ٹرمپ کی خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی منظر نامہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری بار امریکا کا صدر بنتے ہی متعدد ایگزیکٹیو احکامات جاری کر دیے۔ٹرمپ نے 2021 میں کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے کے الزام میں سزا پانے والے اپنے 1500 حامیوں کی سزائیں معاف کرنے کا اعلان کیا ہے۔
امریکا کی جنوبی سرحد پر ’ قومی ایمرجنسی‘ کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔ اس کا مقصد میکسیکو سے غیرقانونی تارکین وطن کے امریکا میں داخلے کو روکنا ہے۔ ایک دوسرے آرڈر میں امریکی فوج کو ’سرحدوں کو سیل‘ کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ ملک میں منشیات آنے اور انسانی اسمگلنگ کو روکا جاسکے۔
ایک حکم نامے میں سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں منظور کیے گئے 80 کے قریب قوانین کو منسوخ کرنے کی ہدایت کی ہے ، انھوںنے پیرس کلائمیٹ معاہدے سے امریکا کو الگ کرنے کا بھی حکم جاری کردیا ہے جس کے تحت امریکا آلودگی اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو روکنے کے لیے کام کرنے والی اس تنظیم کا مزید حصہ نہیں رہے گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے اب اس نئے دور میں بھی کئی مسائل اور معاملات موجود ہیں انھیں جن پر فوری توجہ دینے کی ضرورت پڑے گی،جیسے اسرائیل فلسطین جنگ،اسرائیل کے لبنان پر حملے اور ایران کو دھمکیاں،ایران امریکا تعلقات،ان کی اپنی چھیڑی ہوئی امریکا چین معاشی جنگ،پونے تین برسوں سے جاری روس یوکرین جنگ،بین الاقوامی معیشت،افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں، موسمیاتی تبدیلیاں اور پاک امریکا تعلقات۔ سب سے اہم مسئلہ دنیا میں دہشت گردگروپس اور غیر ریاستی عناصر کا خاتمہ ہے ، کیونکہ ان ہی کی وجہ سے دنیا بھر میں جمہوریت کا عمل انتہائی کمزور ہوا ہے۔
نومنتخب صدر ٹرمپ کو2017 کے مقابلے میں کہیں زیادہ مختلف جغرافیائی سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے، عالمی منظرنامے پرایٹمی طاقتوں کی سرحدوں پر مشتمل تین سلگتی جنگیں ہیں اسرائیل کا ہمسائے ممالک، پاکستان کا افغانستان اور یوکرین کا روس کے ساتھ تنازع ہے۔دوسری طرف افغانستان میں طالبان اور امریکا کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ ہوا ہے ۔ یوکرین اور مشرق وسطیٰ میں جاری جنگیں ٹرمپ اور ان کی نئی انتظامیہ میں زیادہ ضروری کاموں کے طور پر دیکھی جا رہی ہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی یوکرین کے تنازع کو حل کر لیں گے۔
