Islam Times:
2025-04-22@14:12:26 GMT

پیکا ترمیمی بل بدنیتی پر مبنی کالا قانون ہے، لیاقت بلوچ

اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT

پیکا ترمیمی بل بدنیتی پر مبنی کالا قانون ہے، لیاقت بلوچ

کوئٹہ میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے لیاقت بلوچ نے کہا کہ سیاسی بحرانوں سے نجات اور سیاسی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ قومی سیاسی قیادت اپنی ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرکے اتفاق رائے سے فیصلے کریں۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی کے مرکزی رہنماء لیاقت بلوچ کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے حالات پر وفاقی، صوبائی حکومتیں اور ریاستی سیکیورٹی ادارے سنجیدگی کی بجائے مفاداتی اور طاقت و قوت کے استعمال پر انحصار کر رہے ہیں۔ ریاست کا یہ رویہ بلوچستان میں بڑی بے چینی کا ذریعہ ہے۔ فیڈریشن آئین کے مطابق ریاست کی اکائیوں کے حقوق کا تحفظ کرے اور صوبوں کی شکایات کا ازالہ آئینی اداروں اور مشترکہ مفادات کونسل کے ذریعے کیا جائے۔ بلوچستان کے حقوق کیلئے متحدہ مخلصانہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ یہ بات انہوں نے کوئٹہ میں مرکزی مسلم لیگ کے صوبائی سیکرٹریٹ منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کے عوام کے سلگتے مسائل لاپتہ افراد، سی پیک، سیندک، ریکوڈک و دیگر پراجیکٹ کے ثمرات سے محرومی، بارڈر بندش، بے روزگاری اور بدامنی جیسے مسائل کو فوری و سنجیدگی سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ بے عمل وعدے، خالی خولی اعلانات زخموں پر نمک چڑکنے کے مترادف ہے۔

لیاقت بلوچ نے کہا کہ قومی اسمبلی سے پیکا ترمیمی بل کی منظوری کو ملک میں اندھیر نگری کا بدنیتی پر مبنی کالا قانون ہے۔ جماعت اسلامی اسے مسترد کرتی ہے۔ حکومت پیکا ترمیمی بل فوری واپس لے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور پی ٹی آئی سیاسی مذاکرات کو غیرسنجیدگی سے مذاق رات بنا رہے ہیں۔ سیاسی مذاکرات کی ناکامی سیاست، جمہوریت اور پارلیمانی جمہوریت کے لئے نیک شگون نہ ہوگا۔ سیاسی بحرانوں سے نجات اور سیاسی استحکام کے لئے ضروری ہے کہ قومی سیاسی قیادت اپنی ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرکے اتفاق رائے سے فیصلے کریں۔ انہوں نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم اور سپریم کورٹ، ہائی کورٹ میں جسٹس حضرات کی تقسیم حالات کو بھیانک بنا رہی ہے۔ جج صاحبان تقسیم در تقسیم کی بجائے ازخود عدالتی حالات کو درست کرنے کا نوٹس لے۔ عوام کے لئے عدل و انصاف کی فراہمی کی خاطر عدالتیں اپنا قومی، انسانی، شرعی فریضہ ادا کریں۔

لیاقت بلوچ نے کہا کہ ہائی پاور سلیکشن بورڈ میں سیاسی قیادت کی ممبرشپ متنازع سیاسی فیصلہ ہے۔ عدلیہ کی طرح سول سروس کو بھی تنازعات کا شکار کیا جارہا ہے۔ سیاسی جمہوری حکمران ناجائز بالادستی کی بجائے آئین، قانون اور ضابطوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ حکومتیں انتخابات کی طرح الیکشن کمیشن آف پاکستان میں تقریروں کے لئے بھی غیرآئینی، غیرجمہوری واردات کر رہی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں تقرریاں ہر شک و شبہ سے بالاتر بنائی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی کے ساتھ ہی رفح پر حملہ اسرائیل کا سنگین جنگی جرم ہے۔ اسرائیل ناجائز اور ناقابل اعتبار ہے۔ عالم اسلام کی قیادت کو ہی فیصلہ کن اقدامات کرنا ہونگے۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کی قطر میں فلسطین حماس کی قیادت سے ملاقات پاکستانی عوام کی طرف فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا بروقت جرات مندانہ اقدام ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: لیاقت بلوچ نے کہا کہ انہوں نے کے لئے

