سیف علی خان ایک اور مشکل میں پھنس گئے، 15 ہزار کروڑ کی جائیداد ضبط ہونے کا خطرہ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
نئی دہلی (شوبز ڈیسک)کچھ روز قبل چاقو حملے میں زخمی ہونے والے بالی وڈ کے معروف اداکار سیف علی خان کو ایک مشکل نے گھیر لیا ہے، اور ان کی جائیداد پر حکومت کی جانب سے قبضہ کرنے کا امکان ہے۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ مدھیہ پردیش ریاست کی عدالت نے ایک کیس کی سماعت کے دوران پٹودی خاندان کی جائیدادوں پر حکم امتناع اٹھا لیا ہے، جن کی مالیت قریباً 15 ہزار کروڑ بھارتی روپے بنتی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سیف علی خان کا خاندان 1968 کے اینمی پراپرٹی ایکٹ کے تحت اپنی اراضی سے ہاتھ دھو سکتا ہے۔ ان جائیدادوں میں فلیگ اسٹاف ہاؤس بھی شامل ہے جہاں سیف علی خان نے اپنے بچپن کے دن گزارے۔
اس کے علاوہ نورالصباح پیلس، دارالسلام، حبیبی کا بنگلہ، احمد آباد پیلس، کوہیفزہ پراپرٹی اور دیگر جائیدادیں شامل ہیں۔
بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ ہائیکورٹ کے جج نے سماعت کے دوران متعلقہ فریقوں کو 30 روز کے اندر نمائندگی داخل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
اینمی پراپرٹی ایکٹ ہے کیا؟
اینمی پراپرٹی ایکٹ مرکزی حکومت کو ان افراد کی ملکیت کا دعویٰ کرنے کی اجازت دیتا ہے جو تقسیم کے بعد پاکستان ہجرت کر گئے تھے۔
خاندانی پس منظر
نواب حمیداللہ خان بھوپال کے آخری نواب تھے جن کی تین بیٹیاں تھیں۔ ان کی سب سے بڑی بیٹی عابدہ سلطان نے 1950 میں پاکستان ہجرت کی، جبکہ دوسری بیٹی ساجدہ سلطان بھارت میں ہی رہیں اور نواب افتخار علی خان پٹودی سے شادی کی جس کے بعد وہ ان کی جائیداد کی قانونی وارث بن گئیں۔
یوں ساجدہ سلطانہ کے پوتے بالی وڈ اداکار سیف علی خان کو وراثت میں یہ پراپرٹی ملی۔
میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے جب عابدہ سلطان کی ہجرت پر کیس بنایا گیا، اس کے بعد سے اس جائیداد کو ’اینمی پراپرٹی‘ قرار دیا گیا ہے، اب عدالت اس پر حتمی فیصلہ کیا کرتی ہے اس کا سب کو انتظار ہے۔
مزیدپڑھیں:نئی ٹیسٹ رینکنگ جاری، کس کھلاڑی کی ترقی ہوئی اور کس کی تنزلی؟
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اینمی پراپرٹی سیف علی خان کی جائیداد
پڑھیں:
نئی نہروں کے معاملے میں مزید شدت،بین الصوبائی تجارت کو مفلوج، ہزاروں گاڑیاں پھنس گئیں۔
سندھ میں نئی نہریں نکالنے کے فیصلے کے خلاف عوامی ردعمل شدت اختیار کر گیا ہے۔ خیرپور کے قریب ببرلو بائی پاس پر وکلا کے دھرنے نے چوتھے روز میں داخل ہو کر ملک کی بین الصوبائی تجارت کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ دھرنے کے باعث نیشنل ہائی وے پر ہزاروں گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں، جن میں ٹرک، مال بردار گاڑیاں اور مویشیوں سے لدی ٹرانسپورٹ شامل ہے۔ کروڑوں روپے مالیت کا سامان خراب ہونے کے خدشے کے پیش نظر کئی گاڑیاں واپس لوٹ گئیں۔ ڈرائیورز کا کہنا ہے کہ آبادی سے دور پھنسی گاڑیوں میں لوٹ مار کی وارداتیں ہو رہی ہیں جبکہ مویشیوں کی ہلاکت کے خدشات نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔سکھر، نوشہروفیروز، خیرپور، گھوٹکی اور ڈہرکی سمیت مختلف شہروں میں بھی دھرنے اور احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ ڈہرکی میں مظاہرین نے دیگر صوبوں کو سامان کی فراہمی روک دی ہے۔مظاہرین نے وفاقی حکومت کو 72 گھنٹے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو مہلت ختم ہونے پر آئندہ کا لائحہ عمل سخت تر ہوگا۔