Islam Times:
2025-04-23@00:24:31 GMT

غزہ کی جنگ بندی

اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT

غزہ کی جنگ بندی

اسلام ٹائمز: اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اہل غزہ کے شامل حال ہے۔ اس لیے صیہونی انہیں شکست نہ دے سکے، جبکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ عرب کے چھ (6) ممالک چھ 6 روز کی جنگ (حرب الایام الستہ) میں 6 دن بھی اسرائیل کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے تھے۔ اللہ نے اہل غزہ کو حوصلہ عطا فرمایا۔ اسرائیلی درندے اتنے بڑے ظلم کے باوجود مقاومت کے ان عظیم مجاہدین کو نہ جھکا سکے۔ اسرائیل کو مجبوراً جنگ بندی کے معاہدے کی طرف آنا پڑا۔ وہ غزہ پر قبضہ جمانا چاہتا تھا، مگر ایسا نہ کرسکا۔ وہ حماس کو ختم کرنا چاہتا تھا، مگر ناکام ہوا۔ وہ حزب اللہ کو بے اثر کرنا چاہتا تھا۔ مگر حزب اللہ حضرت سید حسن نصراللہ جیسے عظیم قائد کو کھو کر بھی کمزور نہ ہوئی۔ اہل مقاومت نے اسرائیل کے آئرن ڈوم کو شکست دی۔ اسکے مرکاوہ ٹینکس تباہ کیے اور اسکے تمام دفاعی نظاموں کو تاراج کرکے بتا دیا کہ رب ہمارے ساتھ ہے، وہ ہمیں کبھی تنہاء نہیں چھوڑے گا۔ تحریر: مفتی گلزار احمد نعیمی

غزہ میں جنگ بندی ہوچکی ہے۔ 400 دن تک جاری رہنے والی جنگ نے غزہ کو ایسی  تباہی سے دو چار کر دیا ہے، جس کی نظیر ماضی قریب میں ہمیں دور دور تک دیکھنے کو نہیں ملتی۔ انسانیت کا اتنا بڑا قتل عام چشم فلک نے کم کم ہی دیکھا ہوگا۔ اقوام متحدہ کی ایک خصوصی کمیٹی نے اسرائیل کی اہل غزہ پر جارحیت حد کو اپنی رپورٹ میں بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان جنگی کارروائیوں کو کم از کم بھی اگر کوئی نام دیا جائے تو وہ قاتل عام ہی ہوسکتا ہے۔ غزہ میں اس تاریخی قتل عام کے ساتھ ساتھ اسرائیل مقبوضہ غرب اردن میں نسلی امتیاز کی پالیسی پر بھی عمل پیرا ہے اور یہاں وہ یہودیوں کو بسانے کی کوشش کر رہا ہے۔ جنگ بندی کا اعلان تو ہوچکا ہے مگر جب ہم اس جنگ بندی سے پہلے کے مناظر کو دیکھتے ہیں تو ہمارے ذہن خوفناک صورتحال سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ ان 400 دنوں میں 50 ہزار سے زائد  معصوم لوگ شہید ہوئے۔ ان شہداء میں خواتین اور بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ظالم یہودیوں نے مجاہدین کے علاوہ علماء، قراء، حفاظ، مریضوں اور مجبور و مقہور لوگوں کا قتل عام کیا۔

اس کے علاوہ ان صیہونی درندوں نے بھوک کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کیا۔ شمالی اور جنوبی غزہ میں ایک قحط کی سی صورت حال پیدا  ہوچکی ہے۔ جب زمین پر رزق کے تمام دروازے بند کرکے اسلحہ اور بارود کے ساتھ کسی قوم کو نشانہ بنایا جائے تو یہ صورت حال کسی قیامت سے کم نہیں ہوتی۔ ان چار سو دنوں کو جس صبر و استقامت کے ساتھ اہل غزہ نے گزارا وہ بھی بے مثال ہے۔ جس طرح یہ لوگ راضی برضائے رب ہوئے، اس پر ان کی جرات کو سلام ہے۔ وہ آج بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر مکمل بھروسہ کیے ہوئے ہیں۔ وہ رحمت خداوندی سے مایوس نہیں ہوئے، وہ جانتے ہیں کہ ان کی یہ قربانیاں ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لائیں گی۔ فلسطینی آج بھی پرامید ہیں کہ جبر و استبداد کی تاریک راتوں کی بساط بہت جلد لپیٹ دی جائے گی اور بہت عنقریب آزادی کا سویرا طلوع ہوگا۔

یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ اہل فلسطین نے حماس اور حزب اللہ کی قیادت میں یہ جنگ مخص اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے لڑی ہے۔ انہوں نے اپنے پیاروں کی لاشیں اپنے ہاتھوں سے اٹھائیں، مگر اللہ سے شکوہ و شکایت نہیں کی۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں رسوا نہیں ہونے دیا۔ وہ صیہونیوں کے ظلم و ستم کے سامنے مغلوب نہ ہوئے بلکہ اسرائیل کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے کہ اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ فرمان خداوندی ہے "اِنْ  یَّنْصُرْكُمُ  اللّٰهُ  فَلَا  غَالِبَ  لَكُمْۚ-وَ  اِنْ  یَّخْذُلْكُمْ  فَمَنْ  ذَا  الَّذِیْ  یَنْصُرُكُمْ  مِّنْۢ  بَعْدِهٖؕ-وَ  عَلَى  اللّٰهِ  فَلْیَتَوَكَّلِ  الْمُؤْمِنُوْنَ"(160) فرمایا: "اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور اگر وہ تمہیں رسوا کرے تو اس کے بعد کون ہے، جو تمہاری مدد کرے۔ تو مومنین کو صرف اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیئے۔"

اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اہل غزہ کے شامل حال ہے۔ اس لیے صیہونی انہیں شکست نہ دے سکے، جبکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ عرب کے چھ (6) ممالک چھ 6 روز کی جنگ (حرب الایام الستہ) میں 6 دن بھی اسرائیل کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے تھے۔ اللہ نے اہل غزہ کو حوصلہ عطا فرمایا۔ اسرائیلی درندے اتنے بڑے  ظلم کے باوجود مقاومت کے ان عظیم مجاہدین کو نہ جھکا سکے۔ اسرائیل کو مجبوراً جنگ بندی کے معاہدے کی طرف آنا پڑا۔ وہ غزہ پر قبضہ جمانا چاہتا تھا، مگر ایسا نہ کرسکا۔ وہ حماس کو ختم کرنا چاہتا تھا، مگر ناکام ہوا۔ وہ حزب اللہ کو بے اثر کرنا چاہتا تھا۔ مگر حزب اللہ حضرت سید حسن نصراللہ جیسے عظیم قائد کو کھو کر بھی کمزور نہ ہوئی۔ اہل مقاومت نے اسرائیل کے آئرن ڈوم کو شکست دی۔ اس کے مرکاوہ ٹینکس تباہ کیے اور اس کے تمام دفاعی نظاموں کو تاراج کرکے بتا دیا کہ رب ہمارے ساتھ ہے، وہ ہمیں کبھی تنہاء نہیں چھوڑے گا۔

عرب ممالک نے اہل غزہ کی مدد نہیں کی، مسلم ممالک بھی خاموش رہے اور بین الاقوامی طور پر بھی ان کی دادرسی نہیں کی گئی۔ اسرائیل جرائم پر جرائم کرتا رہا لیکن پوری دنیا نے شرق سے لیکر غرب تک اور شمال سے لے کر جنوب تک اہل غزہ کی کوئی قابل ذکر مدد نہیں کی۔ وہ اپنے رب کے آسرے پر لڑتے رہے اور اللہ نے انہیں سرخرو فرمایا۔ وہ تمام ممالک جو شر کے عالمبردار تھے، وہ اپنے ناجائز بچے (اسرائیل) کے پشت پناہ رہے اور دوسری طرف لبنان کی حزب اللہ، غزہ  کی حماس، عراق کے الحشد الشعبی اور یمن کی انصاراللہ اور مقاومت کا سرخیل اسلامی جمہوریہ ایران تھے، انہوں نے کل شر کو ناکوں چنے چبوائے۔ اسرائیل نے ایک ظالم اور جارح کے طور پر تو اپنا نام پیدا کر لیا ہے مگر وہ فاتح قرار نہ پا سکا۔ بلکہ اگر دیکھا جائے تو اخلاقی میدان میں اسے بری طرح شکست فاش ہوئی۔

