Express News:
2025-04-22@07:39:27 GMT

افسردگی اور مایوسی کا نبوی علاج

اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT

ڈپریشن، جسے افسردگی اور مایوسی بھی کہتے ہیں، آج کے دور کا ایک اہم مسئلہ ہے جو ہر عمر اور طبقے کے افراد کو متاثر کر رہا ہے۔ یہ بیماری صرف جسمانی کم زوری یا وقتی پریشانی کا نتیجا نہیں بل کہ ایک گہری نفسیاتی کیفیت ہے جو انسان کی زندگی کے ہر پہلو پر اثر ڈالتی ہے۔

اسلام نہ صرف روحانی سکون فراہم کرتا ہے بل کہ زندگی کے ہر مسئلے کا حل بھی پیش کرتا ہے۔ ڈپریشن کے مسئلے کو سمجھنے اور اس کا حل تلاش کرنے کے لیے سیرت نبوی ﷺ ایک مثالی راہ نما ہے۔

ڈپریشن کی وجوہات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم زندگی کے مختلف پہلوؤں پر غور کریں۔ مادی خواہشات، دنیاوی ناکامیاں، تعلقات میں دراڑیں اور روحانی خلا وہ بنیادی اسباب ہیں جو انسان کو افسردگی کی جانب دھکیل سکتے ہیں۔ موجودہ دور میں مادیت پسندی اور خدا سے دوری انسان کو ذہنی دباؤ میں مبتلا کرنے کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ انسان دنیاوی خواہشات کی دوڑ میں خود کو الجھا لیتا ہے اور جب ان خواہشات کی تکمیل ممکن نہیں ہوتی تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔

نبی کریم ﷺ کی سیرت ہمیں زندگی کے ہر مسئلے کا حل فراہم کرتی ہے اور اس میں ڈپریشن کا مسئلہ بھی شامل ہے۔ سب سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں کئی ایسے مراحل آئے جب آپ کو شدید مشکلات اور غموں کا سامنا کرنا پڑا۔

والدین کی کم عمری میں وفات، چچا اور زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی رحلت، مکہ مکرمہ میں دعوت کے دوران شدید مخالفت، اور طائف کا دل خراش واقعہ، یہ تمام آزمائشیں ایسی تھیں جو کسی بھی انسان کو انتہائی دباؤ اور غم میں مبتلا کر سکتی تھیں۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود نبی کریم ﷺ نے صبر، استقامت اور اﷲ پر مکمل بھروسے کا مظاہرہ کیا۔

ڈپریشن کے مسئلے کا حل قرآن مجید اور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات میں واضح طور پر موجود ہے۔ سب سے پہلے اﷲ تعالیٰ پر توکل اور اس کی رضا پر قناعت انسانی ذہن کو سکون فراہم کرتی ہے۔

قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے، مفہوم: ’’جان لو! اﷲ کی یاد ہی سے دل چین پاتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الرعد)

اس آیت مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ دل او ر دماغ کی بے چینی کا علاج اﷲ کے ذکر میں ہے۔ جب انسان اﷲ کا ذکر کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس ذات سے جوڑ لیتا ہے جو ہر قسم کی پریشانی، غم اور خوف سے بے نیاز ہے۔ اس قربت سے انسان کو یہ یقین حاصل ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی مشکل میں اکیلا نہیں ہے بل کہ ایک ایسی طاقت اس کے ساتھ ہے جو ہر شے پر قادر ہے۔

ڈپریشن سے بچنے کے لیے ایک اور اہم نکتہ عبادات اور اﷲ کے قریب ہونے کا عمل ہے۔ نماز، روزہ، قرآن کی تلاوت اور دیگر عبادات دل کو سکون پہنچاتی ہیں۔

حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے منقول ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔‘‘ (سنن نسائی)

