بیجنگ:ورلڈ اکنامک فورم کا سالانہ اجلاس 2025 سوئٹزرلینڈ کے ڈیووس میں جاری ہے۔ دنیا میں سب سے بااثر بین الاقوامی غیر سرکاری اقتصادی فورمز میں سے ایک کی حیثیت سے ، ورلڈ اکنامک فورم عالمی اقتصادی امور پر تبادلہ خیال کرنے اور بین الاقوامی تبادلوں اور تعاون کو فروغ دینے کے لئے ایک اہم پلیٹ فارم ہے۔ موجودہ اجلاس میں کئی ممالک کے سیاسی رہنماؤں سمیت 130 ممالک اور علاقوں کے تقریباً 3000 مندوبین فورم میں شرکت کر رہے ہیں ۔ “ذہین دور میں تعاون” کے موضوع کے ساتھ ، فورم کے موجودہ سالانہ اجلاس میں جغرافیائی سیاسی بحران ، گلوبلائزیشن کی “مشکلات” ، موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجوں میں شدت ، اور نئی ٹیکنالوجیوں کے ذریعے عالمی ترقی کی نئی صورتحال سمیت مشترکہ چیلنجوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔اجلاس کے آغاز سے قبل ورلڈ اکنامک فورم نے “گلوبل کوآپریشن بیرومیٹر”، “گلوبل رسکس رپورٹ 2025” اور “چیف اکانومسٹ آؤٹ لک” جیسی رپورٹوں کا ایک سلسلہ جاری کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بڑھتے ہوئے جغرافیائی سیاسی تنازعات اور بڑھتی ہوئی غیر مستحکم صورتحال کے باعث عالمی تعاون کے نظام کو چیلنجز کا سامنا ہے۔ سروے میں شامل نصف سے زیادہ ماہرین اقتصادیات کا ماننا ہے کہ تجارتی تحفظ پسندی اور عالمی معاشی تقسیم شدت اختیار کر رہی ہے، عوامی قرضے اور افراط زر کی بلند شرح معاشی نمو میں کمی کا موجب ہے، اور مختلف علاقوں میں معاشی بحالی غیر متوازن ہے۔آج کی دنیا میں بین الاقوامی صورتحال بدل رہی ہے ، موسمیاتی تبدیلی، غذائی تحفظ اور توانائی کے تحفظ سمیت دیگر مسائل یکے بعد دیگرے ابھر رہے ہیں اور بین الاقوامی نظام، بین الاقوامی نظم و نسق اور بڑے ممالک کے درمیان تعلقات میں گہری تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ اس حوالے سے چین کے نائب وزیر اعظم ڈنگ شیوئی شیانگ نے 21 جنوری کو سالانہ اجلاس سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صرف “مل کر کام کرنے” اور تعاون کو مضبوط بنانے سے ہی ہم مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں اور ایک بہتر مستقبل تشکیل دے سکتے ہیں۔ چین کے صدر شی جن پھنگ نے گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو، گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو اور گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو جیسے اہم اقدام پیش کیے ہیں جس نے دنیا کو اہم پبلک گڈز فراہم کی ہیں۔ ہمیں تینوں گلوبل انیشی ایٹوزکو فروغ دینے کے لئے مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ قوت محرکہ سے بھرپور ترقی کو فروغ مل سکے اور مشکلات اور چیلنجوں پر قابو پانے کی طاقت کو یکجا کیا جا سکے۔حالیہ برسوں میں، عالمی اقتصادی ترقی میں چین کا سالانہ حصہ تقریباً 30فیصد رہا ہے، جو عالمی اقتصادی ترقی کے لئے سب سے بڑی محرک قوت رہا ہے.

