سنی لیونی نے بالی ووڈ میں قدم کیسے رکھا، ان کے ساتھ وہاں کیا کچھ پیش آیا؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
بھارتی اداکارہ و ڈانسر سنی لیونی نے 14 سال قبل بھارتی شو بزنس میں قدم رکھا، اور اس کے بعد سے اداکارہ نے اپنے ڈانس، بالی ووڈ اور ساؤتھ کی فلمز میں اپنی اداکاری سے خاص پہچان بنائی۔
ایک انٹرویو میں انہوں نے اپنے ابتدائی دنوں کا ذکر کیا جب انہیں مسترد کیا گیا، انہوں نے بتایا کہ مسترد ہونے کے بعد کس طرح انہوں نے بالی ووڈ میں اپنے قدم جمائے۔
سنی لیونی نے بھارتی انڈسٹری میں قدم رکھنے کے اپنے فیصلے کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ جب انہوں نے بھارت کے مشہور ریئلٹی شو بگ باس میں شامل ہونے کا سوچا تو اس وقت وہ بہت گھبرائی ہوئی تھیں کیونکہ انہیں شدید مخالفت کا سامنا تھا اور کچھ لوگ ان کے خلاف تھے۔
یہ بھی پڑھیں: معروف بالی ووڈ اداکارہ نے شوبز کی دنیا چھوڑنے کے بعد کون سی راہ اختیار کرلی؟
اداکارہ نے بتایا کہ حالانکہ میں شو کے آغاز میں ہی بگ باس میں شامل ہونے والی تھیں لیکن مخالفت کی وجہ سے انہیں وائلڈ کارڈ انٹری کے طور پر شامل کیا گیا۔ سنی لیونی کا کہنا تھا کہ حالات کو دیکھ کر انہیں لگا کہ شاید انہوں نے غلط فیصلہ کیا ہے، لیکن آخر میں انہیں ناظرین کی طرف سے بہت محبت ملی جس کی انہیں توقع نہیں تھی۔
یہ ریئلٹی شو سنی لیونی کے لیے ایک اچھا آغاز ثابت ہوا، جس کے بعد انہوں نے 2012 میں جِسم 2 کے ذریعے بالی ووڈ میں قدم رکھا اور پھر راگنی ایم ایم ایس 2 (2014)، ایک پہیلی لیلا (2015) اور مستی زادے (2016) جیسی فلموں میں کام کیا۔
اپنے تجربات پر بات کرتے ہوئے سنی لیونی کہتی ہیں کہ انہوں نے سیکھا ہے کہ کام کرتے رہنا چاہیے اور اردگرد کی فضول باتوں کو نظرانداز کر دینا چاہیے، کیونکہ ہر حال میں مستقل مزاج رہنا ضروری ہے۔ اداکارہ کا کہنا تھا کہ ان کی زندگی میں کچھ لمحے ڈرا دینے والے تھے لیکن چند چیزیں بہت شاندار بھی ہوئیں۔
یہ بھی پڑھیں: نرگس فخری کو کچھ عرصہ قبل بالی ووڈ کیوں چھوڑنا پڑا؟
بالی ووڈ کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ طویل عرصے تک کام کرتے رہیں، محنت کریں اور اپنی موجودگی کا احساس دلائیں تو آپ کو کام کے مواقع ملتے رہیں گے، اداکارہ نے کہا کہ جب انہیں کسی پراجیکٹ میں کاسٹ کیا جاتا ہے تو ان کے مداح ان کے ساتھ ہوتے ہیں جو اس پراجیکٹ کی اہمیت میں مزید اضافہ کر دیتے ہیں۔
حال ہی میں، سنی لیون نے کینیڈی، کوٹیشن گینگ اور شیرو جیسی فلموں میں اہم کردار ادا کیے ہیں، جو کہ ہمیشہ ان کی خواہش رہی ہے۔ تاہم انہیں حالیہ کچھ عرصے سے بالی ووڈ فلموں میں کسی خاص گانے میں نہیں دیکھا گیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں ہٹ گانوں پر پرفارم کرنے کی کمی محسوس ہوتی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا ’بالکل مجھے یاد آتا ہے جب میں ان فلموں میں ہٹ گانوں پر ڈانس کرتی تھی تو وہ گانے واقعی فلم کو تقویت دیتے تھے۔ فلم اچھی ہوتی تھی لیکن پھر وہ گانا اسے اور اچھا بنا دیتا تھا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ وہ خوش ہیں کہ انہیں ایسے گانوں کا حصہ بننے کا موقع ملا جو اب بھی اتنے مشہور ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بالی ووڈ اسٹار سلمان خان میری نقل کرتے تھے، گلوکار حسن جہانگیر
