افغان طالبان نے عالمی فوجداری عدالت سے وارنٹ گرفتاری کا مطالبہ سیاسی قرار دے کر مسترد کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
افغانستان کی طالبان حکومت نے کہا ہے کہ عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے پراسیکیوٹر کی جانب سے رہنماؤں کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کا مطالبہ سیاسی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادار اے ایف پی کی خبر کے مطابق افغان طالبان کی جانب سے یہ بیان آئی سی سی کے چیف پراسیکیوٹر کا بیان سامنے آنے کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ افغانستان میں خواتین کے ساتھ ظلم و ستم جو کہ انسانیت کے خلاف جرم ہے، پر طالبان کے سینئر رہنماؤں کے خلاف وارنٹ گرفتاری کی استدعا کر رہے ہیں۔
افغان وزارت خارجہ کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ (آئی سی سی) کے بہت سے دوسرے فیصلوں کی طرح یہ فیصلہ بھی منصفانہ قانونی بنیادوں سے محروم ہے، یہ دوہرے معیار کا معاملہ ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ یہ افسوسناک ہے کہ اس ادارے نے افغانستان پر 20 سالہ قبضے کے دوران غیر ملکی افواج اور ان کے ملک میں موجود اتحادیوں کی جانب سے کیے گئے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
اس میں مزید کہا گیا کہ عدالت کو پوری دنیا پر انسانی حقوق کی ایک خاص تشریح مسلط کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے اور عالمی عدالت کو باقی دنیا کے لوگوں کی مذہبی اور قومی اقدار کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔
واضح رہے کہ طالبان 2021 میں امریکی حمایت یافتہ حکومت کے خاتمے کے بعد اقتدار میں واپس آئے، وہ عوام پر اسلامی قوانین کو سخت تشریح کے ساتھ نافذ کر رہے ہیں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں خواتین پر پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔
افغانستان کے نائب وزیر داخلہ محمد نبی عمری جو گوانتاناموبے جیل میں قیدی رہے، انہوں نے کہا کہ آئی سی سی ہمیں خوفزدہ نہیں کرسکتی۔
انہوں نے مشرقی شہر خوست میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ منصفانہ اور سچی عدالتیں ہوتیں تو انہیں امریکا کو کٹہرے میں لانا چاہیے تھا کیونکہ یہ امریکا ہی ہے جس نے جنگیں شروع کیں، دنیا کے تنازعات امریکا کے ہی پیدا کردہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے خلاف بھی غزہ میں فوجی کارروائی پر مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’انہیں اسرائیل کے وزیر اعظم کو عدالتی کٹہرے میں لانا چاہیے، کیونکہ ( ان کی حکومت) نے ہزاروں بے گناہ فلسطینیوں کو شہید کیا، لیکن وہ آزاد پھر رہے ہیں کیونکہ عالمی طاقت ان کے پیچھے کھڑی ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کی جانب سے انہوں نے کے خلاف رہے ہیں نے کہا
پڑھیں:
پوپ فرانسس کی وفات پر عالمی رہنماؤں اور عوام کا خراج عقیدت
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 اپریل 2025ء) ویٹیکن کی جانب سے 88 سالہ پوپ فرانسس کی وفات کے اعلان کے بعد دنیا بھر سے صدور، وزرائے اعظم اور عام شہریوں کی طرف سے انہیں خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔ وہ کیتھولک چرچ کے 266 ویں پوپ اور یہ عہدہ سنبھالنے والے پہلے لاطینی امریکی کلیسائی رہنما تھے۔ پوپ فرانسس طویل علالت کے بعد اور سانس کی بیماری کے باعث پیر 21 اپریل کی صبح انتقال کر گئے تھے۔