اس تمام قضیے میں ہمیں امت کے حکمرانوں کا کردار بہت قابل افسوس بلکہ شرمناک نظر آتا ہے۔ وہ امریکہ کی غلامی کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں۔ ہمارے بے حس حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ ہم پر صرف وہی جہاد فرض ہے، جو امریکہ بہادر کی سرپرستی میں کیا جائے یا جو امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے ہو۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو چشم زدن میں امت پر جہاد فرض ہوگیا تھا۔ دنیائے اسلام کے کم و بیش تمام ممالک اس امریکی جہاد میں شامل ہوگئے، الا ما شاء اللہ۔ لیکن غزہ میں 50 ہزار سے زائد معصوم فلسطینی مسلمان شہید ہوگئے، مگر ابھی تک امت پر جہاد فرض نہیں ہوا۔ فرق بالکل واضح ہے کہ دنیا کا شیطان اعظم اسرائیل کی سرپرستی کر رہا ہے۔ خدا جانے غیرت مسلم مر گئی ہے یا اسے مار دیا گیا ہے۔ غیرت اور خودی کا مسلمانوں نے خود ہی جنازہ نکال دیا ہے۔ حکمران دل مردہ کے ساتھ چلتی پھرتی لاشیں ہیں، جو غیرتمند مسلمانوں کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا تھا:
اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات
نہ کر سکیں تو سراپا فسوں و فسانہ
ہوئی ہے زیر فلک امتوں کی رسوائی
خود ہی سے جب ادب و دین ہوئے بے گانہ

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسرائیل کے اللہ تعالی حزب اللہ کے ساتھ اہل غزہ نہیں کی ہے اور

پڑھیں:

’طعنہ دینے ہمارے ووٹوں سے ہی صد بنے‘بلاول بھٹو کی حکومت پر سخت تنقید سے متعلق رانا ثنا اللہ کا ردعمل

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی حمکران مسلم لیگ (ن) پر سخت تنقید کے بعد وزیر اعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ کا بیان سامنے آگیا۔

اپنے ایک بیان میں وزیراعظم کے مشیر برائے بین الصوبائی رابطہ و سیاسی امور رانا ثنااللہ نے کہا کہ بیان دینے کی ایک حد ہونی چاہیے، دوسروں کی عزت و احترام ہونا چاہیے، جنہیں طعنہ دے رہے ہیں، ان ہی کے ووٹوں سے صدر منتخب ہوئے ہیں۔

رانا ثنااللہ نے کہا کہ سندھ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، سندھ کا ایک بوند بھی پانی چوری کا ارادہ نہیں، سندھ حکومت بات کرنے کو تیار ہے ، یہ بات وزیراعظم کے نوٹس میں لائی گئی ہے اور وزیراعظم اس معاملے پر مناسب فیصلہ کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ بلاول نے جلسہ عام سے جوبات کی وہ جوش خطابت میں کی، جوش خطابت میں بہت ساری باتیں ہوجاتی ہیں، بلاول نے جو کچھ کہا اس پر رد عمل دینے کی ضرورت نہیں لیکن بیانات ایک دائرے میں ہونے چاہئیں، دوسروں کی عزت و احترام ہونا چاہیے۔

رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف اپنے معاملات بہترکرے، جیل کے عملے سے تعاون کرے، جن لوگوں کا نام فہرست میں ہو وہی ملاقات کے لیے جائیں، دیگر رہنما اڈیالہ کیوں پہنچ جاتے ہیں؟

یاد رہے کہ گزشتہ دنوں ایک جلسہ عام سے خطابت کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ پانی کی تقسیم کا مسئلہ وفاق کو خطرے میں ڈال سکتا ہے، وفاق کینالز مںصوبے کو واپس لے ورنہ پیپلز پارٹی حکومت کے ساتھ نہیں چلے گی۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں مستقل جنگ بندی کی راہ میں اسرائیل بڑی رکاوٹ ہے، قطر
  • حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی مہم، امن کی کوشش یا طاقتوروں کا ایجنڈا؟
  • قطری اور مصری ثالثوں کی جانب سے غزہ میں 7 سالہ جنگ بندی کا نیا فارمولا تجویز
  • ’طعنہ دینے ہمارے ووٹوں سے ہی صد بنے‘بلاول بھٹو کی حکومت پر سخت تنقید سے متعلق رانا ثنا اللہ کا ردعمل
  • اسرائیل کے ساتھ معاہدے کے حوالے سے امریکی سفیر نے حماس سے کیا مطالبہ کیا ؟
  • ن لیگ اور پی پی کا پانی کے مسئلے پر مشاورتی عمل کو آگے بڑھانے پر اتفاق
  • یوکرین اور روس میں رواں ہفتے ہی معاہدے کی امید، ٹرمپ
  • علامہ اقبال نے مردہ قوم کو شعور دیا: احسن اقبال
  • ہم موجودہ حالات میں اپوزیشن اتحاد کے حق میں نہیں، حافظ حمد اللہ
  • یہودیوں کا انجام