اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 جنوری 2025ء) حال ہی میں افغانستان کے ایک ایسے سرحدی قصبے کا دورہ کر کے لوٹنے والے این آر سی کے سیکرٹری جنرل ین ایگیلنڈ نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا، ''اسلام قلعہ سرحدی گزرگاہ سے روزانہ تقریباﹰ 3,000 افراد ایران سے افغانستان میں داخل ہوتے ہیں۔‘‘

پاکستان: کسی بھی رجسٹرڈ افغان کو 30 جون تک ڈی پورٹ نہیں کیا جائے گا

ایران سے نکالے گئے افغان مہاجرین کی مشکلات

انہوں نے کہا کہ یہ زیادہ تر ایسے لوگ ہیں جنہیں جلاوطن یا ملک بدر کیا گیا ہے۔

ایگیلنڈ نے کہا، ''یہ لوگ ایک ایسے وقت میں افغانستان واپس پہنچ رہے ہیں جب وہاں سخت سردی اور انسانی حوالے سے بحرانی صورتحال کے سبب 22.

9 ملین افراد متاثر ہیں اور جنہیں پہلے ہی امداد کی اشد ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

‘‘

ایرانی حکام نے گزشتہ سال اعلان کیا تھا کہ وہ مارچ سن 2025 کے آخر تک تقریباﹰ 20 لاکھ ایسے غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جن کے پاس قانونی رہائشی اجازت نامہ نہیں ہے۔

ایران میں کئی ماہ سے ان افغان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد پر سیاسی بحث جاری ہے، جو تین سال قبل افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد وہاں سے فرار ہوکر ایران چلے گئے تھے۔

این آر سی کے مطابق افغانستان کا دوسرا ہمسایہ ملک پاکستان پہلے ہی 800,000 افغانوں کو ملک بدر کر چکا ہے۔

ایگیلنڈ کے مطابق ایران اور پاکستان کو دنیا میں سب سے زیادہ پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والے ممالک میں شامل ہونے کے باوجود بین الاقوامی برادری سے بہت کم مدد ملی ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کا اندازہ ہے کہ تقریبا 45 لاکھ افغان ایران میں رہ رہے ہیں، جن میں سے بیشتر کے پاس قانونی رہائشی اجازت نامہ نہیں ہے۔ ایرانی میڈیا کے مطابق تاہم یہ تعداد 60 سے 80 لاکھ کے درمیان ہے۔

خیال رہے کہ ایران اور افغانستان کے درمیان 900 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد ہے جہاں سرحدی کنٹرول ایک مشکل کام ہے۔ ایران اس وقت ملک کے شمال مشرق میں ایک محفوظ سرحدی دیوار تعمیر کر رہا ہے۔

ا ب ا/ع ب (ڈی پی اے)

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ملک بدر

پڑھیں:

