خیبر پختونخوا میں یونیورسٹیوں سے متعلقہ قانون میں کی گئی حالیہ ترامیم بہت سی مضمرات کی حامل ہیں۔ ان ترامیم کی رو سے صوبے میں پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیوں میں اب گورنر کے بجائے وزیراعلٰی بطور چانسلر اختیارات استعمال کریں گے۔ جامعات کے وائس چانسلرز اب چار سال کی مدت کے لیے تعینات کیے جائیں گے اور 2سال کے بعد وہ اپنی کارکردگی کی رپورٹ چانسلر کو پیش کریں گے اور چانسلر کو اختیار حاصل ہوگا کہ اطیمنان بخش کارکردگی نہ دکھانے پر وائس چانسلر کو 2سال بعد عہدے سے ہٹا دے۔

وائس چانسلر کی تعیناتی کے لیے بنائی گئی سرچ کمیٹی 3نام شارٹ لسٹ کرکے چانسلر کو حروف تہجی کی ترتیب سے ارسال کرے گی اور اس میں میرٹ کی بنیاد پر کوئی ترتیب نہیں رکھی جائے گی۔ حالیہ ترامیم میں رجسٹرار کے آفس کو مزید مضبوط کیا گیا ہے اور یونیورسٹی کے انتظامی معاملات کے سربراہ کے طور پر رجسٹرار کو معاہدوں اور یادداشتوں وغیرہ پر دستخط کرنے کے اختیارات بھی تفویض کیے گئے ہیں۔

یونیورسٹیوں کے انتظامی کیڈر کے 3سینئر افسران میں سے ایک کو چانسلر رجسٹرار مقرر کرے گا اور مناسب اندرونی امیدواروں کی عدم موجودگی میں ایڈمنسٹریٹو کیڈر کے سول سرونٹس کو بھی رجسٹرار مقرر کیا جاسکتا ہے۔

صوبہ سندھ میں بھی صوبائی حکومت یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی کوالیفیکیشن میں ترمیم کر کے پی ایچ ڈی کی ڈگری کی شرط کو ختم کر رہی ہے جس کی مخالفت فیڈرل ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے بھی کی جا رہی ہے۔ پچھلے کچھ ماہ کے دوران پنجاب کی مختلف جامعات کے وائس چانسلرز کی تعیناتی کے حوالے سے جو تنازعہ صوبائی حکومت اور گورنر کے درمیان کھڑا ہوا تھا اس کے بعد قوی امکان ہے کہ وزیراعلٰی کو بطور چانسلر اختیارات منتقل کرنے کے بارے میں قانون سازی پنجاب میں بھی سامنے آئے گی۔

یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ملک بھر کی پبلک سیکٹر جامعات (کسی حد تک سندھ کے استثنیٰ کے ساتھ کہ سندھ کی صوبائی حکومت نے صوبے کی جامعات کے لیے خاطرخواہ فنڈز مختص کیے ہیں) شدید نوعیت کے مالیاتی بحران کا شکار ہیں۔ گزشتہ کچھ سالوں سے وفاقی حکومت کی طرف سے ایچ ای سی کو اعلٰی تعلیم کے لیے دیے جانے والے جاری اخراجات سے متعلقہ فنڈز میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔

دوسری طرف مہنگائی اور اخراجات میں اضافے کی وجہ سے یونیورسٹیوں کے مالیاتی خسارے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ جامعات تیزی سے فیسوں میں اضافہ کرنے پر مجبور ہیں اور اس کا براہ راست نشانہ غریب طلباء بن رہے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جامعات میں وقت کے ساتھ جو اصلاحات درکار تھیں وہ بھی نہیں ہوسکیں جس کا نتیجہ اس وقت ایک بڑے بحران کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔

کیا صوبائی حکومتوں کی طرف سے اٹھائے گئے حالیہ اقدامات یونیورسٹیوں کو اس بحران سے نکال سکیں گے؟ ہمارے خیال میں ان اقدامات کے نتیجے میں بحران میں مزید اضافہ ہوگا۔ جس قسم کے صوابدیدی اختیارات اور بیوروکریسی کی براہ راست مداخلت کا دروازہ صوبائی حکومتیں قانون سازی کے ذریعے کھول رہی ہیں، اس کے نتیجے میں صورتحال مزید ابتری کی طرف جائے گی۔

