Jasarat News:
2025-04-22@14:12:13 GMT

آن لائن نکاح

اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT

سوال: میں ملک سے باہر جاب کرتا ہوں۔ عید کے موقع پر وطن آیا ہوا تھا۔ ایک مہینہ بعد واپس جانا ہے۔ پندرہ روز قبل والدِ محترم کا انتقال ہوگیا۔ والدہ عدّت میں ہیں۔ میرا ایک جگہ نکاح طے کردیا گیا ہے۔ تقریب نکاح میں شرکت کرنے کے لیے والدہ نہیں جاسکتی ہیں۔ کیا اس صورت میں آن لائن نکاح ہوسکتا ہے؟ برائے مہربانی جواب سے نوازیں۔
جواب: نکاح کے ارکان میں سے ایجاب و قبول ہے۔ نکاح کرنے والے مرد اور عورت میں سے پہلے کا کلام ’ایجاب‘ اور دوسرے کا ’قبول‘ کہلاتا ہے۔ دونوں کا ایک مجلس میں ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح صحتِ نکاح کے لیے مجلسِ نکاح میں گواہوں (دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں) کی موجودگی شرط ہے۔ نکاح کا یہ روایتی طریقہ ہے، جس پر آج تک عمل ہوتا آیا ہے۔

موجودہ دور میں بسا اوقات یہ صورتِ حال سامنے آتی ہے کہ لڑکا کسی دوسرے ملک میں بہ سلسلۂ ملازمت مقیم ہے۔ وہ اپنے وطن، جہاں اس کا نکاح ہونا ہے، سفر نہیں کر سکتا۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کا آن لائن نکاح ہوجائے، نکاح کی دستاویزات تیار ہوجائیں، جن کی بنیاد پر وہ اپنی بیوی کے لیے ویزا حاصل کرلے، اس کے بعد بیوی سفر کرکے اس کے پاس آجائے۔ کبھی اندرونِ ملک بھی یہ صورت پیدا ہوتی ہے کہ وبائی مرض، لاک ڈاؤن یا کسی اور وجہ سے دولہا، دلہن یا دلہن کے ولی کا یکجا ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ تو سوال پیدا ہوا کہ کیا جدید ذرائعِ مواصلات کو اختیار کرکے نکاح کیا جاسکتا ہے؟
یہ عصرِ حاضر کے جدید مسائل میں سے ہے۔ علما نے اس پر غور کیا تو ان کی آراء میں اختلاف ہوا۔ بعض علما نے آن لائن نکاح کو ناجائز قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ زوجین کا حقیقی طور پر ایک مجلس میں ہونا ضروری ہے۔ اگرچہ انٹرنیٹ اور ویڈیو کال کے ذریعے باہم رابطہ کی صورت میں حکماً اتحادِ مجلس کی شکل پیدا ہوجاتی ہے، لیکن جدید مواصلاتی ذرائع سے دھوکا دہی اور عدمِ تحقّق کے امکان کو بالکلیہ خارج نہیں کیا جاسکتا۔ جب کہ بعض دیگر علما کہتے ہیں کہ سمعی و بصری ذرائع قابلِ اعتماد ہیں۔ اگر اطمینان کرلیا جائے کہ دولہا اور دلہن وہی ہیں جن کے درمیان نکاح ہونا ہے اور گواہ ان کی طرف سے ہونے والے ایجاب و قبول کو سن لیں اور توثیق کر دیں تو آن لائن نکاح جائز ہے۔

