جانیے کہ عالمی ادارہ صحت کیا ہے اور یہ کیوں اہم ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 24 جنوری 2025ء) 19 ویں صدی کے وسط میں جب طاعون، ہیضے اور زرد بخار نے نوصنعتی و باہم مربوط ہوتی دنیا کو لپیٹ میں لیا تو صحت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے بین الاقوامی طریقہ کار کی لازمی ضرورت بالآخر عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے قیام پر منتج ہوئی۔
1851 میں معالجین، سائنس دان، ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم فرانس کے دارالحکومت میں منعقدہ 'حفظان صحت' کی بین الاقوامی کانفرنس میں جمع ہوئے جو اس ادارے کے قیام کا نقطہ آغاز تھی۔
صحت کے لیے اقوام متحدہ کے اس عالمی ادارے نے 1948 میں اپنے قیام کے بعد دنیا بھرکے لوگوں کی بہبود کے لیے کام کیا ہے جو طبی سائنس کی تجربہ گاہوں سے لے کر میدان ہائے جنگ تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ ادارہ سائنس سے رہنمائی اور 194 رکن ممالک سے مالی مدد اور تعاون لیتا ہے جن میں امریکہ بھی شامل ہے جس نے گزشتہ سوموار کو اس کی رکنیت چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔
(جاری ہے)
'ڈبلیو ایچ او' نے دنیا کے لیے کیا کچھ کیا ہے؟ اس سوال کا مختصر جواب 'بہت کچھ' ہو گا۔ ادارہ اس وقت اپنے ارکان کے ساتھ 150 سے زیادہ جگہوں پر طبی خدمات مہیا کر رہا ہے اور اس نے صحت عامہ کے حوالے سے کئی سنگ ہائے میل عبور کیے ہیں۔
دنیا میں صحت کے اس سب سے بڑے ادارے کے بارے میں درج ذیل معلومات بہت اہم ہیں:
ہنگامی حالات میں امدادی اقداماتبحرانوں، مسلح تنازعات، بیماریاں پھیلنے کے خطرات اور موسمیاتی تبدیلی تک بہت سے مسائل کی موجودگی میں 'ڈبلیو ایچ او' نے غزہ سے سے لے کر سوڈان اور یوکرین تک جاری جنگوں سے متاثرہ لوگوں کو امراض سے بچاؤ کی ویکسین اور دوردراز یا خطرناک علاقوں میں طبی سازوسامان پہنچایا ہے۔
اس وقت طبی نظام کو غیرمعمولی خطرات کا سامنا ہے۔ 'ڈبلیو ایچ او' کے مطابق، 2023 کے دوران 19 ممالک اور علاقوں میں طبی کارکنوں، مریضوں، ہسپتالوں، صحت کے مراکز اور ایمبولینس گاڑیوں پر 1,200 حملے ہوئے جن کے نتیجے میں 700 ہلاکتیں ہوئیں اور تقریباً 1,200 افراد زخمی ہو گئے تھے۔
درحقیقت 'ڈبلیو ایچ او' کی طبی ٹیمیں وہاں بھی مدد پہنچاتی ہیں جہاں کوئی اور نہیں پہنچ سکتا۔
وہ زخمی مریضوں کو جنگ زدہ علاقوں سے نکالتی اور طبی مراکز میں ضروری سازوسامان اور خدمات فراہم کرتی ہیں۔ستمبر 2024 میں بنائی گئی زیرنظر ویڈیو میں 'ڈبلیو ایچ او' کی ٹیمیں جنگ زدہ اور زیرمحاصرہ غزہ میں بچوں کو پولیو ویکسین پلاتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ اقدام علاقے میں 25 سال کے بعد پولیو وائرس سامنے آنے کے بعد اٹھایا گیا۔
