سپریم کورٹ:چیف جسٹس کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کا اجلاس آج ہوگا
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کا اجلاس آج ہوگا ۔سندھ ہائیکورٹ میں12ایڈیشنل ججوں کیلئے46ناموں پر غور ہوگا ، جوڈیشل کمیشن کو بھیجے گئے ناموں میں 6 ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں اور40وکلا کے نام شامل ہیں ۔ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں میں سوریش کمار، خالد حسین شاہانی، مشتاق احمد لغاری، تسنیم سلطانہ، منور سلطانہ اور امیر علی مہسیر کے نام شامل ہیں۔وکلاء میں علی حیدر ادا، نثار احمد بھمبرو، ریاضت علی ساحر، میراں محمد شاہ شامل راجا جواد علی سحر، عبید الرحمان خان، رفیق احمد کلوار، عمائمہ انور خان شامل ،محمد عثمان علی ہادی، محمد عمر لاکھانی، منصور علی گھنگرو، محمد ذیشان عبداللہ، محمد جعفر رضا شامل ذوالفقار علی سولنگی، حق نواز تالپور، عبد الحامد بھرگڑی، ڈاکٹر سید فیاض الحسن شاہ شامل محسن قادر شاہوانی، قاضی محمد بشیر، سندیپ ملانی، محمد حسن اکبر، سید احمد شاہ شامل ہیں۔امداد علی اونر، چوہدری عاطف رفیق، محمد جمشید ملک اور عرفان میر ہالپوتا شامل ہیں جان علی جونیجو، ولی محمد کھوسو، فیاض احمد سمور، الطاف حسین، غلام محی الدین شامل راشد مصطفیٰ، ارشد زاہد علوی، سید طارق احمد شاہ، صغیر احمد عباسی، وزیر حسین کھوسو شامل پرکاش کمار، محمد ذیشان، ریحان عزیزاور شازیہ ہنجرا کے ناموں پر غور ہوگا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں، سپریم کورٹ
اسلام آباد:صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔
سپریم کورٹ میں 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی، جس میں حکومتی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہورہی تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔
وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔
صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آہپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