2024 ء میں چین نے اندرونی کھپت کو فروغ دینے کے لئے متعدد اقدامات اٹھائے ہیں، جس سے معیشت کو موثر طور پر فروغ ملا ہے۔ مستقل قیمتوں کے مطابق 2024 میں چین کی جی ڈی پی میں2023کے مقابلے میں 5.0فیصد کا اضافہ ہوا ، جس نے چینی معیشت کی مضبوط لچک اور توانائی کا مظاہرہ کیا۔ پیچیدہ بین الاقوامی صورتحال کے پیش نظر چین نے عالمی تعاون کو فروغ دینے اور مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چین باہمی فائدہ مند تعاون پر یقین رکھتا ہے اور جنوب جنوب تعاون میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت کے طور پر چین نے دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں کے ساتھ قریبی تعاون کیا ہے اور سرمایہ کاری اور دیگر طریقوں کے ذریعے بہت سے ترقی پذیر ممالک میں معاشی ترقی کو فروغ د یا ہے۔اس وقت، سائنسی اور تکنیکی انقلاب اور صنعتی اصلاحات کا ایک نیا دور گہرائی سے ترقی کر رہا ہے، اور تکنیکی انقلاب کی لہر پوری دنیا میں پھیل رہی ہے.اس کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان فرق زیادہ نمایاں ہوتا جا رہا ہے ، اور تکنیکی، ڈیجیٹل اورانٹیلی جنس کی تقسیم اب بھی بڑھ رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ موجودہ سالانہ اجلاس کا موضوع “ذہین دور میں تعاون” رکھا گیا ہے، جو بڑی عملی اہمیت کا حامل ہے۔ مصنوعی ذہانت کی عالمی حکمرانی کے لئے کثیر الجہتی اور دوطرفہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ مشترکہ عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے جدید ترین ٹیکنالوجیوں کا ذمہ دارانہ استعمال کسی ایک ملک کے ذریعے نہیں کیا جاسکتا ہے ، بلکہ صرف کثیر الجہتی تعاون میکانزم کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔چین کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ کثیر الجہتی دنیا کو درپیش مشکل چیلنجوں کو حل کرنے کی “سنہری کلید” ہے اور اس کی کلید بین الاقوامی تعاون کو مضبوط بنانے میں مضمر ہے۔ ذہین دور میں عالمی چیلنجوں کے جواب میں ، چین نے موجودہ اجلاس میں تجویز پیش کی کہ ہمیں نئی معیاری پیداواری قوتوں کے فروغ میں تیزی لاتے ہوئے سائنسی اور تکنیکی جدت طرازی میں بین الاقوامی تعاون کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ ابھرتی ہوئی صنعتوں اور فیوچر انڈسڑی کو وسعت دینے میں ممالک کی مدد کی جائے ۔ ہمیں سائنسی اور تکنیکی ثمرات سے تمام انسانیت کے مستفید ہونے کے تصور پرقائم رہتے ہوئے ترقی پذیر ممالک کو مصنوعی ذہانت، ذہین نقل و حمل اور اسمارٹ انرجی سمیت نئے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں مدد فراہم کرنی چاہیئے اور لوگوں کے ذریعہ معاش کے کلیدی شعبوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ اور اطلاق کو مضبوط بنانا چاہیئے تاکہ زیادہ سے زیادہ ممالک ڈیجیٹل معیشت کی ترقی کے تیز رفتار ٹریک پر گامزن ہو سکیں۔جدیدکاری کی جانب گلوبل ساؤتھ ممالک کے اتحاد اور تعاون سے کثیر الجہتی تجارت اور موسمیاتی تبدیلی کے مذاکرات میں اہم کردار ادا کرنے تک ، پھر عالمی مصنوعی ذہانت کی حکمرانی کے لئے اپنی تجویز پیش کرنے تک، چین عالمی اقتصادی حکمرانی کو بہتر بنانے اور عالمی اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لئے چینی حل اور دانشمندی فراہم کر رہا ہے اور کرتا رہے گا ۔ مشکل کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، انسانیت کی ترقی کو روکنا ناممکن ہے۔ہمیں یقین ہے کہ زیادہ سے زیادہ ممالک حقیقی کثیر الجہتی پر عمل کریں گے، مشترکہ طور پر مساوی اور منظم عالمی کثیر القطبی اور جامع اقتصادی عالمگیریت کی وکالت کریں گے، اور مشترکہ طور پر دنیا کے لئے ایک بہتر مستقبل تشکیل دیں گے۔

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: کو فروغ دینے کے لئے عالمی اقتصادی بین الاقوامی سالانہ اجلاس اور تکنیکی ممالک کے کے ذریعے تعاون کو کو مضبوط ترقی کو رہا ہے ہے اور چین نے رہی ہے

پڑھیں:

پاک افغان تعلقات کا نیا آغاز

پاکستان اور افغانستان نے باہمی فائدہ مند تعلقات کو فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے اعلیٰ سطح کے روابط کو برقرار رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحق ڈار نے افغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند اور افغان وزیرخارجہ امیر خان متقی کے ساتھ تفصیلی ملاقاتیں کی۔ ان ملاقاتوں میں دوطرفہ تعلقات، باہمی دلچسپی کے مختلف شعبوں بشمول سیکیورٹی، تجارت، ٹرانزٹ تعاون، کنکٹیویٹی اور عوامی سطح پر رابطوں سمیت تعاون بڑھانے کے لیے حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔

طویل سرد مہری اور باہمی بد اعتمادی کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں ایک نئی رمق پیدا ہوئی ہے، جہاں کابل میں دونوں ممالک کے اعلیٰ سطح کے سیکیورٹی مذاکرات شروع ہوچکے ہیں۔ اس تاریخی موقع پر دونوں ملکوں کے وفود سیکیورٹی، تجارت اور عوامی رابطوں جیسے اہم مسائل پر مذاکرات میں مصروف ہیں۔