ہر دن اور رات 'ڈبلیو ایچ او' کے ماہرین کی ٹیمیں سائنسی تحقیق سمیت ہزاروں معلومات اور بیماریوں کی نگرانی سے متعلق رپورٹوں کا تجزیہ کرتی اور ایوین فلو سے لے کر کووڈ۔19 تک صحت عامہ کو لاحق بہت سے خطرات اور بیماریوں کے پھیلاؤ کی علامات کو جانچتی ہیں۔
'ڈبلیو ایچ او' متعدی بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے، ان کی نشاندہی اور ان کا قلع قمع کرنے اور ضروری طبی خدمات تک رسائی کو بہتر بنانے کے لیے متحرک رہتا ہے۔
اس میں ہسپتالوں کی صلاحیتوں میں اضافے کے اقدامات بھی شامل ہیں جہاں بچوں کی پیدائش سے لے کر جنگ میں زخمی ہونے والوں کے علاج اور طبی کارکنوں کی تربیت تک بہت سے کام کیے جاتے ہیں۔بیماریوں کا خاتمہصحت عامہ سے متعلق درست پالیسیوں کی موجودگی میں بہت سی بیماریوں کا خاتمہ ہونے کو ہے جن میں نظر انداز شدہ وبائی امراض اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں، جنسی طور پر منتقل ہونے والے امراض اور ماؤں سے بچوں کو منتقل ہونے والے عوارض شامل ہیں جن کی ویکسین کے ذریعے روک تھام ممکن ہے۔
'ڈبلیو ایچ او' ضروری ادویات اور طبی سازوسامان کی فراہمی کے علاوہ جہاں ممکن ہو وہاں بیماریوں کی تشخیص کی سہولیات کو بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے۔
2024 میں 'ڈبلیو ایچ او' کے ارکان نے عالمگیر صحت عامہ کو لاحق ان بڑے مسائل پر قابو پانے کے ضمن میں متعدد سنگ ہائے میل عبور کیے۔ سات ممالک (برازیل، چاڈ، انڈیا، اردن، پاکستان، ٹیمور لیستے اور ویت نام) نے اپنے ہاں جزام اور آنکھ کی بیماری تراقوما سمیت گرم علاقوں میں پھیلنے والے متعدد امراض کا خاتمہ کیا۔
برازیل، جمیکا اور سینیٹ ونسینٹ اینڈ گرینیڈینز میں ماؤں سے بچوں کو ایچ آئی وی اور آتشک کی منتقلی پر قابو پا لیا گیا ہے جبکہ نمیبیا نے ماؤں سے بچوں کو ایچ آئی وی اور ہیپاٹائٹس کی منتقلی کے خاتمے کا سنگ میل عبور کر لیا ہے۔
'ڈبلیو ایچ او' نے گزشتہ سات دہائیوں میں پولیو کے تقریباً خاتمے کا سنگ میل بھی عبور کر لیا ہے جبکہ اس کی کاوشوں سے دنیا نے 1980 میں خسرے پر قابو پا لیا تھا۔
'ڈبلیو ایچ او' مصنوعی ذہانت (اے آئی) اور ڈیجیٹل صحت کے میدان میں بھی کام کر رہا ہے اور اس ٹیکنالوجی کو صحت کے لیے محفوظ و موثر بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
ادارے نے گزشتہ سال ایک نئی رہنمائی شائع کی تھی جس میں سرطان یا تپ دق جیسی بیماریوں کی تشخیص و علاج کے معاملے میں ضروری انضباطی ہدایات دی گئی ہیں۔
اس ضمن میں غیر اخلاقی طور پر مریضوں کے بارے میں معلومات جمع کرنے کے عمل اور آن لائن طبی تحفظ کو لاحق خطرات روکنے اور تعصب یا غلط اطلاعات پر قابو پانے کے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔موسمیاتی و طبی بحرانوں سے تحفظموسمیاتی مسائل سے منسلک طبی بحران دنیا میں 3.
