Islam Times:
2025-04-22@09:52:04 GMT

ڈونلڈ ٹرمپ بائیڈن کیجانب سے لکھا گیا خط سامنے لے آئے

اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT

ڈونلڈ ٹرمپ بائیڈن کیجانب سے لکھا گیا خط سامنے لے آئے

سابق امریکی صدر نے خط میں لکھا کہ میری دعا ہے کہ آئندہ برسوں میں ہماری قوم کیلیے خوشحالی، امن اور وقار کے لمحات ہوں، خدا آپکی رہنمائی کرے، جیسا کہ خدا نے ہمارے ملک کے قیام سے ابتک ہماری قوم کو برکتیں دی ہیں اور رہنمائی کی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سبکدوش صدر جو بائیڈن کی جانب سے وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں انکے لیے چھوڑا گیا خط میڈیا کے سامنے پیش کر دیا۔ امریکی میڈیا کے مطابق خط کے باہر 47 نمبر لکھا تھا، کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے سنتالیس ویں صدر ہیں۔ خط کا آغاز ڈیئر پریزیڈنٹ ٹرمپ کے الفاظ سے کیا گیا اور کہا گیا کہ اس مقدس دفتر سے رخصت لیتے ہوئے میں آپ اور آپ کی فیملی کے لیے اگلے چار برسوں میں نیک تمنائیں رکھتا ہوں۔ جوبائیڈن نے اپنے خط میں لکھا کہ امریکی عوام اور دنیا بھر کے لوگ تاریخ کے ناگزیر طوفانوں میں اس دفتر کی طرف دیکھتے ہیں۔

سابق امریکی صدر نے خط میں لکھا کہ میری دعا ہے کہ آئندہ برسوں میں ہماری قوم کیلیے خوشحالی، امن اور وقار کے لمحات ہوں، خدا آپ کی رہنمائی کرے، جیسا کہ خدا نے ہمارے ملک کے قیام سے ابتک ہماری قوم کو برکتیں دی ہیں اور رہنمائی کی ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق خط پر 20 جنوری سن دو ہزار پچیس کی تاریخ درج ہے، جس روز بائیڈن نے عہدہ چھوڑا تھا اور صدر ٹرمپ نے عہدے کا حلف لیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ یہ اچھا اور متاثر کن قسم کا خط ہے۔ لطف اٹھائیں، اچھا کام کریں۔ یہ بہت اہم ہے، بہت ہی اہم اور یہ کہ یہ عہدہ کتنا اہم ہے۔ واضح رہے کہ امریکا میں سن 1989ء سے سبکدوش صدر کی جانب سے آنے والے صدر کیلیے خط چھوڑ کر جانے کی روایت ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ

پڑھیں:

ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل

اسلام ٹائمز: ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔ تحریر: آتوسا دینیاریان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے من پسند پالیسیوں پر انحصار کرتے ہوئے دنیا کے بیشتر ممالک خصوصاً چین کے خلاف ٹیرف کی ایک وسیع جنگ شروع کی ہے، اس طرزعمل کے نتائج نے موجودہ امریکی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور عوام کے عدم اطمینان میں اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ مہینوں میں ریاستہائے متحدہ میں معاشی حالات خراب ہوئے ہیں اور حالیہ مہینوں میں ٹرمپ کے فیصلوں کی وجہ سے امریکی صارفین کے لیے قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ وہ تحفظ پسند پالیسیوں کو نافذ کرکے اور چین اور دیگر ممالک کے خلاف تجارتی محصولات میں اضافہ کرکے "عظیم امریکی خواب" کے نظریے کو بحال کر رہے ہیں۔ لیکن عملی طور پر ان پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ، معاشی ترقی کی رفتار میں کمی اور وسیع پیمانے پر عدم اطمینان پیدا ہوا ہے۔

ٹرمپ کی مقبولیت میں کمی:
اس وقت صرف 44% امریکی ان کے معاشی انتظام سے مطمئن ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو ان کی مقبولیت کا گراف مزید نیچے آئے گا۔

افراط زر اور بڑھتی ہوئی قیمتیں:
افراط زر کی شرح 3% تک پہنچ گئی ہے، جبکہ فیڈرل ریزرو کا ہدف 2% ہے۔ یہ وہ علامات ہیں، جو کسی ملک میں کساد بازاری کو دعوت دینے کے مترادف سمجھی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ترقی کی رفتار رک جاتی ہے اور سست اقتصادی ترقی کا سایہ منڈلانے لگتا ہے۔ تجارتی پالیسی کے عدم استحکام کی وجہ سے سرمایہ کار طویل مدتی سرمایہ کاری سے گریز کرنے لگتے ہیں۔

بڑے پیمانے پر احتجاج:
 ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیوں کے خلاف ہزاروں امریکیوں نے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے ہیں۔ یہ مظاہرے متوسط ​​طبقے اور محنت کشوں کی ان پالیسیوں سے عدم اطمینان کی عکاسی کرتے ہیں، جو دولت مند اور بڑی کارپوریشنز کے حق میں ہیں۔ ادھر فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیروم پاول نے خبردار کیا ہے کہ نئے ٹیرف مہنگائی اور سست اقتصادی ترقی کو بڑھا سکتے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ کے معاشی فیصلے ظاہری طور پر امریکی معاشی حالات کو بہتر بنانے اور ملکی پیداوار کو سپورٹ کرنے کے دعوے کے ساتھ کیے گئے تھے، لیکن عملی طور پر وہ مسابقت میں کمی، قیمتوں میں اضافے، معاشی ترقی میں سست روی اور مارکیٹ میں عدم استحکام کا باعث بنے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ہیگستھ پیٹ بہترین کام کر رہے ہیں‘ میڈیا پرانے کیس کو زندہ کرنے کی کوشش کررہا ہے .ڈونلڈ ٹرمپ
  • ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل
  • ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار کے ہلچل سے بھرے پہلے 3 ماہ؛ دنیا کا منظرنامہ تبدیل
  • روس اور یوکرین رواں ہفتے معاہدہ کرلیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • روس اور یوکرین رواں ہفتے معاہدہ کر لیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی محکمہ خارجہ کی از سرِ نو تشکیل کی تجویز
  • ’ امریکا میں کوئی بادشاہ نہیں‘ مختلف شہروں میں ٹرمپ مخالف مظاہرے
  • ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف امریکا میں 700 مقامات پر ہزاروں افراد کے مظاہرے
  • بابر سلیم سواتی کرپشن الزامات سے بری، احتساب کمیٹی کی رپورٹ سامنے آگئی
  • ٹرمپ انتظامیہ شام پر عائد پابندیوں میں نرمی پر غور کر رہی ہے،امریکی اخبار