اسی طرح نبی اکرم ﷺ نے بھی مختلف اذکار اور دعاؤں کے ذریعے غم اور پریشانی کو دور کیا اور امت کو بھی اس کی تعلیم دی۔ حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کی کچھ دعائیں ایسی تھیں جنہیں آپ پڑھنا نہیں چھوڑتے تھے، اُن میں یہ دعا بھی شامل تھی، مفہوم: ’’اے اﷲ! میں فکر اور پریشانی سے، عاجزی و سستی سے، کنجوسی و بزدلی سے اور لوگوں کے غالب آنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ (سنن نسائی)

اس دعا سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کی مشکلات میں اﷲ تعالیٰ کی جانب رجوع کرنا، اس کی رحمت پر بھروسا رکھنا اور ذکر و اذکار کو اپنانا دل و دماغ کو سکون اور اطمینان بخشنے کے لیے نہایت اہم ہیں۔

سیرت نبوی ﷺ سے ہمیں یہ بھی سبق ملتا ہے کہ زندگی میں مثبت رویہ اور مقصدیت انسان کو ذہنی سکون فراہم کرتی ہے۔ آپ ﷺ نے ہمیشہ اپنی امت کو تعلیم دی کہ ہر حال میں شکر گزاری اور اﷲ کی رضا پر صبر کریں۔ جب انسان اس بات کو تسلیم کر لیتا ہے کہ ہر چیز اﷲ کی رضا کے تحت ہو رہی ہے تو وہ اپنی زندگی میں مایوسی اور دباؤ سے بچ سکتا ہے۔

قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے، مفہوم: ’’اﷲ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔‘‘ (سورۃ البقرۃ) یعنی اﷲ تعالیٰ ہر انسان کو اتنی ہی آزمائش دیتا ہے جتنی وہ برداشت کر سکتا ہے۔ یہ یقین انسان کے دل سے مایوسی کو ختم کرتا ہے۔

ڈپریشن کے علاج کے لیے سماجی تعلقات بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے ہمیشہ صحابہ کرامؓ کے ساتھ محبت اور ہم دردی کا مظاہرہ کیا اور ان کے مسائل کو سمجھا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جس شخص نے کسی مومن سے دنیا کی کوئی تکلیف دور کی تو اﷲ اس سے قیامت کے دن کی کوئی تکلیف دور فرما دے گا، جس شخص نے کسی تنگ دست پر آسانی کی تو اﷲ اس پر دنیا و آخرت میں آسانی فرمائے گا، جس نے کسی مسلمان کی عیب پوشی کی تو اﷲ اس کی دنیا و آخرت میں عیب پوشی فرمائے گا، اﷲ بندے کی مدد فرماتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)

اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی میں دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا نہ صرف ان کی مدد کرنا ہے بل کہ ہمیں اﷲ کے قریب کرتا ہے اور ہمارے دلوں کو سکون اور اطمینان سے بھر دیتا ہے۔ جب ہم کسی تنگ دست پر آسانی کرتے ہیں یا کسی کی عیب پوشی کرتے ہیں تو اس عمل سے ہمارے دل کو ایک انوکھا سکون ملتا ہے کیوں کہ یہ اعمال ہماری روحانی ترقی اور دنیاوی اطمینان کا ذریعہ بنتے ہیں۔

دوسروں کے ساتھ ہم دردی اور ان کی مدد کرنے سے دل پر بوجھ کم ہوتا ہے، ذہن کے منفی خیالات دور ہوتے ہیں اور ایک روحانی خوشی پیدا ہوتی ہے جو دنیا کی کسی چیز سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہ حدیث مبارکہ ہمیں ایک ایسا عملی نسخہ فراہم کرتی ہے جو نہ صرف دنیا میں سکون کا ذریعہ ہے بل کہ آخرت میں بھی کام یابی کی ضمانت دیتا ہے۔

نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جسمانی صحت کا خیال رکھنا بھی ذہنی صحت کے لیے ضروری ہے۔ آپ ﷺ نے صحت مند خوراک، اعتدال پسند طرز زندگی اور جسمانی مشقت کو اہمیت دی۔ ڈپریشن کے علاج میں بھی متوازن خوراک، ورزش اور نیند کا اہم کردار ہے۔ ڈپریشن کا ایک اور سبب مادی خواہشات کی بھرمار ہے۔ آج کے دور میں لوگ دنیاوی کام یابیوں اور دولت کے پیچھے بھاگتے ہیں جو اکثر انہیں مایوسی اور دباؤ کی طرف لے جاتی ہیں۔

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’مال داری کثرتِ مال و اسباب کا نام نہیں، بل کہ حقیقی مال داری دل کی مال داری ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)

اس حدیث مبارکہ سے سبق ملتا ہے کہ اصل خوشی اندرونی سکون  اﷲ کی رضا میں ہے نہ کہ مادی چیزوں کے حصول میں۔

مختصر یہ کہ نبی اکرم ﷺ کی سیرت ہمارے لیے کامل راہ نمائی فراہم کرتی ہے جو ہمیں سکھاتی ہے کہ آزمائشوں اور غموں کا سامنا صبر و حوصلے کے ساتھ کیسے کیا جائے۔ آپ ﷺ نے ہمیں سکھایا کہ اﷲ پر ایمان، صبر، شکر گزاری اور دوسروں کے ساتھ ہم دردی ہی وہ اصول ہیں جو انسان کو ذہنی دباؤ سے نجات دلا سکتے ہیں۔ ڈپریشن کا علاج صرف ادویات یا مشوروں میں نہیں بل کہ اﷲ سے قربت، عبادات اور مثبت طرز زندگی میں بھی پوشیدہ ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فراہم کرتی ہے نبی اکرم ﷺ نے نبی اکرم ﷺ کی زندگی میں اﷲ تعالی زندگی کے انسان کو کہ زندگی ہے بل کہ ملتا ہے کرتا ہے کو سکون کے ساتھ بل کہ ا کی رضا کے لیے کی مدد

پڑھیں:

پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان

جب دنیا کی سپر پاورز خاموشی کی دبیز چادر اوڑھے غزہ کی مٹی پر بکھرے معصوم بچوں کے جسموں سے نظریں چرا رہی ہوں، جب عالمِ اسلام کے حکمران بے حسی کی چپ میں اپنی کرسیوں کو مضبوطی سے تھامے بیٹھے ہوں ، ایسے میں ایک بوڑھا پادری جس کے جسم پر بیماریوں کے نشان ہیں، جسے بار بار اسپتال لے جایا جاتا ہے، وہ اپنی تھرتھراتی آواز میں انسانیت کا مقدمہ لڑتا ہے، وہ پوپ فرانسس ہے۔ ویٹیکن کے عالی شان محل میں رہنے والا لیکن دل سے فقیروں کا ساتھی، زبان سے مظلوموں کی آواز اور عمل سے ایک نئی روایت کا آغازکرنے والا۔

اس نے کہا کہ جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے، وہ جنگ نہیں قتلِ عام ہے۔ یہ انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ یہ الفاظ کسی جلے ہوئے کیمپ میں پناہ گزین کسی فلسطینی کے نہیں تھے، نہ ہی یہ کسی انقلابی شاعر کے قلم سے نکلے مصرعے تھے۔ یہ ایک ایسے مذہبی ادارے کے سربراہ کے الفاظ تھے جو صدیوں سے طاقتوروں کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ یہ ویٹیکن کے اندر سے آنے والی وہ صدا تھی جو صدیوں کے جمود کو توڑ رہی تھی۔

