الیکٹرانک بیان حلفی اور سپریم کورٹ میں اہم تقرریاں
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
جوڈیشل کمیشن آف پاکستان، سپریم جوڈیشل کونسل اور لا اینڈ جسٹس کمیشن کے سیکریٹریز اور دیگر اہم پوزیشنوں پر تعیناتی کے لیے سپریم کورٹ کے سینیئر ججوں کی سربراہی میں سیلیکشن کمیٹیاں قائم کر دی گئیں۔
ملک کے پانچوں ہائیکورٹس کے چیف جسٹسز اور صوبائی چیف سیکریٹریز ان آسامیوں پر تقرری کے لیے حاضر سروس یا ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں کو نامزد کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: بینچز اختیارات کا معاملہ: سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا
مذکورہ کمیٹیاں چیف جسٹس یحیٰ آفریدی نے قائم کی ہیں۔ سپریم کورٹ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ میرٹ پر تقرریوں کے لیے یہ کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں۔
لا اینڈ جسٹس کمیشن کے سیکریٹری کی تعیناتی کے لیے کمیٹی کی سربراہی چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کریں گے جبکہ ان کے ساتھ جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید بھی انٹرویو پینل میں شامل ہوں گے۔ لا اینڈ جسٹس کمیشن کے سیکریٹری کے لیے صوبائی چیف سیکریٹریز امیدوار نامزد کریں گے۔
ججوں کی تعیناتی کے لیے قائم ادارے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے سیکریٹری کی تعیناتی کے لیے جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل اور اٹارنی جنرل پر مشتمل کمیٹی قائم کی گئی۔
مزید پڑھیے: جوڈیشل کمیشن نے سندھ ہائیکورٹ میں ایڈیشنل ججز کے لیے 12 ناموں کی منظوری دیدی
ججوں کے احتساب کے لیے قائم ادارے سپریم جوڈیشل کونسل کے سیکریٹری کے انتخاب کے لیے جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور اٹارنی جنرل پر مشتعل کمیٹی قائم کی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: ججز اختیارات کیس مقرر نہ کرنے کا معاملہ، سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس عہدے سے فارغ
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس نے پاکستان کے عدالتی نظام کو مؤثر، فعال اور جدید بنانے کے لیے ایڈوانسڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کو سسٹم میں متعارف کرا دیا ہے۔ نئے انفارمیشن ٹیکنالوجی نظام کے تحت الیکٹرانک بیانِ حلفی متعارف کرایا گیا ہے جو کہ مقدمات دائر کرنے کے نظام کو سہل بنانے کے ساتھ ساتھ وکلا اور سائلین کے لیے مصدقہ نقول حاصل کرنے کے طریقہ کار کو بھی آسان بنائے گا۔ اس نظام میں عوامی رائے دینے کے آپشنز بھی رکھے گئے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سپریم جوڈیشل کونسل سپریم کورٹ لا اینڈ جسٹس کمیشن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سپریم جوڈیشل کونسل سپریم کورٹ لا اینڈ جسٹس کمیشن لا اینڈ جسٹس کمیشن تعیناتی کے لیے کے سیکریٹری سپریم کورٹ چیف جسٹس قائم کی
پڑھیں:
ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
ویب ڈیسک : صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔
سپریم کورٹ میں 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی، جس میں حکومتی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا۔
صوبہ بھر میں انفورسمنٹ سٹیشن قائم کرنے کا فیصلہ، وزیراعلیٰ پنجاب کی زیر صدارت خصوصی اجلاس
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہورہی تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔
واٹس ایپ کا ویڈیو کالز کیلئے فلٹرز، ایفیکٹس اور بیک گراؤنڈز تبدیل کرنے کا نیا فیچر
وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔
صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آہپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔
لاہور؛ بین الاصوبائی گینگ کا سرغنہ مارا گیا
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔
Ansa Awais Content Writer