'پناہ گزینوں کے وکیل‘فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، ''بیونس آئرس سے روم تک، پوپ فرانسس نے چاہا کہ چرچ غریبوں کے لیے خوشی اور امید کا ذریعہ بنے۔ وہ چاہتے تھے کہ انسانوں کو آپس میں اور فطرت کے ساتھ جوڑا جائے۔
(جاری ہے)
‘‘
پیرس کی میئر این ہڈالگو نے اعلان کیا کہ پوپ کی یاد میں آئفل ٹاور کی روشنیاں پیر کی رات بند رہیں گی۔
انہوں نے کہا کہ پوپ فرانسس نے ''ماحولیات کو روحانی معاملات کے مرکز میں رکھا اور پناہ گزینوں کے استقبال کی وکالت کی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ فرانسیسی دارالحکومت میں ایک مقام پوپ کے نام سے منسوب کیا جائے گا۔برطانیہ کے بادشاہ چارلس، جو چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ بھی ہیں، نے کہا، ''میں پوپ فرانسس کی وفات سے انتہائی رنجیدہ ہوں۔
‘‘ انہوں نے کیتھولک چرچ کے لیے پوپ کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا، '' وہ اس چرچ کے لیے اپنی خدمات پوری لگن سے سرانجام دیتے رہے۔ میری گہری تعزیت اور گہری ہمدردی اس چرچ کے ساتھ ہے، جس کی انہوں نے اس قدر عزم سے خدمت کی۔‘‘ بادشاہ چارلس اور ملکہ کامیلا نے رواں ماہ ہی ویٹیکن میں پوپ سے ملاقات کی تھی۔ امریکی نائب صدر کا بیانامریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے ایکس پر لکھا، ''میرا دل ان لاکھوں مسیحیوں کے ساتھ ہے، جو ان سے محبت کرتے تھے۔
‘‘ انہوں نے کہا، ''میں کل ان سے مل کر خوش تھا، حالانکہ وہ واضح طور پر شدید بیمار تھے۔‘‘ وینس نے بھارت روانہ ہونے سے قبل ایسٹر کے موقع پر پوپ سے ملاقات کی تھی۔ پوپ کی وفات 'گہری اداسی میں ڈبو دینے والا لمحہ‘اطالوی وزیر اعظم جارجیا میلونی نے کہا، ''میں ان کی دوستی، ان کے مشوروں اور ان کی تعلیمات سے مستفید ہونے کا اعزاز رکھتی ہوں، جو کبھی مجھے ناکام نہیں ہونے دیتے تھے، یہاں تک کہ آزمائش اور تکلیف کے وقت میں بھی۔
‘‘ انہوں نے پوپ کی وفات کو ''گہری اداسی میں ڈبو دینے والا لمحہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا، ''ہم ایک عظیم انسان اور عظیم راعی کو الوداع کہہ رہے ہیں۔‘‘ میلونی ان چند حکومتی شخصیات میں شامل تھیں، جنہوں نے پوپ کے ہسپتال میں حالیہ قیام کے دوران ان سے ملاقات کی تھی۔ 'محبت، جو کیتھولک چرچ سے بھی آگے تک پھیلی ہوئی تھی‘یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیر لاین نے لکھا، ''انہوں نے اپنی عاجزی اور پسماندہ افراد کے لیے ایسی خالص محبت سے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا، جو کیتھولک چرچ سے بھی کہیں آگے تک پھیلی ہوئی تھی۔
‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''میری دعائیں ان تمام لوگوں کے ساتھ ہیں، جو اس گہرے نقصان کو محسوس کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ وہ اس خیال سے کچھ تسلی پائیں گے کہ پوپ فرانسس کی میراث ہمیشہ زیادہ منصفانہ، پرامن اور ہمدرد دنیا کی طرف ہماری رہنمائی کرتی رہے گی۔‘‘یورپی سینٹرل بینک کی صدر کرسٹین لاگارڈ نے ایکس پر لکھا، ''میں پوپ فرانسس کی وفات سے گہری اداسی میں ہوں۔