پوپ فرانسس کا اصل نام خورخے ماریو بیرگولیو ہے۔ وہ ارجنٹینا کے شہر بیونس آئرس میں پیدا ہوا۔ کیتھولک چرچ کے روایتی مزاج سے ہٹ کر وہ پوپ بننے کے بعد پہلی بار چرچ کی فضاؤں میں ایک ایسی روشنی لے کر آیا جس نے اسٹیبلشمنٹ کے اندھیروں میں لرزش پیدا کر دی۔ اُس نے ویٹیکن کی دولت جاہ و جلال اور طاقت کی دنیا کو خیر باد کہہ کر عام انسانوں کے درمیان بیٹھنا پسند کیا۔ اس نے چرچ کے نچلے طبقوں، پسے ہوئے لوگوں اور باہر دھکیلے گئے انسانوں کی آواز بننے کو اپنا منصب سمجھا۔

وہ ایک ایسی دنیا کا داعی ہے جہاں عقیدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانیت کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں۔ اس نے ہم جنس پرست افراد کے لیے نرم الفاظ استعمال کیے، اس نے موسمیاتی بحران کو ایک مذہبی اور اخلاقی مسئلہ قرار دیا، وہ مہاجرین کے ساتھ بیٹھا، ان کے پاؤں دھوئے ان کے بچوں کو گود میں لیا اور کہا کہ مذہب صرف عبادت نہیں یہ عمل ہے، یہ انصاف ہے۔ اس نے دنیا کو بتایا کہ گرجا ہو یا مسجد جب تک وہ ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھائیں، وہ خاموشی کے مجرم ہیں۔

جب وہ پوپ منتخب ہوا تو اس نے اپنا لقب’’ فرانسس‘‘ رکھا جو سینٹ فرانسس آف اسّیسی کی یاد میں تھا، وہ درویش پادری جو فقیری میں جیتا تھا، پرندوں سے بات کرتا تھا اور جنگ کے خلاف کھل کر بولتا تھا۔ پوپ فرانسس نے اسی روایت کو اپنایا۔ اس نے ویٹیکن کے محلات میں رہنے سے انکار کیا، ایک چھوٹے سے کمرے میں قیام کیا، عام گاڑی استعمال کی اور قیمتی جوتوں، گھڑیوں اور زیورات سے گریزکیا۔ اس نے نہ صرف کہا بلکہ عمل سے دکھایا کہ مذہب کی اصل طاقت اخلاقی سچائی میں ہے نہ کہ شان و شوکت میں۔

پھر جب فلسطین کی زمین پر بمباری ہوئی، جب اسپتالوں کو نشانہ بنایا گیا، جب بچوں کے جسم ملبے تلے دب گئے تو پوپ فرانسس نے اپنے سادہ سے دفتر سے وہ بات کہی جو بڑے بڑے صدر نہ کہہ سکے۔ اس نے کہا ’’ یہ جنگ نہیں، یہ قتلِ عام ہے۔ یہ انسانیت کی توہین ہے۔‘‘

جب مغربی میڈیا اسرائیل کے بیانیے کو آگے بڑھا رہا تھا جب یورپی حکومتیں دفاعِ اسرائیل کو اپنا حق سمجھ رہی تھیں،جب عالمی ادارے بے بسی کی تصویر بنے ہوئے تھے، تب اس نے انسانیت کی طرفداری کا علم اٹھایا۔وہ چاہتا تو خاموش رہ سکتا تھا۔

وہ کہہ سکتا تھا کہ یہ ایک پیچیدہ تنازع ہے کہ ہم فریق نہیں بن سکتے کہ ہمیں غیر جانبدار رہنا چاہیے، لیکن اس نے غیرجانبداری کو منافقت قرار دیا۔ اس نے کہا کہ ظلم کے وقت خاموش رہنا ظالم کا ساتھ دینا ہے۔ یہ وہ تعلیم ہے جو ہر مذہب دیتا ہے لیکن کم ہی لوگ اس پر عمل کرتے ہیں۔

