برطانوی اخبار گارجین نے فاش کیا ہے کہ معروف بین الاقوامی کمپنی مائیکروسافٹ غزہ جنگ کے دوران بھرپور انداز میں صیہونی فوج کی جانب سے غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کے قتل عام اور نسل کشی میں تعاون اور مدد فراہم کرتی رہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ حال میں برطانیہ کے معروف اخبار گارجین نے کچھ ایسی دستاویزات شائع کی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بین الاقوامی کمپنی مائیکروسافٹ غزہ جنگ کے دوران بھرپور انداز میں صیہونی فوج سے تعاون کرتی رہی ہے۔ یہ تعاون خاص طور پر 7 اکتوبر 2023ء کے بعد غزہ میں انجام پانے والے صیہونی فوجی حملوں میں انجام پایا ہے۔ ان دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مائیکروسافٹ نے کئی شعبوں میں صیہونی فوج کو مدد فراہم کی ہے جن میں جدید ترین ٹیکنالوجیز جیسے کلاوڈ اور مصنوعی ذہانت شامل ہیں۔ ان ٹیکنالوجیز کی مدد سے صیہونی فوج نے جنگی حالات میں وسیع پیمانے پر ڈیٹا کو استعمال کیا، اس کا تجزیہ و تحلیل کیا اور فلسطینیوں کو جارحانہ حملوں کا نشانہ بنایا۔ مائیکروسافٹ کی جانب سے غاصب صیہونی فوج کو فراہم کی گئی معاونت کا ایک اہم حصہ کلاوڈ پلیٹ فارم Azure پر مشتمل تھا۔ یہ پلیٹ فارم مائیکروسافٹ کی جانب سے صیہونی فوج کو فراہم کیا گیا تھا جس کی مدد سے وہ مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے فلسطینیوں کی نسل کشی کرتی رہی۔ یاد رہے آزورے نامی یہ پلیٹ فارم درحقیقت وسیع پیمانے پر ڈیٹا کے تجزیہ و تحلیل کے لیے بروئے کار لایا جاتا ہے۔ اس پلیٹ فارم کے ذریعے صیہونی فوج ایسے حملے انجام دیتی رہی جس میں فلسطینی شہریوں کا زیادہ سے زیادہ جانی نقصان ہو سکے۔
 
مائیکروسافٹ کی جانب سے صیہونی فوج کو فراہم کی جانے والی مدد سے زیادہ تر صیہونی ایئرفورس، نیوی اور آرمی انٹیلی جنس نے فائدہ اٹھایا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مائیکروسافٹ اور صیہونی فوج کے درمیان انجام پانے والا تکنیکی تعاون صرف مدیریتی اور انتظامی امور تک محدود نہیں رہا بلکہ حساس انٹیلی جنس اور آرمی آپریشنز میں بھی وسیع طور پر بروئے کار لایا گیا ہے۔ گارجین میں شائع ہونے والی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آزورے پلیٹ فارم کے علاوہ مائیکروسافٹ کمپنی نے اسرائیل آرمی کی انٹیلی جنس یونٹ 8200 کے ساتھ حساس انٹیلی جنس منصوبوں میں بھی تعاون انجام دیا ہے۔ اس معاونت میں مائیکروسافٹ نے مصنوعی ذہانت کا ماڈل GPT-4 بھی صیہونی فوج کو فراہم کیا جو حال ہی میں OpenAI میں سب کے اختیار میں دیا گیا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے اس ماڈل نے مختلف معلومات جیسے جاسوسی آلات سے ریکارڈ کی گئی آوازیں، سیٹلائٹ سے حاصل کی گئی تصاویر اور دیگر انٹیلی جنس معلومات صیہونی فوج کو فراہم کیں جن کی مدد سے صیہونی فوج نے غزہ میں جارحانہ حملے انجام دیے۔ صیہونی فوج ان ٹیکنالوجیز کی مدد سے بہت ہی کم وقت میں اپنے اہداف کا تعین کرتی تھی۔
 
