پیوٹن اورچینی صدر شی جن کے درمیان طویل مشاورت، ٹرمپ انتظامیہ سے تعلقات بحال ہونے کی امید
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
بیجنگ /ماسکو (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔23 جنوری ۔2025 )چین کے صدر شی جن پھنگ اور روسی ہم منصب ولادیمیر پیوٹن دونوں ممالک کے درمیان رواں سال تعلقات کو نئی سطح پر لے جانے کے عزم کا اظہار کیا ہے چینی صدر نے کہا دونوں ممالک کو عملی تعاون کو گہرا کرنا چاہیے جبکہ روسی صدر نے کہا کہ امریکا کے زیر تسلط غیر منصفانہ عالمی نظام کی ازسر نو ترتیب کی ضرورت ہے دونوں راہنماﺅں نے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ کشیدہ تعلقات بحال ہونے کی امید ظاہر کی.
(جاری ہے)
غیر نشریاتی ادارے کے مطابق روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن اور ان کے چینی ہم منصب شی جن پھنگ نے امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت سے تعلقات پر طویل مشاورت کی دونوں نے ٹرمپ کی حلف برداری کے بعد پیر کو ایک گھنٹے 35 منٹ تک ویڈیو کال پر بات چیت کی جس میں یوکرین جنگ ختم کرنے سے متعلق کوئی ممکنہ حل زیر بحث آیا اور روس نے تائیوان پر بیجنگ کے موقف کی مکمل تائید کا اظہار کیا. دونوں راہنماﺅں نے امریکہ میں حکومت کی تبدیلی کے بعد اسٹریٹجک تعلقات مزید گہرے کرنے پر اتفاق کیا چین اور روس نے فروری 2022 میں پیوٹن کے دورہ بیجنگ کے موقعے پر اپنی پارٹنر شپ کو حدود سے بالاتر قرار دیا تھا صدر پیوٹن نے یوکرین میں اپنی فوج داخل کرنے سے چند ہفتے قبل ہی چین کا دورہ کیا تھا. حالیہ مہینوں میں پیوٹن اپنے بیانات میں مسلسل چین کو اپنا اتحادی قرار دے چکے ہیں صدرپیوٹن اور شی جن پھنگ کے درمیان ہونے والی گفتگو میں دونوں نے ایک دوسرے کو ڈیئر فرینڈ کہہ کر مخاطب کیا اور شی نے اپنے روسی ہم منصب کو گزشتہ جمعے کو ٹرمپ سے ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا جس میں ٹک ٹاک اور تائیوان سے متعلق بات چیت ہوئی تھی. دوسری جانب روس کے حکومتی مرکز کریملن میں خارجہ امور کے مشیر یوری اشاکوف نے کہا ہے کہ اگر ٹرمپ کی ٹیم دلچسپی ظاہر کرتی ہے تو شی اور پیوٹن نے امریکہ کے ساتھ مشترکہ مفادات اور باہمی احترام کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے. انہوں نے ماسکو میں صحافیوںسے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہم امریکہ کی نئی حکومت سے یوکرین تنازعے پر بات چیت کے لیے تیار ہیں اشاکوف نے کہا کہ صدر پیوٹن یوکرین میں مستقل بنیادوں پر امن کے خواہاں ہیں اورمحض وقتی جنگ بندی نہیں چاہتے لیکن کوئی بھی معاہدہ روس کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا جائے گا چین اور روس کے درمیان اس طویل مشاورت کی خبر ایسے وقت آئی ہیں جب امریکہ میں کواڈ ممالک کے وزرائے خارجہ موجود ہیں.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے درمیان اور روس نے کہا روس کے
پڑھیں:
ہارورڈ یونیورسٹی نے ٹرمپ انتظامیہ کے فنڈز روکنے کے اقدام کو عدالت میں چیلنج کر دیا
امریکہ کی سب سے باوقار اور ممتاز سمجھی جانے والی ہارورڈ یونیورسٹی نے ٹرمپ انتظامیہ کے اس اقدام کو باضابطہ طور پر عدالت میں چیلنج کیا ہے جس کے تحت پچھلے دنوں ٹرمپ انتظامیہ نے یونیورسٹی کو انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے 2.2 ارب ڈالر کی گرانٹ روکنے کا اعلان کیا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ ہارورڈ یونیورسٹی میں غزہ میں اسرائیلی جنگ کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں اٹھنے والی آوازں پر سخت ناراض ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے اس سلسلسے میں ہارورڈ یونیورسٹی کے لیے گرانٹس کو روکنے کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کے ساتھ کیے گئے فیڈرل گورنمنٹ کے کیے گئے معاہدے ختم کرنے کا بھی اعلان کیا ہے اور ہارورڈ یونیورسٹی کی غیر ملکی طلبہ کو داخلے دینے کی پالیسی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ یونیورسٹی کو غیر ملکیوں کو داخلے دینے سے روک سکتی ہے۔
