حکومت کو تحریری مطالبات دے دیئے ، جواب کیلئے7دن ہیں،بیرسٹر علی ظفر
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
حکومت کو تحریری مطالبات دے دیئے ، جواب کیلئے7دن ہیں،بیرسٹر علی ظفر WhatsAppFacebookTwitter 0 22 January, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس )رہنما تحریک انصاف علی ظفر نے کہا ہے کہ حکومت کو تحریری مطالبات دے دیئے ، جواب کیلئے7دن ہیں۔
وفاقی دارالحکومت میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے علی ظفر کا کہنا تھا کہ القادر ٹرسٹ کے معاملے میں این سی اے نے شک کی بنیاد پر انکوائری شروع کی، این سی اے نے پیسے کو ڈی فریز کر دیا، یوکے قانون کے مطابق اگر پیسہ چوری کا ہو تو ڈی فریز نہیں ہو سکتا۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اور برطانوی کورٹ نے بھی کہا کہ یہ پیسہ چوری کا نہیں ہے، نیب نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی کابینہ نے پیسے ڈی فریز کرنے کا کہا ہے ۔
بیرسٹر علی ظفرکا کہنا تھا کہ حکومت کو تحریری مطالبات دے دیئے ہیں انہوں نے7دن میں جواب دینا ہے، حکومت نے جواب نہ دیا تو مذاکراتی میٹنگ نہیں ہو گی۔رہنما تحریک انصاف نے مزید کہا کہ تفتیشی افسر نے بتایا پراپرٹی ٹائیکون اور ان کے بیٹے کیخلاف کیس نہیں بنتا، برطانوی کورٹ کوبتایا گیا پیسے سے متعلق کوئی شکوک وشہبات نہیں، پورے کیس کی عمارت جوکھڑی ہے کہ یہ پیسہ چوری کا ہے، پیسہ سپریم کورٹ کے اکاونٹ میں کابینہ کے فیصلے سے پہلے آیا، پیسہ این سی اے نے 2018 میں منجمد کیا تھا۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: حکومت کو تحریری مطالبات دے دیئے علی ظفر کہا کہ
پڑھیں:
ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس، جوڈیشل کمیشن، رجسٹرار سپریم اور وزارت قانون نے جواب جمع کروا دیا
سپریم کورٹ میں زیر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی ٹرانسفر اور سینیارٹی سے متعلق کیس میں جوڈیشل کمیشن، رجسٹرار سپریم کورٹ اور وزارت قانون نے اپنا تحریری جواب جمع کروا دیا ہے۔
جوڈیشل کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے جواب میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ کمیشن کا مینڈیٹ آئین کے آرٹیکل 175(A) میں واضح کیا گیا ہے، جس کے تحت سپریم کورٹ، ہائیکورٹس اور فیڈرل شریعت کورٹ میں ججز کی تقرری بنیادی ذمہ داری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے ججز ٹرانسفر کی حمایت کیوں کی؟
جوڈیشل کمیشن کا کہن اہے کہ ججز کی ٹرانسفر کے معاملے میں آئینی طور پر جوڈیشل کمیشن کا کوئی کردار نہیں، تحریری جواب سیکریٹری جوڈیشل کمیشن، نیاز محمد کی جانب سے جمع کروایا گیا۔
رجسٹرار سپریم کورٹ کا مؤقفدوسری جانب رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب میں آئین کے آرٹیکل 200(1) کا حوالہ دیا گیا ہے، صدر کسی ہائیکورٹ کے جج کو اس کی رضا مندی، چیف جسٹس پاکستان اور دونوں ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے مشاورت کے بعد، کسی دوسرے ہائیکورٹ میں منتقل کرسکتا ہے۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 200(1) کے تحت وضع کردہ طریقہ کار کو مدنظر رکھتے ہوئے، وزارت قانون و انصاف نے 01-02-2025 کو ایک خط کے ذریعے معزز چیف جسٹس آف پاکستان سے ججز کے تبادلے کی مشاورت حاصل کی۔
یہ بھی پڑھیں: ججز سنیارٹی کیس: وفاقی حکومت کی تمام درخواستیں خارج کرنے کی استدعا
یہ مشاورت چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف سے 01-02-2025 کو فراہم کی گئی، اس جواب کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔
وزارت قانون نے بتایا کہ یکم فروری کو چیف جسٹس آف پاکستان سے ججز کی ٹرانسفر پر رائے طلب کی گئی تھی، اور چیف جسٹس نے اسی روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے لیے ججز کی ٹرانسفر پر رضامندی ظاہر کرتے ہوئے معاملہ واپس وزارت کو بھیج دیا تھا۔
وزارت قانون کا جوابوزارت قانون کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ یکم فروری کو چیف جسٹس آف پاکستان سے ججز کی ٹرانسفر پر رائے طلب کی گئی تھی، اور چیف جسٹس نے اسی روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے لیے ججز کی ٹرانسفر پر رضامندی ظاہر کرتے ہوئے معاملہ واپس وزارت کو بھیج دیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر کیس جوڈیشل کمیشن رجسٹرار سپریم کورٹ سپریم کورٹ سنیارٹی وزارت قانون