پڑھیں:

بلوچستان کا بحران اور نواز شریف

بلوچستان کے حالات میں بہتر تبدیلی لانے کے لیے غیر معمولی اقدامات درکار ہیں ۔ حکمت عملی کا تقاضا یہ ہونا چاہیے کہ طاقت کے ساتھ ساتھ سیاسی حکمت عملی کا بھی بھرپور استعمال کیا جائے۔ بلوچستان کے حالات اسی صورت میں بہتر ہوں گے جب ہم سیاسی حکمت عملی کو بالادستی دیں گے ، یہ ہی حکمت عملی ریاستی رٹ کو بھی مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوگی۔

پچھلے دنوں سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کی اس تناظرمیں ہونے والی ملاقات ایک اہم پیش رفت سمجھی جا سکتی ہے۔بہت سے سیاسی افراد اور اہل دانش نے یہ تجویز دی تھی کہ اگر نواز شریف آگے بڑھیں اور اپنا کردار ادا کریں تو حالات میں بہتری کی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے۔خود نواز شریف نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ بلوچستان کے حالات کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف ایک بڑی سیاسی شخصیت ہیں اور ان کو بلوچستان میں احترام کے طور پر دیکھا بھی جاتا ہے۔

 بلوچستان کے حالات میں خرابیاں چند دنوں یا ہفتوں میں نہیں ہوئی ہیں بلکہ یہ برسوں کی کہانی ہے۔ بلوچستان کے حالات کی بہتری میں جو بڑا کردار بڑی سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کو ادا کرنا چاہیے تھا ، اس کا فقدان دیکھنے کو ملا ہے۔اس وقت بھی بلوچستان میں دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی و مسلم لیگ ن کی مشترکہ حکومت ہے ۔اس مشترکہ حکومت کا بھی کوئی بڑا کردار ہمیں حالات کی بہتری میں دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔

 موجودہ حالات میں صوبائی حکومت کا کردار محدود نظر آتا ہے۔اصل میں بلوچستان میں موجود سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں موجودہ حالات میں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں سے بھی مایوس نظر آتی ہیں۔ان کے بقول بلوچستان کے حالات کی خرابی میں جہاں دیگر عوامل موجود ہیں وہیں بڑی سیاسی جماعتوں کا صوبے کے حوالے سے لاتعلقی کا پہلو بھی ہے۔

بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتیں یہ بھی سمجھتی ہیں کہ بلوچستان کے صوبے میں حقیقی سیاسی لوگوں کی بجائے نمائشی سیاسی لوگوں کی بالادستی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں نے بلوچستان کے حالات کی درستگی میں کب عملی اقدامات اٹھائے ہیں اور ان کوعملی اقدامات کرنے سے کب روکا گیا ہے۔اصل میں ہماری بڑی سیاسی جماعتوں نے خود سے بھی بلوچستان کے حالات میں کچھ بھی نہ کرنے کی پالیسی اختیار کر لی ہے اور اس کا عملی نتیجہ بلوچستان کے حالات کی خرابی کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔

 پاکستان میں جو پاپولر سیاست ہو رہی ہے، اس میں نواز شریف سرگرم نظر نہیں آرہے۔ قومی سیاست ایک طرف وہ مسلم لیگ ن ہی نہیں بلکہ پارلیمانی سیاست میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لے رہے اور نہ ہی وہ پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں۔اسی طرح پارٹی کے اجلاس ہوں یا پارلیمانی میٹنگز میں بھی ان کی غیر حاضری واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔مسلم لیگ ن کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے اہم افراد اور دانش وروں و تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نواز شریف موجودہ حالات سے مطمئین نظر نہیں آتے ہیں۔

اسی بنیاد پر جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ نواز شریف بلوچستان میں کوئی بڑا مفاہمانہ کردار ادا کرسکیں گے اس پر بہت سے سوالیہ نشان موجود ہیں۔ نواز شریف 8فروری کے انتخابات کے بعد بڑے بہت زیادہ فعالیت یا متحرک ہونے کی بجائے بیک ڈور بیٹھ کرخاموشی کے کردار کو ہی اپنے لیے بہتر سمجھتے ہیں تاکہ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کو کسی بڑی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