اگرچہ مائیکروسافٹ کمپنی کافی عرصہ پہلے سے صیہونی فوج سے تعاون کرتی چلی آ رہی تھی لیکن 7 اکتوبر 2023ء کے بعد اس تعاون میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے چونکہ اس دوران صہیونی فوج کو ڈیٹا اور حساس معلومات کی ذخیرہ سازی کے تجزیہ و تحلیل کی شدید ضرورت محسوس ہوئی تھی۔ مائیکروسافٹ کمپنی نے جدید ترین کلاوڈ ٹیکنالوجیز صیہونی فوج کو فراہم کر کے اسے اس مد میں تعاون فراہم کیا تاکہ جنگی حالات میں صیہونی فوج اپنی ضروریات برطرف کر سکے اور اپنی انٹیلی جنس اور فوجی صلاحیتوں میں اضافہ کر سکے۔ مائیکروسافٹ کمپنی کے علاوہ گوگل نے بھی کئی شعبوں میں غزہ جنگ کے دوران صیہونی فوج سے بھرپور تعاون جاری رکھا ہوا تھا۔ گوگل اور ایمازون نے Nimbus نامی پراجیکٹ میں مل کر کام کیا تھا جبکہ یہ پراجیکٹ دراصل کلاوڈ ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کی سروسز فراہم کرتا ہے۔ اس پراجیکٹ نے صیہونی رژیم کے سیکورٹی اور فوجی اداروں کو بھی وسیع تعاون اور مدد فراہم کی ہے۔ نیمبس نامی یہ پراجیکٹ 2021ء میں شروع کیا گیا تھا اور اس کی ڈیزائننگ صیہونی وزارت خانوں کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنے کی خاطر انجام پائی تھی۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: میں صیہونی فوج سے صیہونی فوج مصنوعی ذہانت انٹیلی جنس کی جانب سے پلیٹ فارم کی مدد سے کرتی رہی فوج سے

پڑھیں:

مغرب میں تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی

اسلام ٹائمز: دوسری طرف مختلف یورپی ممالک جیسے جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں بھی ایسے طلبہ و طالبات کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں جنہوں نے 2023ء سے اب تک کسی نہ کسی صورت میں فلسطین کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہاں بھی انسانی حقوق، آزادی اظہار اور جمہوری اقدار کی دعویدار تنظیمیں اور ادارے چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ وہ بے پناہ طلبہ کی حمایت کرنے کی بجائے حکومتوں کے آمرانہ اور ظالمانہ برتاو کی حمایت کر رہے ہیں۔ نہ تو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی ہنگامی اجلاس بلواتی ہے اور نہ ہی یورپی پارلیمنٹ اور کمیشن کے بیانات سامنے آتے ہیں۔ مغربی کا حقیقی چہرہ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ امریکی، یورپی اور صیہونی حکمران بہت جلد اس حقیقت سے آگاہ ہو جائیں گے کہ تعلیمی مراکز پر دھونس جما کر وہ نئی نسل میں ظلم کے خلاف نفرت اور مظلوم سے ہمدردی کا جذبہ ختم نہیں کر سکتے۔ تحریر: حنیف غفاری
 
ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی حکومت نے ہارورڈ یونیورسٹی اور اسٹنفورڈ یونیورسٹی سمیت کئی چھوٹے اور بڑے تعلیمی مراکز کے خلاف انتہاپسندانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے جس کا مقصد ان تعلیمی مراکز سے فلسطین کے حامیوں اور غاصب صیہونی رژیم کے مخالفین کا صفایا کرنا ہے۔ دوسری طرف مغرب میں انسانی حقوق، تعلیمی انصاف اور آزادی اظہار کے دعویداروں نے اس قابل مذمت رویے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ بہت سے غیر ملکی طلبہ و طالبات جو مکمل طور پر قانونی طریقے سے امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم تھے اب نہ صرف انہیں تعلیم جاری رکھنے سے روک دیا گیا ہے بلکہ اف بی آئی اور امریکہ کی سیکورٹی فورسز نے انہیں حراست میں رکھا ہوا ہے۔ امریکی حکومت نے ہارورڈ یونیورسٹی سمیت ملک کی تمام یونیورسٹیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ فلسطین کی حمایت میں طلبہ و طالبات کی سرگرمیاں فوراً روک دیں۔
 
