پی ٹی آئی والے اپنے لیڈر کے ساتھ مخلص نہیں، خواجہ آصف
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
اسلام آباد:
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی والے اپنے لیڈر کے ساتھ مخلص نہیں۔
پی ٹی آئی کی جانب سے حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات سے انکار پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ مذاکرات کرنے والوں کو خود بھی پتا تھا کہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنا۔ پی ٹی آئی والے کسی بھی بات پر مخلص نہیں اور نہ ہی اپنے لیڈر کے ساتھ مخلص ہیں۔
پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مذاکرات سے انکار کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ علی امین گنڈاپور نے خود ہی اعتراف جرم کیا ہے کہُ ہمارے لوگ گمراہ ہوئے۔ یہ کس چیز کا جوڈیشل کمیشن بنانا چاہتے ہیں، جن کو سزائے ہوئی انہوں نے اعتراف جرم کیا۔
خواجہ آصف نے کہا کہ جب میں قید میں تھا تو مجھے بس ایک کمبل دیا گیا تھا۔ ہماری پوری لیڈرشپ کو قید کیا گیا مگر ہم نے ملک کے نقصان کا نہیں سوچا۔
پیکا ایکٹ کی منظوری پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ساری دنیا میں سوشل میڈیا پر پابندی ہے، یہ چیز امریکا میں بھی ہورہی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: خواجہ آصف پی ٹی آئی نے کہا کہ کے ساتھ
پڑھیں:
ملک میں نفرت انگیز مہمات؛ یہودی، یہودیوں کو ماریں گے، اسرائیلی اپوزیشن لیڈر نے خبردار کردیا
اسرائیلی اپوزیشن لیڈر یائر لاپید نے ملک میں بڑھتی ہوئی نفرت انگیز مہمات پر شدید تشویش ظاہر کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو سیاسی قتل کے خطرات جنم لے سکتے ہیں۔
غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق تل ابیب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے لاپید نے کہا، "سرخ لکیر عبور ہو چکی ہے۔ اگر ہم نے ہوش نہ سنبھالا تو یہاں سیاسی قتل ہوں گے، شاید ایک سے زیادہ یہودی یہودیوں کو ماریں گے۔"
لاپید کا اشارہ "شین بیت" کے سربراہ رونن بار کے خلاف جاری آن لائن مہم کی جانب تھا، جنہیں نیتن یاہو کی حکومت ان کے عہدے سے ہٹانا چاہتی ہے۔ اپوزیشن نے اسے غیر جمہوری اقدام قرار دیا ہے۔
اٹارنی جنرل اور سپریم کورٹ بھی رونن بار کی برطرفی پر تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق، بار جلد استعفیٰ دے سکتے ہیں، تاہم لاپید کا کہنا ہے کہ ان کی علیحدگی کا عمل شفاف اور قانونی ہونا چاہیے۔
اپوزیشن لیڈر نے رونن بار کے خلاف سوشل میڈیا پر دی جانے والی قتل کی دھمکیوں کے اسکرین شاٹس بھی پیش کیے اور نیتن یاہو پر الزام عائد کیا کہ وہ اس مہم کے ذمہ دار ہیں۔
لاپید نے کہا، "نفرت نہیں، ہمیں ان اداروں کا ساتھ دینا چاہیے جو ملک کو محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔"
انہوں نے 1995 میں وزیر اعظم رابین کے قتل کی مثال دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر نفرت کا بیانیہ نہ روکا گیا تو تاریخ اپنے آپ کو دہرا سکتی ہے۔