WE News:
2025-04-22@06:02:20 GMT

صدر ٹرمپ کی پالیسیاں پاکستان پرکس طرح اثراندازہوں گی؟

اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT

صدر ٹرمپ کی پالیسیاں پاکستان پرکس طرح اثراندازہوں گی؟

تاحال امریکا دنیا کی واحد سپر پاور ہے اس لیے امریکی انتخابات ہوں یا نئے امریکی صدر کی تقریبِ حلف برداری، دنیا بھر کی نظریں واشنگٹن کی طرف رہتی ہیں کیونکہ امریکی پالیسیاں اور اقدامات ساری دنیا کے نظام پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

پیر 20 جنوری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی حلف برداری کے بعد جو تقریر کی اس میں اُنہوں نے ’سب سے پہلے امریکا‘ کی بات کی، جس سے ہمیں سابق پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف کا ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ یاد آیا، کیا اس کا مطلب ایک ایسا امریکا ہے جو دنیا کی قیادت سے دستبردار ہو کر صرف اپنے بارے میں سوچے گا؟

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ نے تعمیری تقریر کی، کوئی بیان آیا تو پاکستان اسے سنبھال لے گا، وزیر دفاع خواجہ آصف

صدرٹرمپ نے اپنی تقریر میں امریکا آنے والے مہاجرین کے بارے سخت پالیسیاں وضع کرنے کی بات کی اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے امریکی صنعتوں کی بحالی کے ساتھ ساتھ سماجی پالیسیوں کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ تقریب حلف برداری سے قبل غزہ امن معاہدے کے بارے میں بات کرتے ہوئے اُنہوں نے خیال ظاہر کیا کہ یہ زیادہ دیرپا ثابت نہیں ہو گا۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ کی دنیا میں پاکستان سکون سے رہے گا 

صدرٹرمپ کا پہلا دورِ صدارت حکومتِ پاکستان کے حوالے سے زیادہ اچھا نہیں تھا، کیونکہ اس دورِ حکومت میں پاکستان پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کے الزامات عائد کرکے فوجی امداد میں کمی کی گئی۔

صدر ٹرمپ کا ’سب سے پہلے امریکا‘ کا نعرہ اس بات کا غماز ہے کہ پاکستان سمیت دیگر ممالک کے لیے امریکی امداد میں کمی آئے گی۔

مزید پڑھیں:پاکستانی شہری نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کیوں کررہے ہیں؟

صدر ٹرمپ کے گزشتہ عرصہ صدارت کو ذہن میں رکھتے ہوئے اور اُن کی موجودہ اعلان کردہ  پالیسیاں دنیا بھر اور خصوصاً پاکستان پر کس طریقے سے اثرانداز ہوں گی اس حوالے سے ہم نے خارجہ امور کے ماہرین کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے۔

پاکستان پر دباؤ بڑھے گا، عبدالباسط

پاکستان کے سابق سینیئرسفارتکارعبدالباسط نے وی نیوزسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ کی سربراہی میں نئی امریکی انتظامیہ کے لیے پاکستان کوئی ترجیح نہیں اورہمیں امریکا اوربھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت کی وجہ سے سختیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

مزید پڑھیں:عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کی ڈونلڈ ٹرمپ کو جیت کی مبارکباد

کیا پاکستان کو اب شراکت داری کے لیے کسی اور ملک کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے؟ عبدالباسط سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور چین کے درمیان پہلے ہی سے تذویراتی شراکت داری موجود ہے اور موجودہ حالات میں اس کا کوئی متبادل دستیاب نہیں ہے۔

صدر ٹرمپ کے مہاجرین مخالف اقدامات سے کیا پاکستان متاثر ہوسکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں عبدالباسط کا کہنا ہے کہ امریکا سفر کرنے والے پاکستانیوں اور وہاں رہائش اختیار کرنے کی خواہش رکھنے والوں کے حوالے سے یقینناً فرق پڑے گا۔