حکومتی کنٹرول کے کون سے اداروں میں اس وقت متبادل ذرائع سے فنڈنگ کے راستے ڈھونڈے جا رہے ہیں یا کون سا حکومتی ادارہ گڈ گورننس کی اعلٰی اور امتیازی مثال پیش کرتا ہے؟ حکومتی اداروں کا زوال اور بدانتظامی کے بارے میں کسی مزید گواہی کی ضرورت نہیں ہے کہ حکومت خود کئی اداروں کو بند کرنے کا منصوبہ بنائے بیٹھی ہے۔ اس صورتحال میں بیوروکریسی کے افسران کے لیے متبادل تعیناتی کی راہ اگر جامعات میں وائس چانسلر اور رجسٹرار کی صورت میں نکالنی ہے تو یہ بہت ہی سطحی نوعیت کی سوچ ہے۔

گو کہ پبلک سیکٹر جامعات بھی اس وقت کوئی بہت شاندار اور قابل فخر کارکردگی نہیں دکھا پا رہیں مگر اکیڈمک فریڈم کے حوالے سے بیشتر اداروں میں کسی حد تک گنجائش موجود ہے۔ مذکورہ ترامیم کے بعد تو اکیڈمک فریڈم کا مکمل گلا گھونٹے جانے کے سنجیدہ خدشات موجود ہیں کہ براہ راست حکومتی کنٹرول، وائس چانسلرز کے سر پر ہٹائے جانے کی لٹکتی تلوار، بیوروکریسی میں سے تعیناتی وغیرہ کی صورت میں بربادی کا مکمل سامان نئی قانون سازی میں موجود ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر عزیز الرحمان

ڈائریکٹر اسکول آف لاء قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: صوبائی حکومت وائس چانسلرز وائس چانسلر چانسلر کو کی طرف کے لیے

پڑھیں:

سیکیورٹی فورسز کی خیبر پختونخوا میں دو کارروائیوں کے دوران چھ دہشتگرد ہلاک

آئی ایس پی آر کے مطابق علاقے میں پائے جانے والے کسی اور خارجی کو ختم کرنے کے لیے سینیٹائزیشن آپریشن کیا جا رہا ہے، پاکستان کی سیکیورٹی فورسز ملک سے دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سیکیورٹی فورسز نے خیبر پختونخوا میں دو الگ الگ واقعات میں چھ خوارج کو جہنم واصل کردیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ایک کارروائی شمالی وزیرستان اور دوسری کارروائی جنوبی وزیرستان میں ہوئی۔ شمالی وزیرستان کے علاقے زمک میں خوارج کی موجودگی کی اطلاع پر سیکیورٹی فورسز نے آپریشن کیا اور موثر کارروائی کرتے ہوئے پانچ خوارج کو ہلاک کردیا۔ دوسری کارروائی جنوبی وزیرستان میں ہوئی جس میں سکیورٹی فورسز نے ایک خارجی کمانڈر ذبیح اللہ عرف ذاکر کو ہلاک کر دیا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق ذبیح اللہ عرف ذاکر سیکیورٹی فورسز پر متعدد دہشت گرد حملوں اور بے گناہ شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث رہا، ذبیح اللہ عرف ذاکر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو انتہائی مطلوب تھا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق علاقے میں پائے جانے والے کسی اور خارجی کو ختم کرنے کے لیے سینیٹائزیشن آپریشن کیا جا رہا ہے، پاکستان کی سیکیورٹی فورسز ملک سے دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سابق ائیر وائس مارشل کا کورٹ مارشل، وزارت دفاع سے ریکارڈ طلب
  • علی امین گنڈاپور نے اسحاق ڈار کے دورہ افغانستان پر ردعمل دے دیا
  • سیکیورٹی فورسز کی خیبر پختونخوا میں دو کارروائیوں کے دوران چھ دہشتگرد ہلاک
  • وائس چانسلر کا انتخاب؛ این ای ڈی کے لیے تین نام شارٹ لسٹ
  • پختونخوا میں دینی مدارس کی گرانٹ 30 ملین سے بڑھا کر 100 ملین کر دی گئی
  • بالائی خیبر پختونخوا،کشمیر،گلگت بلتستان میں آج بارش کا امکان
  • آج بروز پیر بالائی خیبر پختونخوا،کشمیر،گلگت بلتستان میں آج بارش کا امکان
  • خیبر پختونخوا پولیس نے پوسٹ کی فصل تلف کردی
  • افغانستان سے بات چیت دیر سے مگر درست ا قدام ہے، ترجمان خیبر پختونخوا حکومت
  • افغانستان سے بات چیت دیر سے مگر درست قدم ہے، ترجمان پختونخوا حکومت