ریپبلیکن قانون سازوں کا امریکہ میں دہشت گردی کے خطرات کے بارے میں انتباہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
واشنگٹن ڈی سی —
ایوان نمائندگان کی ہوم لینڈ سکیوریٹی کمیٹی نے بد ھ کے روز خطرات کے جائزے کو اپ ڈیٹ کرتے ہوئے نئے سال کے موقع پر امریکی شہر نیو آرلینز میں ٹرک ہجوم پر چڑھانے کے ذریعہ 14 افراد پر جان لیوا حملے اور جون 2024 میں داعش کے ساتھ تعلق رکھنے کے شبہ میں آٹھ تاجک شہریوں کی حراست کا حوالہ دیا۔
کمیٹی کے چیئر مین ریپبلیکن مارک گرین نے ایک بیان میں کہا "مغالطے میں نہ رہیں، اب بھی تمام روشنیاں سرخ (خطرے کے) رنگ میں ہیں۔”
گرین نے کہا کہ نیو اورلینز میں ہونے والا دہشت گرد حملہ یہ یاد دلاتا ہے کہ امریکہ کو اب بھی دہشت گردی کا خطرہ درپیش ہے اور یہ مسلسل موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک سے باہر کی دہشت گرد تنظیمیں اور جہادی نیٹ ورک امریکی سر زمین پر بھرتیاں کرنے اور لوگوں کو بنیاد پرست بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔
ایف بی آئی کے سابق ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے حماس کے اسرائیل پر سات اکتوبر 2023 کے دہشت گرد حملے کے بعد انتباہ کیا تھا کہ اس سے دنیا بھر میں دہشت گرد حملوں کی ترغیب ملے گی۔
گزشتہ سال رے نے خبر دار کیا تھا کہ ایف بی آئی کی امریکی سرزمین پر ایسے کسی مربوط دہشت گرد حملے کے بارے میں پریشانی بڑھ رہی ہے جیسا کہ مارچ میں داعش نے ماسکو میں ایک میوزک ہال پر دہشت گرد حملہ کیا تھا۔
بدھ کو امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی نے کہااس کے بعد سے ایسا کچھ نہیں ہوا جو اس قسم کے دہشت گرد واقعہ کے بارے میں خطرات کو کم کرے۔
وائس آف امریکہ کو ای میل کیے گئے ایک بیان میں ایف بی آئی نے کہا کہ ادارے نے بارہا اور عوامی سطح پر یہ کہا ہے کہ امریکہ کو دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کا ماحول درپیش ہے۔
بیان میں کہا گیا جیسا کہ نیو اورلینز میں نئے سال کے موقع پر ہونے والا حملہ ظاہر کرتا ہے یہ خطرہ ابھی کم نہیں ہوا ہے۔
کانگریس کے رکن ریپبلیکن مارک گرین نے بدھ کو خطرات میں اضافے کا سابق صدر جو بائیڈن کی حکومت کو ٹھیرایا اور کہا کہ گزشتہ چار سالوں کی قومی سلامتی کی غلطیوں کی وجہ سے دہشت گرد گروپوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔
جواب میں ڈیمو کریٹک قانون سازوں نے اس معاملے پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے تبصروں کی کمیٹی کی طرف سے کیے گئے اقدامات کی تائیدحاصل نہیں ہوتی۔
ا "ٹیرر تھریٹ سنیپ شاٹ”
کمیٹی کا "ٹیرر تھریٹ سنیپ شاٹ” نام کا جائزہ اپریل 2021 کے بعد سے امریکہ کی 30 ریاستوں میں 50 دہشت گردی کے کیسوں کا حوالہ دیتا ہے جبکہ 2023 کے بعد سے مغربی یورپ میں دہشت گردی سے متعلق 187 حراستیں، حملے اور منصوبے عمل میں آئے۔
ہوم لینڈ سکیوریٹی کے محکمے نے پچھلے سال اکتوبر میں، 2025 کے لیے خطرات کے جائزے میں بھی اسی قسم کا انتباہ کیا تھا۔
امریکہ میں دہشت گردی کے خطرات کا ماحول اگلے سال بھی زیادہ رہے گا۔
ادارے نے بڑے خطرے کو ان افراد سے منسوب کیا تھا جو بڑے دہشت گرد گروپوں سے تعلق نہیں رکھتے ہوں گے۔
مذکورہ جائزے میں کہا گیا تھا کہ یہ خطرات تنہا حملہ آوروں یا چھوٹے گروپوں کی جانب سے ہوں گے جن کے محرکات میں نسلی، مذہبی، صنفی یا حکومت مخالف شکایات، سازشی منصوبے اور ذاتی عوامل شامل ہوں گے۔
دریں اثنا، واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک سینٹر فار اسٹریٹجک ایند انٹرنیشنل اسٹڈیز کی بدھ کو جاری ہونے والی رپورٹ میں خبر دار کیا گیا کہ اگرچہ داعش اور القاعدہ کے عزائم اور ناجائز فائدہ اٹھانے کے بارے میں پریشان ہونے کی وجوہات موجود ہیں لیکن امریکہ کے اندر دہشت گردی کے خطرات میں اضافہ نہیں ہو رہا ۔
