WE News:
2025-04-22@14:40:39 GMT

پختون معاشرے میں حجرہ کی اہمیت

اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT

پختون معاشرے میں حجرہ کی اہمیت

حجرہ پختون روایتوں میں سے ایک خوبصورت روایت ہے جو زمانہ قدیم سے چلا آرہا ہے۔ اب آپ سب کے ذہنوں میں ایک سوال آرہا ہوگا کہ آخر حجرہ کی روایت شروع کیسے ہوئی؟ تو آئیے آج میں آپ لوگوں کو اپنے اس بلاگ میں حجرے کی تاریخ اور اہمیت اور اس کے طرز کے بارے میں بتاتی ہوں۔

خیبر پختونخوا بالخصوص قبائلی اضلاع میں حجرے کا رواج جرگہ کے بعد آیا کیونکہ پرانے زمانے میں یا یوں کہہ لیں کے ہزاروں سال پہلے پختون اپنے مسائل جرگہ کے ذریعے حل کیا کرتے تھے۔ جس کا طریقہ کار کچھ یوں ہوا کرتا تھا کہ علاقے کے کچھ مشران یا بڑے لوگ کسی مخصوص جگہ پر اکٹھے ہوجاتے تھے۔ مگر یہ مخصوص جگہ کوئی کھلی جگہ ہوتی تھی جہاں پر زیادہ تعداد میں لوگ جمع ہو سکتے تھے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جرگہ کو پر امن بنانے اور جرگہ کے لوگوں کو آندهی، طوفان، بارش اور راہگیروں سے محفوظ بنانے کے لیے حجرے کا انعقاد ہوا۔

حجرے کو پختون معاشرے میں انتہائی اہمیت اس لیے بھی حاصل ہے کیونکہ پرانے زمانے میں حجرے کو عدالت کے مانند سمجھا جاتا تھا کیونکہ جرگہ کے ذریعے ہی لوگوں کو فوری اور سستا انصاف ملتا تھا۔ پختونوں کی مہمان نوازی تو دنیا بھر میں مشہور ہے اور اس کی مثالیں بھی دی جاتی ہیں۔ پختونوں کی اس فراخ دلی کی وجہ سے حجرے کی خوبصورتی تب بڑھ جاتی تھی جب قبائلی اضلاع میں اگر گاؤں میں ایک گھر میں شادی ہوتی تھی تو پورے گاؤں کے لوگ اس خوشی کو اپنی خوشی سمجھ کر ہر رات اکھٹے ہوتے تھے اور رباب وغیرہ کا اہتمام ہوتا تھا اور تقریباً ہر گھر سے ہر کسی کے بساط کے مطابق کھانا آتا اور سب مل کر بخوشی کھاتے تھے جس میں انتہائی برکت ہوا کرتی تھی۔

اور جب صبح ہو جاتی تھی تو تقریباً ہر گھر سے پراٹھے اور چائے آنا شروع ہو جاتی تھی، اور اگر کسی گاؤں میں کسی کی فوتگی ہو جاتی تھی تو پھر بھی ہر گھر سے کھانا اور چائے آرہی ہوتی تھی۔ ایسا کرنے سے لوگوں میں امن، بھائی چارہ اور اتفاق رہتا تھا۔ اس کے علاوہ حجرہ بزرگوں کے وقت گزارنے کی ایک بہترین جگہ ہوا کرتی تھی کیونکہ گاؤں کے تمام بوڑھے اکٹھے ہو جاتے تھے اور اپنے قصے سنایا کرتے تھے اور اس طرح یوں ان کو نہ ڈپریشن ہوتی تھی اور نہ ہی کوئی اور بیماری، اور بوڑھوں کے علاوہ گاؤں کے نوجوان حجرے میں بیٹھ کر ٹیکنالوجی سے بے خبر اپنے بڑوں سے قصے سنتے تھے ان سے سیکھتے اور ان پر عمل کرتے تھے۔

بلکہ پرانے زمانے میں حجرے کو ایک درسگاہ کی حیثیت حاصل تھی کیونکہ گاؤں کے سارے نوجوان حجرے میں اکٹھے ہو جاتے تھے اور اپنے بڑوں کی نصیحتیں سنتے اور ان پر عمل پیرا ہوتے تھے۔ قبائلی اضلاع میں حجرے کا اپنا ایک طرزہوا کرتا تھا جس میں لکڑی سے بنی چارپائیاں ہوتی تھیں اور چارپائیوں میں تکئیے ہوتے تھے اور ان تکیوں کے علاف اکثر چمکیلے کپڑے کے ہوتے تھے اور ہر چارپائی کے سامنے میز ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ حجرے میں ریڈیو، لونگی یا شملہ یعنی ایک خاص قسم کی پگڑی ہوتی تھی، بندوق، لالٹین، ہاتھ والے پنکھے جس کو پشتو میں ببوزے بولتے ہیں ہوا کرتے تھے۔

