MUMBAI, INDIA:

بھارت کی کرکٹ ٹیم کے حوالے سے رپورٹس ہیں کہ آسٹریلیا میں بدترین کارکردگی کے بعد اندرونی اختلافات اور چیلنجز کا شکار ہے اور ایسے میں آئے روز سابق کھلاڑیوں کی جانب سے ایک دوسرے پر الزامات بھی سامنے آرہے ہیں۔

کرکٹ بھارت میں سب سے مقبول کھیل ہے اور کرکٹ ٹیلنٹ بھی غیرمعمولی ہے، اسی لیے بعض اوقات کئی کھلاڑی اپنی صلاحیت کے مطابق موقع نہ ملنے پر اس کو خود کے ساتھ زیادتی گردانتے ہیں اور الزامات بھی عائد کردیتے ہیں۔

این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق بھارتی ٹیم کے سابق اسٹار اوپنر اور 07-2006 کے رانجی ٹرافی میں غیرمعمولی طور پر 99.

50 کی اوسط سے رنز کے انبار لگانے والے منوج تیواڑی نے سابق کپتان ایم ایس دھونی پر انہیں نظرانداز کرتے ہوئے قریبی کھلاڑیوں کو مواقع فراہم کرنے کا سنگین الزام عائد کیا ہے۔

منوج تیواڑی کو انٹرنیشنل کرکٹ میں ڈیبو کے لیے طویل انتظار کرنا پڑا تھا تاہم 2008 میں انہیں موقع ملا تاہم انہوں نے 2011 میں چنائی میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ایک روزہ کرکٹ میں سنچری بنائی تھی لیکن اس کے بعد انہیں ٹیم میں موقع نہیں ملا۔

ایم ایس دھونی اس وقت بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے اور ٹیم اپنی بہترین کارکردگی کی وجہ سے دنیا کے خطرناک ترین ٹیموں میں سے ایک ہوگئی تھی اور دھونی کے حوالے سے منوج تیواڑی نے کھل کر بات کی ہے۔

منوج تیواڑی نے ہندی میڈیا کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ دھونی اس وقت کپتان تھے اور ٹیم کپتان کی منصوبہ بندی کے مطابق رنز کر رہی تھی، ڈومیسٹک ٹیموں میں صورت حال الگ تھی لیکن قومی ٹیم کپتان پرانحصار کر رہی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اگر آپ کپل دیو کے دور میں دیکھیں تو وہ ٹیم چلا رہے تھے، سنیل گواسکر کے وقت بھی ان کی چلتی تھی، یہی کچھ محمد اظہرالدین کے ساتھ تھا، اس کے بعد گنگولی اور دیگر نے کیا، یہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ایک سخت منتظم آئے اور قواعد طے نہ کردے۔

منوج تیواڑی کا کہنا تھا کہ بھارتی کرکٹ بورڈ کے چیف سلیکٹر اجیت اگرکار کو دیکھیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ وہ سخت فیصلے کر رہے ہیں، وہ کوچ سے اختلاف کرتے ہیں۔

سابق اوپنر نے کہا کہ مجھے سنچری کرنے کے بعد 14 میچوں سے ڈراپ کیا گیا، اگر ایک بلے باز کو سنچری کے بعد ڈراپ کردیا جائے تو پھر میں اس کا جواب جاننا چاہوں گا۔

انہوں نے کہا کہ سنچری کے بعد میری تعریف کی گئی لیکن اس کے بعد مجھے کوئی موقع نہیں دیا گیا، اس وقت مجھ سمیت نوجوان خوف محسوس کرتے تھے کیونکہ اگر کچھ پوچھا جاتا تو کون جانتا ہے کہ اس کو طرح لیا جاسکتا تھا اور کیریئر داؤ پر لگ جاتا ہے۔

دھونی کے فیصلوں پر اعتراض کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹیم میں اس وقت ویرات کوہلی، سریش رائنا اور روہت شرما جیسے کھلاڑی تھے، اس دورے کے بعد وہ رنز نہیں بنا پا رہے تھے اور اس طرف میں سنچری بنانے اور میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیے جانے کے باوجود پلیئنگ الیون میں جگہ نہیں بنا سکا تھا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے 14 میچوں کے لیے ڈراپ کیا گیا اور یہ 6 ماہ کا دورانیہ تھا، اس وقت ڈراپ ہونے والے کھلاڑی زیادہ پریکٹس نہیں کرتے تھے اور میں ریٹائر ہونا چاہتا تھا لیکن خاندان کی ذمہ داریوں کی وجہ سے ایسا نہیں کرسکا تھا۔