2023 میں شدید گرمی، موسمی شدت کے واقعات یا فضائی آلودگی سے ریکارڈ تعداد میں اموات ہوئیں جس سے طبی نظام اور کام کرنے والی آبادی پر شدید دباؤ آیا۔
ان کے نتیجے میں امریکہ کے مغربی ساحل پر جنگلوں کی آگ سے لے کر انڈونیشیا میں شدید بارشوں سے آنے والے سیلاب تک کئی حوادث دیکھنے کو ملے۔'ڈبلیو ایچ او' صحت عامہ کو موسمیاتی تبدیلی کے وسیع تر اثرات سے صحت کو تحفظ دینے کے اقدامات کرتا چلا آیا ہے جن میں عدم تحفظ اور ترقیاتی منصوبوں کا تخمینہ لگانا بھی شامل ہے۔
ادارے نے شدید گرمی اور وبائی بیماریوں جیسے بڑے خطرات پر قابو پانے کے نظام بروئے کار لانے کے لیے کام کیا ہے پانی و خوراک جیسے اہم شعبوں میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مطابقت پیدا کرنے کی کوششوں میں مدد فراہم کی ہے۔
'ڈبلیو ایچ او' وباؤں کی روک تھام، ان سے نمٹنے کی تیاری اور ان کا خاتمہ کرنے کے اقدامات کو بہتر بنانے کے لیے ایک عالمی معاہدے کے لیے کوشاں ہے جو 1851 میں حفظان صحت کی بین الاقوامی کانفرنس کے عزائم سے ہم آہنگ ہو گا۔
ادارہ اپنے 'تین ارب اہداف' کو حاصل کرنے کے لیے بھی کام کر رہا ہے۔
2019 میں طے کردہ ان اہداف کی رو سے 2025 تک مزید ایک ارب لوگوں کو صحت کی سہولیات تک رسائی دینا، مزید ایک ارب لوگوں کو ہنگامی طبی حالات میں بہتر تحفظ مہیا کرنا اور مزید ایک ارب لوگوں کو بہتر صحت اور بہبود کی فراہمی یقینی بنانا شامل ہے۔ادارے کی قیادت'ڈبلیو ایچ او' کا دفتر سوئزرلینڈ کے شہر جنیوا میں واقع ہے اور ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس اس کے سربراہ (ڈائریکٹر جنرل) ہیں۔
25۔2024 میں ادارے کا منظور کردہ (دو سالہ) بجٹ 6.83 ارب ڈالر ہے۔ یہ وسائل اس کے ارکان اور عطیہ دہندگان مہیا کرتے ہیں۔ادارے کا فیصلہ ساز شعبہ 'عالمی طبی اسمبلی' اس کے رکن ممالک پر مشتمل ہے جو 'ڈبلیو ایچ او' کی ترجیحات اور پالیسیاں طے کرنے کے لیے ہر سال اجلاس کرتے ہیں۔ ادارے کے ارکان طبی اہداف اور حکمت عملی کے بارے میں ایسے فیصلے لیتے ہیں جن کی بدولت انہیں اپنے ہاں صحت کے شعبے میں رہنمائی ملتی ہے اور ادارے کا سیکرٹریٹ دنیا بھر کے لوگوں کی بہتر صحت و بہبود کے لیے کام کرتا ہے۔ ان میں بہتری کے مقصد سے کی جانے والی اصلاحات بھی شامل ہوتی ہیں۔
'ڈبلیو ایچ او 'کے بارے میں یہاں مزید جانیے اور ذیل میں ہماری ویڈیو دیکھیے۔ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پر قابو پانے ڈبلیو ایچ او کے بارے میں کے اقدامات ارب لوگوں کر رہا ہے کا خاتمہ لوگوں کو سے لے کر کرنے کے کو بہتر بچوں کو کے لیے کیا ہے کام کر صحت کے صحت کی ہے اور
پڑھیں:
پی ایچ ڈی کا موضوع لوٹا کیوں نہیں ہو سکتا؟