سوشل میڈیا کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے سنی لیونی کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا پر اپنی شناخت بنانا بہت ضروری ہے۔ اگر آپ رقص یا کسی بھی فن کا مظاہرہ کرنا پسند کرتے ہیں تو اسے جاری رکھیں کیونکہ یہ آپ کو آڈیشنز میں اضافی فائدہ پہنچاتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آڈیشن میں آپ یہ کہہ سکتے ہیں، ’میرے پاس سوشل میڈیا پر بڑی فالونگ ہے، اس لیے میں آپ کے پراجیکٹ کی برانڈ ویلیو بڑھا سکتا ہوں‘۔ اداکارہ نے کہا کہ آج کل سوشل میڈیا ہر معاہدے کا حصہ بن چکا ہے کسی بھی کانٹریکٹ پر دستخط کرتے ہوئے آپ اسے نظر انداز نہیں کر سکتے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بالی ووڈ سنی لیونی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بالی ووڈ سنی لیونی کا کہنا تھا کہ اداکارہ نے سوشل میڈیا کرتے ہوئے فلموں میں سنی لیونی بالی ووڈ انہوں نے کے بعد
پڑھیں:
اندھیروں سے روشنی تک
معززشرکائے مجلس،صاحبانِ ایمان، معزز علمائے کرام،دانشورانِ ملت،دلوں کی دھڑکنوں کو چھولینے والی سچائی اورانسانیت کی وحدت کے متلاشی قلوب کیلئے حددرجہ آداب اور ڈھیروں سلامتی کی دعاؤں کے بعدمیں عالمی بین المذاہب کونسل کا تہِ دل سے ممنون ہوں،جنہوں نے صرف ایک تقریب نہیں بلکہ انسانیت کی بقا،دلوں کی قربت،اور ایک پرامن مستقبل کی جانب ایک روشن قدم اٹھایاہے۔آج ہم ایک ایسےعظیم المرتبت اورجلیل القدرنبی کے ذکرِجمیل سے محفل کو منورکررہے ہیں جن کی داستانِ حیات نہ صرف اہلِ اسلام کیلئے باعثِ فخرہے،بلکہ یہودیت و عیسائیت کےپیروکاروں کیلئے بھی ہدایت وبصیرت کاایک درواکرتی ہے۔یہ وہ کہانی ہےجوتینوں آسمانی مذاہب کے دلوں میں دھڑکتی ہے،ایک نبی،ایک دعا،اورایک اندھیراجس سےروشنی نےجنم لیا۔یہ سفرہےمایوسی سے امیدتک،نفرت سے محبت تک، اور فرقوں سے انسانیت کی طرف کا، جس پرآج بھی عمل کرکے اس دنیاکوامن کا گہوارہ بناسکتے ہیں۔
حضرت یونس،جنہیں قرآن میں ذوالنون اورصاحب الحوت کے القاب سے بھی یاد کیا گیا، ان ہستیوں میں سے ہیں جن کاتذکرہ قرآنِ مجید، بائبل اورعبرانی صحائف تینوں میں یکساں تقدیس وتوقیرکے ساتھ ملتاہے۔ان کی زندگی،محض ایک واقعہ نہیں،بلکہ ایک زندہ روحانی درس گاہ ہے۔ایک دعوتِ توبہ،ایک پکارِمحبت،ایک نوائے امن ہے۔آئیے میں سب سے پہلے بحیثیت مسلمان اللہ کے آخری نبیﷺپرنازل آخری کتاب قرآن کریم کے حوالوں سے اپنی گفتگو کا آغاز کرتاہوں جوہمارے آقاکاایک ایسامعجزہ بھی ہےجس کے ہرایک لفظ کی حفاظت کاذمہ خود اس رب کریم نے اپنے ذمہ لیا ہےجس نےقیامت تک آنے والے ہرفرداورانسانیت کیلئے یہ کتاب نازل فرمائی تاکہ ہم اسے اپنی زندگیوں میں نافذکرسکیں اورفلاح پا سکیں۔