اگرچہ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا یوکرین کی جنگ جنوری میںہی ختم ہو گی یا نہیں۔ ایک تجزیہ یا رائے یہ بھی ہے کہ یوکرین جنگ کا فوری خاتمہ اس لیے ممکن ہے کہ صدر ٹرمپ کے روسی صدر پوتن کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔یوکرین جنگ کے خاتمے کو امریکی معاشی صورتحال کے حوالے سے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کی جنگ کے خاتمے اور استحکام کی بات کی ہے، غزہ کی تعمیر نو کا بھی ذکر کیا ہے یہ ایک بڑا چیلنج ضرور ہوگا کیونکہ جنگ بندی کے فیصلہ پر عمل درآمد مشکل ہوگا لیکن اگر وہ چاہیں گے تو ایسا ہو پائے گا ۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے خارجہ پالیسی میں انتہائی محاذ آرائی پر مبنی نقطہ نظر کو ترجیح دی اور چین پر دباؤ بڑھانے پر بھی توجہ مرکوز رکھی ہے۔ انھوں نے توسیع پسندانہ خارجہ پالیسی کا اشارہ دیا ہے، جس میں کینیڈا کو امریکا میں ضم کرنے کے اقدامات اور ممکنہ طور پر فوجی یا معاشی ذرائع سے پاناما نہر اور گرین لینڈ کا ممکنہ حصول شامل ہے۔
انھوں نے خلیج میکسیکو کا نام تبدیل کرکے خلیج امریکا رکھنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔چین، جو دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے، شدید مالی بحران کا سامنا کر رہا ہے، جس کی نشاندہی صارفین کے اعتماد میں تیزی سے کمی کی وجہ سے ہوئی ہے جو معاشی سست روی کو مزید گہرا کر رہی ہے۔ جاپان میں حکمراں جماعت ایل ڈی پی اپنی پارلیمانی اکثریت کھو چکی ہے۔ جرمنی میں حکومت گر چکی ہے۔ روس یوکرین کے ساتھ جنگ کی حالت میں ہے اور برطانیہ کو اہم سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے۔
بیجنگ سے گیارہ ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر امریکی معیشت پھل پھول رہی ہے، نیویارک اسٹاک ایکس چینج (این وائی ایس ای) ریکارڈ بلندیوں پر پہنچی ہوئی ہے جو سرمایہ کاروں کے مضبوط اعتماد کی عکاسی ہے۔ امریکی ٹیک سیکٹر اعتماد اور امید سے بھرا ہوا ہے۔ صارفین کا اعتماد زیادہ ہے اور بے روزگاری کم ہے۔ 13ارب پتی افراد پر مشتمل کابینہ میں دولت اور نجی شعبے کی مہارت کا امتزاج ہے، جس میں آگے بڑھنے کی پالیسیوں کا وعدہ کیا گیا ہے۔ نئے وزیر خارجہ مارکو روبیو امریکا کی خارجہ پالیسی میں شعلہ انگیز اور غیرمتزلزل برتری لانے کے لیے تیار ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ نے یوکرین کو خاصی بڑی امداد دی تھی، تاہم ٹرمپ ایسے موڈ میں نہیں۔ وہ امریکی مدد ایسے کسی بھی ملک کو لٹانے کے حق میں نہیں۔ یوکرین روس جنگ ختم ہوگئی تو امکانات ہیں کہ آئل، گیس پرائسز کچھ کم ہو جائیں، اس کا پاکستان میں صارفین کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ غزہ میں جنگ بندی بنیادی طور پر ٹرمپ کا انیشیٹیو تھی، اس پر عملدرآمد بھی ان کی حکومت ہی کرائے گی۔ دوسری جانب ٹرمپ کے ایجنڈے میں خاصا کچھ مقامی ہے، وہ امریکی حکومت کے اخراجات گھٹانے کی کوشش کریں گے، اس مقصد کے لیے ایلون مسک سے استفادہ کیا جائے گا۔مقامی امریکیوں کی معیشت بہتر بنانے کے لیے بہت سے سکل بیس ٹریننگ پروگرام شروع ہوں گے، نئی جابز نکالی جائیں گی اور جدید اکانومی کے بدلتے رجحانات کی طرف نوجوانوں کو لے جایا جائے گا۔ٹرمپ کو ایلون مسک جیسے وژنری کی خدمات حاصل ہیں جو آوٹ آف باکس سوچ سکتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اْٹھاتے ہی انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی قبضہ گروپوں اور افراد پر بائیڈن انتظامیہ کی عائد کردہ پابندیاں ختم کر دیں۔ یہ پابندیاں اْن 78 ایگزیکٹو احکامات میں شامل ہیں جنھیں ٹرمپ نے دفتر سنبھالتے ہی منسوخ کر دیا ہے۔سابق صدر جو بائیڈن کے ایک بڑے پالیسی اقدام کے تحت متعدد اسرائیلی قابضین اور اداروں پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں اور اْن کے امریکی اثاثے منجمد کر دیے گئے تھے، یہ قابضین یا اسرائیلی آبادکار مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف پْرتشدد کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے 1,660 افغانوں کے لیے پروازیں منسوخ کردیں، جنھیں امریکا میں دوبارہ آباد ہونے کے لیے کلیئر کر دیا گیا تھا۔ اس فیصلے نے بطور پناہ گزین وہاں آباد ہونے کے منتظر ہزاروں دیگر افغانوں کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ گروپ میں بچے بھی شامل ہیں جو امریکا میں اپنے خاندانوں سے دوبارہ ملنے کے منتظر ہیں اور وہ افغان شہری بھی جنھیں طالبان سے انتقام کا خطرہ ہے کیونکہ انھوں نے سابق امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کا ساتھ دیا تھا۔ اس فیصلے نے ان ہزاروں دیگر افغانوں کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے، جنھیں امریکا میں پناہ گزینوں کے طور پر آباد ہونے کی منظوری دی گئی تھی لیکن انھیں ابھی تک افغانستان یا پاکستان سے پروازیں نہیں ملیں۔یقیناً ٹرمپ کی انتظامیہ کے اس فیصلے سے لوگوں کو طالبان کی طرف سے انتقامی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے زور دیا ہے کہ افغانستان کو مستقبل میں دی جانے والی مالی امداد کا دارومدار طالبان رہنماؤں کی جانب سے امریکی فوجی ساز و سامان کی واپسی پر ہوگا، جب کہ طالبان نے اربوں مالیت کا امریکی اسلحہ واپس کرنے کے ٹرمپ کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ طالبان 2021ء میں افغانستان سے نکلنے کے دوران امریکی فوجیوں کے پیچھے چھوڑا گیا کوئی بھی فوجی سازوسامان واپس نہیں کرینگے۔طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ ہتھیار واپسی کی بجائے، داعش سے لڑنے کے لیے امریکا مزید جدید اسلحہ دے، ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکی طیارے، سازوسامان اور آلات واپس نہ کیے تو تمام مالی امداد بند کر دینگے، افغانستان میں چھوڑے گئے امریکی فوجی سازوسامان کی مالیت 7 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔افغانستان میں وارلاڈز اور دہشت گرد گروہوں کی پناہ گاہوں کا خاتمہ ضروری ہے، ورنہ افغانستان کے پڑوسی ممالک دہشت گردی کا شکار رہیں گے۔
