چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی نے کہا ہے کہ اگر حکومت سے جاری مذاکرات کے نتیجے میں 9 مئی اور 26 نومبر کے حوالے سے کمیشن نہیں بنتے جا رہا تو ہم نے حکومت کے ساتھ صرف ہیلو ہائی  اور فوٹو سیشن کے لیے تو نہیں بیٹھنا تھا۔

ویب ڈیسک: جوڈیشل کمپلیکس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے سامنے جو ہے احتجاج ہوا تھا اس سے ریلیٹڈ ایک مقدمہ ہوا تھا، اس میں  دہشت گردی کی دفعہ لگی تھی،  اس میں درخواست ضمانت پر سماعت چل رہی ہے۔

نعمان علی ٹیسٹ میچ میں ہیٹرک کرنیوالے پہلے پاکستانی سپنر بن گئے

ان کا کہنا تھا کہ  بہت سارے وکلاؤ پر مقدمات  ہوئے ہیں اس میں پیش ہو گئے تھے اب چار تاریخ کی ڈیٹ پڑی ہے، جج صاحب نے کہا انشاءاللہ امید ہے چار تاریخ کو یہ کیس ختم ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ  مذاکرات بہترین راستہ ہے اور مزاکرات ہونے چاہیے تھے اور بڑی فراخدلی سے ہم نے یہ شروع کر لیے تھے، تحفظات کے باوجود نیک نیتی سے بیٹھے تھے، حکومت کی جانب سے ہمارے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں، ہمارا مینڈیٹ جو چوری ہوا ہوا تھا۔

سیاروں کی پریڈ دیکھنے کا آج بہترین موقع : ماہرین فلکیات

ان کا کہنا تھا کہ  خان صاحب اور بی بی کو جس طریقے سے سزائیں دی گئی ہے، لیکن ان سب چیزوں کے باوجود خان صاحب نے اناؤنس کیا تھا کہ ہم دو مطالبات رکھتے ہیں اور اس پہ ہم مذاکرات کریں گے۔

بیرسٹر گورہر نے کہا کہ  ہم مذاکرات کا پہلا دور ہوا تھا پہلا تاریخ تھی 23 دسمبر، دو جنوری اس کے بعد پڑھی ہے 16 جنوری تاریخ پڑی تھی ، اس کے بعد انہوں نے ابھی 28 کے لیے رکھا لیکن 16 جنوری کو ہم نے ان کو یہ کہا تھا کہ اب اپ سات دن میں اعلان کریں کہ اپ کمیشن بنانے جا رہے ہیں کہ نہیں۔

وفاقی وزیرداخلہ کی امریکی سرمایہ کاروں کو مختلف سیکٹر میں سرمایہ کاری کی دعوت

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ  کمیشن میں یہ بھی طے ہونا تھا کہ اس میں ججز کون سے ہیں ٹی او ارز کون سے ہوں گے،  ٹائم کتنا لگے گا کیا کچھ ہوگا کہاں بنے گی کوئی چیزیں تو ہونی تھی،  لیکن ان کی طرف سے کچھ بھی نہیں ہوا کوئی قدم نہیں لیا گیا جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کی نیت ہی نہیں ہے کوئی کمیشن بنانے کا۔

ان کا کہنا تھا کہ  تو اگر کمیشن نہیں بنتے جا رہا تو ہم حکومت کے ساتھ صرف ہائی ہیلو ہو اور فوٹو سیشن کے لیے تو نہیں بیٹھنا تھا، لہذا خان صاحب نے ان کے پیش نظر ا وہ کال اف کر لیا ہے لیکن ہم نے اخری دن اس کو چلایا۔

شبلی فراز، بیرسٹرگوہر سمیت پی ٹی آئی رہنماؤں کی ضمانت میں 4 فروری تک توسیع

انہوں نے کہا کہ دیکھیں پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے، ساری سیاسی جماعتوں کے ساتھ بات کرنا چاہ رہی تھی،  خان صاحب نے خود اس کو شروع کیا اور سب سے پہلے کمیٹی خان صاحب نے بنائی۔

Ansa Awais Content Writer.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: نے کہا کہ ہوا تھا کے ساتھ تھا کہ کے لیے

پڑھیں:

ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس، جوڈیشل کمیشن، رجسٹرار سپریم اور وزارت قانون نے جواب جمع کروا دیا