اسحاق ڈارکے دورہ کابل میں اعلانات حوصلہ افزا

اسلام آباد(طارق محمود سمیر) نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے افغانستان کا اہم دورہ کیا ،دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ صورتحال اور تحفظات
تھے ،افغانستان کی حدود سے جو دہشت گردی ہورہی تھی اس پر حکومت پاکستان کے تحفظات تھے،اس سارے معاملے میں اہم پیشرفت ہوئی ہے ، اسحاق ڈار کا کابل جانااور وہاں افغان قیادت کے ساتھ ملاقاتیںکرنا اور اس میں جو اعلانات کئے گئے وہ بڑے حوصلہ افزا اور خوش آئند ہیں ، اس میں سب سے بڑا اعلان جوکیا گیا وہ یہ کہ دہشت گردی کے لئے دونوں ممالک اپنی سرزمین کسی کو استعمال نہیںکرنے دیںگے ،پھر افغانستان سے تجارتی سامان کی نقل و حمل کے حوالے سے افغان حکومت کے مطالبے پر کہ بینک گارنٹی کے ساتھ ساتھ انشورنس گارنٹی قابل قبول ہوگی ، اس کے علاوہ وفودکے تبادلے ہونے ہیں،افغان مہاجرین کے حوالے سے بھی ایک کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے،افغان شہریوں کی پاکستان کے اندر جائیدادیں وہ جب پاکستان چھوڑ کر جائیں گے تو جائیداد فروخت کرنے کی اجازت ہوگی ،سازوسامان بھی ساتھ لے جانے کی اجازت ہوگی اور انہیں عزت واحترام کیساتھ بھیجا جائیگا،اس دورے کا مقصد اگر دیکھا جائے تو اس میں پاکستان کے لئے سب سے بڑے دو مسائل تھے ایک دہشت گردی اور دوسرا افغان مہاجرین کی باعزت طریقے سے واپسی یقینی بنانا تھا، دہشت گردی کے تناظر میں جو اعلان کیا گیا ہے وہ بڑا خوش آئند ہے ، پہلے بھی افغانستان کی جانب سے اعلانات کئے گئے لیکن عملاً کوئی اقدامات نہیںکئے گئے ،ٹی ٹی پی کے ساتھ 2021میں جو معاہدہ ہوا اس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں دہشتگرد تنظیم کے عہدیدار پاکستان آئے اوروہ منظم ہوگئے اور دہشت گردی بڑھتی گئی اور حالیہ عرصے میں دہشت گردی میں 60فیصد اضافہ ہوا،پاکستان کو دہشت گردی کا سب سے بڑا سامنا افغانستان کے اندر سے ہے، پھر بلوچستان کی جو صورتحال ہے، بی ایل اے کو بھارت کی حمایت حاصل ہے اور افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کیخلاف دہشتگردی کے لئے استعمال کر رہا ہے۔اگر اب افغان حکومت پاکستان کی شکایات دور نہیں کرتی تو یہ مناسب نہیں ہوگا کہ تجارت کے شعبے میں ان کے مطالبات من وعن پورے کئے جائیں۔کہا جارہا ہے کہ افغان وزیر خارجہ جلد پاکستان کے دورے پر آئیں گے ، اس دورے کے تناظر میں بھی دیکھا جائے توگفت وشنید بڑی اچھی بات ہے اور اس سارے معاملے میں پیشرفت کرانے میں افغانستان کیلئے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق خان کے رابطے کام آئے ہیں،ایک اور بھی رپورٹ آئی ہے کہ افغانستان کے اندر سے خطرناک اسلحہ جو امریکی فوج چھوڑ کر گئی وہ بھی دہشت گردوں کے ہاتھ لگا ہوا ہے ،اس میں مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کے اندر دہشتگردی کم ہو ، اگر افغانستان ہمارے ساتھ حقیقی معنوں میں تعاون کرتا ہے اوردہشت گردی پر قابو پالیا گیا تو پاکستان کے اندر بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے ۔لاہور کی سیشن عدالت میں ایک اہم کیس زیر سماعت ہے ،شہبازشریف کی جانب سے عمران خان کے خلاف دس ارب ہرجانے کا کیس، اپریل 2017 میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے ایک جلسے کے دوران الزام عائد کیا تھا کہ انہیں پاناما لیکس کے معاملے پر خاموش رہنے اور مؤقف سے دستبردار ہونے کے بدلے میں اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی جانب سے 10 ارب روپے کی پیشکش کی گئی۔اس الزام کے جواب میں شہباز شریف نے جولائی 2017 میں لاہور کی سیشن عدالت میں عمران خان کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا۔دعوے میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ شہباز شریف، جو اس وقت وزیراعظم نواز شریف کے بھائی اور خود پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے، ایک معزز سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں اور اُن کی عوامی خدمات کی وجہ سے انہیں قومی و بین الاقوامی سطح پر عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔اس سے قبل بھی شہباز شریف نے عمران خان کو ایک قانونی نوٹس بھیجا تھا جس میں جاوید صادق کو مبینہ فرنٹ مین قرار دے کر اربوں روپے کمانے کے الزام پر معافی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔عمران خان نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر جاری کردہ ایک ویڈیو میں کہا تھا کہ اگر وہ اور اُن کی جماعت پاناما لیکس پر خاموش ہو جائیں تو حکمران جماعت اُنہیں خاموش کرانے کے لیے بڑی مالی پیشکش کر سکتی ہے اور اس دعوے کی مثال کے طور پر انہوں نے 10 ارب روپے کی آفر کا ذکر کیا۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • افغان باشندوں کی وطن واپسی میں حالیہ کمی، وجوہات کیا ہیں؟
  • معیشت، ڈرائیونگ فورس جو پاک افغان تعلقات بہتر کر رہی ہے
  • 3387 مزید غیر قانونی افغان باشندے باحفاظت افغانستان روانہ
  • تعلیم پر روزانہ 59 ہزار روپے خرچ کرنیوالی جاپانی گلوکارہ
  • پاکستان اور افغانستان: تاریخ، تضاد اور تعلقات کی نئی کروٹ
  • پاک افغان تعلقات کا نیا آغاز
  • نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کا ایران اور افغانستان کے وزرائے خارجہ سے ٹیلی فونک رابطہ
  • مزید 4 ہزار سے زائد غیر قانونی افغان باشندے بے دخل
  • پشاور: مزید 4 ہزار سے زائد غیر قانونی افغان باشندے بے دخل
  • اسحاق ڈارکے دورہ کابل میں اعلانات حوصلہ افزا