سرکاری ادارے ڈیجیٹلائزیشن کی جانب کیوں نہیں بڑھنا چاہتے؟
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
بدھ کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کا اجلاس ہوا جس میں ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2024 منظور کرلیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی امین الحق کے مطابق مذکورہ بل کی حمایت میں 10 جبکہ مخالفت میں 6 اراکین نے ووٹ دیا۔
وفاقی وزیر مملکت برائے آئی ٹی شزہ فاطمہ خواجہ نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کوئی بھی سرکاری ادارہ ڈیجیٹل نہیں ہونا چاہتا، مجھے اس کے خلاف جنگ لڑنا پڑ رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں وزیر خزانہ کی زیر صدارت اجلاس، ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن میں پیشرفت کا جائزہ
واضح رہے کہ دنیا بھر میں حکومتیں ڈیجیٹلائزیشن کو ترجیح دے رہی ہیں، اور روایتی دفتری نظام کو ترک کیا جارہا ہے مگر پاکستان میں سرکاری ادارے ڈیجیٹل نہیں ہونا چاہ رہے۔
وی نیوز نے اس حوالے سے چند سابق بیوروکریٹس سے بات کی، اور ان سے وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ آخر سرکاری ادارے کیوں ڈیجیٹلائزیشن کی طرف نہیں جانا چاہتے؟
’بہت سے سرکاری ادارے ایک حد تک ڈیجیٹلائزڈ ہو چکے ہیں‘اس بارے میں بات کرتے ہوئے سابق پریس سیکریٹری شفقت جلیل نے بتایا کہ اب تو کافی حد تک ادارے ڈیجیٹلائزڈ ہو چکے ہیں۔ کابینہ کی جو میٹنگز ہوتی ہیں اس کی 52 یا پھر 28 کاپیاں اب نہیں بنتیں، ان کو ڈائریکٹ لیپ ٹاپ پر بھیج دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ حکومت کی جانب سے کابینہ کے تمام وزرا کو ٹیبز دیے گئے ہیں جو مکمل طور پر کوڈڈ ہوتے ہیں اور ان تک کسی اور کی رسائی نہیں ہوتی۔ اور اگر کوئی رسائی کی کوشش بھی کرتا ہے تو پتا چل جاتا ہے کہ فلاں شخص رسائی حاصل کرنا چاہ رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی قسم کی معلومات لیک ہونے کے خدشے کے پیش نظر ٹیبز میں سیکیورٹی فیچرز رکھے گئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہاکہ اس کے علاوہ بہت سے سرکاری ادارے ایک حد تک ڈیجیٹلائزڈ ہو چکے ہیں، لیکن اس کے باوجود مزید ڈیجیٹلائزیشن کی ضرورت ہے۔
’اداروں میں موجود بڑی عمر کے لوگ ڈیجیٹلائزیشن کی طرف جانے سے ہچکچا رہے ہیں‘شفقت جلیل نے کہاکہ اداروں میں بڑی عمر کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہے جن کا جدید ٹیکنالوجی سے کوئی واسطہ نہیں رہا، اس لیے وہ ڈیجیٹلائزیشن کی طرف جانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ اس سے بڑھ کی دوسری بات یہ ہے کہ ملک میں سائبر سیکیورٹی ابھی اتنی مضبوط نہیں ہے، اس لیے بیوروکریسی کے ادارے اور حکومت چاہتی ہے کہ ہماری معلومات لیکن نہ ہوجائیں۔
انہوں نے ڈیجیٹلائزیشن کے حوالے سے مزید بتایا کہ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اب بہت سارا کام ای میلز اور پریذنٹیشنز کے ذریعے ہورہا ہے، لیکن یہ بھی درست ہے کہ جس رفتار اور لیول کی ڈیجیٹلائزیشن ہونی چاہیے اس طرح سے نہیں ہو رہی۔ اداروں میں بیٹھے لوگوں کی یہ خواہش ہے کہ وہ ڈیجیٹل ہوں مگر ڈیجیٹل لیٹریسی اور کپیسیٹی جیسے مسائل ہیں۔
’آج بھی کوئی بل آتا ہے تو میں کہتا ہوں، پرنٹ نکال کردیا جائے پھر پڑھ کر بتاتا ہوں۔ تو ہماری عمر کے لوگوں کی یہ ایک عادت بھی بن چکی ہے، جس کو ختم ہونے میں وقت لگے گا۔ میں اس حق میں ہوں کہ جلد از جلد نظام کو ڈیجیٹلائزڈ ہو جانا چاہیے کیونکہ دنیا کہ ساتھ چلنا ہے تو ٹیکنالوجی کا استعمال ہر شعبے میں لازمی بنانا ہوگا۔‘
’سرکاری اداروں میں ڈیجیٹلائزیشن کا فقدان ہے‘ایک سابق فنانس سیکریٹری نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سرکاری اداروں میں ڈیجیٹلائزیشن کا فقدان ہے، گزشتہ قریباً 35 برس میں لوگوں کو مشین استعمال کرنے کی عادت نہیں ڈالی گئی تو اب کسی چیز کو سیکھنے اور پھر اپنانے میں وقت لگے گا۔ ’ادارے وہ تکلیف اٹھانا ہی نہیں چاہ رہے جن کے اٹھانے سے ان کے لیے آسانیاں پیدا ہوجائیں گی۔‘
انہوں نے کہاکہ ایک پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یوں شاید فائل میں ردوبدل کر سکتے ہیں، لیکن جب سارا نظام کمپیوٹرائزڈ ہو جائے گا تو کسی قسم کا ردوبدل کرنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔
’یہ بات درست نہیں کہ بیوروکریسی نے سسٹم ڈیجیٹل نہ ہونے دینے کا تہیہ کررکھا ہے‘’ڈیجیٹل کی جانب بڑھنے کے لیے اداروں میں صلاحیت ہے اور نہ ہی لوگ تیار ہیں کہ اس حوالے سے محنت کی جائے، انٹری لیول پر تو بہت اچھے بچے آرہے ہیں، جو ان تمام چیزوں سے واقف ہیں لیکن مڈ کیریئر کے افراد کے لیے زیادہ مسئلہ ہے جو اس مسئلہ کو ختم بھی نہیں کرنا چاہ رہے۔‘
