کمر درد کی وجوہات اور علاج
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
کمر درد ایک عام وقوع پذیر ہونے والا درد ہے جو کسی کو کہیں بھی تنگ کر سکتا ہے۔ یہ ایک شدید نوعیت کا درد ہے جو کمر کے عضلات اور اعصاب میں رو نما ہوتا ہے۔ کمر درد کے طبی لحاظ سے کئی اسباب ہوتے ہیں۔
ایسے افراد جن کو زیادہ دیر حالت نشست میں رہنا پڑتا ہو یا زیادہ وقت کھڑے ہو کر کام کرنا پڑتا ہے وہ اس کی زد میں زیادہ آتے ہیں۔ مزاج میں گرمی یا سردی کا عنصر بڑھ جانے سے بھی کمر درد حملہ آور ہو جاتا ہے۔ اسی طرح یورک ایسڈ کی طبعی مقدار کی زیادتی، قبض، مہروں میں خلا پیدا ہونا، ورمِ گردہ، گردے میں پتھری کا ہونا وغیرہ بھی اس کے اسباب میں شامل ہیں۔
بھاری وزن اٹھانے سے اچانک کمر میں جھٹکا لگنا یا کمر کے پٹھوں میں کھچاؤ پیدا ہونا بھی کمر درد کا ذریعہ بنتا ہے۔ عام جسمانی کمزوری بھی کمر درد کا ایک بہت بڑا سبب بنتی ہے جبکہ جسمانی کمزوری کی وجہ ناقص، غیر معیاری اور ملاوٹ زدہ غذائیں ثابت ہو رہی ہیں۔
مسلسل ناقص اور غیر معیاری خوراک استعمال کرنے سے بدن کی قوت مدافعت کمزور پڑ جاتی ہے جس سے اعصاب اور عضلات میں کچھاؤ اور دباؤ کی کیفیات پیدا ہو کر جسمانی دردوں کا سبب بننے لگتی ہیں۔ علاوہ ازیں ریڑھ کی ہڈی کے مہروں میں خرابی واقع ہوجانے سے بھی شدید درد سامنے آتا ہے۔ بعض اوقات یہ درد کمر کے اعصاب سے شروع ہوکر دائیں بائیں ٹانگوں تک میں سرایت کرتا محسوس ہونے لگتا ہے۔ طبی اصطلاح میں اسے 'ڈسک سلپ' ہونے سے موسوم کیا جاتا ہے۔
’ڈسک سلپ‘ ہونے والے مفروضے کا اصل سبب چوتھے مہرے پر دباؤ آنا ہے۔ جب چوتھے مہرے پر سٹریس یا دباؤ پڑتا ہے تو اس کے رد عمل کے طور پر درد پوری کمر سے ہوتا ہوا ایک یا دونوں ٹانگوں میں محسوس ہونے لگتا ہے۔
اسی طرح جب کمر درد کا احساس دمچی کی ہڈی میں ہو اور اٹھتے بیٹھتے یا حرکات و سکنات کرتے وقت درد شدید ہو تو عام طور پر اس کا سبب بارہویں مہرے کا ٹلنا یا اپنی جگہ سے ہٹ جانا مانا جاتا ہے۔ اس طرح کے درد کو دافع درد ادویات استعمال کرنے سے فوری افاقہ تو ہوجاتا ہے لیکن جب تک مہرہ اپنی جگہ ایڈجسٹ نہیں ہو پاتا دمچی کی ہڈی میں ہونے والا درد شدید سے شدید تر ہوتا چلاجاتا ہے۔ اس کا بر وقت تدراک نہ کیا جا سکے تو حامل درد عمر بھر اس تکلیف میں مبتلا رہنے پہ مجبور ہو سکتا ہے۔
گھریلو تدابیر
یاد رکھیں! مرض اور درد پیدا ہونے کے سبب کو ختم کرنے پہ دھیان دیں، درد اور مرض خود بخود ہی چلا جائے گا۔ اپنے مزاج کے بارے میں جاننے کے لیے کسی ماہر طبی معالج سے مشورہ کریں۔ درد کی شدت میں کمی کرنے اور فوری افاقہ کی غرض سے کمر پر میجک آئل کا ہلکا سا مساج کر کے باجرہ، چھان گندم اور نمک سانبھر ہم وزن ایک کپڑے میں ڈال کر توے پہ گرم کر کے کمر پہ ٹکور کریں، درد میں فوری افاقہ ہوگا۔
اگر درد جسم میں گرمی کی زیادتی سے ہو تو روغنِ کشنیز سے مالش کریں اور کشنیز 10 گرام کے سفوف میں شکر سرخ ملا کر ایک چمچ نہار منہ کھائیں۔ جب درد کمر سردی کی زیادتی سے ہو تو میتھی5 گرام کو ابال کر چند بار پینے سے ہی افاقہ ہوجاتا ہے۔ انجیر 7 عدد، مغز اخروٹ 10 تولہ ملا کر کھانا بھی درد کمر سے نجات دلاتا ہے۔
پرہیز و غذا
گوشت، چاول، چکنائیاں، بیگن، کولا مشروبات، بیکری مصنوعات، فاسٹ فوڈز، دال مسور، دال ماش، مکئی، مٹر، لوبیا، ساگ بادی، ترش، ثقیل اور نفاخ غذاؤں سے مکمل طور پر دور رہیں۔
ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کے مسائل پیدا ہو جانے کی صورت میں ٹوٹکوں اور سنی سنائی طبی تراکیب پہ وقت ضائع کیے بغیر کسی ماہر معالج سے رجوع کریں۔ وقتی طور پر درد دور کرنے والی ادویات کے غیر ضروری استعمال سے مقدور بھر بچنے کی کوشش کریںکیونکہ پین کلرز وقتی افاقہ تو دیتی ہیں لیکن امراض معدہ سمیت مبینہ طور پرگردے اور جگر ناکارہ کرنے کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔
مہروں میں خرابی واقع ہونے سے پیدا ہونے والے درد کمر سے نجات پانے کا واحد حل مینول تھراپی ہے۔ ایک ماہر تھراپسٹ خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر انگلیوں اور انگوٹھے سے مہرو ں کو بہ آسانی ایڈجسٹ کر دیتا ہے۔ علاوہ ازیں کمر درد سے مستقل محفوظ رہنے کے لیے کمر اور کمر کے پٹھوں کو مضبوطی فراہم کرنے والی خوراک اور ورزش کو اپنے معمول کا حصہ بنائیں۔ مقوی اعصاب غذاؤں کا مناسب استعمال اور خوراک استعمال کرتے وقت بادی و ترش اجزاء سے احتیاط بھی کمر درد سمیت اعصابی و عضلاتی مسائل سے محفوظ رکھتا ہے۔
روز مرہ معمولات میں اپنی نشست اور کمر کے درمیاں زیادہ فاصلہ نہ رکھیں۔ زیادہ دیر بیٹھنے کی صورت میںہارڈ چیئر استعمال کریں۔ درد کی حالت میں نرم بستر کی بجائے ہارڈ بیڈ یا فرش پہ سوئیں۔ درد کے دوران وزن اٹھانے، سیڑھیاں چڑھنے، کمر جھکا کر کام کرنے اور وظیفہ زوجیت کی ادائیگی سے باز رہیں۔ روزانہ نہار منہ کمر کے اعصاب کی ورزشیں لازمی کریں۔ کمر درد سے مستقل بچاؤ کے لیے ریڑ ھ کی ہڈی کو مضبوط کرنے والے یوگا آسن اپنانا بے حد مفید ثابت ہوتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بھی کمر درد پیدا ہو کی ہڈی کمر کے
پڑھیں:
سندھ کے بیشتر سرکاری اسپتالوں میں قواعد کیخلاف تعیناتیاں، مریضوں کو علاج میں دشواریاں
کراچی کے بعض اور اندرون سندھ کے بیشتر اسپتالوں اور صحت کے بنیادی مراکز کے سربراہاں کی تعیناتی حکومت کے طے شدہ اور مروجہ قواعد کے خلاف کی گئی ہیں، ایسے اسپتالوں اور صحت کے مراکز میں قواعد و ضوابط کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے من پسند اور ناتجربے کار افسران کو سربراہ کے طور پر تعینات کیا گیا ہے۔
محکمہ صحت سندھ کے اس طریقہ کار کی وجہ سے محکمہ کا انفرا اسٹرکچر بھی شدید متاثر ہوکر رہ گیا ہے، اس صورتحال کے سبب اسپتالوں میں علاج کے لیے آنے والے مریضوں کو شدید پریشانی اور مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
صوبے سندھ کے اسپتالوں اور ضلعی و بنیادی صحت کے مراکز میں 2022 سے قبل سربراہان کی تعیناتی گریڈ 20 اور جنرل کیڈر کے ڈاکٹروں میں سے کی جاتی تھی تاہم ہائی کورٹ کے حکم نامے کے مطابق اسپتالوں اور صحت کے مراکز میں ایسے ڈاکٹروں کو سربراہ بنایا جائے گا جس نے ایم بی بی ایس کے بعد (ایم پی ایچ) ماسٹر آف پبلک ہیلتھ کی ڈگری حاصل کی ہو۔
مذکورہ فیصلے کے بعد صوبائی محکمہ صحت نے اپریل 2022 میں ایک نوٹیفیکشن جاری کیا جس میں یہ طے پایا تھا کہ آئندہ اسپتالوں میں ایم بی بی ایس کے بعد (ایم پی ایچ) ماسٹر آف پبلک ہیلتھ کے حامل گریڈ 20 کے ڈاکٹروں کو کسی بھی سرکاری اسپتال یا ضلعی صحت کے مرکز کا سربراہ بنایا جائے گا۔ ایم پی ایچ وہ ڈگری ہوتی ہے جس میں اسپتال کا سربراہ مریضوں کی بیماریوں اور علاج اور اسپتال کا نظم و نسق چلانے کے لیے حکمت عملی طے کرتا ہے۔