وہ اتحاد، انصاف اور انسانی وقار کی عالمی آواز تھے۔ ان کی حکمت اور عاجزی نے انسانی زندگیوں کو عقیدے سے بالاتر ہو کر چھوا۔‘‘ ' پوپ کی غریبوں، مہاجرین اور پسماندہ افراد کے لیے خصوصی توجہ‘جرمنی کے صدر فرانک والٹر شٹائن مائر نے ایک تعزیتی خط میں کہا، ''پوپ فرانسس کے ساتھ دنیا نے امید کی ایک روشن کرن، انسانیت کے ایک مستند وکیل، اور ایک پکے مسیحی کو کھو دیا ہے۔
‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''ان کی سادگی، ان کی بے ساختگی اور ان کا مزاح، لیکن سب سے بڑھ کر ان کے واضح طور پر گہرے ایمان نے پوری دنیا کے لوگوں کو چھوا اور انہیں سہارا، طاقت اور سمت فراہم کیے۔‘‘انہوں نے پوپ کی غریبوں، مہاجرین اور پسماندہ افراد کے لیے خصوصی توجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ''بہت سے لوگ، جو خود کو بھلا دیا گیا سمجھتے تھے، پوپ فرانسس نے انہیں سنا، دیکھا اور سمجھا۔
‘‘ جرمن صدر نے مزید کہا کہ جرمنی کے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مسیحی یکجہتی کے ساتھ ان کی وفات پر سوگوار ہیں۔جرمن چانسلر اولاف شولس نے ایکس پر لکھا، ''پوپ فرانسس کے ساتھ کیتھولک چرچ اور دنیا نے کمزوروں کے ایک وکیل، ایک مصالحت کار اور ایک ہمدرد شخص کو کھو دیا ہے۔‘‘
پوپ اور فلسطینی عوامفلسطینی صدر محمود عباس نے کہا، ''آج ہم نے فلسطینی عوام اور ان کے جائز حقوق کے ایک وفادار دوست کو کھو دیا۔
‘‘ ان کے مطابق، ''پوپ فرانسس نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا اور ویٹیکن میں فلسطینی پرچم بلند کرنے کی اجازت دی۔‘‘اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے ایکس پر لکھا، ''میں واقعی امید کرتا ہوں کہ مشرق وسطیٰ میں امن اور یرغمالیوں کی محفوظ واپسی کے لیے ان کی دعائیں جلد پوری ہوں گی۔‘‘ پوپ نے اسرائیل کی جنگی کارروائیوں پر تنقید کی تھی اور غزہ میں مبینہ نسل کشی کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا، جنہیں اسرائیل نے سختی سے مسترد کر دیا تھا۔
'بے آوازوں کی آواز‘مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے ایک بیان میں کہا، ''پوپ فرانسس نے ایک عظیم انسانی ورثہ چھوڑا، جو انسانیت کے ضمیر میں ہمیشہ محفوظ رہے گا۔‘‘ انہوں نے پوپ کو ''ایک غیر معمولی عالمی شخصیت قرار دیا، جنہوں نے اپنی زندگی امن اور انصاف کی اقدار کی خدمت کے لیے وقف کی۔‘‘
ہسپانوی وزیر اعظم پیدرو سانچیز نے ایکس پر لکھا، ''پوپ فرانسس نے دنیا کے سب سے کمزور لوگوں پر توجہ دی۔
‘‘ پولش وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک نے پوپ کے ساتھ اپنی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئےکہا، ''پوپ فرانسس ایک مہربان، گرم جوش اور ہمدرد شخص تھے۔‘‘ آئرش وزیر خارجہ سائمن ہیرس نے کہا، ''ان کی طرف سے غریبوں کی وکالت، بہتر بین المذاہبی تعلقات اور ماحولیاتی تحفظ پر توجہ نے انہیں امید کی کرن اور بے آوازوں کی آواز بنایا۔‘‘روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے کریملن کے ذریعے تعزیت کا پیغام بھیجا، جبکہ افریقی یونین کی قیادت نے پوپ کو ''اخلاقیات کی عظیم آواز‘‘ قرار دیا۔
پوپ کی وفات کا سنتے ہی ویٹیکن سٹی کے سینٹ پیٹرز اسکوائر پر بہت بڑا ہجوم اکٹھا ہو گیا، جبکہ پوپ کی یاد میں دنیا بھر کے گرجا گھروں میں پھول رکھے جا رہے ہیں۔
ادارت: مقبول ملک