مودی سرکار ملک بھر میں ہندو انتہا پسندی پر مبنی ہندوتوا پالیسی  جاری  رکھے ہوئے ہے، جس نے سیکولر بھارت کے دعوے خاک میں ملا دیے ہیں۔
 

بین الاقوامی میڈیا میں بھارتی حکمراں جماعت بی جے پی کے  کٹھ پتلی وزیراعظم کی  انتہا پسندانہ پالیسیوں کی رپورٹس  شائع ہوئی ہیں۔ دی وائر کے مطابق 

2014 میں مودی کے دور اقتدار کے آغاز ہی سے بھارت کا سماجی اور سیاسی مکالمہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے نظریے سے متاثر ہے۔

رپورٹ کے مطابق مودی کے ہندوتوا اقدامات میں تین طلاق پر پابندی، آرٹیکل 370 کا خاتمہ، شہریت ترمیمی ایکٹ،نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کی قانون سازی  اور رام جنم بھومی منصوبہ شامل ہیں۔

علاوہ ازیں ہندوتوا کے نئے مرحلے میں اب شہروں اور شہری زندگی پر کام کیا جارہا ہے، جہاں سماجی، ثقافتی اور مکانی طور پر ہندوتوا نظریہ کو لاگو کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کے گھروں کو اجتماعی سزا کے طور پر منظم طریقے سے مسمار کرنا شہروں پر ہندوتوا پالیسیوں کے رائج ہونے کی واضح مثال ہے۔

دی وائر کے مطابق سمبھال مسجد کا واقعہ بھی مودی کی انتہا پسندی کی تازہ ترین مثال ہے۔ بھارت میں ’’منی پاکستان‘‘  کا نام مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں کو توہین آمیز انداز میں پیش کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح گھیٹوائزیشن کے تصور کا استعمال کرتے ہوئے مودی سرکار نے مسلمانوں کو کم ترقی یافتہ اور بدحال علاقوں میں دھکیل دیا ہے، جہاں بنیادی ضروریات، تعلیم اور اقتصادی مواقع بھی موجود نہیں ۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ علاقے سرکاری اور قانونی تحفظات سے محروم ہیں اور غیر رسمی طور پر وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ پچھلی ایک دہائی میں  ہندوتوا سرکار صرف مسلمانوں کو ان ’’گھیٹوں‘‘ میں دھکیلنے تک محدود نہیں ہے، بلکہ شہروں کو  ہم آہنگ ہندوتوا شہر میں ڈھالنے کے لیے بھی کام کیا جا رہا ہے۔

ہندوتوا شہروں میں پانچ نمایاں خصوصیات دیکھی جاسکتی ہیں جن میں محو کرنا، روزگار میں خلل ڈالنا، مستثنیٰ شہری مسماری و تعمیر نو کی اسکیمیں اور مقامی سطح پر عوامی تحریکیں شامل ہیں۔ 1990ء  کی دہائی میں شروع ہونے والی ڈی کالونائزیشن نے ممبئی، چنئی اور کولکتہ کے بعد اب مسلمانوں کے نام پر بنائی جانے والی سڑکوں اور شہروں کے نام بھی تبدیل کردیے ہیں۔

دی وائر کے مطابق نام تبدیل کرکے شہروں کو اسلام سے صاف کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جس کا آغاز نرگس اورنگ زیب کے نام والی سڑکوں سے ہوا تھاَ۔ مشہور شہروں، سڑکوں اور اسٹیشنوں کے نام تبدیل کرنا جیسے مغل سرائے کو دین دیال اپادھیائے نگر، الہ آباد کو پریاگ راج کردینا ہندوتوا سازش کی واضح مثالیں ہیں۔

علاوہ ازیں ہندوتوا سازش کا دائرہ کار تاریخ اور ثقافت کو محو کرنے تک محدود نہیں بلکہ مسلم تشخص کو بھی مسخ کیاجارہا ہے جیسے مختلف شہروں میں درگاہوں، مساجد اور عیدگاہوں کا صفایا کرنا وغیرہ۔ یہ سب تاریخی اہمیت اور شناخت رکھنے والی جگہوں پر کیا گیا ہے  اور ان اقدامات کو ماسٹر پلانز کی خلاف ورزی، قوانین کی پامالی یا پھر ٹریفک کے مسائل جیسے بہانوں کے تحت کیا گیا ہے۔

مودی سرکار مسلمانوں کے خلاف ’’بلڈوزر انصاف‘‘ کے نام پر عمارتوں کی مسمار کر رہی ہے، جو کہ پوری کمیونٹی، خاندانوں اور محلے کو اجتماعی سزا دینے کے مترادف ہے۔ مسلمانوں کو اکثر کم اجرت والے غیر رسمی شعبوں میں کام دیا جاتا ہے جیسے کھانا پکانا، دستکاری، گوشت اور چمڑے کی صنعتیں۔ یہ کام کے علاقے جو پہلے ہی غیر محفوظ تھے، اب انہیں مذہبی بنیادوں پر منظم طور پر ہراساں کیا جارہا ہے۔