اس کے علاوہ حجرے میں پانی بھرنے کے لیے  تانبے سے بنے لمبے سے برتن ہوتے تھے جس کو پشتو میں کوزہ بولتے ہیں اور اس کوزے سے لوگ وضو کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ حجرے میں لوہے سے بنا ایک برتن ہوتا تھا جس کو پشتو میں چلیمچی بولتے ہیں۔ بڑے لوگ کھانا کھانے سے پہلے اس برتن میں ہاتھ دھوتے تھے اور اس کا طریقہ کار کچھ یوں ہوتا تھا کہ ایک نوجوان کے ایک ہاتھ میں ایک برتن میں پانی ہوتا تھا جبکہ دوسرے ہاتھ میں چلیمچی ہوتی تھی اور بڑے اس چلیمچی میں کھانا کھانے سے پہلے اپنے ہاتھ دھوتے تھے۔  

حجرہ اس لیے بھی بہت زیادہ اہمیت کا حامل تھا کیونکہ اس کو انتہائی پرامن جگہ سمجھا جاتا تھا۔ میں نے اپنے بڑوں سے یہ کہتے سنا ہے کہ پرانے زمانے میں اگر دشمن بھی حجرے کے اندر داخل ہو جاتا تو پھر بھی اس کے سامنے چائے پانی پیش کیا جاتا اور اس کو کچھ بھی نہیں کہا جاتا تھا جو حجرے کی خوبصورتی، امن اور مہمان نوازی کا ایک ثبوت تھا۔ پرانے زمانے میں زیادہ تر لوگ پیدل سفر کیا کرتے تھے اور راستہ لمبا ہونے کی وجہ سے لوگ اکثر پرائے حجروں کو پر امن سمجھ کر اس میں قیام کرتے تھے۔

اور حجرے میں کسی سے بھی یہ نہیں پوچھا جاتا تھا کہ آپ کہاں سے ہیں، کیوں آئے ہیں یا کیوں قیام کر رہے ہیں بس ہر کسی کو رات گزارنے کے لیے جگہ، مفت کھانا اور چائے وغیرہ پیش کی جاتی تھی۔ حجرے کی وجہ سے پورے علاقے میں امن رہتا تھا اور علاقے کے لوگ بغیر کسی خوف کے سو جاتے تھے کیونکہ رات بھر حجرے میں گپ شپ کی وجہ سے کسی چور یا دشمن کی ہمت بھی نہیں ہوتی تھی کہ وہ کسی کے گھر کو بری نیت سے دیکھتے۔  

آج کے دور کے حجرے اور پرانے زمانے کے حجرے میں کافی فرق ہے مگر پھر بھی پختونوں نے روایت کو زندہ رکھا ہے۔ پختون گھر سے زیادہ حجرے کو اہمیت دیتے ہیں۔ بلکہ گھر سے حجرہ بڑا ہوتا ہے کیونکہ غمی خوشی دونوں حجرے میں ہی ہوتی ہے۔ گاؤں کے حجرے تو کئی کنال پر محیط ہوتے ہیں جبکہ شہروں میں تھوڑے ہوتے ہوتے ہیں مگر پھر بھی اس میں کافی مہمانوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ حجرے میں سردیوں میں زیادہ رونق ہوتی ہے کیونکہ لوگ رات دیر تک بیٹھے رہتے ہیں، مختلف مسائل پر بات کرتے ہیں، میوہ دار گڑ کے ساتھ قہوہ پیتے ہیں اور ساتھ میں خشک میوہ جات کھائے جاتے ہیں۔

مگر زیادہ تر مونگ پھلی کھائی جاتی ہے، اور سردیوں میں سردی سے بچنے کے لیے لکڑیاں جلائی جاتی ہیں جس کو پشتو میں منقل بولتے ہیں۔ حجرے کا اپنا ایک خاص انداز ہوتا ہے اس میں دری یا چٹائیاں یعنی ایک مخصوص پلاسٹک سی ہوتی ہیں جس کو زمین پر لوگوں کے بیٹھنے یا کھانا کھانے کے لیے بچھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ حجرے میں چائے پینے کے لیے اپنی مخصوص پیالیاں ہوتی ہیں جو بالکل گول اور سادہ ہوتی ہیں، اور کھانا کھانے کے لیے کپڑے کے دسترخوان ہوتے ہے جو کئی گز لمبے ہوتے ہیں۔

