اپوزیشن پارلیمنٹ کو چلنے نہیں دینا چاہتی ہے ،اسپیکر قومی اسمبلی
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہاہے کہ اپوزیشن پارلیمنٹ کو چلنے نہیں دینا چاہتی ہے جس دن ارکان نے اپنے حلقے کے مسائل پر بات کرنی ہوتی ہے اس روز وہ کورم کی نشان دہی کر دیتے ہیں،2014میں پارلیمنٹ حملہ ہواتومجھے اجلاس ختم کرنے کاپیغام انھوں نے ہی دیاجنھوں نے وزیراعظم کو مستعفی ہونے کادیا،ستمبر 2024میں پارلیمنٹ میں 11ارکان کو اٹھایا گیا وہ کون تھے وضاحت نہیں کرسکے ، جمہوریت تب محفوظ ہوگی جب سب مل کر جمہوریت کو سنجیدگی سے لیں گے ، اسحق ڈار پی ٹی آئی کمیٹی کی اپنے لیڈرسے ملاقات کروانے کی کوشش کررہے ہیں ،اختر مینگل سے سے کہا ہے اسمبلی سے استعفیٰ نہ دیں۔بدھ کو ایک انٹرویومیں سردار ایاز صادق نے کہاکہ اپوزیشن مذاکرات کاروں کو قیادت کی ہدایت ہے کہ قومی اسمبلی میں معمول کے مطابق کام نہیں چلنے دینا چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن پارلیمنٹ کو چلنے نہیں دینا چاہتی جس دن ارکان نے اپنے حلقے کے مسائل پر بات کرنی ہوتی ہے اس روز بھی وہ کورم کی نشان دہی کر دیتے ہیں۔سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ مصدقہ اطلاعات ہیں اپوزیشن مذاکرتی کمیٹی کو ہدایت ہے کہ اسمبلی کارروائی معمول نہیں ہونی چاہیے ۔انہوںنے کہاکہ یہ انہوں نے کہا، جنہوں نے جن کو کہنا ہوتا ہے ، گزشتہ پیر سے اپوزیشن کے ساتھی صرف احتجاج کررہے ہیں، ہم نے اپوزیشن سے طے کیا تھا احتجاج کریں مگر ہر چیز کا وقت ہوناچاہیے ۔سردار ایاز صادق نے کہا کہ میں نے کئی دفعہ ریکویسٹ کی عوام کے ایشوز پر بھی بات کر لیں، وہ احتجاج کرتے ہیں آدھا گھنٹہ 20منٹ اس کے بعد چلے جاتے ہیں۔انہوں نے 2014 کے دھرنوں کے دوران کی روداد بھی بیان کرتے ہوئے بتایاکہ2014میں پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تھا میں بے بسی سے دیکھ رہا تھا، مجھے کہا گیا کہ فوری اسمبلی اجلاس ملتوی کریں یہاں ممبران کو خطرہ ہے ۔سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ جب دھرنے والے پارلیمنٹ کے اندر آگئے تو مجھے کہیں سے پیغام ملا کہ اجلاس ختم کریں، مگر میں نے اسے جاری رکھا، پیغام انھوں نے ہی بھیجا ہوگا جنھوں نے وزیراعظم کو مستعفی ہونے کا پیغام دیا۔انہوںنے کہاکہ جنگلا تڑوا کے وہ اندر آکر بیٹھ گئے میں جوائنٹ سیشن چیئر کر رہا تھا، مجھے آکے کہا گیا میسج ہے کہ آپ لوگ فوراً اجلاس ملتوی کرکے پیچھے سے نکل جائیں۔سردار ایاز صادق نے کہا کہ کہا گیا کیلوں والے ڈنڈوں کے ساتھ حملہ کیا جائے گا، جو ان کے لوگوں کے پاس تھے ، میرے تو پسینے چھوٹ گئے ، میں خطرہ مول لے رہا تھا۔انہوں نے کہا کہ میں بیٹھا رہا، میری نظر دروازوں پر لگی ہوئی تھی، میرا سارا جسم پسینے سے بھیگا تھا اور میں بہت شدید ٹینشن میں تھا، جہاں سے میسج آیا تھا نا وہ بڑے سینئر لیول سے آیا، میں بیٹھا رہا پھر میں نے کمشنر کو بلایا اس سے اسٹوری سنی۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ ستمبر 2024میں پارلیمنٹ میں 11ارکان کو اٹھایا گیا وہ کون تھے وہ وضاحت نہیں کرسکے ، جمہوریت تب محفوظ ہوگی جب ہم سب مل کر جمہوریت کو سنجیدگی سے لیں گے ۔انہوںنے کہاکہ پی ٹی آئی حکومت میں ہمارے ممبران کو ایوان میں پیش نہیں کیا جاتا تھا، میری لیڈرشپ مجھے پروڈکشن آرڈر سے نہیں روکتی، اسحق ڈار کوشش کررہے ہیں کہ پی ٹی آئی کمیٹی کی اپنے لیڈر سے ملاقات ہوجائے ۔سردار ایاز صادق نے کہا کہ اختر مینگل سے رابطے میں ہوں، ان سے کہا ہے کہ اسمبلی سے استعفیٰ نہ دیں، میری کوشش ہے کہ انہیں منالوں۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: سردار ایاز صادق نے کہا قومی اسمبلی نے کہا کہ انہوں نے نے کہاکہ
پڑھیں:
بہار کے سابق رکن اسمبلی ماسٹر مجاہد عالم وقف قانون کی حمایت کرنے پر جنتا دل یونائیٹڈ سے مستعفی
پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل کی منظوری کے بعد سے 20 سے زیادہ مسلمان لیڈروں نے جے ڈی یو سے استعفی دے دیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست بہار میں سابق رکن اسمبلی ماسٹر مجاہد عالم نے وقف قانون کی حمایت کرنے پر جنتا دل یونائیٹڈ سے مستعفی ہو کر وزیراعلیٰ نتیش کمار کو اہم سیاسی جھٹکا دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق سیمانچل میں جے ڈی یو کے سرکردہ رہنما ماسٹر مجاہد عالم نے جو کوچدھامن سے دو بار رکن اسمبلی رہ چکے ہیں اور 2024ء کے لوک سبھا انتخابات میں کشن گنج سے این ڈی اے کے امیدوار تھے، کشن گنج میں یہ اعلان کیا جہاں انہوں نے نتیش کمار کے بینرز اور پوسٹرز بھی ہٹا دیے۔ ان کے ساتھ ان کے سینکڑوں حامیوں نے بھی پارٹی سے استعفی دے دیا۔ مجاہد عالم نے کہا کہ چونکہ نتیش کمار کے ارکان نے پارلیمنٹ میں وقف بل کی حمایت کی اس لئے میں نے بنیادی رکنیت سمیت پارٹی کے تمام عہدوں سے استعفی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ماسٹر مجاہد عالم کو طویل عرصے سے سیمانچل میں نتیش کمار کے نچلی سطح کے سب سے قابل اعتماد رہنمائوں میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔ پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل کی منظوری کے بعد سے 20 سے زیادہ مسلمان لیڈروں نے جے ڈی یو سے استعفی دے دیا ہے۔ ان کے استعفیٰ سے پارٹی کی اقلیتی صفوں میں گہرے عدم اطمینان کی عکاسی ہوتی ہے۔