سابق اسٹار اوپنر منوج تیواڑی نے طویل عرصے تک بھارت کی ڈومیسٹک ٹیم بنگال کی قیادت کی اور اس وقت ریاستی سطح پر کھیلوں اور نوجوانوں کے امور کے وزیر بھی ہیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ تھے اور کے بعد

پڑھیں:

پاکستان میں زچگی کے دوران اموات ایک سنگین مسئلہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 اپریل 2025ء) اقوامِ متحدہ کی رواں ماہ سات اپریل کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سن 2023 میں دنیا بھر میں زچگی کے دوران دو لاکھ 60 ہزار خواتین کی اموات ہوئیں، جن میں سے نصف کا تعلق صرف چار ممالک (نائجیریا، بھارت، جمہوریہ کانگو، پاکستان) سے تھا۔ اُس سال پاکستان میں 11 ہزارخواتین زچگی کے دوران ہلاک ہوئیں، جو عالمی اموات کا 4.1 فیصد بنتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ بہت سی اموات رجسٹرڈ ہی نہیں ہوتیں۔ نبیلہ کی کہانی

راولپنڈی کے مضافاتی گاؤں میں رہنے والی 35 سالہ نبیلہ، جو چار بچوں کی ماں تھیں، زچگی کے دوران پیچیدگیوں کی وجہ سے انتقال کر گئیں۔ ہیلتھ ورکر رفعت جبین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' نبیلہ کی مسکراہٹ آج بھی گاؤں کی گلیوں میں گونجتی ہے۔

(جاری ہے)

وہ ہر عورت کا دکھ بانٹتی تھیں لیکن اب اس کے گھر میں خاموشی چھائی ہے۔‘‘ رفعت جبین کے مطابق نبیلہ کی کہانی ان ہزاروں پاکستانی خواتین کی نمائندگی کرتی ہے، جو صحت کی سہولیات، شعور اور وسائل کی کمی کے باعث زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔ زچگی کے دوران اموات کی وجوہات

ماہرِ امراضِ نسواں ڈاکٹر عظمیٰ الماس کے مطابق خون کی کمی (اینیمیا) حاملہ خواتین میں عام ہے، خصوصاً ان میں، جن کی کم عمری میں شادی ہو جاتی ہے۔

شہری علاقوں میں خواتین حمل کے دوران باقاعدہ طبی معائنہ کراتی ہیں اور غذائیت کا خیال رکھتی ہیں لیکن دیہی علاقوں میں خون کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے، جو زچگی کی اموات کی شرح بڑھاتی ہے۔ دیگر وجوہات میں ہائی بلڈ پریشر، نفلی خون بہنا، انفیکشنز اور غیر محفوظ اسقاط حمل شامل ہیں۔ زچگی کے دوران اموات اور زمینی حقائق

ماہرِ امراضِ نسواں ڈاکٹر اُمِ حبیبہ نے بتایا کہ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ زمینی حقائق کی عکاسی کرتی ہے۔

سن 2015 میں زچگی کے دوران اموات کم کرنے میں پیش رفت ہوئی تھی لیکن حالات اب بھی جوں کے توں ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کا صحت کا نظام مسائل کا شکار ہے کیونکہ کوئی جامع پالیسی موجود نہیں، جو زمینی حقائق سے ہم آہنگ ہو۔ بنیادی مراکز صحت (بی ایچ یوز) اور تحصیل ہیلتھ مراکز (ٹی ایچ یوز) قائم تو کیے گئے لیکن یہ خستہ حال عمارتوں، عملے کی کمی اور ناقص انتظامات کا شکار ہیں۔

کئی علاقوں میں صحت کے افسران صرف کاغذوں پر موجود ہیں۔ صحت کا مسئلہ صرف سیاسی نعرہ