برِّ صغیر ہندو پاک کے علما نے عموماً آن لائن نکاح کو ناجائز قرار دیا ہے۔ اس کی دلیل انھوں نے یہ دی ہے کہ جدید مواصلاتی ذرائع میں تلبیس اور اشتباہ کے کافی امکانات رہتے ہیں اور مختلف مناظر کو مصنوعی طریقے سے خلط ملط کرنے کی گنجائش رہتی ہے۔ دوسرے، اتحادِ مجلس بھی مفقود رہتا ہے، جو صحتِ نکاح کے لیے شرط ہے۔ ہندوستان میں دار العلوم دیوبند اور پاکستان میں جامعہ علوم اسلامیہ، بنوری ٹاؤن کراچی اور دیگر دار الافتاء کے اس موضوع پر متعدد فتاویٰ موجود ہیں۔
ان تمام فتاویٰ میں ایک بات یہ کہی گئی ہے کہ اگر فریقینِ نکاح (مرد اور عورت) میں سے کوئی کسی آدمی کو اپنا وکیل بنا دے، جو گواہوں کی موجودگی میں اپنے مؤکل کی طرف سے ایجاب کرلے اور دوسرا فریق اسی مجلس میں قبول کر لے تو نکاح صحیح ہوجائے گا۔

اس موضوع پر اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کا تیرھواں فقہی اجلاس 13۔16 اپریل 2001ء میں جامعہ سید احمد شہید، کٹولی، ملیح آباد، لکھنو میں منعقد ہوا تھا۔ اس میں یہ قرارداد منظور کی گئی تھی:
’’نکاح کا معاملہ بہ مقابلۂ عقد بیع کے زیادہ نازک ہے۔ اس میں عبادت کا بھی پہلو ہے اور گواہان کی شرط بھی ہے، اس لیے انٹرنیٹ، ویڈیو کانفرنسنگ اور فون پر راست نکاح کا ایجاب و قبول معتبر نہیں، البتہ ان ذرائعِ ابلاغ پر نکاح کا وکیل بنایا جائے اور وہ گواہان کے سامنے اپنے مؤکل کی طرف سے ایجاب و قبول کرلے تو نکاح درست ہوجائے گا۔ اس صورت میں یہ بات ضروری ہوگی کہ گواہان وکیل بنانے والے غائب شخص سے واقف ہوں، یا ایجاب و قبول کے وقت اس کا نام مع ولدیت ذکر کیا جائے‘‘۔ (نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے، اسلامک فقہ اکیڈمی [انڈیا]، 2016، ص 113)
میری رائے میں ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے حکماً اتحادِ مجلس کی شرط پوری ہوجاتی ہے، اس لیے بوقت حاجت آن لائن نکاح جائز ہے، البتہ بہتر ہے کہ کسی کو نکاح کا وکیل بھی بنا لیا جائے، تاکہ تمام فقہا کی رو سے نکاح درست ہوجائے۔

جہاں تک مذکورہ بالا سوال میں بیان کی گئی صورت کی بات ہے تو شریعت کی رو سے والدہ کی شرکت نکاح کے انعقاد کے لیے ضرورت یا حاجت کے حکم میں نہیں ہے، لڑکے کے گھر سے صرف لڑکے کی شرکت کافی ہے۔ اس لیے اس صورت میں آن لائن نکاح کی صورت اختیار نہیں کرنی چاہیے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ا ن لائن نکاح ایجاب و قبول نکاح کے نکاح کا کے لیے

پڑھیں:

لاہور ہائیکورٹ نے خلع کی صورت میں خواتین کے حق مہر کے حوالے سے اصول وضع کردیے

لاہور ہائیکورٹ نے خلع کی صورت میں خواتین کے حق مہر کے حوالے سے اصول وضع کردیے، جسٹس راحیل کامران نے تحریری فیصلہ جاری کردیا۔

جسٹس راحیل کامران نے آصف محمود کی جانب سے دائر اپیل پر 8 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا، انہوں نے ٹرائل کورٹ کی جانب سے خلع کے باوجود بیوی کو 2 لاکھ حق مہر دینے کا فیصلہ درست قرار دیا۔

لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق اگر کوئی خاتون اپنے شوہر کی بدسلوکی پر خلع لے تو حق مہر کی حقدار اور اگر خاوند سے صرف ناپسندیدگی کی بنیاد پر خلع لے تو اس صورت میں حق مہر کی حقدار نہیں رہتی۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ: ڈانس پارٹی سے گرفتار ملزمان کی ویڈیو بنا کر وائرل کرنے پر پولیس کیخلاف اظہار برہمی