امریکی حکومت نے یونیورسٹیوں پر زور دیا ہے کہ وہ مغربی ایشیا خطے میں جاری حالات سے متعلق طلبہ و طالبان کو یونیورسٹی کے احاطے میں اجتماعات منعقد کرنے کی اجازت نہ دیں اور جو طلبہ و طالبان ان سرگرمیوں میں ملوث ہیں ان کی تمام معلومات سیکورٹی اداروں کو فراہم کریں۔ یوں امریکہ میں یونیورسٹی اور تعلیمی مراکز فوجی چھاونیاں بن کر رہ گئے ہیں۔ امریکہ کی وزارت داخلہ نے ہارورڈ یونیورسٹی کو وارننگ دی ہے کہ اگر اس کی انتظامیہ حکومتی احکامات پر عملدرآمد نہیں کرتی تو اس کا غیر ملکی طلبہ و طالبات کو داخلہ دینے کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا۔ امریکہ کی وزارت داخلہ اور وائٹ ہاوس جس انداز میں یونیورسٹیوں اور تعلیمی مراکز سے برتاو کر رہے ہیں وہ انسان کے ذہن میں "تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی" کا تصور قائم کر دیتا ہے۔
 
ریاستی دہشت گردی کی آسان تعریف یہ ہے کہ کوئی حکومت سیاسی اہداف کی خاطر عام شہریوں کے خلاف غیر قانونی طور پر طاقت کا استعمال کر کے انہیں خوفزدہ کرے۔ ہم ایک طرف غزہ کی پٹی میں بھرپور انداز میں جاری مسلسل نسل کشی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں شہداء کی تعداد 52 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے جبکہ غاصب اور بے رحم صیہونی رژیم کی جانب سے شدید محاصرے اور انسانی امداد روکے جانے کے باعث ہر لمحے معصوم بچے شہید ہو رہے ہیں۔ ایسے حالات میں امریکی حکمران یہودی لابی آئی پیک کی کاسہ لیسی کی خاطر ملک کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی مراکز کو بے حس، خاموش تماشائی بلکہ جرائم پیشہ صیہونی رژیم کی حامی بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ تعلیمی مراکز کے خلاف اس ریاستی دہشت گردی کا سرچشمہ وائٹ ہاوس، نیشنل سیکورٹی ایجنسی اور موساد ہیں۔
 
یہاں ایک اور مسئلہ بھی پایا جاتا ہے جو شاید بہت سے مخاطبین کے لیے سوال کا باعث ہو۔ یہ مسئلہ صیہونی رژیم اور امریکی حکومت کی جانب سے خاص طور پر ہارورڈ یونیورسٹی پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں اس یونیورسٹی کو ملنے والا 2 ارب کا بجٹ روک دیا ہے۔ یہ کینہ اور دشمنی اس وقت کھل کر سامنے آیا جب غزہ جنگ شروع ہونے کے تین ماہ بعد ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک سروے تحقیق انجام پائی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس یونیورسٹی کے 51 فیصد طلبہ و طالبات جن کی عمریں 18 سے 24 سال تھیں جعلی صیہونی رژیم کے خاتمے اور جلاوطن فلسطینیوں کی وطن واپسی کے حامی ہیں۔ اس اکثریت کا خیال تھا کہ صیہونی حکمران آمر اور ظالم ہیں جبکہ فلسطینیی ان کے خلاف طوفان الاقصی آپریشن انجام دینے میں پوری طرح حق بجانب تھے۔
 