حجرے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پشاور کے علاقہ رنگ روڈ میں حجرہ ہوٹل کے نام سے ایک مشہور ہوٹل کھولا گیا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس ہوٹل کا طرز بالکل پرانے حجرے کی طرح ہے۔ اس ہوٹل میں لوگ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور اگر عمارت کی بات کی جائے تو مٹی کے رنگ کی عمارت بنائی گئی ہے۔ یہ عمارت تو پختہ عمارت ہے مگر دور سے ایسے دکھائی دیتی ہے جیسے کچی مٹی سے بنی ہو۔

حجرے کی اہمیت کو تقویت دینے کے لیے کچھ دن پہلے ہی کی بات ہے کہ مہمند اسٹوڈنٹس یونین نے یونیورسٹی آف پشاور میں دہ مہمندو حجرہ یعنی مہمند لوگوں کا حجرہ کا پروگرام منعقد کیا۔ یاد رہے مہمند ایک قبایلی ضلع ہے۔ پروگرام میں طلباء نے مہمند لوگوں اور پختونوں کی عظیم ثقافت، مہمان نوازی اور حجرہ کی اہمیت کو لوگوں کو دیکھایا اور پورا پروگرام حجرہ پر ہی مبنی تھا۔ لوگ ان کے حجرے میں گئے، حجرے کو چارپائیوں، شملہ اور مختلف ثقافتی اشیاء سے سجایا گیا تھا جو ایک حجرے کی پہچان ہوتی ہے اور حجرے کو رونق بخشتی ہے۔

مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حجرے کی روایت تھوڑی ماند پڑ گئی ہے کیونکہ اب ٹیکنالوجی کا دور ہے ہر کوئی انٹرنیٹ کی خاطر کمروں میں گھسے رہتے ہیں۔ اب بھی حجرے موجود ہیں مگر اس میں جدت آگئی ہے۔ حجروں کی روایت کو ماند نہیں پڑنا چاہیے کیونکہ یہ پختون روایتوں میں سے خوبصورت روایت ہے جس کی لوگ دنیا بھر میں مثالیں دیتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

نازیہ سالارزئی

پشتون حجرہ خیبرپختونخوا.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پشتون خیبرپختونخوا اس کے علاوہ حجرے میں کہ پرانے زمانے میں جس کو پشتو میں کھانا کھانے کی وجہ سے کی اہمیت لوگوں کو کرتے تھے ہوتا تھا جاتا تھا حجرے کی ہوتی ہے کے حجرے حجرے کا جرگہ کے پھر بھی تھے اور حجرے کو گاؤں کے گھر سے اور اس کے لیے

پڑھیں:

جارحانہ انداز اپنانا کرکٹ کی ایک خوبصورتی ہوتی تھی، بیٹر کو ذہنی طور پر تنگ کرنا پڑتا ہے: محمد عامر

