ڈپٹی کمشنرز اسکیموں میں کام کے معیار پر کوئی سمجھوتا نہ کریں،فیصل عقیلی
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
میرپورخاص (نمائندہ جسارت) ڈویژن میں جاری ترقیاتی اسکیموں کا جائزہ اجلاس ڈویژنل کمشنر فیصل احمد عقیلی کی سربراہی میں آج کمشنر آفس کے کمیٹی ہال میں منعقدہ ہوا جس میں میئر میرپور خاص عبد الرئوف غوری، ڈویژن کے تینوں اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز، ورکس اینڈ سروسز ڈپارٹمنٹ اور دیگر متعلقہ محکموں کے افسران نے شرکت کی – اجلاس میں کمشنر فیصل احمد عقیلی کو ڈویژن میں روڈز، سیوریج، واٹر سپلائی، ہیلتھ سمیت دیگر جاری ترقیاتی اسکیموں پر تفصیلی بریفننگ دی گئی۔اس موقع پر کمشنر فیصل احمد عقیلی نے کہا کہ ترقیاتی اسکیمیں جلد از مکمل کریں اور جو اسکیمیں 6ماہ میں مکمل نہیں ہو سکیں تو ان اسکیموں کو آئندہ اے ڈی پی میں شامل کر کے مکمل کیا جائے – انہوں نے پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ اور ورکس اینڈ سروسز ڈپارٹمنٹ کے متعلقہ افسران کو ہدایت کی کہ وہ اپنے قریبی رابطے کو یقینی بنائیں اور ڈرینیج اور واٹر سپلائی کی اسکیمیں اس علاقے میں سڑک بننے سے قبل مکمل کی جائے اور اس ضمن میں متعلقہ محکمے ضلع انتظامیہ سے بھی رابطے میں رہیں جس سے نہ صرف وقت پر اسکیمیں مکمل کی جاسکیں گی بلکہ ان کے ثمرات بھی لوگوں تک منتقل ہو سکیں گے – انہوں نے ڈسٹرکٹ اے ڈی پیز پر زیادہ توجہ دیے جانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ڈپٹی کمشنرز کو ہدایت کی کہ وہ بھی ترقیاتی اسکیموں کا جائزہ لیتے رہیں جبکہ اسکیموں میں کام کے معیار پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتا نہ کیا جائے – انہوں نے میرپورخاص شہر میں سڑکوں کی بیوٹیفکیشن پر بھی کام کرنے کی ہدایت کی – انہوں نے اسکولوں، اسپتالوں اور سرکاری عمارتوں میں مرمت اور واش رومز کی اسکیموں کو بھی جلد سے جلد مکمل کر کی ہدایت کے ساتھ ساتھ آر او پلانٹس کی مسلسل نگرانی کی ضرورت پر بھی زور دیا اور اگر آراو پلانٹس میں کسی قسم کا کوئی تکنیکی خرابی ہو تو اس کو بلا تاخیر دور کیا جائے تاکہ آراو پلانٹس فعال رہیں – اجلاس میں ڈی سی تھرپارکر نے کہا کہ روڈ حادثات کی بڑی وجہ سڑکوں پر جھاڑیوں کی کٹائی نہ ہونا ہے اس پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے جس پر کمشنر میرپور خاص نے متعلقہ افسران کو ہدایت کی کہ وہ سڑکوں کے اطراف جھاڑیوں کی کٹائی کو یقینی بنائیں- اجلاس میں ڈویژن کے ڈپٹی کمشنرز اور دیگر متعلقہ افسران نے اپنے اضلاع میں جاری ترقیاتی اسکیموں کے متعلق تفصیلات بتائیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ترقیاتی اسکیموں ڈپٹی کمشنرز انہوں نے ہدایت کی