اسی وقت سے امریکی حکومت اور صیہونی حکمران ہارورڈ یونیورسٹی اور اس سے متعلقہ اداروں کے خلاف شدید غصہ اور نفرت پیدا کر چکے تھے۔ امریکہ میں صیہونی لابی آئی پیک (AIPAC) نے ہارورڈ یونیورسٹی میں اس سروے تحقیق کی انجام دہی کو یہود دشمنی قرار دے دیا۔ مزید برآں، اس سروے رپورٹ کے نتائج کی اشاعت نے یہودی لابیوں کو شدید دھچکہ پہنچایا۔ اب سب کے لیے واضح ہو چکا ہے کہ امریکہ میں نئی نسل نہ صرف غاصب صیہونی رژیم کے حق میں نہیں ہے بلکہ اس کے ناجائز وجود کے لیے چیلنج بن چکی ہے۔ اب صیہونی لابیاں امریکہ کے ایسے یونیورسٹی طلبہ سے انتقام لینے پر اتر آئی ہیں جنہوں نے مظلوم فلسطینیوں کی کھل کر حمایت کی ہے اور کسی قیمت پر بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ امریکی ذرائع ابلاغ بھی اس واضح ناانصافی اور ظلم پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
 
دوسری طرف مختلف یورپی ممالک جیسے جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں بھی ایسے طلبہ و طالبات کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں جنہوں نے 2023ء سے اب تک کسی نہ کسی صورت میں فلسطین کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہاں بھی انسانی حقوق، آزادی اظہار اور جمہوری اقدار کی دعویدار تنظیمیں اور ادارے چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ وہ بے پناہ طلبہ کی حمایت کرنے کی بجائے حکومتوں کے آمرانہ اور ظالمانہ برتاو کی حمایت کر رہے ہیں۔ نہ تو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی ہنگامی اجلاس بلواتی ہے اور نہ ہی یورپی پارلیمنٹ اور کمیشن کے بیانات سامنے آتے ہیں۔ مغربی کا حقیقی چہرہ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ امریکی، یورپی اور صیہونی حکمران بہت جلد اس حقیقت سے آگاہ ہو جائیں گے کہ تعلیمی مراکز پر دھونس جما کر وہ نئی نسل میں ظلم کے خلاف نفرت اور مظلوم سے ہمدردی کا جذبہ ختم نہیں کر سکتے۔

متعلقہ مضامین

  • مغرب میں تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی
  • ارشد محمود ملک کا تبادلہ، وزیراعظم سیکرٹریٹ میں بطور سپیچ رائٹر تعینات
  • وزیر اعظم کے اسپیچ رائٹر ارشد محمود ملک کا تبادلہ
  • یہودیوں کا انجام
  • پارٹی کا سوشل میڈیا علیمہ خان کنٹرول کرتی ہیں،حیدر مہدی،عادل راجا انہی کی ایما پر پراپیگنڈا کرتے ہیں‘ شیر افضل مروت
  • صیہونی حملے کے بعد اسرائیلی نژاد امریکی قیدی کا کوئی علم نہیں، ایک محافظ شہید ہو چکا ہے، القسام بریگیڈ
  • غزہ، صیہونی فوج کی بمباری سے مزید 64فلسطینی شہید
  • اسلام آباد میں اہم عمارتوں پر کالعدم تنظیم کی چاکنگ کر کے سوشل میڈیا پر تشہیر کرنے والا ملزم گرفتار
  • حکومت فیشن اور تخلیقی انڈسٹری کی ترقی کیلئے ہر ممکن تعاون فراہم کریگی، جام کمال
  • صیہونی سوشل میڈیا پر مسجد اقصیٰ کو گرانے کی مذموم مہم شروع