دی وائر کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ سب سے نمایاں مثال سڑکوں پر مختلف اشیا بیچنے والے مسلمانوں کو مسلسل ہراساں کرنا شامل ہے۔ بتدریج مسلم کاروبار، مختلف نوعیت کے اقتصادی بائیکاٹ اور پابندیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ بہت سے شہروں اور ریاستوں میں ہندوتوا پالیسیوں کے تحت سڑکوں پر ٹھیلوں اور ہوٹل مالکان کو اپنے نام ظاہر کرنے، مخصوص ہندو تہواروں یا قومی تعطیلات پر گوشت نہ بیچنے جیسی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں اور اب پورے محلوں کو ’’تیرتھ یاترا‘‘ (مقدس علاقے) قرار دیا جارہا ہے اور اس وجہ سے گوشت بیچنے اور کھانے پر بھی پابندی عائد کی جاچکی ہے جس سے بےشمار روزگار تباہ ہورہے ہیں۔

دی وائر کے مطابق ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر مودی کی ہندوتوا پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مودی کا ہندوتوا نظریہ بھارت کے مسلمانوں کو مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب فلسطین کی طرح بھارت میں بھی مسلمانوں کی باقاعدہ نسل کشی شروع ہو جائے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر عالمی قوتیں اس بار بھی خاموش رہیں گی؟۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دی وائر کے مطابق مسلمانوں کے مسلمانوں کو مودی سرکار جارہا ہے کے نام گیا ہے

پڑھیں:

بھارت میں وقف ترمیمی بل کے خلاف علما و مشائخ سراپا احتجاج، ہزاروں افراد کی شرکت

بھارت میں وقف ترمیمی بل کے خلاف مسلمانوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے، جس کا اظہار ریاست کرناٹک میں جمیعت علماء کی قیادت میں ہونے والے ایک بڑے احتجاج میں کیا گیا۔ احتجاج میں ہزاروں علما، مشائخ اور شہریوں نے بھرپور شرکت کی اور وقف کے تحفظ کے حق میں آواز بلند کی۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ ”وقف مسلمانوں کا آئینی حق ہے، اور ہم فاشسٹ طاقتوں کو یہ حق چھیننے کی اجازت نہیں دیں گے“۔ شرکاء نے نعرے بازی کرتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت مسلمانوں کے حقوق سلب کرنا چاہتی ہے۔

مظاہرین نے کہا کہ ہم قانون کا احترام کرتے ہیں، لیکن آئین کو مسخ نہیں ہونے دیں گے۔ یہ احتجاج نہ تو کسی مذہب اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کے خلاف ہے بلکہ آئینی دفاع اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہے۔

شرکاء نے متنبہ کیا کہ آواز دبانے کی ہر کوشش ناکام ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ وقف بل مسلمانوں کو ان کے آئینی حقوق سے محروم کرنے کی ایک سازش ہے، جس کے تحت مودی حکومت کی سرپرستی میں مسلمانوں کی مذہبی شناخت، ثقافتی ورثے اور املاک کو مٹانے کی منظم کوششیں کی جا رہی ہیں۔

احتجاج پرامن طور پر اختتام پذیر ہوا، تاہم مظاہرین نے خبردار کیا کہ اگر یہ بل واپس نہ لیا گیا تو ملک گیر سطح پر تحریک چلائی جائے گی۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • مودی سرکار اور مقبوضہ کشمیر کے حالات
  • میر واعظ کا شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کو شاندار خراج عقیدت
  • وقت وقت کی بات ہے
  • کشمیری بی جے پی کے کشمیر دشمن ہندوتوا ایجنڈے کے خلاف متحد ہیں، حریت کانفرنس
  • وقف ترمیمی بل پر بھارت بھر میں غم و غصہ
  • وقف ترمیمی بل پر بھارت بھر میں غم و غصہ، حیدرآباد میں بتی گُل احتجاج کا اعلان
  • بھارت میں وقف ترمیمی بل کے خلاف علما و مشائخ سراپا احتجاج، ہزاروں افراد کی شرکت
  • بھارت میں متنازع وقف ترمیمی بل کیخلاف علما و مشائخ کا احتجاج
  • مودی حکومت کو ہٹ دھرمی چھوڑ کر مسلمانوں کے جذبات کا احترام کرنا چاہیئے، سرفراز احمد صدیقی
  • بھارتی وزیراعظم نریندر مودی آئندہ ہفتے دو روزہ دورے پر سعودی عرب جائیں گے