رپورٹ کے مطابق طویل المعیاد رجحانات ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ میں جہادی دہشت گردی واپس نہیں آرہی ہے۔
تھنک ٹینک کی رپورٹ میں کہا گیا کہ داعش اور القاعدہ کا کردار ترغیب دینے کا ہے نہ کہ براہ راست امریکہ پر حملہ آور ہونے کا۔
اس کے علاوہ، رپورٹ کے مطابق، جہادی دہشت گردی کے حملوں کی شدت داعش کی خلافت کے دنوں سے کم ہوگئی ہے۔
سی ایس آئی ایس کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں 2020 اور 2023 کے دوران سالانہ اوسطاّ 38 حملوں یا ان کے منصوبوں کا پتا چل تھا۔تاہم گزشتہ سال کے پہلے گیارہ ماہ میں 21 منصوبے یا حملے ریکارڈ کیے گئے۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل دہشت گردی کے کے بارے میں امریکہ میں ایف بی آئی نے کہا کہ کیا تھا میں کہا کے بعد کہ میں
پڑھیں:
مغرب میں تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی
اسلام ٹائمز: دوسری طرف مختلف یورپی ممالک جیسے جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں بھی ایسے طلبہ و طالبات کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں جنہوں نے 2023ء سے اب تک کسی نہ کسی صورت میں فلسطین کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہاں بھی انسانی حقوق، آزادی اظہار اور جمہوری اقدار کی دعویدار تنظیمیں اور ادارے چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ وہ بے پناہ طلبہ کی حمایت کرنے کی بجائے حکومتوں کے آمرانہ اور ظالمانہ برتاو کی حمایت کر رہے ہیں۔ نہ تو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی ہنگامی اجلاس بلواتی ہے اور نہ ہی یورپی پارلیمنٹ اور کمیشن کے بیانات سامنے آتے ہیں۔ مغربی کا حقیقی چہرہ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ امریکی، یورپی اور صیہونی حکمران بہت جلد اس حقیقت سے آگاہ ہو جائیں گے کہ تعلیمی مراکز پر دھونس جما کر وہ نئی نسل میں ظلم کے خلاف نفرت اور مظلوم سے ہمدردی کا جذبہ ختم نہیں کر سکتے۔ تحریر: حنیف غفاری
ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی حکومت نے ہارورڈ یونیورسٹی اور اسٹنفورڈ یونیورسٹی سمیت کئی چھوٹے اور بڑے تعلیمی مراکز کے خلاف انتہاپسندانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے جس کا مقصد ان تعلیمی مراکز سے فلسطین کے حامیوں اور غاصب صیہونی رژیم کے مخالفین کا صفایا کرنا ہے۔ دوسری طرف مغرب میں انسانی حقوق، تعلیمی انصاف اور آزادی اظہار کے دعویداروں نے اس قابل مذمت رویے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ بہت سے غیر ملکی طلبہ و طالبات جو مکمل طور پر قانونی طریقے سے امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم تھے اب نہ صرف انہیں تعلیم جاری رکھنے سے روک دیا گیا ہے بلکہ اف بی آئی اور امریکہ کی سیکورٹی فورسز نے انہیں حراست میں رکھا ہوا ہے۔ امریکی حکومت نے ہارورڈ یونیورسٹی سمیت ملک کی تمام یونیورسٹیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ فلسطین کی حمایت میں طلبہ و طالبات کی سرگرمیاں فوراً روک دیں۔
امریکی حکومت نے یونیورسٹیوں پر زور دیا ہے کہ وہ مغربی ایشیا خطے میں جاری حالات سے متعلق طلبہ و طالبان کو یونیورسٹی کے احاطے میں اجتماعات منعقد کرنے کی اجازت نہ دیں اور جو طلبہ و طالبان ان سرگرمیوں میں ملوث ہیں ان کی تمام معلومات سیکورٹی اداروں کو فراہم کریں۔ یوں امریکہ میں یونیورسٹی اور تعلیمی مراکز فوجی چھاونیاں بن کر رہ گئے ہیں۔ امریکہ کی وزارت داخلہ نے ہارورڈ یونیورسٹی کو وارننگ دی ہے کہ اگر اس کی انتظامیہ حکومتی احکامات پر عملدرآمد نہیں کرتی تو اس کا غیر ملکی طلبہ و طالبات کو داخلہ دینے کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا۔ امریکہ کی وزارت داخلہ اور وائٹ ہاوس جس انداز میں یونیورسٹیوں اور تعلیمی مراکز سے برتاو کر رہے ہیں وہ انسان کے ذہن میں "تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی" کا تصور قائم کر دیتا ہے۔
