فیس 50 روپے ہے جبکہ رجسٹریشن اتھارٹی کی جانب سے 500 روپے میں ایگزیکٹو سروس بھی پیش کی جاتی ہے۔