پڑھیں:
پنجاب کا کوئی محکمہ ترقیاتی اہداف حاصل نہیں کر سکا، فنانشل رپورٹ نے قلعی کھول دی
لاہور:پنجاب کا ایک بھی محکمہ رواں مالی سال میں ترقیاتی اہداف حاصل نہیں کر سکا، فنانشل رپورٹ نے کارکردگی کا پول کھول دیا۔
صوبائی اسمبلی میں پوسٹ بجٹ بحث کے لیے رواں مالی سال کے تیسرے کوارٹر کی فنانشل رپورٹ نے سرکاری محکموں کی کارکردگی کی قلعی کھول دی ، جس کے مطابق پنجاب کا ایک بھی سرکاری محکمہ رواں مالی سال کے تیسرے کوارٹر کے طے شدہ اہداف حاصل نہیں کرسکا ۔
رپورٹ کے مطابق پنجاب حکومت نے تیسرے کوارٹر کے لیے مجموعی طور پر 488 ارب 43 کروڑ روپے جاری کیے ، تاہم رواں مالی سال کے تیسرے کوارٹر تک مجموعی طور پر 355 ارب 43 کروڑ روپے خرچ کیے جاسکے ۔
محکمہ زراعت کو 3 ارب روپے کا بجٹ ملا لیکن ایک ارب 21 کروڑ روپے خرچ ہوسکے ۔ اسی طرح بورڈ آف ریونیو کو 30 ارب 50 کروڑ روپے کا بجٹ ملا تاہم 4 ارب 79 کروڑ روپے خرچ کیے گیے جب کہ محکمہ مواصلات و تعمیرات کو 4 ارب 62 کروڑ روپے جاری کیے گئے لیکن 2 ارب 91 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔
علاوہ ازیں محکمہ تعلیم کو 4 ارب 62 کروڑ روپے جاری کیے گئے لیکن2 ارب 91 کروڑ روپے خرچ کیے گئے ۔ محکمہ خزانہ کو 2 ارب 30 کروڑ روپے کا بجٹ ملے لیکن 1 ارب 33 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ محکمہ جنگلات، جنگلی حیات و ماہی پروری کو 324 ارب 24 کروڑ روپے جاری کیے گئے جبکہ 296 ارب 4 کروڑ روپے خرچ کیے ۔
اسی طرح محکمہ صحت کو ایک ارب 98 کروڑ روپے جاری ہوئے لیکن 1 ارب 26 کروڑ روپےکیے گئے ۔ محکمہ داخلہ کو 25 ارب 50 کروڑ روپے دیے گئے لیکن 2 ارب 18 کروڑ روپے ہی خرچ ہوئے جب کہ محکمہ ہاؤسنگ و پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کو 1 ارب 22 کروڑ روپے ملے جبکہ 67 کروڑ روپے خرچ کیے گئے ۔
صنعت، تجارت و سرمایہ کاری کو 1 ارب 64 کروڑ روپے جبکہ 27 کروڑ روپے خرچ کیے گئے ۔ محکمہ آبپاشی کو 19 ارب 50 کروڑ روپےملے لیکن 5 ارب 85 کروڑ روپے خرچ ہوسکے اور محکمہ لائیو اسٹاک و ڈیری ڈیولپمنٹ کو 1 ارب 97 کروڑ روپے ملے لیکن 93 کروڑ روپے خرچ کیے جاسکے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ محکمہ قانون و پارلیمانی امور کو 1 ارب 41 کروڑ روپے ملے لیکن ایک ارب روپےخرچ ہوسکے ۔ محکمہ معدنیات و کان کنی کو 31 ارب روپے ملے لیکن 12 ارب 6 کروڑ روپے خرچ ہوسکے ۔ محکمہ پولیس کو 16 ارب 25 کروڑ روپے ملے لیکن 13 ارب 93 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ متفرق مدات میں 24 ارب 17 کروڑ روپے جاری کیے گئے لیکن 7 ارب 65 کروڑ روپے خرچ کیے جاسکے۔