پاکستان سپر لیگ  10  کی ٹیم کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے فاسٹ بولر محمد عامر کا کہنا ہے کہ گراؤنڈ میں کسی سے یاری دوستی نہیں ہوتی اور نہ کوئی سینئر جو نیئر ہوتا ہے۔ایک انٹرویو میں محمد عامر نے کہا کہ ’ کوئی مجھے پہلے بال پر شاٹ مار دے  تو میں اسے جا کر جپھی تو نہیں ڈال سکتا میں اسے  جا کر کچھ بولوں گا ہی نا تاکہ اس کا فوکس ہٹے۔ محمد عامر نے بتایا کہ ’ ماضی میں خونخوار کرکٹ ہوا کرتا تھی ، سر ویوین رچرڈز ہمارے ساتھ ہیں، ان سے اس بارے پوچھیں ، ماضی میں ایسے لگتا تھا کہ بلا گراؤنڈ میں مار دیں گے، جارحانہ انداز اپنانا کرکٹ کی ایک خوبصورتی ہوتی تھی،  بیٹر کو ذہنی طور پر تنگ کرنا پڑتا ہے جس  کا مقصد اس کا فوکس ہٹانا ہوتا ہے، کسی کو ڈسٹرب کرنے کا مطلب کسی کو عزت نہ دینا نہیں ، گراؤنڈ سے باہر ہم سب گپیں مار رہے ہوتے ہیں۔محمد عامر کا ماننا ہے کہ’ کنٹرول میں رہ کر جارحانہ انداز اپنائیں، اگر نامناسب زبان استعمال کرتا ہوں تو امپائر پکڑے گا،  میچ ریفری جرمانہ کرے گا اگر کوئی مجھے جرمانہ نہیں کر رہا تو اس کا مطلب میں کنٹرول جارحانہ انداز اپنا رہا ہوں۔کرکٹر کا کہنا تھا کہ ’ ورلڈکپ جب کھیلنے آیاتھا تو کاؤنٹی کا معاہدہ چھوڑ کر آیا تھا  جتنا میں ورلڈ کپ میں کھیلا اس دوران میرے پیسے ہی زیادہ لگے ہیں، میرے ٹرینر نے میرے ساتھ سفر کیا اس کا سارا خرچ میں نے خود اٹھایا،   خیر وہ ایک الگ بات ہے لیکن ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ختم ہونے کے بعد کسی نے مجھ سے بات ہی نہیں کی،  کسی نے مجھے پلان کا نہیں بتایا عقل مند کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے ، جب میں پلان میں نہیں تو پھر میں نے اپنا تو سوچنا ہے اب میں نے سوچ لیا ہے کہ انٹر نیشنل کرکٹ سے تھینک یو ویری مچ ‘۔بابر اعظم کو اپنا حریف سمجھے جانے کے سوال پر  محمد عامر کا کہنا تھا کہ ’ بابر اعظم پاکستان کا بہترین کرکٹر ہے ، اس میں کوئی شک نہیں لیکن اس وقت اس کا بیڈ پیچ چل رہا ہے  اور یہ کچھ زیادہ لمبا ہوگیا ہے،   ہر کھلاڑی پر بیڈ پیچ آتا ہے ، جب بابر اس سے نکلے گا تو لمبے رنز کرے گا، میں نے نوٹ کیا ہے کہ بابر اعظم بال پر کچھ لیٹ آ رہا ہے اور اس وجہ سے بابر  شاٹ سلیکشن کے بارے میں فیصلہ نہیں کر پا رہا۔محمد عامر نے مزید کہا کہ’  ٹی ٹوئنٹی لیگ میں 2 ، 3 میچز سے نہ تو ٹیم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے  اور نہ کسی کھلاڑی کی پرفارمنس کا ، میرا یہ ماننا ہے کہ لیگ کے10  میچز میں سے3،  4 میچز ہی بہت اچھے جاتے ہیں، 2، 3  درمیانے ہوتے ہیں اور 2، 3 میچز خراب ہوتے ہی ہیں یہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا حسن ہے‘۔انہوں نے کہا کہ ’کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم متوازن ہے اور تمام شعبے مکمل ہیں ، مارک چمپن کے آنے سے مڈل آرڈر مزید متوازن ہو گا،   بیٹنگ میں تھوڑا مسئلہ آیا ہے ، 6 اوورز میں وکٹیں دیتے رہے ہیں، بولنگ میں ہماری بہترین کارکردگی ہے،  ہم بولنگ میں مزید اچھا کرسکتے ہیں‘۔لاہور میں ہونے والے میچز کے حوالے سے محمد عامر نے کہا کہ ‘ لاہور کا کراؤڈ بہت مزے کا ہے،  بہت شور کرتا ہے، لاہوریوں کی خوبصورتی ہے کہ دونوں ٹیموں کو سپورٹ کرتے ہیں،  لاہور کی کنڈیشنز ہمیں راس آئیں گی، اگر پچز بیٹنگ ہوں گی تو ہماری بیٹنگ رنز کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، عثمان طارق اسی ہفتے امید ہے کہ بولنگ ٹیسٹ بھی کلیئر کریں گے تو انکے آنے سے اور  بہتر ہوجائے گا ‘۔

متعلقہ مضامین

  • جارحانہ انداز اپنانا کرکٹ کی ایک خوبصورتی ہوتی تھی، بیٹر کو ذہنی طور پر تنگ کرنا پڑتا ہے: محمد عامر
  • چین نے بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے  کے تصور پر عمل کیا ہے، وزارت خارجہ
  • ریاست کا حصہ ہیں، عقل کے اندھے آئین پڑھیں: عمر ایوب 
  •  قانون کی حکمرانی ہوتی تو ہمارے رہنما جیل میں نہ ہوتے :  عمرایوب
  • مسیحیوں کے تہوار ’ایسٹر‘ کی دلچسپ تاریخ
  • تبدیل ہوتی دنیا
  • نکیال آزاد کشمیر۔۔۔ بچیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں
  • یمن میں امریکہ کی برباد ہوتی حیثیت