 اس وقت وزیراعظم میاں شہباز شریف بھی بلوچستان کے حالات کی بہتری میں کوئی بڑا بریک تھرو نہیں کراسکے ہیں۔جس انداز سے قومی سیاست میں سیاست دانوں،سیاسی جماعتوں سمیت سیاست وجمہوریت کی جگہ محدود ہوئی ہے وہاں ایک بڑے مجموعی سیاسی کردار کی جنگ بھی محدود ہی نظر آتی ہے۔ماضی میں نواز شریف کئی بار بلوچستان کے حالات کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور اسی تناظر میں سابق وزیر اعلی ڈاکٹر عبدالمالک نے نواز شریف سے ملاقات بھی کی ہے۔

اگر ان تمام تر حالات کے باوجود نواز شریف خود سے آگے بڑھ کر بلوچستان کے حالات کی درستگی میں عملی طور پر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اس کی یقیناً سیاسی قدر کی جانی چاہیے۔اسی طرح یہ سوال بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے کیا نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اور منشا کے بغیر بلوچستان کے حالات میں کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں یا ان کو اس تناظر میں اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہوگی۔

کیونکہ مسلم لیگ ن اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر آگے بڑھ سکے ۔بلوچستان کی بیشتر قوم پرست سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت بلوچستان کے تناظر میں اسٹیبلشمنٹ کی سیاست پر تحفظات رکھتی ہیں۔ایسے میں نواز شریف کیا اسٹیبلشمنٹ اور بلوچستان کے قوم پرستوں کے درمیان غلط فہمیوں پر ایک بڑے پل کا کردار ادا کر سکیں گے۔ان حالات میںجب بلوچستان کی سنگینی کافی حساس نوعیت کی ہے تو نواز شریف نے بلوچستان جانے کی بجائے اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ بیلا روس اور لندن کے دورے پر جانے کو ترجیح دی اور اب وہ اپنے علاج کے سلسلے میں لندن میں موجود ہیں۔اس دورے سے ان کی ترجیحات کو سمجھا جاسکتا ہے۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس وقت بلوچستان میں شرپسندوں کے خلاف طاقت کی حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اگر یہ درست ہے تو پھر سیاسی آپشن واقعی محدود ہو جاتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ نواز شریف کے بھی سیاسی آپشن محدود ہیں ۔ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے تمام سیاسی جماعتوں ،سیاسی قیادت اور اسٹیبلیشمنٹ کو مل کر سیاسی اور انتظامی حکمت عملی اختیارکرنا ہوگی تاکہ اس بحران کا حقیقی اور پائیدار حل سامنے آسکے۔بلوچستان کے مسائل کا بہتر حل قومی سیاست اور ایک بڑے سیاسی،معاشی اور سیکیورٹی استحکام کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے ۔

اس لیے ایک ایسے موقع پر جب خارجی یا علاقائی ممالک بالخصوص بھارت اور افغانستان کی مداخلت موجود ہے توایسے میں ہمیں داخلی سطح کے مسائل کا حل تلاش کرکے ایک بڑے سیاسی اتفاق رائے کو پیدا کرنا ہوگا اور اسی حکمت عملی کی بنیاد پر سیاسی حل تلاش کرکے ہمیں بلوچستان کا حل تلاش کرنا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کا جھنڈا جلانے والی کارکن کا تعلق بلوچ یکجہتی کمیٹی سے ہی تھا، سرفراز بگٹی
  • پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا مذاکرات کا فیصلہ نورا کشتی ہے، لیاقت بلوچ
  • بلوچستان کا بحران اور نواز شریف
  • محبوبہ مفتی کا بھارتی سپریم کورٹ سے وقف ترمیمی قانون کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ
  • بی ایل اے کی دہشت گردی کے خلاف کراچی میں خواتین کا احتجاج
  • حیدرآباد انڈیا میں وقف ترمیمی قانون کے خلاف انسانی سروں کا سمندر امڈ پڑا
  • محسن نقوی اور طلال چوہدری کا لیاقت بلوچ سے ٹیلیفونک رابطہ، غزہ مارچ سے متعلق گفتگو
  • حکومت کو کوئی حق نہیں کہ فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی مارچ کو روکے: لیاقت بلوچ
  • بلوچستان کی ترقی اور کالعدم تنظیم کے آلہ کار
  • مودی حکومت کو ہٹ دھرمی چھوڑ کر مسلمانوں کے جذبات کا احترام کرنا چاہیئے، سرفراز احمد صدیقی