محکمہ صحت حکومت سندھ کے اپریل 2022 میں جاری کردہ نوٹیفکیشن سندھ ہیلتھ مینیجمنٹ سروس رول 2022 میں واضح طور پر یہ کہا گیا تھا کہ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز سندھ، ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ، ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر، اسپتالوں کے میڈیکل سپریٹنڈنٹ اور ایڈیشنل میڈیکل سپریٹنڈنٹ، سیکریٹری سندھ بلڈ ٹرانسفیوزن اتھارٹی، پولیس سرجن سمیت مختلف اسامیوں پر لازمی طور پر ہیلتھ مینیجنمنٹ کیڈر گریڈ 20 کے ڈاکٹروں کو تعینات کیا جائے لیکن اس وقت محکمہ صحت میں سیاسی اثرورسوح، من پسند اور گریڈ 20 کے جنرل کیڈر ڈاکٹروں کی قواعد وضوابط کے خلاف تعیناتیاں جاری ہیں۔
سندھ کے بیشتر سرکاری اسپتالوں اور ضلعی صحت کے مراکز میں ہیلتھ مینیجمنٹ کیڈر کے بجائے جنرل کیڈر کے ڈاکٹر تعینات ہیں جبکہ بیشتر اسپتالوں میں جنرل کیڈر کے سربراہان تعینات ہیں، اندرون سندھ کے دو اضلاع کے علاوہ 28 اضلاع میں ہیلتھ مینجمنٹ کیڈر کے بجائے جنرل کیڈر 19گریڈ کے افسران تعینات ہیں جس کی وجہ سے شعبہ صحت کا انفرا اسٹرکچر شدید متاثر ہو رہا ہے۔
محکمہ صحت حکومت سندھ نے اپنے ہی قواعد کو نظر انداز کرتے ہوئے 24دسمبر 2024 کو سندھ گورنمنٹ سعودآباد اسپتال میں تعینات محکمہ صحت کے سینیئر ترین گریڈ 20 اور ہیلتھ مینیجمنٹ کیڈر کے افسر ڈاکٹر پیر غلام نبی شاہ جیلانی کو بلاجواز ان کے اس عہدے سے ہٹا کر ایک ایسی جگہ تعینات کر دیا جہاں پبلک ہیلتھ کا کوئی شعبہ سرے سے موجود ہی نہیں اور محکمہ صحت حکومت سندھ نے ان کی جگہ گریڈ 19کے جونیئر ترین اور جنرل کیڈر کے ڈاکٹر آغا عامر کو تعینات کر دیا۔ ڈاکٹر آغا عامر گریڈ 19 کی سینارٹی لسٹ میں 140 ویں نمبر پر ہیں جبکہ ڈاکٹر پیر غلام نبی شاہ جیلانی گریڈ 20 کی سینارٹی لسٹ میں 5ویں نمبر پر ہیں۔
محکمہ صحت نے ناتجربہ کار ڈاکٹر اسپتال کا ایم ایس بنا دیا جس کی وجہ سے اسپتال کا انتظامی امور شدید متاثر اور مریض کو حصول علاج میں دشواریوں کا سامنا بھی ہو رہا ہے۔ اسپتال میں گریڈ 19 کے موجودہ سربراہ کے ماتحت اسپتال میں گریڈ 20 کے افسر کام کر رہے ہیں جو کہ ایک المیہ ہے۔ اسپتال کے ایک افسر کے مطابق سندھ گورنمنٹ سعود آباد اسپتال میں غیر قانونی بلڈ بینک بھی قائم ہے جبکہ اسپتال میں مریضوں کو ادویات کی عدم فراہمی کی شکایات بھی مسلسل موصول ہو رہی ہیں۔
اسی طرح، سندھ گورنمنٹ نیو کراچی اسپتال کے ایم ایس گریڈ 20 کی اسامی پر گریڈ 19 جنرل کیڈر کے ڈاکٹر کو تعینات کر رکھا ہے جبکہ سندھ گورنمنٹ قطر اسپتال میں بھی جنرل کیڈر گریڈ 19 کے افسر کی تعیناتی ہے۔ سندھ گورنمنٹ ابراہیم حیدری اسپتال میں بھی جنرل کیڈر گریڈ 19 تعینات ہیں۔
اس وقت کراچی میں ضلع کورنگی کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر گریڈ 20 کی اسامی پر گریڈ 19 اور جنرل کیڈر کے ڈاکٹر کو تعینات کر رکھا ہے جبکہ ضلع جنوبی میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر ڈاکٹر راج کمار کو Expanded Program of Immunization میں پروجیکٹ ڈائریکٹر مقرر کر دیا گیا جس کے بعد یہ اسامی خالی پڑہی ہے۔ کراچی میں ضلع غربی میں بھی گریڈ 19 کے ڈاکٹر کو تعینات کیا گیا ہے۔