کیا ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اس نئے دور میں بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کو سمجھ سکیں گے اور کیا عالمی سطح پر کچھ امن اور سکون پیدا ہو سکے گا؟ ان سوالات کے جوابات ظاہر ہے آنے والا وقت ہی دے گا۔حالیہ صدارتی انتخابات امریکی سیاسی نظام کے مستقبل کو ایک نئی سمت کی طرف لے گئے ہیں اور عوام کے لیے یہ تبدیلی کئی اہم معاملات پر اثر انداز ہو گی۔کانگریس اور سینیٹ میں اکثریت ہونے کی وجہ سے ریپبلکن پارٹی کو اپنے قوانین اور پالیسیز نافذ کرنے میں ڈیموکریٹس پارٹی کی مخالفت کا سامنا کم کرنا پڑے گا۔ان پالیسیوں کے نتیجے میں امریکی عوام ٹیکس میں چھوٹ، قومی سلامتی میں سختی اور عالمی اتحادیوں کے ساتھ محتاط رویہ اختیار کیے جانے کی توقع کر رہے ہیں۔
دوسری جانب ڈیموکریٹس پارٹی شکست کے بعد اب ایک چیلنجنگ پوزیشن میں آ گئی ہے جہاں انھیں ایوان میں اپنے ایجنڈے کو برقرار رکھنے کے لیے کوئی زبردست حکمت عملی اپنانی ہو گی کیونکہ وہ مستقبل میں اپوزیشن کی حیثیت سے کام کریں گے اور ہو سکتا ہے کہ وہ ممکنہ طور پر بعض اقدامات کو روکنے کے لیے مختلف فورمز پر اپنی آواز بھی بلند کریں۔ ٹرمپ نے انتہائی جارحانہ خارجہ پالیسی اختیار کی ہے، جس سے بین الاقوامی منظر نامہ غیر مستحکم ہوتا دکھائی دے رہا ہے جس کی وجہ سے امریکا کئی ممالک کے ساتھ براہ راست تصادم اور غیر متوقع جنگی حربے استعمال کر سکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: افغانستان میں ڈونلڈ ٹرمپ نے خارجہ پالیسی امریکا میں کی وجہ سے کا سامنا کے ساتھ ٹرمپ کے دیا ہے کے لیے
پڑھیں:
تبدیل ہوتی دنیا
صدر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسیز کے تحت پوری دنیا ایک تبدیلی کی لپیٹ میں ہے۔ صدر ٹرمپ کے اقدامات جو وہ آزاد تجارت کو کچلنے کے لیے اٹھا رہے ہیں، ایسی پالیسیز ماضی میں امریکا کے کسی صدر نے نہیں لاگو کیں اور دوسری طرف ہیں ماحولیاتی چیلنجز جن کا سامنا ہم نے کرنا ہے۔
انٹارکٹیکا اور الاسکا جو دنیا کے نارتھ اور ساؤتھ پول ہیں وہاں برف کے گلیشئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ یقینا سمندر کی سطح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ہزاروں ارب ڈالر کی اراضی اور اثاثے سمندر نگل رہا ہے۔ بہت سے علاقوں سے لوگوں کی نقل مکانی شروع ہو چکی ہے۔ تیسری مائیکرو چپ نے وہ جوہر دکھائے ہیں کہ مصنوعی ذہانت ایک حقیقت سے زیادہ ضرورت بنتی جا رہی ہے۔
ٹرمپ کی پالیسیز دنیا کی آزاد تجارت کو کچلنے کے مترادف ہیں، ان پالیسیز نے نہ صرف دنیا بھرکے ممالک کی اسٹاک ایکسچینج کو شدید نقصان پہنچایا ہے بلکہ یہ پالیسیز خود امریکا کی معیشت کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہیں۔
امریکا کی بانڈز مارکیٹ دنیا کی مضبوط ترین مارکیٹ تھی۔ دنیا میں جہاں بھی سر پلس ہوا وہ امریکی حکومت کے (بانڈز) خرید کرتے تھے مگر اب ٹرمپ کی حکومت میں دنیا امریکی بانڈز خریدنے سے شش و پنج میں ہے۔ ٹرمپ کے صدر بننے سے پہلے میں نے اپنے کالم میں یہی لکھا تھا کہ سٹہ لگانے والے اس بات کو سمجھ رہے ہیں کہ ٹرمپ کی حکومت میں ڈرٹی کیپیٹل ازم پروان چڑھے گا۔
اسٹاک ایکسچینج کو ایک دم سے گرایا بھی جائے گا اور اچانک بڑھایا بھی جائے گا اور اس اتار چڑھاؤ سے کچھ مخصوص لوگ مستفید ہوںگے۔ جب صدر ٹرمپ نے چین اور دیگر ممالک جو امریکا کو اپنی اشیاء ایکسپورٹ کرتے تھے، ان پر بھاری ٹیرف عائد کیے تو اسٹاک مارکیٹ نے لگ بھگ پانچ ہزار ارب ڈالرگنوا دیے۔