حضرت یونس کاقصہ تینوں ابراہیمی مذاہب اسلام،یہودیت،اورعیسائیت میں ایک مشترکہ روحانی میراث کی حیثیت رکھتاہےجو توبہ،رحمت اورانسانی کمزوری کی گہرائیوں کو اجاگر کرتا ہے۔یہ واقعہ نہ صرف مذہبی متون میں بیان ہواہے بلکہ انسانی ضمیراور اخلاقی بصیرت کاآئینہ بھی ہے۔ یہ وہ کہانی ہےجوتینوں آسمانی مذاہب کے دلوں میں دھڑکتی ہے۔ایک نبی، ایک دعا،اورایک اندھیراجس سے روشنی نےجنم لیا۔یہ سفرہے مایوسی سے امیدتک،نفرت سے محبت تک،اورفرقوں سےانسانیت کی طرف۔۔۔۔یہ وہ آوازہے جووقت کی دھول میں گم ہو چکی تھی اورآج اس مجلس میں،وہی آوازایک بارپھر بین المذاہب محبت،احترام اورہم آہنگی کے ترانے کے طورپرگونج رہی ہے۔قرآنِ حکیم میں حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر6 سورتوں میں آیاہےجن میں ان کی نبوت،قوم کی نافرمانی،اورمچھلی کے پیٹ میں ان کا قیام شامل ہیں۔ سورہ الصافات کی آیات 139 – 148 میں فرمایا:اوربے شک یونس پیغمبروں میں سے تھے۔جب وہ بھاگ کربھری ہوئی کشتی کی طرف گئے۔پھرقرعہ اندازی کی،تووہ ہارنےوالوں میں سےہوگئے۔ پھرمچھلی نے انہیں نگل لیااوروہ ملامت زدہ تھے۔پھراگروہ تسبیح کرنےوالوں میں سے نہ ہوتے،تووہ قیامت کے دن تک اس کے پیٹ میں رہتے۔پھرہم نے انہیں چٹیل میدان میں پھینک دیااوروہ بیمارتھے۔اورہم نے ان پرکدوکادرخت اگایا۔اورہم نے انہیں ایک لاکھ یااس سے زیادہ لوگوں کی طرف بھیجا۔پھروہ ایمان لائے،توہم نے انہیں ایک مدت تک فائدہ پہنچایا۔ رب کریم نے قرآن کی سورہ نساء آیت163میں ارشادفرمایا:اورہم نے نوح اور ان کےبعدآنےوالےنبیوں کی طرف وحی کی، اورہم نے ابراہیم،اسماعیل،اسحاق،یعقوب ، اسباط،عیسی،ایوب،یونس، ہارون اورسلیمان کی طرف وحی کی، اورہم نے دائود کو زبور عطا کی۔ سورہ الانعام کی آیت86میں فرمایا: اوراسماعیل،الیسع،یونس اورلوط کو(بھی ہدایت دی)، اورہم نے ان سب کوجہان والوں پرفضیلت دی۔ ائیے اورآگے بڑھتے ہیں۔رب کریم قرآن میں سورہ یونس کی آیت98میں فرماتے ہیں: توکوئی بستی ایسی کیوں نہ ہوئی جوایمان لاتی اوراس کاایمان اسے نفع دیتا،سوائے یونس کی قوم کے؟جب وہ ایمان لائےتوہم نےان سے دنیاکی زندگی میں رسوائی کاعذاب دورکردیا اور انہیں ایک مدت تک فائدہ پہنچایا۔
سورہ الانبیاک آیت (87)میں فرمایا: اور ذوالنون(کویادکرو) جب وہ(اپنی قوم سے ناراض ہوکر) غصےکی حالت میں چل دیئےاورخیال کیا کہ ہم ان پرقابو نہیں پاسکیں گے۔ آخر اندھیرے میں(خداکو)پکارنے لگے کہ تیرے سواکوئی معبودنہیں۔توپاک ہے(اور) بیشک میں قصوروار ہوں۔ یہ وہ لمحہ ہے جب نبی اپنی قوم سے دل برداشتہ ہوکرروانہ ہوا،اور مچھلی کے پیٹ میں تین اندھیروں میں گم ہوکررب کوپکارااوررب نے جواب دیا،کیونکہ اس کی رحمت،اس کے غضب پرغالب ہے۔
