سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے علم میں لایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے جسٹس (ریٹائرڈ) جاویداقبال کی جگہ جسٹس (ریٹائرڈ) فقیر محمد لاپتا افراد کمیشن کے سربراہ مقرر ہوچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس ریٹائرڈ فقیر محمد کھوکھر لاپتا افراد کمیشن کے سربراہ مقرر

جبری گمشدگی گزشتہ 2 دہائیوں سے پاکستان میں چلا آ رہا ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس مسئلے کے تدارک کے لیے وفاقی حکومت نے سنہ 2011 میں لاپتا افراد کمیشن قائم کیا جس کے پہلے سربراہ کے طور پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے ریٹائرڈ جج، جسٹس جاوید اقبال کو تعینات کیا گیا۔

سنہ 2011 سے لے کر اب تک جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال ہی اس کمیشن کی سربراہی کرتے رہے۔ اس کمیشن کی سربراہی کے ساتھ ساتھ وہ سال 2017 سے سال 2022 تک چیئرمین نیب بھی رہے اور تنازعات کا شکار بھی رہے۔

انسانی المیے کو سیاسی رنگ دینا انتہائی افسوسناک ہے، جسٹس جاوید اقبال

جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بطور چیئرمین لاپتا افراد کمیشن میں اپنے دور کو بہترین اور یادگار دور گردانتا ہوں اور ایسا نہیں کہ یہ میں اس وجہ سے کہہ رہا ہوں کہ میں چیئرمین تھا بلکہ یہ دعوٰی اعداد وشمار پر مبنی ہے جن کی رپورٹ ہر مہینے سپریم کورٹ میں جمع کروائی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب میں سنہ 2011 میں لاپتا افراد کمیشن کا سربراہ مقرر ہوا تو اُس وقت لاپتا افراد کی تعداد 12 ہزار سے زائد تھی اور اب جب میں نے چھوڑا ہے تو یہ تعداد 2200 رہ گئی ہے۔

جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال نے کہا کہ اگر میں اس عہدے پر چند مہینے مزید رہتا تو جون تک لاپتا افراد کی تعداد صفر رہ جاتی۔

مزید پڑھیے: لاپتا افراد کمیشن، گزشتہ 6 سالوں کی نسبت اس سال سب سے کم شکایات موصول

واضح رہے کہ لاپتا افراد کمیشن کے اعداد و شمار پر لوگ شکوک و شہبات کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ اعداد و شمار صرف نظر کا دھوکا ہیں اور جن شکایات کو حل شدہ دکھایا جاتا ہے وہ دراصل ازالہ طلب ہی ہوتی ہیں۔ اس پر جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں کہ ایک آدمی کسی کا مقروض تھا لیکن وہ خود اپنی مرضی سے ہی کہیں غائب ہو گیا تو اب اس میں لاپتا افراد کمیشن کیا کر سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لاپتا افراد کی باقاعدہ تعریف قانون میں دی گئی ہے کہ جس کے تحت یہ ایسے افراد ہوتے ہیں جن کو قانون نافذ کرنے والے یا سیکیورٹی ادارے اٹھا کر لے گئے ہوں۔

جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ ایک شخص کوئٹہ سے لاپتا افراد کا مقدمہ لے کر چلا اور اس کا دعوٰی تھا کہ کل 55 ہزار افراد لاپتا ہیں تاہم جب وہ راولپنڈی ریلوے اسٹیشن اترا تو یہ تعداد 7 ہزار رہ گئی اور جب مجھ سے ملا تو تعداد 4 ہزار تھی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اس سے 10 مرتبہ شناختی کارڈ اور رہائشی پتوں کے بارے میں دریافت کیا لیکن اس نے کچھ نہیں بتایا۔

مزید پڑھیں: کوئٹہ، نامعلوم افراد نے لاپتا افراد کے کیمپ کو آگ لگادی

انہوں نے کہا کہ انسانی المیے پر سیاست کرنا افسوسناک ہے ہم نے ملکی مفاد اور اداروں کے تقدس کا خیال رکھا ہے لیکن کبھی بھی شکایت کنندہ کے حقوق پر سمجھوتا نہیں کیا۔

لاپتا افراد کمیشن کے نئے چیئرمین جسٹس (ریٹائرڈ) فقیر محمد کے بارے میں بات کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ مجھے ان کی ذہانت، دیانت اور معاملہ فہمی کے بارے میں کوئی شک نہیں، وہ سپریم کورٹ میں میرے ساتھ جج تھے۔

لاپتا افراد کمیشن کے حالیہ اعدادو شمار

لاپتا افراد کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق نومبر 2024 تک لاپتا افراد کے کل 10 ہزار 438 کیسز سامنے آئے تھے جن میں سے نمٹائے گئے کیسز کی کل تعداد 8 ہزار 172 ہے۔ لاپتا افراد کے غیر حل شدہ کیسز کی تعداد 2 ہزار 266 رہ گئی ہے۔

دستاویز کے مطابق سال 2018 میں لاپتا افراد کمیشن کو ایک ہزار 98 جبری گمشدگیوں کی درخواستیں موصول ہوئیں جبکہ سال 2024 میں موصول ہونے والی درخواستیں 350 ہیں۔ گزشتہ 7 برسوں میں لاپتا افراد کی درخواستیں سب سے زیادہ سال 2021 میں سامنے آئیں جن کی تعداد ایک ہزار 460 ہے۔

یہ بھی پڑھیے: لاپتا افراد کے نام پر بلوچ لبریشن آرمی کے ڈرامے کا ڈراپ سین

کمیشن کو سال 2019 میں 800 درخواستیں موصول ہوئیں، سال 2020 میں 415، سال 2021 میں ایک ہزار 460، سال 2022 میں 860، سال 2023 میں 885 جبکہ گزشتہ برس 30 نومبر تک کے ڈیٹا کے مطابق 350 درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔

جسٹس جاوید اقبال کے تنازعات

جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال بطور چیئرمین نیب اور بطور چیئرمین لاپتا افراد کمیشن بہت سے تنازعات کا شکار رہے اور نمایاں طور پر ان کے ساتھ جنسی ہراسگی کے 2 واقعات وابستہ ہیں۔

اس کے علاوہ بطور چیئرمین نیب ان پر اس دور کی اپوزیشن قیادت پر بے بنیاد مقدمات بنانے کے الزامات بھی لگتے رہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بلوچستان لاپتا افراد جسٹس (ریٹائرڈ) جاویداقبال جسٹس (ریٹائرڈ) فقیر محمد لاپتا افراد کمیشن لاپتہ افراد کی کل تعداد مسنگ پرسن ڈیٹا.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: جسٹس ریٹائرڈ فقیر محمد لاپتا افراد کمیشن مسنگ پرسن ڈیٹا میں لاپتا افراد کمیشن لاپتا افراد کمیشن کے جسٹس جاوید اقبال جاوید اقبال نے لاپتا افراد کی لاپتا افراد کے بطور چیئرمین سپریم کورٹ نے کہا کہ کی تعداد انہوں نے کمیشن کی

پڑھیں:

ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس، جوڈیشل کمیشن، رجسٹرار سپریم اور وزارت قانون نے جواب جمع کروا دیا

سپریم کورٹ میں زیر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی ٹرانسفر اور سینیارٹی سے متعلق کیس میں جوڈیشل کمیشن، رجسٹرار سپریم کورٹ اور وزارت قانون نے اپنا تحریری جواب جمع کروا دیا ہے۔

جوڈیشل کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے جواب میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ کمیشن کا مینڈیٹ آئین کے آرٹیکل 175(A) میں واضح کیا گیا ہے، جس کے تحت سپریم کورٹ، ہائیکورٹس اور فیڈرل شریعت کورٹ میں ججز کی تقرری بنیادی ذمہ داری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے ججز ٹرانسفر کی حمایت کیوں کی؟

جوڈیشل کمیشن کا کہن اہے کہ ججز کی ٹرانسفر کے معاملے میں آئینی طور پر جوڈیشل کمیشن کا کوئی کردار نہیں، تحریری جواب سیکریٹری جوڈیشل کمیشن، نیاز محمد کی جانب سے جمع کروایا گیا۔

رجسٹرار سپریم کورٹ کا مؤقف

دوسری جانب رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب میں آئین کے آرٹیکل 200(1) کا حوالہ دیا گیا ہے، صدر کسی ہائیکورٹ کے جج کو اس کی رضا مندی، چیف جسٹس پاکستان اور دونوں ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے مشاورت کے بعد، کسی دوسرے ہائیکورٹ میں منتقل کرسکتا ہے۔

جواب میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 200(1) کے تحت وضع کردہ طریقہ کار کو مدنظر رکھتے ہوئے، وزارت قانون و انصاف نے 01-02-2025 کو ایک خط کے ذریعے معزز چیف جسٹس آف پاکستان سے ججز کے تبادلے کی مشاورت حاصل کی۔

یہ بھی پڑھیں: ججز سنیارٹی کیس: وفاقی حکومت کی تمام درخواستیں خارج کرنے کی استدعا

یہ مشاورت چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف سے 01-02-2025 کو فراہم کی گئی، اس جواب کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔

وزارت قانون نے بتایا کہ یکم فروری کو چیف جسٹس آف پاکستان سے ججز کی ٹرانسفر پر رائے طلب کی گئی تھی، اور چیف جسٹس نے اسی روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے لیے ججز کی ٹرانسفر پر رضامندی ظاہر کرتے ہوئے معاملہ واپس وزارت کو بھیج دیا تھا۔

وزارت قانون کا جواب

وزارت قانون کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ یکم فروری کو چیف جسٹس آف پاکستان سے ججز کی ٹرانسفر پر رائے طلب کی گئی تھی، اور چیف جسٹس نے اسی روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے لیے ججز کی ٹرانسفر پر رضامندی ظاہر کرتے ہوئے معاملہ واپس وزارت کو بھیج دیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر کیس جوڈیشل کمیشن رجسٹرار سپریم کورٹ سپریم کورٹ سنیارٹی وزارت قانون

متعلقہ مضامین

  • صنم جاوید کی بریت کیخلاف درخواست پر سماعت ملتوی
  • سپریم کورٹ: 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید اور شیخ رشید کی بریت پر حکومت کو عدالت کا دو ٹوک پیغام
  • جامشورو حادثہ، جاں بحق افراد کی تعداد 16ہوگئی، 25 سے زائد زخمی
  • جامشورو حادثہ، جاں بحق افراد کی تعداد 12 ہوگئی، 30 زخمی
  • سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی کراچی میں انتقال کرگئے
  • بیٹا مجرم ہو تو سزا دیں مگر غائب نہ کریں، وزارت داخلہ کے لاپتا ملازم کے والد کی استدعا
  • سپریم کورٹ کے جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی انتقال کرگئے
  • ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس، جوڈیشل کمیشن، رجسٹرار سپریم اور وزارت قانون نے جواب جمع کروا دیا
  • چیف جسٹس نے ججز کے تبادلوں پر رضامندی ظاہر کی تھی: رجسٹرار سپریم کورٹ
  • علامہ اقبال کی لاہور میں ہاسٹل لائف، رہائش گاہیں اور شاعری