یہ بھی پڑھیں کوئٹہ میں پہلے ڈیجیٹل مدرسے کا قیام، اس ادارے میں خاص کیا ہے؟
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ یہ بات درست نہیں کہ بیوروکریسی نے ایسا نہ ہونے دینے کا تہیہ کرکرھا ہے، ڈیجیٹلائزیشن ایک ناگزیر ضرورت ہے، اور وقت کے ساتھ اتنی عام ہوجائے گی کہ کوئی شخص اس سے فرار حاصل نہیں کر پائےگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews جدید ٹیکنالوجی حکومت ڈیجیٹلائزیشن رکاوٹ سائبر سیکیورٹی سرکاری ادارے وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جدید ٹیکنالوجی حکومت ڈیجیٹلائزیشن رکاوٹ سائبر سیکیورٹی سرکاری ادارے وی نیوز انہوں نے کہاکہ سرکاری ادارے نہیں ہو کے لیے ہیں کہ یہ بھی
پڑھیں:
پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات کو اس مقام پر لے جانا چاہتے ہیں جہاں بات چیت ہوسکے، فضل الرحمان
جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی۔ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات کو اس مقام پر لے جانا چاہتے ہیں جہاں بات چیت ہوسکے، انتہاپسند سیاست کے قائل نہیں ، پیپلز پارٹی، ن لیگ، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں سے اختلاف ہے دشمنی نہیں۔
سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان کی منصورہ لاہور میں امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان سے ملاقات ہوئی، انہوں نے پروفیسر خورشید احمد کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا۔
مشترکہ پریس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ میں انتہا پسندانہ اور شدت پسندانہ سیاست کا قائل نہیں، کوئی انگریز کا ایجنٹ رہا ہے یا امریکا کا تو ہم نے اسے کہا ہے، ہم پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات کو وہاں لے جانا چاہتے ہیں جہاں بات چیت ہو سکے، پیپلز پارٹی، ن لیگ، جماعت اسلامی کےساتھ اختلاف ہیں لیکن دشمنی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اتحاد امت کے نام سے ایک پلیٹ فارم تشکیل دے رہے ہیں، حکمران غزہ کیلئے اپنا فرض کیوں ادا نہیں کر رہے، یکسو ہوکر فلسطینیوں کیلئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ فلسطین سے متعلق ہم مولانا فضل الرحمان کے مؤقف کے ساتھ ہیں، دونوں جماعتیں اپنے اپنے پلیٹ فارم سے جدوجہد کریں گی۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ فلسطین کی صورتحال پوری امت مسلمہ کےلیے باعث تشویش ہے، 27 اپریل کو مینار پاکستان میں بہت بڑا جلسہ اور مظاہرہ ہوگا، مذہبی جماعتیں مینار پاکستان جلسے میں شرکت کریں گی، جلسے میں پنجاب کے عوام کو دعوت دی گئی ہے، فلسطین کےلیے پورے ملک میں بیداری مہم بھی چلائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اتحاد امت کے نام سے ایک پلیٹ فارم تشکیل دے رہے ہیں، یکسو ہوکر غزہ کے فلسطینیوں کیلئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہاں کوئی چھوٹی موٹی اسرائیلی لابی ہے بھی تو اس کی کوئی حیثیت نہیں، حکمران غزہ کیلئے اپنا فرض کیوں ادا نہیں کر رہے؟
فضل الرحمان نے کہا کہ جے یو آئی کا منشور صوبوں کے تحفظ سے متعلق بہت واضح ہے، سندھ کے لوگ اگر حق کی بات کرتے ہیں تو کسی صوبے کو ہم حق کی بات کرنے سے نہیں روک سکتے، صوبائی خود مختاری اور مفادات سے متعلق ہمارا مؤقف واضح ہے، یہ حکمرانوں کی نا اہلی ہے کہ اب تک مسئلے کا حل نہیں نکال سکے، مسئلے کا حل تمام فریقین کو مرکز میں بٹھا کر حاصل کیا جا سکتا ہے، محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کے دل میں کوئی چور ہے، پانی کی تقسیم آئین اور قانون کے مطابق ہونی چاہیے۔
حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ تمام اداروں کو اپنی اپنی آئینی حدود میں کام کرنا چاہیے، ہم چاہتے ہیں سب مظلوموں کے حق میں، ظالموں کے خلاف کھڑے ہوں، حکومت کچھ بھی کہے عام آدمی کیلئے مہنگائی موجود ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آئینی ترمیم پر ہر جماعت کے اپنے نکات ہوتے ہیں، ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم آئیڈیل ہے۔
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ 26ویں ترمیم پر جماعت اسلامی کا اپنا موقف تھا اور فضل الرحمان کا اپنا، جماعت اسلامی نے اس آئینی ترمیم کو کلی طور پر مسترد کیا تھا۔
حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ انتخابی دھاندلی پر جماعت اسلامی کا موقف مختلف ہے، ہم فوری نئے الیکشن نہیں بلکہ فارم 45 کی بنیاد پر نتائج چاہتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ دھاندلی پر ہمارا اور جماعت اسلامی کا موقف بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