ان کے اثاثوں کی قیمت گر گئی۔ پھر چند ہی دنوں میں صدر ٹرمپ نے ٹیرف عائد کرنے کا یہ فیصلہ واپس لے لیا اور نیو یارک اسٹاک مارکیٹ واپس چار ہزار ڈالر چڑھ گئی۔ ٹرمپ کے مخالف ڈیموکریٹس کا یہ کہنا ہے کہ ٹرمپ کے قریبی لوگوں کے پاس پہلے سے ہی یہ اطلاعات تھیں جن سے انھوں نے اربوں ڈالرکمائے ہوںگے۔
مشرقِ وسطیٰ کے محاذ پر ٹرمپ کی پالیسیاں، تضادات کو تیزکررہی ہیں۔ یوکرین کی معدنیات پر ٹرمپ حکومت اپنا قبضہ جمانا چاہتی ہے۔ یورپ جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکا کا سب سے بڑا اتحادی تھا، وہ امریکا سے بدظن ہوچکا ہے۔
امریکا کی اب کوشش یہ ہے کہ روس سے تعلقات بہتر کیے جائیں، روس اور چین کے تعلقات میں دراڑیں ڈالی جائیں۔ دوسری طرف یورپین یونین، امریکا کی ان غیر مستقل مزاج پالیسیزکو دیکھتے ہوئے دنیا کے اندر ایک نئے عالمی لیڈر کی طرف دیکھ رہی ہے اور یہ نیا لیڈر چین بھی ہو سکتا ہے۔
اس تمام منظرنامے میں ایک نئی قوت اور تیسری بڑی عالمی قیادت بہت تیزی سے ابھر رہی ہے وہ ہے بھارت۔ امریکا کی بیشترکمپنیوں نے ٹرمپ کے اتحادی ایلون مسک کی گاڑیوں کا بائیکاٹ کردیا ہے۔ اسی طرح یورپ نے بھی جس سے ایلون مسک کو لگ بھگ ایک ہزار ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
مگر اس دنیا کی تیزی میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم اس قابل ہیں کہ آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کرسکیں؟ کیا ہماری کوئی تیاری ہے؟کیا ہم نے کوئی متبادل راستہ ڈھونڈا ہے، جب صدر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی ہم پر بھی لاگو ہوںگی۔
ہمارا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر امریکا ہے۔ یقینا ہم پر بھی ان پالیسیز کے منفی اثرات مرتب ہوںگے۔ امریکا یہ چاہے گا کہ پاکستان پر اسی طرح کے دباؤ ڈال کرکچھ شرائط عائد کی جائیں اور ان شرائط کی مد میں اپنے من پسند کام لیے جائیں۔
پاکستان کی سیاست میں جب بھی امریکا نے پالیسیز بنائیں، ان سے پاکستان میں جمہوریت کو شدید نقصان پہنچااور خاص کر ان ادوار میں جب امریکا میں ری پبلیکن کا دورِ ہو۔یہ ہماری غلط فہمی ہوگی، اگر ہم یہ سوچ رہے ہیں افغانستان، امریکا سے ٹکراؤ بڑھائے گا،کیونکہ امریکا کو بٹگرام ایئر پورٹ واپس چاہیے۔
امریکا نے اس حوالے اپنی درخواست ، طالبان کے آگے پیش بھی کردی ہے۔ امریکا، ایران کے ساتھ فوجی محاذ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے، اس منظرنامے میں دونوں ہی ممالک ہمارے پڑوسی ہیں۔ دنیا کی تیسری طاقت یعنی ہندوستان بھی ہمارا پڑوسی ہے۔
اگر ہم امریکا کا جائزہ لیں تو داخلی اعتبار سے موجودہ انتظامیہ میں، پاکستان کوئی دیرینہ دوست نہیں رکھتا۔ ہماری موجودہ سول قیادت ایک سال گزار چکی ہے لیکن اسٹبلشمنٹ کو اس حکومت کو ہٹانے کے لیے زیادہ دقت کا سامنا نہیں ہوگا۔
