Jasarat News:
2025-04-23@00:24:36 GMT

عمران خان کا سیاسی ورثہ: امیدیں، ناکامیاں اور تنازعات

اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT

عمران خان کا سیاسی ورثہ: امیدیں، ناکامیاں اور تنازعات

عمران خان کی سیاسی جدوجہد پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا باب ہے جو غیر معمولی عزم، بلند توقعات، ناکامیوں اور تنازعات کی عکاسی کرتا ہے 1996 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی بنیاد رکھنے والے عمران خان نے ایک ایسے پاکستان کا خواب پیش کیا جو کرپشن سے پاک، انصاف پر مبنی اور ترقی یافتہ ہو ایک کامیاب کرکٹ کیریئر اور سماجی خدمات کے بعد سیاست میں قدم رکھنے والے عمران خان کو عوام نے ایک دیانت دار اور انقلابی رہنما کے طور پر دیکھا اور اعتماد کیا لیکن ان کا سیاسی سفر مشکلات، تضادات اور ناکامیوں سے دوچار ہی رہا ہے۔ عمران خان کی سیاست کا آغاز ایک مثالی وژن کے ساتھ ہوا تھا جس نے عوام کو ایک نئی امید دلائی تھی ان کے نعروں اور وعدوں نے خاص طور پر نوجوان نسل کو اپنی طرف متوجہ کیا جنہوں نے روایتی سیاستدانوں سے مایوس ہو کر عمران خان کو تبدیلی کا استعارہ سمجھا 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے کامیابی حاصل کی اور عمران خان وزارتِ عظمیٰ کی مسند پر براجمان ہوئے ان کی کامیابی کا سہرا ان کی پُرجوش تقریروں، کرپشن کے خلاف ان کے عزم اور ایک ’’نئے پاکستان‘‘ کے خواب کو جاتا ہے تاہم، حکومت میں آنے کے بعد ان کا دورِ اقتدار ان وعدوں پر پورا اترنے میں ناکام رہا جن کی بنیاد پر عوام نے انہیں منتخب کیا تھا۔

ان کی حکومت کے دوران مملکت کی معیشت شدید بحرانوں کا شکار رہی ہے مہنگائی کی بلند شرح، کرپشن، بے روزگاری میں اضافہ اور قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ ان کے دور کی نمایاں خصوصیات بنے عوام کو درپیش مسائل حل کرنے کے بجائے ان کی منصوبے مزید مایوسی کا سبب بنے عمران خان نے بارہا کرپشن اور غربت کے خاتمے کے دعوے کیے لیکن عملی طور پر ان کے اقدامات ان وعدوں سے مطابقت نہ رکھتے تھے اور مملکت ترقی کے بجائے تنزلی کا شکار ہوئی۔

ان کی قیادت میں یوٹرن لینے کی عادت اور متضاد بیانات نے ان کی ساکھ کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر نقصان پہنچایا انہوں نے آئی ایم ایف سے قرض نہ لینے کا وعدہ کیا لیکن انہی کے در پر ماتھا ٹیکا امریکا پر اپنی حکومت کے خاتمے کا الزام عائد کرتے رہے پھر ان ہی سے حمایت کی بھیک مانگتا رہا۔ ان تضادات نے ان کی قیادت پر سوالات کھڑے کیے اور ان کی بین الاقوامی ساکھ اتنی متاثر ہوئی کہ ناقابل ِ اعتبار شخصیت تصور کیے گئے خارجہ پالیسی کے محاذ پر چین اور سعودی عرب جیسے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں تناؤ پیدا ہوا جس نے پاکستان کی سفارتی پوزیشن کو ناقابل ِ تلافی نقصان سے دوچار کیا ہے۔

عمران خان کی نجی زندگی بھی ہمیشہ تنازعات کا شکار رہی اور ان کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کرتی رہی ہیں عمران خان کی مبینہ بیٹی ٹیریان وائٹ بین الاقوامی میڈیا کی زینت بنی عمران خان کی شادیوں جن میں جمائما گولڈ اسمتھ، ریحام خان اور بشریٰ بی بی شامل ہیں نے ہمیشہ میڈیا اور عوام کی توجہ حاصل کی خاص طور پر بشریٰ بی بی کے ساتھ ان کے تعلق کو بدترین تنقید کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ انہیں عمران خان کی روحانی پیشوا اور سیاسی فیصلوں پر اثر انداز سمجھا جاتا تھا ان تنازعات کو ان کے مخالفین نے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جس سے ان کی شخصیت اور قیادت مزید پیچیدہ نظر آنے لگی۔

2022 میں عمران خان کے اقتدار کا اختتام تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہوا جو پاکستان کی تاریخ میں ایک انوکھا واقعہ تھا اس کے بعد ان پر کئی قانونی مقدمات کا سامنا رہا جن میں توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ کیسز سب سے زیادہ نمایاں رہے اور 14 سال کی قید بامشقت کا سبب بنے ہیں ان کے حامی ان مقدمات کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہیں جبکہ ناقدین انہیں قانون کی بالادستی کا نتیجہ سمجھتے ہیں عمران خان کا عروج و زوال مخالفین کے لیے ایک سبق آموز اور ان کے حامیوں کے لیے ایک گہری مایوسی کا سبب بنا۔