تاہم ہارورڈ یونیورسٹی کے صدر الان گاربر نے کہا ہے کہ یونیورسٹی ٹرمپ انتظامیہ کے ان مطالبات کے سامنے نہیں جھکے گی۔
یونیورسٹی صدر کے اس اعلان کے سامنے آنے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے یونیورسٹی کے لیے اربوں ڈالرز کے فنڈز منجمد کر دیے۔
امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ اقدام امریکیوں کی زندگیاں بچانے اور امریکی سلامتی کے لیے کیا گیا ہے۔ مگر ہارورڈ یونیورسٹی اس امریکی دعوے کو مسترد کرتی ہے۔
صدر جامعہ نے عدالت کے سامنے پیش کردہ اپنی درخواست میں لکھا ہے ‘ حکومت نے ایسا کیا ہے نہ ایسا کر سکتی ہے کہ وہ ان الزامات کے حق میں کوئی منطقی تعلق پیدا کر کے ظاہر کر سکے۔ جو یونیورسٹی پر عائد کیے گئے ہوں کہ یونیورسٹی میں یہود مخالف سرگرمیاں جاری ہیں۔ حکومتی لازما بےبنیاد ہے۔ جبکہ حکومت نے یونیورسٹی میں ہونے والی میڈیکل سے متعلق تحقیقات کے ساتھ ساتھ سائنس و ٹیکنالوجی کے دیگر شعبوں میں کی جانے والی تحقیقات کو فنڈز معطل کر کے روکنے کی کوشش کی ہے۔’
‘حتیٰ کہ حکومت اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے کہ اربوں ڈالر کی روکی گئی اس رقم سے یونیورسٹی کے تحقیقی پروگراموں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور جن لوگوں کو یونیورسٹی کے ان تحقیقی منصوبوں سے فائدہ ہوتا ہے ان پر کیا اثرات آئیں گے۔ قومی مفادات کس طرح نقصان میں جائیں گے اور امریکہ میں ایجادات کی ترقی کا سفر کس قدر متاثر ہوگا۔ ‘
امریکی ٹرمپ انتظامیہ نے 11 اپریل کو لکھے گئے خط میں کہا تھا ‘ہارورڈ یونیورسٹی کو اپنے ہاں شدت پسندانہ نظم و ضبط نافذ کرنا چاہیے۔ تاکہ ان احتجاجی طلبہ کو نکال باہر کیا جائے جو باہر کے ملکوں سے آئے ہیں اور امریکی اقدار کے دشمن ہیں۔ ‘
ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ یونیورسٹی میں اس ماحول کو تبدیل کرنے کے لیے قیادت کی سطح پر زیادہ تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ داخلہ پالیسی کو بدلنے کی ضرورت ہے اور مختلف فیکیلٹیز میں آڈٹ کے ساتھ ساتھ سٹوڈنٹس کی باڈیز کو کھنگالنے کی ضرورت ہے۔ نیز یونیورسٹی کو چاہیے کہ وہ کئی متوقع اقدامات کرے۔
تاہم پیر کے روز یونیورسٹی انتظامیہ نے کھلے لفظوں میں انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ حکومت کے اس حکم کی بجا آوری نہیں کریں گے۔ کیونکہ آئین کی پہلی ترمیم ان کی سرگرمیوں کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ اسی کے تحت یونیورسٹی کو ٹیکسوں سے استثناء بھی حاصل ہے۔
یاد رہے ٹرمپ انتظامیہ کے اہم ذمہ داروں کے علاوہ خود صدر ٹرمپ بھی ہارورڈ یونیورسٹی کے بارے میں سخت تبصرے کرتے ہوئے انتباہ کا انداز اختیار کر چکے ہیں۔ جبکہ ہارورڈ کے ساتھ ساتھ باقی امریکی یونیورسٹیوں کے بارے میں بھی ٹرمپ انتظامیہ کا رویہ مخاصمانہ سمجھا جا رہا ہے۔ جس سے یونیورسٹیوں کے طلبہ اور اساتذہ کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔
ہارورڈ کے صدر گاربر نے پیر کے روز اپنے ایک بیان میں لکھا ‘ہم ان اقدار کے ساتھ کھڑے ہیں جو امریکہ کو اعلیٰ تعلیم کی طرف لے کر جانے والی ہیں اور دنیا کے لیے ایک مشعل کا کام کرتی ہیں۔ ہم اس سچائی کے ساتھ کھڑے ہیں کہ ملک کے کالج اور یونیورسٹیاں معاشرے کے لیے اپنا ضروری کردار ادا کریں ۔ جبکہ حکومت ان میں مداخلت کر رہی ہے۔ اس صورتحال میں اعلیٰ تعلیمی معیار اور ‘ایکسیلنس’ کیونکر حاصل کی جا سکتی ہے۔ ‘
Post Views: 1