مزید پڑھیں:ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کی خاطر پاکستان کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کریں گے، خواجہ آصف

ایمبیسڈر عبدالباسط نے ایک اشاعتی ادارے کے لیے اپنی تحریر میں لکھا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ انتقام کے جذبے سے بھرپور واپسی کرچکے ہیں اور اُن کی افتتاحی تقریر ان کے جارحانہ عزائم کا پتا دیتی ہے۔

’دنیا بھر کے ممالک ڈونلڈ ٹرمپ کے اِس ذہنی رجحان کو لے کر مضطرب ہیں کہ اُن کے بارے میں پیش گوئی کرنا مشکل ہے اور خارجہ پالیسی کے ضمن میں وہ عارضی اقدامات پر یقین رکھتے ہیں۔‘

اب امریکی خودغرضی کا شکوہ کیا جائے گا، حسین حقانی

امریکا میں پاکستان کے سابق سفیراورمحقق حسین حقانی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پرلکھتے ہوئے موقف اختیارکیا ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی پر نمایاں افراد کے ساتھ فوٹو کھنچوانے سے متاثر نہیں کیا جاتا، ان تصویروں سے صرف اپنے مُلک میں ہی تاثر دیا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھیں:ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد پاکستان اور بھارتی اسٹاک مارکیٹ کی کیا صورت حال رہی؟

’اصل سوال یہ ہے کہ آپ ایشوز پر کہاں کھڑے ہیں، پہلے دنیا بھر میں امریکی مداخلت کی شکایت ہوتی تھی، اب امریکی خود غرضی کا شکوہ کیا جائے گا، بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ امریکا آزاد دنیا کی قیادت سے دستبردارہورہا ہے۔‘

حسین حقانی کے مطابق امریکی سوچ اب یہ ہے کہ امریکی قیادت کی پہلی ذمہ داری امریکی شہریوں کی خوشحالی ہی ہے، دوسرے اپنی اپنی فکرکریں، امریکی پالیسی سازوں سے سالہا سال کے تعلقات اور ڈائیلاگ کے سوا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔

مزید پڑھیں:ٹرمپ کی جیت پر پاکستان میں بڑی ہلچل کیوں مچ گئی؟

صدر ٹرمپ کی مہاجرین مخالف پالیسوں کے بارے میں حسین حقانی نے ایکس پراپنی پوسٹ میں لکھا ہے کہ بھارت نے امریکا میں غیرقانونی طورپرمقیم اپنے شہریوں کی وطن واپسی میں مدد کا وعدہ کیا ہے۔

’پاکستان کو بھی اپنے غیرقانونی تارکین وطن کی واپسی قبول کرنی چاہیے، سینکڑوں پاکستانی امریکی جیلوں میں ہیں، کئی نے اپنے پاسپورٹ پھاڑ یا جلا دیے تھے اس لیے ان کی شہریت کا ثبوت نہیں۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا انتقام ایمبیسیڈر پاکستان حسین حقانی ڈونلڈ ٹرمپ سفارتکار صدر ٹرمپ عبدالباسط.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا ایمبیسیڈر پاکستان ڈونلڈ ٹرمپ سفارتکار عبدالباسط کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ مزید پڑھیں پاکستان کے پاکستان پر دنیا بھر کے ساتھ ٹرمپ کی کے لیے

پڑھیں:

ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار کے ہلچل سے بھرے پہلے 3 ماہ؛ دنیا کا منظرنامہ تبدیل

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں دوبارہ واپسی کے بعد ان کے اقدامات اور بیانات نے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کے پہلے 100 دن 30 اپریل کو مکمل ہو رہے ہیں اور اب تک صدر ٹرمپ نے صدارتی اختیارات کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔

78 سالہ صدر ٹرمپ نے ایک ایونٹ میں کہا کہ میرا دوسرا دورِ حکومت پہلے سے زیادہ طاقتور ہے۔ جب میں یہ کہتا ہوں 'یہ کام کرو تو وہ کام ہو جاتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ٹیرف پالیسی کا دفاع کیا اور سب سے پہلے امریکا کے اپنے ایجنڈے کو پورا کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔

امریکی صدر نے اپنی سمت کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بڑی کامیابی کے ساتھ اپنے اہداف کو حاصل کر رہے ہیں۔

البتہ ان کے ناقدین نے پہلے 100 دنوں کی حکومت کو "آمرانہ طرزِ حکومت" قرار دیا ہے اور ان کی پالیسیوں کو انتشار کا باعث قرار دیا۔

سیاسی مورخ میٹ ڈالک کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا دوسرا دورِ صدارت پہلے سے کہیں زیادہ آمرانہ ذہنیت اور اقدامات سے بھرپور ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ روزانہ اوول آفس میں صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرتے اور ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کرتے ہوئے خود کو ایک "ریئلٹی شو" کے مرکزی کردار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

ٹرمپ کے ناقدین کا بھی کہنا ہے کہ نئے صدر کے دوسرے دور میں وائٹ ہاؤس میں مخصوص اور من پسند نیوز اداروں کو رسائی دی جارہی ہے۔

علاوہ ازیں عدلیہ کے ساتھ بھی صدر ٹرمپ کا رویہ جارحانہ رہا ہے جہاں انہوں نے ماضی کے مقدمات میں شریک کئی لاء فرمز کو سخت معاہدوں میں جکڑ دیا ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے پہلے 100 دنوں کی تکمیل پر ان کی مقبولیت تمام جنگ عظیم دوم کے بعد صدور میں سب سے کم ہے۔ سوائے خود ان کے پہلے دور کے۔

ریپبلکن سینیٹر لیزا مرکاؤسکی نے کہا کہ ہم سب خوف زدہ ہیں جبکہ پروفیسر باربرا ٹرش کا کہنا تھا کہ صدر آئینی پابندیوں کی پرواہ کیے بغیر فیصلے کر رہے ہیں۔

ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے روس کے توسیع پسندانہ عزائم کی تقلید میں گرین لینڈ، پاناما اور کینیڈا پر علاقائی دعوے کرتے ہوئے امریکی اثرورسوخ بڑھانے کا عندیہ دیا ہے۔

ٹرمپ نے تعلیمی اداروں، جامعات اور ثقافتی مراکز کو نشانہ بناتے ہوئے خود کو ایک اہم آرٹس سینٹر کا سربراہ مقرر کیا اور ڈائیورسٹی پروگرامز کو ختم کر دیا ہے۔

اسی طرح تارکین کو پکڑ پکڑ کر دور دراز علاقے میں قائم خطرناک جیلوں میں زبردستی بھیجا جا رہا ہے۔

یاد رہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو عہدے کا حلف اُٹھایا تھا اور اسی دن چند اہم لیکن متنازع اقدامات کی منظوری دی تھی۔ 

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل
  • عالمی تنازعات، تاریخ کا نازک موڑ
  • ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار کے ہلچل سے بھرے پہلے 3 ماہ؛ دنیا کا منظرنامہ تبدیل
  • امریکی ٹیرف مذاکرات میں پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک خوشامد سے باز رہیں، چین کا انتباہ
  • توڑ پھوڑ کرنیوالے پاکستانی طلبہ ڈی پورٹ ہوں گے، امریکی ترجمان
  • ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف امریکا میں 700 مقامات پر ہزاروں افراد کے مظاہرے
  • یونیورسٹیوں میں توڑ پھوڑ کرنیوالے پاکستانی طلبہ ڈی پورٹ ہوں گے، امریکی ترجمان
  • امریکی سپریم کورٹ نے وینزویلا کے باشندوں کی جبری ملک بدری روک دی
  • تبدیل ہوتی دنیا
  • ٹرمپ انتظامیہ شام پر عائد پابندیوں میں نرمی پر غور کر رہی ہے،امریکی اخبار