بھارت کے نامور اداکار سیف علی خان نے اپنے گھر ہونے والی واردات کی تفصیلات پولیس کو بتادیں۔

بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق سیف نے ابتدائی بیان پولیس کو ریکارڈ کروادیا جس میں انہوں نے بتایا کہ اصل کہانی کیا ہوئی تھی اور کس طرح وہ حملہ آور کے مسلسل حملوں سے زخمی ہوئے۔

اداکار نے پولیس کو بتایا کہ ‘میں نے 16 جنوری کو 2:30 سے ​​2:40 کی درمیانی شب اپنے گھر میں ہنگامہ آرائی کی آوازیں سنی، میں اپنی بیوی کرینہ کے ساتھ عمارت کی 12ویں منزل پر اپنے کمرے میں تھا کہ چھوٹے بیٹے جے کے رونے کی آواز سن کر کمرے سے باہر نکلا’۔

انہوں نے بتایا کہ’11ویں منزل پر آیا جہاں میرے بیٹے اور ان کی دیکھ بھال کرنے والے موجود تھے، شور سننے کے بعد جیسے ہی میں جے کے کمرے میں پہنچا میں نے دیکھا کہ اس کی نرس ایک اجنبی سے اونچی آواز میں بات کررہی ہے‘۔

سیف کے مطابق ’اس شخص کے پاس چاقو تھا، ایک خطرہ محسوس کرتے ہوئے میں نے اسے پکڑنے کی کوشش کی لیکن تھوڑی دیر بعد اس شخص نے مجھے مارنا شروع کردیا، اس نے میری پیٹھ، گردن اور ہاتھوں میں چھرا گھونپ دیا، اس دوران جے نرس کے ساتھ کمرے سے نکل گیا‘۔

اداکار کے مطابق ’میں نے کسی طرح حملہ آور پر قابو پانے کی کوشش کی اور اسے کمرے کے اندر بند کردیا، کرینہ اور میرے بیٹے مجھے زخمی اور خون بہتا دیکھ کر ڈرگئے، اس کے بعد مجھے اسپتال لے جایا گیا جب کہ حملہ آور بھاگنے میں کامیاب رہا‘۔

واضح رہے کہ 16 جنوری کو رات 3 بجے کے قریب سیف علی خان کے ممبئی کے باندرا والے گھر میں ڈکیتی کی کوشش کی گئی جسے اداکار نے مزاحمت کرکے ناکام بنایا۔

مزاحمت کے دوران سیف علی خان پر چاقو سے حملہ کیا گیا جس سے انہیں 6 زخم آئے جن میں سے 2 کافی گہرے تھے جبکہ ایک زخم ریڑھ کی ہڈی کے قریب ترین تھا۔

سیف علی خان کو زخمی ہونے کے بعد گھر کی گاڑی کے بجائے رکشہ میں مقامی اسپتال پہنچایا گیا۔

اسپتال پہنچنے پر سیف کا آپریشن کرکے ان کی ریڑھ کی ہڈی سے چاقو کا 2.

5 انچ کا ٹکڑا نکالا گیا اور اداکار کو تقریباً 6 دن کے بعد منگل کو اسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا۔

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: سیف علی خان کے بعد

پڑھیں:

بیٹا مجرم ہو تو سزا دیں مگر غائب نہ کریں، وزارت داخلہ کے لاپتا ملازم کے والد کی استدعا

پشاور:

وزارت داخلہ کے لاپتا ملازم کے والد نے عدالت میں مقدمے کی سماعت کےد وران کہا کہ میرا بیٹا مجرم ہے تو اسے سزا دیں مگر ایسے غائب نہ کریں۔

ہائی کورٹ میں وزارت داخلہ کے ملازم کمپیوٹر آپریٹر محمد عثمان کی گمشدگی سے متعلق درخواست  پر سماعت قائم مقام چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے کی، جس میں لاپتا شخص کے والد، وکیل، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل پیش  ہوئے۔

دورانِ سماعت وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کے ساتھ سفید کپڑوں میں ملبوس افراد نے درخواست گزار کو گھر سے اٹھایا۔

وزارت داخلہ کے لاپتا ملازم کے والد نے بتایا کہ گزشتہ 7 ماہ سے میرے بیٹے کو لاپتا کیا گیا ہے۔ ہم محب وطن ہیں، ہمارے خاندان کا کوئی بھی فرد وطن کے ساتھ غداری نہیں کرسکتا۔

جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے استفسار کیا کہ آپ کے بیٹے نے کیا کیا ہے کہ اسے غائب کیا گیا، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میرے بیٹے نے اگر کچھ کیا ہو تو سزا دیں، لیکن اس طرح غائب نہ کریں۔

قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رپورٹس دیکھنے کے بعد ہم فیصلہ کر سکیں گے۔

بعد ازاں عدالت نے پولیس سمیت وفاقی اور صوبائی حکومت سے رپورٹ طلب کرلی۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ جنگ کے خلاف احتجاج پر امریکہ میں قید خلیل، نومولود بیٹے کو نہ دیکھ سکے
  • تربیلا ڈیم میں پانی کا ذخیرہ ‘ڈیڈ لیول’ سے بلند ہونے لگا
  • فائیوجی اسپیکٹرم کی نیلامی کیوں نہیں ہورہی، پی ٹی اے نے اندر کی بات بتادی
  • بیٹا مجرم ہو تو سزا دیں مگر غائب نہ کریں، وزارت داخلہ کے لاپتا ملازم کے والد کی استدعا
  • ‘پاکستان میرا دوسرا گھر ہے’ سر ویوین رچرڈز نے دل کھول کر اپنے تاثرات بیان کردیے
  • 34 سال سے درانتی بنانے والے ہنر مند کی کہانی
  • غیر ملکی خاتون پریزینٹر نے حسن علی کو ‘جوکر’ قرار دیدیا، ویڈیو وائرل
  • عرب ممالک کے ویزوں کا معاملہ، وزیر دفاع خواجہ آصف نے ویزہ مسائل کی بڑی وجہ بتادی
  • اکشے کمار کی فلم ‘کیسری 2’ ریلیز ہونے کے گھنٹوں بعد ہی پائریسی کا شکار ہوکر لیک
  • ‘مردہ’ شخص زندہ ہوکر نادرا دفتر پہنچ گیا، ‘ہر جگہ الرٹ آتا ہے کہ آپ مرچکے ہیں’