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کے رکن ڈاکٹر امجد علی خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ صحت پاکستان میں محض ایک سیاسی نعرہ ہے، جو انتخابات کے بعد دم توڑ دیتا ہے۔ ان کے مطابق، ''سیاسی جماعتیں صحت کو منشور کا حصہ بناتی ہیں لیکن بجٹ میں اسے نظرانداز کر دیا جاتا ہے اور یہ رویہ سن 1947 سے جاری ہے۔

‘‘

انہوں نے کہا کہ ہسپتالوں میں مہنگے علاج پر توجہ دی جاتی ہے لیکن صحت کی بنیادی دیکھ بھال نظر انداز ہوتی ہے۔ دیہی علاقوں میں خواتین کو زچگی سے متعلق بنیادی معلومات کی کمی ہے جبکہ غیر تربیت یافتہ دائیوں سے زچگی کرانے سے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آگاہی پروگرامز سے صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔

وسائل کی کمی یا ترجیحات کا فقدان؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں وسائل کی کمی کے ساتھ ساتھ ترجیحات کا فقدان بھی زچگی کے دوران اموات کی شرح بڑھانے کا سبب ہے۔

ڈاکٹر امجد علی خان نے کہا کہ اگر دفاع پر اربوں روپے خرچ ہو سکتے ہیں تو عوام کے لیے ہیلتھ انشورنس بھی فراہم کی جا سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''صرف 250 روپے ماہانہ فی فرد سے ہر پاکستانی کو یونیورسل ہیلتھ کوریج دی جا سکتی ہے۔ عالمی معیار کے مطابق صحت کے لیے پانچ فیصد بجٹ مختص ہونا چاہیے لیکن پاکستان میں یہ صرف ایک فیصد کے قریب ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ زچگی جے دوران اموات کی اصل تعداد سرکاری اعداد و شمار سے زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ بہت سی اموات رجسٹرڈ نہیں ہوتیں۔

ماہرین کی رائے میں مندرجہ ذیل تجاویز پر عمل کرتے ہوئے صورت حال کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

آگاہی مہمات: دیہی علاقوں میں زچگی سے متعلق آگاہی پروگرامز شروع کیے جائیں۔ صحت کے بجٹ میں اضافہ: صحت کے لیے کم از کم پانچ فیصد بجٹ مختص کیا جائے۔ ہیلتھ انشورنس: یونیورسل ہیلتھ کوریج کے ذریعے ہر شہری کو صحت کی سہولیات دی جائیں۔ دائیوں کی تربیت: غیر تربیت یافتہ دائیوں کی جگہ تربیت یافتہ عملہ متعارف کرایا جائے۔ مراکز صحت کی بحالی: بی ایچ یوز اور ٹی ایچ یوز کو فعال بنایا جائے اور تربیت یافتہ عملہ تعینات کیا جائے۔

ادارت: امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • معروف ٹک ٹاک اسٹار کا مبینہ لیک ویڈیو پر ردعمل سامنے آگیا
  • بھارتی کے اسٹار کرکٹر پر 12 لاکھ روپے جرمانہ عائد
  • اسٹیڈیم سے نام ہٹانے کا معاملہ؛ سابق کپتان بھڑک اُٹھے، عدالت جانے کا اعلان
  • “سابق کپتان کا نام اسٹیڈیم کے اسٹینڈ سے ہٹایا جائے” درخواست موصول ہوگئی
  • سابق کپتان کا نام اسٹیڈیم کے اسٹینڈ سے ہٹایا جائے درخواست موصول ہوگئی
  • ورلڈ کپ کے لیے قومی ویمنز کرکٹ ٹیم بھارت نہیں جائے گی: محسن نقوی
  • ویمنز کرکٹ ورلڈ کپ: کیا قومی ٹیم اپنے میچز کھیلنے کے لیے بھارت جائےگی؟
  • ویمنز پی ایس ایل سمیت اہم اعلانات، محسن نقوی لڑکیوں کی کارکردگی پر خوشی سے سرشار
  • لڑکے سے لڑکی بننے والی سابق بھارتی کرکٹر سےمتعلق انکشافات سامنے آگیا
  • پاکستان میں زچگی کے دوران اموات ایک سنگین مسئلہ