اسی طرح سندھ گورنمنٹ لیاقت اسپتال جامشورو میں گریڈ 20 کی اسامی پر 19 گریڈ جنرل کیڈر کے ڈاکٹر کو تعینات کر رکھا ہے۔ محکمہ صحت کے ایک افسر کے مطابق اندرون سندھ کے 28 اضلاع میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسران گریڈ 19 جنرل کیڈر کے تعینات ہیں، گریڈ 19 اور جنرل کیڈر ڈاکٹروں کی تعیناتیوں کی وجہ سے انتظامی امور درہم برہم جبکہ عوام کو پبلک ہیلتھ کی سہولتیں بھی کم ہو رہی ہیں۔
واضع رہے کہ محکمہ صحت میں ہیلتھ منیجمنٹ کیڈر رول 2022 سے قبل محکمے میں جنرل کیڈر گریڈ 20 کے افسر کو اسپتال کا سربراہ مقرر کیا جاتا تھا، ہیلتھ منیجمنٹ کیڈر ان افسران کو کہا جاتا ہے جو ایم بی بی ایس کے بعد ماسٹر آف پبلک ہیلتھ یا اسپتال منیجمنٹ ڈگری حاصل کی ہوئی ہو۔ ماسٹر آف پبلک ہیلتھ ڈگری کے حامل افسران اپنے اپنے ضلع میں کسی بھی ممکنہ وباء یا مختلف بیماریوں پر قابو پانے کے حوالے سے موثر حکمت عملی اور منصوبہ بندی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور بیماریوں سے نمٹنے اوربیماریوں کے تدارک اور ان کی روک تھام کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
کراچی سمیت سندھ کے عوام 12 مہینے مختلف بیماری اور وائرس کی زد میں رہتے ہیں، ہر مہینے کوئی نہ کوئی وائرس سر اٹھاتا ہے جبکہ مختلف اقسام کے انفیکشن اور موسمی بیماریاں بھی عام ہیں، عوام ان ہی غیر صحت مندانہ ماحول میں زندگی گرارنے پر مجبور ہیں۔ ایسی صورت میں عوام مختلف بیماریوں کے ماحول میں رہتے ہیں۔
کراچی سمیت سندھ میں ڈینگی، ملیریا، غذائی قلت اور بچوں میں خسرہ ٹائفائیڈ سمیت دیگر بیماریاں عام ہیں، ان بیماریوں کا سدباب آج تک نہیں کیا جا سکا جس کہ وجہ نا تجربے کار افسران کی تعینایاں، سیاسی اور من پسند افسران کو انتظامی امور کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔
ماہر صحت ڈاکٹر اکرم سلطان نے بتایا کہ اندرون سندھ عوام صحت کے مسائل سے دوچار ہیں، اندرون سندھ کے اسپتالوں میں ناتجربے کار انتظامی افسران کی وجہ سے اسپتالوں میں ہر وقت متعدد مسائل کا سامنا رہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈی ایچ او اور اسپتال کا سربراہ ہیلتھ کسٹوڈین Health Custodian ہوتا ہے، ایسے افسران کو اسپتالوں اور ضلعی صحت کے مراکز میں تعینات کرنا چاہیے جو مختلف بیماریوں کی روک تھام اور صحت مند معاشرے کے قیام کے لیے موثر حکمت عملی پر کام کرے۔
ماہر صحت نے کہا کہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسران اپنے اپنے ضلع میں صحت مند معاشرے کے قیام کے لیے اگر کوشش کریں تو صحت کے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے صحت کے افسران کی کسی بھی بیماری کے خاتمے کے لیے کوشش نظر نہیں آتی اور نہ ہی کوئی مستقبل کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے جبکہ عوام کی صحت کے نام پر ہر سال اربوں روپے بجٹ مختض کیے جاتے ہیں لیکن آج بھی اندرون سندھ کے اسپتالوں میں پیچیدہ امراض کے علاج کے لیے مریضوں کو کراچی لایا جاتا ہے۔
اندورن سندھ صحت کے مراکز اور اسپتالوں میں دوائیاں ناپید ہوتی ہیں، ہیلتھ کا کوئی میکینزم وہاں موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اندرون سندھ کے عوام حصول علاج کے لیے پریشان نظر آتے ہیں۔