بس ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ جو معاشی بحران عمران خان کی حکومت میں آیا تھا، اب ملک اس بحر ان سے نکل چکا ہے۔ اس کا کریڈٹ یقینا شہباز شریف اور اس کی ٹیم کو جاتا ہے۔ اس دورِ حکومت میں پارلیمنٹ اور سول حکومت اتنی آزاد نہیں جتنی آزادی بانی پی ٹی آئی کے دور میں میسر تھی۔
بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے صوبوں میں جو ہلچل مچی ہوئی ہے، اس تیزی میں اس حکومت کے خلاف آوازیں ابھر رہی ہیں۔ موجودہ بحران بانی پی ٹی آئی کے لیے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت کرنے کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ امریکا کی مداخلت ہمیشہ پاکستان کی داخلی سیاست میں رہی۔ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں ہمارے جیسے ممالک اپنی آزاد خارجہ پالیسی بنانے میں آزاد نہیں رہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا کے اسٹیج پر پہلی مرتبہ اتنی نمایاں اور واضح تبدیلی نظر آرہی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے اعداد و شمار کے تحت پاکستان دنیا کے سات ملکوں میں شمار ہوتا ہے جو اس بحران کا شکار ہیں۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کی ساحلی پٹی پر بڑی واضح تبدیلیاں آئی ہیں جس سے نقل و حمل کے امکانات زیادہ ہوگئے ہیں۔
ہماری داخلی سیاست انتہائی کمزور ہے۔ کسی مضبوط سول قیادت کا وجود نہیں جو ابھرتے ہوئے بین الاقوامی ٹکراؤ میں بھرپور انداز میں ہماری ترجمانی کرسکے بلکہ ایسی مضبوط سول قیادت بھی میسر نہیں جو چار یا تین صوبوں میں یکساں طور پر مقبول ہو۔ فیڈریشن کے حوالے سے پاکستان اس وقت انتہائی نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ یہاں بلوچستان کا بیانیہ الگ ہے۔ خیبر پختونخوا کا بیانیہ الگ ہے اور اب سندھ میں بھی ایک نیا بیانیہ جنم لے چکا ہے۔
یہ تبدیلیاں بڑی تیزی سے آرہی ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد کانگریس نے انگریز حکومت کے خلاف ’’ہندوستان چھوڑ دو ‘‘ کی تحریک چلائی اور ان تحاریک میں سبھاش چندر بوس جیسے لیڈر تھے جنھوں نے انگریز سامراج کو کمزور دیکھتے ہوئے جارحانہ انداز اپنایا۔صرف امید کی کرن ہے ٹیکنالوجی کے اندر انقلاب ! اس انقلاب میں چین امریکا کے ساتھ کھڑا ہے۔
لاکھ بحران سہی لیکن اس ٹیکنالوجی نے دنیا کو ایک کردیا ہے۔ پچیس سالوں سے دنیا میں آزاد تجارت کا سکہ چل رہا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی نے مزید سے مزید ترقی پائی۔صدر ٹرمپ اس وقت جو اقدامات کر رہے ہیں وہ دنیا کی آزاد تجارت کو کچل دیں گے۔
دائیں بازو کی پاپولر ازم بھی اس وقت اپنی انتہا پر ہے۔ یقینا اس کا زوال بھی ہوگا مگر جانے سے پہلے جو منفی اثرات چھوڑے گا، وہ دنیا کے لیے بہت خطرناک ہوںگے۔ ماحولیاتی تبدیلیاں اگر اسی رفتار سے رواں رہیں تو دنیا ایک بہت بڑے بحران میں داخل ہو رہی ہے اور اگر ماحولیاتی تبدیلیاں ایسے بحران کو جنم نہیں دیتیں تو دائیں بازو کے پاپولر ازم کو شکست ہوگی جو دنیا کو اس وقت تیسری جنگِ عظیم کے دہانے لے آیا ہے۔