امریکہ: عدالت نے پیدائشی حق شہریت پر ٹرمپ کے حکم کو روک دیا
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جنوری 2025ء) امریکی ریاست سیئیٹل کے ایک وفاقی جج نے والدین کی امیگریشن کی حیثیت سے قطع نظر پیدائشی حق شہریت کی آئینی ضمانت کو ختم کرنے کے ٹرمپ کے حکم کو عارضی طور پر روک دیا ہے۔
امریکی ڈسٹرکٹ جج جان کوفینور نے فیصلہ سنایا کہ صدر کی جانب سے امریکہ میں پیدا ہونے والے بچوں کو امریکی شہریت دینے سے انکار کرنے کی کوشش "پوری طرح سے غیر آئینی" ہے۔
محکمہ انصاف کے ایک وکیل، جو صدر کے حکم کے فیصلے کا دفاع کر رہے تھے، کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جج نے کہا، "مجھے یہ سمجھنے میں دشواری ہو رہی ہے کہ بار کا ایک رکن کس طرح فیصلہ کن انداز میں یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ حکم آئینی ہے۔ یہ تو میرے دماغ کو چکرا دینے والی بات ہے۔
(جاری ہے)
"
صدارتی حکم کے خلاف یہ مقدمہ امریکہ کی 22 ریاستوں اور تارکین وطن کے حقوق کا تحفظ کرنے والے متعدد گروپوں نے عدالتوں میں دائر کیا ہے۔
امریکی آئین کی خلاف ورزیمقدمہ دائر کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ امریکی آئین کی 14ویں ترمیم کی خلاف ورزی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں پیدا ہونے والا کوئی بھی شخص ملک کا شہری ہے۔
محکمہ انصاف کا کہنا ہے کہ یہ حکم ملک کے ٹوٹے ہوئے امیگریشن سسٹم اور جنوبی سرحد پر جاری بحران سے نمٹنے کے لیے ٹرمپ کی کوششوں کا ایک "لازمی جز" ہے۔
امریکہ: یمن کے حوثی باغی دوبارہ ’دہشت گرد‘ گروپ میں شامل
ملکی بدری کے خطراتاگر صدر ٹرمپ کے موقف کو اعلی عدالت تسلیم کر لیتی ہے، تو اس حکم کا مطلب یہ ہو گا کہ 19 فروری کے بعد ان والدین کے ہاں پیدا ہونے والے بچے، جو امریکی شہری نہیں ہیں یا قانونی طور پر مستقل رہائشی نہیں ہیں، انہیں ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔
ایسے بچوں کو سوشل سکیورٹی نمبر، دیگر سرکاری فوائد یا بڑے ہونے پر انہیں قانونی طور پر کام کرنے کا حق حاصل کرنے کی اجازت بھی نہیں ہو گی۔
'مضحکہ خیز جنگ' ختم کی جائے، ٹرمپ کا پوٹن سے مطالبہ
حکومت کا اپیل کرنے کا اعلانعدالت کے اس حکم کا مطلب یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈر کو مزید قانونی کارروائی تک 14 دنوں کے لیے روک دیا جائے گا۔ تاہم ٹرمپ نے کہا کہ حکومت عدالت کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی۔
پیدائشی حق شہریت کے تحت، جہاں امریکی سرزمین پر پیدا ہونے والے کسی بھی شخص کو خود بخود شہریت مل جاتی ہے، اصل میں امریکی آئین کا حصہ نہیں تھا، تاہم سن 1868 میں خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد امریکی نژاد آزاد سابق غلاموں کی شہریت کے معاملے کو حل کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کی گئی تھی۔
ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی افغان شہریوں کے لیے بڑا دھچکہ
ٹیرف امریکہ کی بڑی طاقت لیکن۔۔۔۔صدر ٹرمپ نے فوکس نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران کہا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی معاہدہ ہو سکتا ہے، جو ان کے انتخابی مہم کے بیانات سے قدر مختلف لہجہ ہے۔
انہوں نے انٹرویو کے دوران کہا کہ چین کے ساتھ ایک معاہدہ ممکن ہے اور "ہمارے پاس چین کے خلاف ایک بہت بڑی طاقت ہے اور وہ ہے ٹیرف، چینی اسے چاہتے نہیں، اور میں بھی اسے استعمال نہیں کرنا چاہتا، لیکن چین کے خلاف یہ ایک زبردست طاقت تو ہے۔
"وائٹ ہاؤس واپس آنے کے بعد ہی ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ وہ چین پر 10 فیصد کی شرح محصولات میں اضافہ کریں گے۔ تاہم ان کے یہ تازہ تبصرے اس بات کا اشارہ ہیں کہ کس طرح امریکی صدر ٹیرف کی دھمکی کو مذاکراتی حربے کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
اپنا ’وجود قائم رکھنے‘ کے لیے یورپ کو مسلح ہونا پڑے گا، ٹسک
چینی صدر سے اچھے تعلقات کا ذکرجب ٹرمپ سے چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ان کے تعلقات کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے ایک حالیہ گفتگو کے حوالے سے تعلقات کو "اچھا" اور "دوستانہ" بتایا۔