ہم مسلم دنیا میں اکثر خود کو مظلوموں کا وکیل سمجھتے ہیں لیکن جب وقت آتا ہے تو ہماری زبانیں سوکھ جاتی ہیں۔ ہم اپنے تجارتی معاہدے اپنے خارجہ تعلقات اور اپنی کرسیوں کو مظلوموں کے خون پر ترجیح دیتے ہیں۔ پوپ فرانسس ہمیں آئینہ دکھاتا ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ مذہب کا اصل جوہر کیا ہے۔ وہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر ہم ظالم کے خلاف کھڑے نہیں ہوتے تو ہمارا ایمان محض رسم ہے روح نہیں۔

پوپ فرانسس کی اپنی صحت بھی ان دنوں کمزور ہے۔ اسے کئی بار سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہوا ،اسپتال میں داخل کیا گیا، آپریشن ہوئے لیکن جیسے ہی وہ اسپتال سے باہر نکلا ،اس نے دنیا کے زخموں کو اپنی صحت پر ترجیح دی۔ وہ پھر سے کیمروں کے سامنے آیا اور کہا کہ ہمیں غزہ کے بچوں کے لیے دنیا کے مظلوموں کے لیے اور انسانیت کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے۔

انھیں زندہ رہنا چاہیے کیونکہ ان جیسے مذہبی رہنما کی دنیا کو ضرورت ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ ایک مذہبی رہنما ہے بلکہ اس لیے کہ وہ ضمیر کی آواز ہے۔ ایسی آوازیں اب کم رہ گئی ہیں۔ ایسی آوازیں جو نہ رنگ دیکھتی ہیں نہ قوم نہ مذہب نہ سرحد۔ جو صرف انسان دیکھتی ہیں اور جو ہر انسان کے لیے انصاف مانگتی ہیں۔

اس دنیا میں جہاں ہر دوسرا مذہبی پیشوا سیاست دانوں کا ترجمان بنا ہوا ہے، جہاں روحانیت طاقت کی غلامی بن چکی ہے، وہاں پوپ فرانسس ایک مختلف روایت کا پرچم بردار ہے۔ وہ جس سوچ کا حامی ہے، اس میں وہ تنہا نہیں ہے مگر وہ سوچ بہت سوں کی نہیں ہے۔

وہ جو ویٹیکن کی دیواروں سے نکل کر مہاجر کیمپوں میں جاتا ہے، وہ جو عبادت گاہوں سے نکل کر میدانِ سچ میں آتا ہے، وہ جو خاموشی کو توڑتا ہے۔اس کی زندگی اس کی زبان اس کا طرزِ قیادت ہمیں بتاتا ہے کہ انسانیت اب بھی زندہ ہے اگر ہم اسے سننا چاہیں اگر ہم اسے اپنانا چاہیں۔ہم سب کے لیے اور خاص طور پر ہمارے مذہبی رہنماؤں کے لیے پوپ فرانسس کی زندگی ایک سبق ہے۔ وہ سبق جو ہمیں مذہب کی اصل روح سے جوڑتا ہے اور بتاتا ہے کہ اگر دل زندہ ہو تو ضمیر بولتا ہے اور جب ضمیر بولتا ہے تو دنیا کی خاموشی ٹوٹتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • معروف شیف ذاکر حسین انتقال کرگئے
  • Rich Dad -- Poor Dad
  • خلیل الرحمٰن قمر کی پاکستان سے مایوسی، بھارت کیلیے کام کرنےکو تیار
  • صحت کارڈ میں تین بڑی بیماریوں کا علاج شامل کرنے کا فیصلہ
  • کے پی حکومت کا صحت کارڈ میں تین بڑی بیماریوں کا علاج شامل کرنے کا فیصلہ
  • ڈیتھ بیڈ
  • پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان
  • تین بیل
  • نوجوانوں میں مشہور ہوتا ’ہرے ناخنوں‘ کا رجحان کیا ہے؟
  • تسخیر کائنات اور سائنسی ترقی کا لازم فریضہ