سپریم کورٹ میں زیر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی ٹرانسفر اور سینیارٹی سے متعلق کیس میں جوڈیشل کمیشن، رجسٹرار سپریم کورٹ اور وزارت قانون نے اپنا تحریری جواب جمع کروا دیا ہے۔

جوڈیشل کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے جواب میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ کمیشن کا مینڈیٹ آئین کے آرٹیکل 175(A) میں واضح کیا گیا ہے، جس کے تحت سپریم کورٹ، ہائیکورٹس اور فیڈرل شریعت کورٹ میں ججز کی تقرری بنیادی ذمہ داری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے ججز ٹرانسفر کی حمایت کیوں کی؟

جوڈیشل کمیشن کا کہن اہے کہ ججز کی ٹرانسفر کے معاملے میں آئینی طور پر جوڈیشل کمیشن کا کوئی کردار نہیں، تحریری جواب سیکریٹری جوڈیشل کمیشن، نیاز محمد کی جانب سے جمع کروایا گیا۔

رجسٹرار سپریم کورٹ کا مؤقف

دوسری جانب رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب میں آئین کے آرٹیکل 200(1) کا حوالہ دیا گیا ہے، صدر کسی ہائیکورٹ کے جج کو اس کی رضا مندی، چیف جسٹس پاکستان اور دونوں ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے مشاورت کے بعد، کسی دوسرے ہائیکورٹ میں منتقل کرسکتا ہے۔

جواب میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 200(1) کے تحت وضع کردہ طریقہ کار کو مدنظر رکھتے ہوئے، وزارت قانون و انصاف نے 01-02-2025 کو ایک خط کے ذریعے معزز چیف جسٹس آف پاکستان سے ججز کے تبادلے کی مشاورت حاصل کی۔

یہ بھی پڑھیں: ججز سنیارٹی کیس: وفاقی حکومت کی تمام درخواستیں خارج کرنے کی استدعا

یہ مشاورت چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف سے 01-02-2025 کو فراہم کی گئی، اس جواب کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔

وزارت قانون نے بتایا کہ یکم فروری کو چیف جسٹس آف پاکستان سے ججز کی ٹرانسفر پر رائے طلب کی گئی تھی، اور چیف جسٹس نے اسی روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے لیے ججز کی ٹرانسفر پر رضامندی ظاہر کرتے ہوئے معاملہ واپس وزارت کو بھیج دیا تھا۔

وزارت قانون کا جواب

وزارت قانون کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ یکم فروری کو چیف جسٹس آف پاکستان سے ججز کی ٹرانسفر پر رائے طلب کی گئی تھی، اور چیف جسٹس نے اسی روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے لیے ججز کی ٹرانسفر پر رضامندی ظاہر کرتے ہوئے معاملہ واپس وزارت کو بھیج دیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر کیس جوڈیشل کمیشن رجسٹرار سپریم کورٹ سپریم کورٹ سنیارٹی وزارت قانون

متعلقہ مضامین

  • جے یو آئی بڑی جماعت، جو فیصلہ کرے قبول ہو گا: بیرسٹر گوہر 
  • جے یو آئی کے ساتھ اتحاد نہ ہونے کا معاملہ، بیرسٹر گوہر کا ردِ عمل آ گیا
  • جے یو آئی کے ساتھ اتحاد نہ ہونے کا معاملہ: بیرسٹر گوہر کا ردِ عمل آ گیا
  • کے پی حکومت نے دینی مدارس کیلئے گرانٹ بڑھا کر 10کروڑ روپےکر دی: بیرسٹرسیف
  • سب صحافیوں کو 5 مرلے کا پلاٹ ملے گا،حکومت کابڑااعلان
  • ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس، جوڈیشل کمیشن، رجسٹرار سپریم اور وزارت قانون نے جواب جمع کروا دیا
  • چیف جسٹس نے ججز کے تبادلوں پر رضامندی ظاہر کی تھی: رجسٹرار سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں،جوڈیشل کمیشن کا ججز سنیارٹی کیس میں جواب
  • وفاق کا افغانستان کے ساتھ بات چیت کے عمل کا آغاز خوش آئند ہے. بیرسٹر سیف
  •  مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا کا وفاقی حکومت کی جانب سے افغانستان کے ساتھ بات چیت کے عمل کے آغاز کا خیرمقدم