ٹرمپ نے کہا، "وہ خود بھی ایک حوصلہ مند شخص ہیں۔۔۔۔ وہ میرے دوست کی طرح ہیں، ہمارے بہت اچھے تعلقات تھے۔"
تاہم انہوں نے بیجنگ کے خلاف اپنے ٹیرف لگانے کے فیصلے کو درست قرار دیا اور کہا کہ "چین کو اپنی بہت سی رقم امریکہ سے ملتی ہے اور وہ اس رقم کو اپنی فوج بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔"
پاناما کینال، امریکہ کا تحفہ نہیں تھا، صدر مولینو
یوکرین جنگ پر پوٹن سے ملاقات کی خواہشاس دوران ٹرمپ نے سیاسی اور کاروباری رہنماؤں سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ وہ یوکرین میں روسی جنگ کے خاتمے کے لیے روسی صدر ولادمیر پوٹن سے ملاقات کرنا چاہیں گے۔
ان کا کہنا تھا، "میں واقعی چاہتا ہوں کہ صدر پوٹن سے جلد ہی اس جنگ کے خاتمے کے لیے ملاقات کروں۔اور یہ معیشت یا کسی اور چیز کے نقطہ نظر سے نہیں ہے، بلکہ یہ اس نقطہ نظر سے ہے کہ لاکھوں زندگیاں ضائع ہو رہی ہیں۔"
ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ انہیں امید ہے کہ چین بھی یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ "اس صورتحال میں ان کے (چین) پاس بہت زیادہ طاقت ہے۔"
واضح رہے کہ گزشتہ روز ہی ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں صدر پوٹن سے یوکرین کی جنگ ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ٹرمپ اس جنگ کو "مضحکہ خیز" قرار دیتے ہیں۔
ص ز/ (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے خاتمے کے پیدا ہونے انہوں نے ٹرمپ کے کے خلاف پوٹن سے جنگ کے چین کے کے لیے نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
یمن میں امریکہ کی برباد ہوتی حیثیت
اسلام ٹائمز: امریکہ کو درپیش جدید ترین فوجی چیلنجز کے میدان میں یمن کی جنگ ایک بحرانی صورتحال اختیار کر چکی ہے۔ یمن میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم انصاراللہ اپنے کوہستانی علاقوں اور مخصوص جغرافیائی حالات پر بھروسہ کرتے ہوئے امریکہ فورسز کے مقابلے میں شدید مزاحمت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ انصاراللہ تحریک کے پاس زیر زمین پناہ گاہیں ہیں اور وہ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہے جس کی وجہ سے وہ امریکہ کے لیے ایک حقیقی خطرہ بن چکی ہے۔ اگرچہ امریکہ کو توقع تھی کہ وہ اپنے اسٹریٹجک بی 52 بمبار طیاروں کے ذریعے، جو حتی جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں، انصاراللہ یمن کے ٹھکانوں اور میزائلوں کے ذخائر کو تباہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن اب تک اسے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو پائی ہے۔ متعدد رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے اسلحہ کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں۔ تحریر: حمید محمد طاہری
عالمی سطح پر سالہا سال تسلط پسندی کے بعد آج یمن امریکہ کے لیے ایک ایسا میدان بن چکا ہے جہاں امریکی افواج شدید قسم کے اسٹریٹجک چیلنجز سے روبرو ہیں۔ اب تک امریکی فوج یمن کے خلاف معرکے میں نہ صرف مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے بلکہ امریکہ کی فوجی طاقت اور حیثیت بھی خطرے میں پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ 1980ء کے عشرے میں جب سابق سوویت یونین میں گورباچوف نے اصلاحات کا آغاز کیا اور اس کے نتیجے میں سوویت یونین ٹوٹ کر کئی ریاستوں میں تقسیم ہو گیا تو دنیا میں امریکہ واحد سپرپاور کے طور پر متعارف ہونے لگا۔ یہ سرد جنگ کا خاتمہ تھا اور دنیا پر یونی پولر ورلڈ آرڈر حکمفرما ہو چکا تھا۔ یہاں سے "امریکن پیس" کا زمانہ شروع ہوتا ہے جس میں امریکہ نے دنیا بھر میں یکہ تازیاں شروع کر دیں۔
عالمی سطح پر امریکی طاقت کی دھاک جمانے میں ہالی وڈ نے بھی مرکزی کردار ادا کیا۔ ایسی ہی ایک فلم جو امریکہ کی شان و شوکت کی تصویر پیش کرتی تھی 1986ء میں بننے والی "ٹاپ گن" تھی جس میں ٹام کروز نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ وہ اس فلم میں ایک بہادر امریکی پائلٹ کا کردار ادا کر رہا تھا۔ اس فلم نے امریکی جوانوں کو متاثر کیا اور وہ دھڑا دھڑ ایئرفورس میں شامل ہونا شروع ہو گئے۔ اس فلم کے چار سال بعد عراق میں "ڈیزرٹ اسٹارم" نامی بڑا فوجی آپریشن انجام پایا جو درحقیقت امریکہ کی جانب سے فوجی طاقت کا بڑا مظاہرہ تھا۔ لیکن گذشتہ چند سالوں میں امریکہ کی طاقت اور شان و شوکت کے سامنے نئے چیلنجز ابھر کر سامنے آئے جن کے تناظر میں ہالی وڈ نے 2022ء میں ٹاپ گن 2 فلم بنائی۔