سیاسی مبصرین اس دورے کو دوطرفہ تعلقات میں جمود کو توڑنے کی سنجیدہ کوشش قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ معاشی و تجارتی سرگرمیوں کو سیاسی تناؤ سے متاثر ہونے سے بچانے کے لیے سیاست اور تجارت کو الگ الگ معاملات کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ پیچیدگیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، اس مقصد کے حصول کے لیے دونوں ممالک کو غیر معمولی سفارت کاری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ تجارت اور معاشی تعاون کو درپیش سیاسی چیلنجز کے باوجود مسابقتی صلاحیت بڑھانے، ٹرانزٹ ٹریڈ کے مسائل حل کرنے اور تجارتی سہولیات کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے ایک منظم طریقہ کار کے تحت جاری رکھنا ہوگا،دونوں ممالک کو ایک ڈیجیٹل دستاویزی نظام اپنانا چاہیے جو کاروباری مقاصد کے لیے نقل و حرکت کو آسان بنائے۔ سرحد کے ساتھ تجارتی زون قائم کیے جاسکتے ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان ڈیوٹی فری تجارت کی اجازت دیتے ہوں۔

پاکستان کو یو این ایچ سی آر اورکابل کے تعاون سے وطن واپسی کی ہم آہنگ پالیسی اپنانے کی بھی ضرورت ہے جو غیر امتیازی اور انسانیت پسند ہو۔کابل کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ ٹی ٹی پی پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ تجارت کے فروغ میں رکاوٹ دونوں ممالک کے درمیان بارڈرز تنازعات ہیں، اچانک راستے بند ہوجاتے ہیں،کنٹینرزکو پورٹ پر روک دیا جاتا ہے، گزشتہ برس ساڑھے 4 ہزارکنٹینرز کراچی کے پورٹ پر کھڑے رہے۔ تاجروں کا مال ایسے پڑا رہے تو بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے، دراصل دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازعہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے جو بگڑتا جا رہا ہے۔

سرحد کی بندش سے روزانہ تقریباً 15 لاکھ ڈالر سے زائد کا نقصان ہوتا ہے۔ اسی طرح ڈیورنڈ لائن پر کشیدگی برقرار رہی ہے، جس کی وجہ سے اکثر سرحدیں بند کی جاتی رہی ہیں۔ طالبان نے باڑ کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر کے اور ہٹا کر پاکستان کی جانب سے سرحد پر باڑ لگانے کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد سے، افغان طالبان نے جان بوجھ کر سرحدی مسئلے پر توجہ مرکوز رکھی ہے تاکہ قوم پرست جذبات کو بھڑکایا جاسکے، خود کو پاکستان سے دور رکھا جاسکے اور مذہبی اور قوم پرست دونوں خطوط پر عوامی قانونی حیثیت حاصل کی جاسکے۔

صوبہ بلوچستان کو دو ممالک افغانستان اور ایران کی سرحدیں لگتی ہیں۔ یہ دونوں ممالک تجارتی طور پر وطن عزیز کے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ وسطی ایشیائی ممالک سے تجارتی معاملات میں افغانستان اور ایران سے ترکی و یورپ تک رسائی ممکن ہے۔ اس وقت بلوچستان تجارت کے حوالے سے اپنی ایک الگ اہمیت رکھتا ہے، صوبے کو علاقائی سطح پر جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے متعدد ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا جارہا ہے، جس کا مقصد وطن عزیز سمیت صوبائی ترقی میں ایک نئی تبدیلی کا تعین ہے۔ دوسری طرف بادینی ٹریڈٹرمینل جس جگہ واقع ہے، وہاں تجارتی سرگرمیاں بڑھانے کے لیے سب سے پہلے انفرا اسٹرکچر کی تعمیر انتہائی ضروری ہے، جسے ہنگامی بنیادوں پر شروع کیا جانا چاہیے، چونکہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے یہ علاقہ انتہائی طویل فاصلے (تقریباً گیارہ گھنٹے) کی مسافت پر ہے اور موجودہ صورتحال کے پیش نظر سڑکوں کی تعمیر بھی اس طرح نہیں کہ فوری طور پر تجارتی سرگرمیاں شروع کی جائیں۔