عدالت نے شہری آصف محمود کی ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاشرے میں ہر طبقے کا شخص بیٹیوں کا جہیز دیتا ہے جو کہ گہرا رواج بن چکا ہے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق اسلامی قانون کے  تحت شوہر پر حق مہراس وقت تک واجب ہے، جب تک کہ بیوی اس کی جانب سے بغیر وجہ خلع کی درخواست نہ کرے، موجودہ کیس میں خاتون نےاپنے شوہر کی طرف سے ظلم اور توہین آمیز رویے کے قابل اعتماد ثبوت فراہم کیے۔

عدالتی فیصلے میں قرآنی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ نکاح نامہ بیوی اور شوہر کے درمیان ایک جائز اور پابند معاہدہ ہے، جب تک اس معاہدے کی شرائط سے انحراف کرنے کی قانونی بنیاد نہ ہو، شوہر اپنی ذمہ داری پوری کرنے کا پابند ہے۔

مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ میں پولیس کے نجی ٹارچر سیل کے خلاف دائر درخواست پر فیصلہ محفوظ

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جب بیوی اس بنیاد پر خلع طلب کرتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کو ناپسند کرتی ہے تو وہ اپنا حق مہر کا حق کھو دیتی ہے، اگر شوہر کا طرز عمل بیوی کو خلع لینے پر مجبور کرتا ہے تو اسکا مہر کا حق برقرار رہتا ہے۔

فیصلے کے مطابق موجودہ کیس میں بیوی نے خلع کی بنیاد پر شادی توڑنے کا حکم نامہ حاصل کیا اور شوہر پر بدسلوکی اور توہین آمیز رویے کے الزامات لگائے، موجودہ کیس میں شادی 9 سال تک برقرار رہی جو ثابت کرتی ہے کہ بیوی نے اپنی ذمہ داری پوری کی ہیں۔

بیوی نے خلع کے بعد حق مہر اور جہیز کی واپسی کے لیے دعویٰ دائر کیا، ٹرائل کورٹ نے بیوی کا دعویٰ تسلیم کرتے ہوئے سامان جہیز اور حق مہر کی رقم دینے کا حکم دیا، درخواست گزار نے ٹرائل کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ خلع لینے کے باعث بیوی کی حق مہر کی حقدار نہیں رہی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

تحریری فیصلہ توہین آمیز رویے ٹرائل کورٹ جسٹس راحیل کامران جہیز حق مہر خلع طلاق ظلم لاہور پائیکورٹ ناپسندیدگی

متعلقہ مضامین

  • ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ ختم، نیشنل سائبر کرائم انوسٹیگیشن ایجنسی فعال
  • لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی جارحیت، شہریوں کی تشویش میں اضافہ
  • دوسری شادی کرنے کی صورت میں بچے کی کسٹڈی کا حق دار کون؟ عدالت کا بڑا فیصلہ سامنے آگیا
  • دوسری شادی کرنے کی صورت میں بچے کی کسٹڈی کا حق دار کون؟ عدالت کا بڑا فیصلہ سامنے آگیا  
  • لاہور ہائیکورٹ نے خلع کی صورت میں خواتین کے حق مہر کے حوالے سے اصول وضع کردیے
  • غزہ کی صورت حال “ڈرامائی اور افسوسناک” ہے، پوپ فرانسس
  • بھارت میں انوکھا واقعہ، دولہے کی شادی دلہن کی جگہ اس کی ماں سے کر ادی گئی
  • انوکھی شادی، نوجوان کا دلہن کے بجائے اس کی ماں سے نکاح ہوگیا
  • لداخ ”کے ڈی اے، ایل اے بی" کا مطالبات تسلیم نہ کیے جانے کی صورت میں احتجاجی تحریک کی دھمکی
  • دولہے کے ساتھ انوکھا فراڈ، دلہن کی جگہ ساس سے شادی کرا دی گئی