ریاستی دہشت گردی کی آسان تعریف یہ ہے کہ کوئی حکومت سیاسی اہداف کی خاطر عام شہریوں کے خلاف غیر قانونی طور پر طاقت کا استعمال کر کے انہیں خوفزدہ کرے۔ ہم ایک طرف غزہ کی پٹی میں بھرپور انداز میں جاری مسلسل نسل کشی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں شہداء کی تعداد 52 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے جبکہ غاصب اور بے رحم صیہونی رژیم کی جانب سے شدید محاصرے اور انسانی امداد روکے جانے کے باعث ہر لمحے معصوم بچے شہید ہو رہے ہیں۔ ایسے حالات میں امریکی حکمران یہودی لابی آئی پیک کی کاسہ لیسی کی خاطر ملک کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی مراکز کو بے حس، خاموش تماشائی بلکہ جرائم پیشہ صیہونی رژیم کی حامی بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ تعلیمی مراکز کے خلاف اس ریاستی دہشت گردی کا سرچشمہ وائٹ ہاوس، نیشنل سیکورٹی ایجنسی اور موساد ہیں۔
یہاں ایک اور مسئلہ بھی پایا جاتا ہے جو شاید بہت سے مخاطبین کے لیے سوال کا باعث ہو۔ یہ مسئلہ صیہونی رژیم اور امریکی حکومت کی جانب سے خاص طور پر ہارورڈ یونیورسٹی پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں اس یونیورسٹی کو ملنے والا 2 ارب کا بجٹ روک دیا ہے۔ یہ کینہ اور دشمنی اس وقت کھل کر سامنے آیا جب غزہ جنگ شروع ہونے کے تین ماہ بعد ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک سروے تحقیق انجام پائی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس یونیورسٹی کے 51 فیصد طلبہ و طالبات جن کی عمریں 18 سے 24 سال تھیں جعلی صیہونی رژیم کے خاتمے اور جلاوطن فلسطینیوں کی وطن واپسی کے حامی ہیں۔ اس اکثریت کا خیال تھا کہ صیہونی حکمران آمر اور ظالم ہیں جبکہ فلسطینیی ان کے خلاف طوفان الاقصی آپریشن انجام دینے میں پوری طرح حق بجانب تھے۔
اسی وقت سے امریکی حکومت اور صیہونی حکمران ہارورڈ یونیورسٹی اور اس سے متعلقہ اداروں کے خلاف شدید غصہ اور نفرت پیدا کر چکے تھے۔ امریکہ میں صیہونی لابی آئی پیک (AIPAC) نے ہارورڈ یونیورسٹی میں اس سروے تحقیق کی انجام دہی کو یہود دشمنی قرار دے دیا۔ مزید برآں، اس سروے رپورٹ کے نتائج کی اشاعت نے یہودی لابیوں کو شدید دھچکہ پہنچایا۔ اب سب کے لیے واضح ہو چکا ہے کہ امریکہ میں نئی نسل نہ صرف غاصب صیہونی رژیم کے حق میں نہیں ہے بلکہ اس کے ناجائز وجود کے لیے چیلنج بن چکی ہے۔ اب صیہونی لابیاں امریکہ کے ایسے یونیورسٹی طلبہ سے انتقام لینے پر اتر آئی ہیں جنہوں نے مظلوم فلسطینیوں کی کھل کر حمایت کی ہے اور کسی قیمت پر بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ امریکی ذرائع ابلاغ بھی اس واضح ناانصافی اور ظلم پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
دوسری طرف مختلف یورپی ممالک جیسے جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں بھی ایسے طلبہ و طالبات کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں جنہوں نے 2023ء سے اب تک کسی نہ کسی صورت میں فلسطین کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہاں بھی انسانی حقوق، آزادی اظہار اور جمہوری اقدار کی دعویدار تنظیمیں اور ادارے چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ وہ بے پناہ طلبہ کی حمایت کرنے کی بجائے حکومتوں کے آمرانہ اور ظالمانہ برتاو کی حمایت کر رہے ہیں۔ نہ تو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی ہنگامی اجلاس بلواتی ہے اور نہ ہی یورپی پارلیمنٹ اور کمیشن کے بیانات سامنے آتے ہیں۔ مغربی کا حقیقی چہرہ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ امریکی، یورپی اور صیہونی حکمران بہت جلد اس حقیقت سے آگاہ ہو جائیں گے کہ تعلیمی مراکز پر دھونس جما کر وہ نئی نسل میں ظلم کے خلاف نفرت اور مظلوم سے ہمدردی کا جذبہ ختم نہیں کر سکتے۔