عمران خان کی قیادت نے عوام کو اس وقت امید دلائی جب وہ مایوسی کے شکار تھے لیکن عملی طور پر وہ عوامی توقعات پر پورا نہ اتر سکے ان کی غیر مستقل پالیسیاں، تضادات اور نجی زندگی کے تنازعات نے ان کی شخصیت اور طرزِ حکمرانی کو متنازع بنا دیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ان کے غیر متوازن فیصلے اور تنازعات نے پاکستان کی ساکھ کو غیر معمولی نقصان پہنچایا۔ عمران خان کی سیاست ایک ایسی داستان کے طور پر یاد رکھی جائے گی جو بلند خوابوں، ناقابل ِ عمل وعدوں، اور تنازعات کا مجموعہ تھی اور ان کا سیاسی سفر پاکستان کی تاریخ میں امیدوں، ناکامیوں اور تنازعات کا امتزاج تصور کیا جائے گا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی عمران خان کی اور تنازعات پاکستان کی اور ان

پڑھیں:

کوئٹہ میں افغان مہاجرین کی تذلیل کی جا رہی ہے، سماجی و سیاسی رہنماء

سماجی و سیاسی رہنماؤں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کی پالیسی بنائی جائے، گرفتار کرکے انکی تذلیل کی جا رہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سیاسی و سماجی رہنماوں نے کہا ہے کہ ملک سے بے دخلی کے نام پر افغان شہریوں کی تذلیل کی جارہی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ افغان مہاجرین کو باعزت طریقے سے اپنے ملک واپس بھیجے۔ مساجد کے باہر سے گرفتاریوں سے نفرتوں میں اضافہ ہوگا۔ حکومت مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے واضح پالیسی مرتب کرے۔ یہ بات کوئٹہ فاونڈیشن کی چیئرپرسن روزینہ خلجی، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صوبائی سینئر نائب صدر سلمان خان خلجی، درانی قومی اتحاد کے چیئرمین عباس درانی، انجمن تاجران کے رہنماء حاجی صالح محمد نورزئی، سماجی رہنماء سردار صدیق ہوتک و دیگر نے کوئٹہ پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔

کوئٹہ فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن روزینہ خلجی نے کہا کہ افغانستان جنگ کے بعد پاکستان نے لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کو پاکستان میں جگہ دی، جو ایک احسن اقدام تھا۔ افغان مہاجرین کی پاکستان آمد کے بعد یو این ایچ سی آر سمیت دیگر عالمی اداروں نے افغان مہاجرین کیلئے حکومت پاکستان کو اربوں روپے کی امداد فراہم کی، تاکہ مہاجرین کو سہولیات کی فراہمی میں مدد مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ اب حکومت پاکستان کی طرف سے بے دخلی کے نام پر افغان مہاجرین کی تذلیل کی جارہی ہے، جو کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ افغان مہاجرین کو باعزت طریقے سے واپس افغانستان واپس بھیجنے کیلئے حکومت اقدامات اٹھائے، تاکہ معاملہ افہام وتفہیم سے حل ہوسکے۔

انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں حکومت نے مہاجرین کے نام پر کریک ڈاؤن کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور افغان شہریوں کو گرفتار کرکے انکی تذلیل کی جارہی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے سینئر نائب صدر سلمان خلجی نے کہا کہ پاکستان میں 40 سے 45 سال سے افغان مہاجرین اپنی زندگی گزار رہے ہیں، انکی یہاں رشتہ داریاں ہیں۔ حکومت پاکستان کا اچانک انکی واپسی سے بہت سے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ افغان مہاجرین کی اپنے وطن واپسی کو باعزت طریقے سے یقینی بنانے کیلئے ایک واضح پالیسی بنائے اور افغان مہاجرین کی تذلیل کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔

متعلقہ مضامین

  • ملک اور عوام کو اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کی ضرورت ہے، عمران خان
  • ملک، عوام کو اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کی ضرورت ہے: عمران خان
  • عوام کو اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کی ضرورت ہے ، عمران خان
  • ملک، عوام کو اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کی ضرورت ہے، عمران خان
  • عالمی تنازعات، تاریخ کا نازک موڑ
  • سیاسی جماعتوں کو پرامن احتجاج کا آئینی حق حاصل ہے تاہم عوام کا خیال رکھا جائے، شرجیل میمن
  • پاکستان میں سیاسی استحکام کو نقصان پہنچنے نہیں دیں گے، طلال چودھری
  • پاکستان میں سیاسی استحکام کو نقصان پہنچنے نہیں دیں گے، وزیر مملکت طلال چودھری
  • کوئٹہ میں افغان مہاجرین کی تذلیل کی جا رہی ہے، سماجی و سیاسی رہنماء
  • عمران خان کیلئے امریکی دبائو؟ فسانہ یا حقیقت