قرآن کریم میں حضرت یونس کا ذکر ’’صاحِبِ الحوتِ‘‘مچھلی والے کے لقب سے کیا گیا ہے۔ ’’اوراپنے رب کے حکم کیلئےصبرکرو، اورمچھلی والے(یونس)کی مانندنہ ہوجا،جب اس نے غصے میں پکارااوروہ دل ہی دل میں غم سےبھراہواتھا۔ اگراس کے رب کی طرف سے اس پرنعمت نہ ہوتی تواسے میدان میں پھینک دیاجاتا،اوروہ ملامت زدہ ہوتا۔پس اس کے رب نے اسے چن لیا، اور اسے نیکوکاروں میں شامل کردیا‘‘ (القلم:48-50)۔ یعنی یہ آیات ان کے صبر،توبہ و استغفاراوراللہ کی رحمت سے نجات کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
یہ آیات حضرت یونس کے واقعے کو صبروا ستغفار،ندامت اوررب کی رحمت کامکمل آئینہ بناکر پیش کرتی ہیں۔وہ لمحہ جب وہ دل گرفتہ اور غصے میں رب کوپکارتے ہیں،اورپھراللہ کی طرف سے نعمت یعنی مغفرت اورفضل ان پرنازل ہوتاہے۔ یہ اسباق ہرمومن،ہر انسان کیلئےایک روحانی مشعل راہ ہیں۔ان کانام حدیث میں یونس بن امتی آیا ہے۔آگے بڑھنے سے پہلے میرے آقانبی اکرمﷺ کاقول مبارک بھی ملاحظہ فرمائیں: بہت ہی جلیل القدرصحابی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:کسی بندے کے لائق نہیں کہ وہ کہے کہ میں یونس بن امتی سے بہترہوں۔ حضرت یونس کا تذکرہ بائبل کی کتاب یوناہ میں بڑی تفصیل سے ملتاہے۔یہ کتاب چار ابواب پرمشتمل ہے۔ان میں حضرت یونس کی نبوت، ان کانینوا کی طرف بھیجاجانا،ان کافرار ، مچھلی کے پیٹ میں ان کا قیام،اورنینوا کی قوم کی توبہ کاذکرہے۔میں بائبل کی کتاب یوناہ کے چند اہم اقتباسات پیش کرکے اپنامقف آپ کے سامنے رکھ دیتاہوں۔
خداوند کاکلام یونس بن امتی پرنازل ہوا: اٹھ، نینوا،اس عظیم شہر،کی طرف جااوراس کے خلاف منادی کر،کیونکہ ان کی بدی میرے حضور آگئی ہے۔لیکن یونس خداوندکے حضورسے ترسیس کی طرف بھاگ گیا۔(یوناہ:3-1:1 )
تب خداوندنے ایک بڑی مچھلی مقررکی کہ یونس کونگل لے۔اوریونس تین دن اورتین رات مچھلی کے پیٹ میں رہا۔(یوناہ:17:1)
عیسائی اور یہودی متون میں حضرت یونس کو یوناہ کے نام سے جاناجاتاہے۔بائبل کی کتاب یوناہ میں بیان ہےکہ خدانے انہیں نینوہ کی قوم کو خبردارکرنے کاحکم دیا،لیکن وہ فرارہو گئے ۔ ایک طوفان کے دوران،انہیں سمندرمیں پھینک دیا گیا، جہاں ایک بڑی مچھلی نے انہیں نگل لیا۔ (یوناہ:117)
اورخداوندنے ایک بڑی مچھلی کو مقررکیاکہ یوناہ کونگل لے،اوریوناہ تین دن اورتین راتیں مچھلی کے پیٹ میں رہا۔یہاں بڑی مچھلی کا ذکر ہے،نہ کہ ویل یاوہیل کا،جیساکہ بعض ترجموں میں آیا ہے۔اصل عبرانی لفظ(داگ گادول) استعمال ہواہے،جس کامطلب بڑی مچھلی ہے۔
اورخداوندکاکلام یوناہ بن امتی کے پاس پہنچا،کہ اٹھ،نینوہ،اس بڑے شہرکوجا،اوراس کے خلاف منادی کر،کیونکہ ان کی شرارت میرے حضورآ پہنچی ہے۔(یوناہ:11-2)
تب یوناہ نے مچھلی کے پیٹ سے خداوند اپنے خداسے دعاکی،اورکہا’’میں نے اپنی مصیبت میں خداوندکوپکارا،اوراس نے مجھے جواب دیا،میں نے پاتال کے پیٹ سے فریادکی، اورتونے میری آوازسنی۔(یوناہ:21-2)
اوریوناہ شہرمیں داخل ہوکرایک دن کی مسافت تک گیا،اورمنادی کی،اورکہا”چالیس دن کے بعدنینوا الٹ دیاجائے گا۔تب نینوا کے لوگوں نے خداپرایمان لایا،اورروزہ کااعلان کیا، اور بڑے سے لے کرچھوٹے تک نے ٹاٹ پہنا۔ (یوناہ:34-5)(جاری ہے)