اس میں بھی ٹام کروز نے ہیرو کا کردار ادا کیا اور یوں امریکہ کو دشمنوں کے مقابلے میں برتر طاقت کے طور پر دکھانے کی کوشش کی گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ پیس امریکانا کا زمانہ گزر چکا ہے اور اب امریکہ مزید عالمی سطح پر وہ سپرپاور نہیں جس کے سامنے سر اٹھا کر بات نہ کی جا سکتی ہو۔ ٹاپ گن 2 میں کہانی ایک ایسے ایٹمی مرکز کے گرد گھومتی ہے جو ایک پہاڑی علاقے میں موجود ہے اور علاقے کے خدوخال سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مشرق وسطی خطے میں واقع ہے۔ اس مرکز کا پیچیدہ محل وقوع اور فلم میں موجود روسی جنگی طیاروں سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ مشرق وسطی میں امریکہ کو حقیقی خطرہ درپیش ہے۔ ایسا ہی خطرہ جو ان دنوں یمن کی جانب سے ہے جہاں انصاراللہ یمن نے پہاڑوں کے اندر پیچیدہ تنصیبات تعمیر کر رکھی ہیں۔
امریکہ کو درپیش جدید ترین فوجی چیلنجز کے میدان میں یمن کی جنگ ایک بحرانی صورتحال اختیار کر چکی ہے۔ یمن میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم انصاراللہ اپنے کوہستانی علاقوں اور مخصوص جغرافیائی حالات پر بھروسہ کرتے ہوئے امریکہ فورسز کے مقابلے میں شدید مزاحمت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ انصاراللہ تحریک کے پاس زیر زمین پناہ گاہیں ہیں اور وہ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہے جس کی وجہ سے وہ امریکہ کے لیے ایک حقیقی خطرہ بن چکی ہے۔ اگرچہ امریکہ کو توقع تھی کہ وہ اپنے اسٹریٹجک بی 52 بمبار طیاروں کے ذریعے، جو حتی جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں، انصاراللہ یمن کے ٹھکانوں اور میزائلوں کے ذخائر کو تباہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن اب تک اسے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو پائی ہے۔ متعدد رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے اسلحہ کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں۔
اسلحہ کے ذخائر میں قلت کے باعث ممکن ہے امریکہ کی مسلح افواج کی توجہ دیگر اہداف سے ہٹ جائے۔ ان رپورٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکہ اب تک انصاراللہ کے زیر زمین ٹھکانوں کو تباہ کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس کے اسلحہ کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ یمن میں ایسی پہاڑی دلدل کا شکار ہو گیا ہے جو اس کی توجہ اصل اہداف سے ہٹا سکتی ہے۔ اسی سلسلے میں امریکی حکام پیشن گوئی کر رہے ہیں کہ اگر یمن کی جنگ جاری رہتی ہے تو ممکن ہے امریکہ کو اپنی پوری توجہ یمن پر مرکوز کرنی پڑ جائے جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ عالمی سطح پر امریکہ کی حیثیت اور عزت کو ٹھیس پہنچے گی۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یمن کے پہاڑ امریکہ کے فوجی ذخائر ختم ہو جانے کا باعث بنے ہیں؟
امریکہ کے فوجی ذخائر کم ہونے کے باعث اس کی عالمی سپرپاور کے طور پر حیثیت بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اکثر تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ یمن میں جنگ کی پیچیدگیوں اور انصاراللہ تحریک کی شدید مزاحمت کے پیش نظر ممکن ہے امریکہ مستقبل قریب میں یمن کے مقابلے میں مزید شکست اور ناکامیوں کا شکار ہو جائے۔ یہ امر عالمی سطح پر درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے میں امریکہ کی صلاحیتوں اور توانائیوں کے بارے میں سنجیدہ قسم کے سوالات جنم دے سکتا ہے۔ یمن اور اس کے اتحادیوں کی نظر میں بہترین منظرنامہ یہ ہے کہ یمن کے پہاڑ نہ صرف امریکی بم بلکہ امریکہ کی فوجی شہرت اور شان و شوکت بھی اپنے اندر دفن کر دیں۔ ایسے میں ہالی وڈ کی فلمیں شاید پروپیگنڈے کے میدان میں موثر واقع ہوں لیکن حقیقی امتحان یمن کے پہاڑوں میں جاری ہے۔