ایک خبر نظر سے گزری جس پر ابھی تک حیرانی نہیں جا رہی۔ یہ ایک خبر ہی نہیں ہے بلکہ فکر انگیز موضوع ہے۔ اس سے ہمارے محفوظ یا غیرمستحکم مستقبل کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اس خبر کے مطابق کراچی کے 80سال کے ایک بزرگ نے کراچی کی فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی یے جس کا موضوع ’’کراچی میں ایف ایم ریڈیو کی مقبولیت اور سامعین‘‘ تھا۔ اگر یہ خبر سچی ہے اور ملک بھر میں نمایاں ہوئی ہے تو سچی ہی ہو گی۔ لیکن دل ابھی تک نہیں مان رہا ہے کہ اس موضوع پر بھی کوئی کارآمد تھیسز لکھا یا لکھوایا جا سکتا ہے۔ ہمارے اہل علم اور سرکردگان فکری طور پر اس قدر تشنہ تکمیل اور کسمپرسی کا شکار ہو سکتے ہیں اس کا ابھی تک یقین نہیں آ رہا ہے۔ شائد یہ ہماری قومی تعلیمی ترقی کی تاریخ میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کا پہلا واقعہ ہے کہ اس طرز کے کسی فضول اور لایعنی موضوع پر کسی کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی ہے! بہتر ہوتا کہ موصوف نے پی ایچ ڈی ہی کرنی تھی تو اس موضوع پر تین چار سال مغز ماری کرنے کی بجائے وہ کسی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی جعلی ڈگری ہی خرید لیتے۔
ہاں یہ واقعہ پی ایچ ڈی کے 80سالہ طالب علم کے لئے قابل فخر ضرور ہے کہ انہوں نے اپنے علم و تحقیق کا شوق پورا کرنے کے لئے عمر کے اس حصے میں یہ غیرمعمولی کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس مد میں ان کی تحقیق کے شوق اور محنت کو تو سراہا جا سکتا ہے مگر موضوع کے انتخاب پر وہ کسی داد کے مستحق نہیں ہیں۔ اس خبر کے مطابق صاحب کی صحت ٹھیک نہیں تھی، انہیں مختلف اوقات میں چار دفعہ ہارٹ اٹیک اور ایک بار فالج کا حملہ ہوا۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنی تحقیق کا سلسلہ جاری رکھا۔ طالب علم کے علمی عزم اور استقلال کو ہم بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ لیکن جنہوں نے پی ایچ ڈی کے لیئے اس موضوع کو منظور کیا ان کی عقل و بصیرت پر حیرت ہے کہ وہ اس موضوع پر پی ایچ ڈی کروا کر قوم و ملک اور دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے تھے۔
تعلیمی دنیا میں پی ایچ ڈی ایک تحقیقی مقالہ ہوتا ہے جس میں کسی ایک خاص موضوع کے مختلف پہلوئوں پر تحقیق کروا کر اس کے نتائج اخذ کئے جاتے ہیں۔ اس تحقیق میں بھی 5,000 سے زائد افراد(مرد و خواتین) نے حصہ لیا، اور اس میں انہوں نے ایف ایم ریڈیو کے سیاسی شعور، آفات سے متعلق آگاہی، ثقافت اور زبان پر اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی آرا پیش کیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اردو زبان کی وسعت یا متاثر کن گفتگو کے آداب وغیرہ کے کسی موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھواتے، مگر ایسا لگتا ہے کہ ہم علم و تحقیق کے میدان میں بھی اتنے ہی کرپٹ ہیں جتنے زندگی کے دوسرے معاملات میں ہیں یعنی آپ چاہیں تو کوئی سورس (جگاڑ) لگا کر اپنی کاروباری برانڈ پر بھی تحقیقی مقالہ لکھوا کر کسی کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دلوا سکتے ہیں یعنی ڈگری کی ڈگری اور کاروبار کا کاروبار!پی ایچ ڈی ہولڈر کو فلاسفی کا ڈاکٹر بھی کہا جاتا ہے۔ علمی کامیابی کی سب سے بڑی سطح پی ایچ ڈی (ڈاکٹر آف فلاسفی)ہے، جو کہ ڈاکٹریٹ کی تحقیقی ڈگری ہے۔ اس کا مطلب فلسفہ کا ڈاکٹر ہوتا ہے کیونکہ جب کوئی کسی موضوع پر تحقیق کرتا ہے تو وہ اس میں خود کو غرق کر دیتا ہے، اس کی مکمل چھان بین کر کے اس کی تاریخ جاننے کی کوشش کرتا ہے، اس کے سیاق وسباق سے آگہی حاصل کرتا یے اور پھر جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپنی تحقیق کے نتائج سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے۔ اس کے بعد جس امیدوار کا لکھا ہوا پی ایچ ڈی کا مقالہ پاس ہو جاتا ہے وہ اپنے نام کے ساتھ ’’ڈاکٹر‘‘ کا اضافہ کر سکتا ہے۔
عام میڈیکل ڈاکٹر وہ شخص ہوتا ہے جو کسی بیمار کے مرض کی تفتیش اور تشخیص کرتا ہے اور مریض کی جانچ پڑتال کے بعد اس کی صحت کی بحالی کے لئے دوا لکھ کر دیتا ہے۔ ہمیں زوال سے نکلنے کے لئے اپنے ہر شعبے میں پی ایچ ڈی ڈاکٹروں کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ تشخیص کریں اور ہمیں بتائیں کہ ہمارے زوال کی اصل وجوہات کیا ہیں۔
میرے خیال میں وہ شخص جو جنون کی حد تک اپنے مضمون سے پیار نہیں کرتا، اس میں خود کو کھو نہیں دیتا اور جسے اپنے مضمون پر مکمل عبور اور دسترس نہیں ہوتی وہ حقیقی معنوں میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر کہلانے کا حق دار نہیں ہو سکتا ہے۔ اصل میں پی ایچ ڈی ہولڈر صحیح معنوں میں اسی وقت ڈاکٹر کہلاتا ہے جب وہ اپنے موضوع کا ایک سپیشلسٹ کی طرح ’’ایکسپرٹ‘‘ ہو جاتا ہے۔
ہماری پی ایچ ڈی ڈگریوں کی یونہی تنزلی جاری رہی تو آئندہ تاریخ کی پی ایچ ڈی کا عنوان ہو گا، ’’سکندر اعظم نے دنیا کو فتح کرنے کی بجائے ڈانس کی کلاس میں داخلہ کیوں نہ لیا‘‘ یا اردو زبان کی پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان ہو گا، ’’بہادر شاہ ظفر کو اردو شعرا کے مشاعرے کروانا کیوں پسند تھے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ جب سرسید احمد خان نے ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ اور علامہ اقبال ؒنے ’’اسلامی عقیدے کی تشکیل نو‘‘ کے تحقیقی موضوعات پر خامہ فرسائی کی تو اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں آزادی حاصل کرنے کا جذبہ اجاگر ہوا اور ’’اسلامی مملکت خداداد‘‘ وجود میں آئی۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر پاکستان اب تک قائم ہے تو ہمارے علمی موضوعات ایسے ہونے چایئے کہ جس سے پاکستان دنیا کی ’’سپر پاور‘‘ بن سکے۔ محکمہ تعلیم کے ارباب اختیار کو اس پر غور کرنا چایئے کہ وہ تعلیمی نصاب اور موضوعات کی سمت درست کرنے کی طرف توجہ دیں۔ اگر ہماری علمی اور تعلیمی تنزلی یونہی جاری رہی تو کچھ بعید نہیں کہ سیاسیات میں پی ایچ ڈی کے لیئے کسی کو اگلا موضوع ’’لوٹا کریسی‘‘ ہی نہ دے دیا جائے۔ اگر ریڈیو ایف ایم پر پی ایچ ڈی ہو سکتی ہے تو سیاسی لوٹوں پر پی ایچ ڈی نہ کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