تجارتی سرگرمیوں کا انحصار اس کی لوازمات پر ہوتا ہے، افغانستان سے منسلک یہ سرحدی علاقہ بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ کے علاقے میں واقع ہے اور اس پوائنٹ سے افغانستان چمن سرحدی علاقے سے قریب پڑتا ہے، تاہم ضروری لوازمات کے بغیر تجارتی سرگرمیوں کی بحالی میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس تجارتی ٹرمینل کے روٹ کے لیے ایک خطیر رقم جلد فراہم کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی تمام متعلقہ اداروں کو آن بورڈ لیتے ہوئے اس پر ہنگامی بنیادوں پر فیصلے کرنے اور اِن فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تو یقینا دونوں ممالک کے مابین تجارت کو نہ صرف فروغ ملے گا بلکہ اس علاقے سے جڑے ہوئے لوگوں کی زندگی میں بھی بڑی تبدیلی آئے گی۔

پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ تعلقات سے متعلق معاملات میں بات چیت کو ترجیح دی ہے، پاکستان افغانستان کی سالمیت اور خود مختاری کا احترام کرتا ہے تاہم اپنے شہریوں کا تحفظ اولین ترجیح ہے۔ پاکستان کا موقف اس معاملے میں خاصا واضح ہے، چونکہ افغان حکومت دہشت گردوں کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کر رہی ہے، اس لیے وہ مکمل آزادی کے ساتھ افغانستان سے پاکستان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کر تے ہیں اور حملہ کر کے واپس اپنی پناہ گاہوں میں لوٹ جاتے ہیں۔ یہ بات سب کے سامنے ہے کہ جب سے افغانستان میں طالبان نے کنٹرول سنبھالا ہے تب سے پاکستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے، اعداد و شمار بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان کی توقعات کے برعکس کابل میں طالبان حکومت آنے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردوں کے حملوں میں کمی کے بجائے اِن میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اس وقت پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج افغانستان کی سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے کئی واقعات ہوئے، جن کے تانے بانے افغانستان میں موجود تنظیموں سے ملتے ہیں۔ اگرچہ طالبان حکومت نے بارہا یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گی، مگر عملی طور پر صورتحال مختلف نظر آتی ہے۔ ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی افغانستان میں موجودگی پاکستان کے لیے ایک مسلسل خطرہ بنی ہوئی ہے۔

افغانستان کے معاملے میں ایک اور اہم پیش رفت امریکا کی حکمت عملی میں تبدیلی ہے۔ ماضی میں امریکا نے طالبان کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے پاکستان کو انگیج کیا، لیکن اب وہ خلیجی ممالک کے ذریعے طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے۔ اپنا ایک یرغمالی بھی امریکا خلیجی ممالک کے توسط سے رہا کروا کے لے گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا پاکستان پر اپنا انحصار کم کر رہا ہے، جو کہ پاکستان کے لیے ایک سفارتی چیلنج ہو سکتا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کو مزید موثر بنائے اور افغانستان کے ساتھ براہ راست تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرے۔

اگر پاکستان، افغانستان تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو اس کے مثبت اثرات پورے خطے پر پڑیں گے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے علاوہ، اقتصادی تعاون، راہداری منصوبے، تجارتی معاہدے اور عوامی روابط دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہو سکتے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ ایک مستحکم افغانستان کی حمایت کی ہے اور اب یہ طالبان حکومت پر منحصر ہے کہ وہ پاکستان کے تحفظات کو دورکرے اور بھارتی مداخلت سے دور رہے۔ دوسری جانب عالمی طاقتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات بہتر ہوں بلکہ عالمی طاقتیں تو افغانستان پر مسلط ہونا چاہتی تھیں۔ ان حالات میں بیٹھ کر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمارے عوام کے لیے بہترکیا ہوگا۔

 پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سفارتی اور سیکیورٹی کی سطح پر مشترکہ کوششیں ناگزیر ہیں۔ پاکستان نے مثبت قدم اٹھاتے ہوئے افغانستان کے ساتھ دوبارہ بات چیت شروع کی ہے، لیکن یہ یکطرفہ عمل نہیں ہونا چاہیے۔

افغانستان کو بھی چاہیے کہ وہ پاکستان کے تحفظات کو سنجیدگی سے لے اور عملی اقدامات کرے،اگر دونوں ممالک مسائل کا حل نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ نہ صرف ان کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے ایک خوش آیند پیش رفت ہوگی۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور قومی یکجہتی، دونوں ہی دہشت گردی کے مکمل خاتمے اور پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے ناگزیر ہیں۔ خطے میں امن و امان قائم رکھنے کی ذمے داری سب پر عائد ہوتی ہے، اگر افراتفری کی کیفیت ہوگی تو اس کے اثرات سے کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہے گا۔ یہ بات طے ہے کہ ہر معاملے کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی نکل سکتا ہے، یہ دروازہ کبھی بند نہیں ہونا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • سعودی عرب کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کو فروغ دیا جائے گا، ایران
  • ایف ای ڈی کا خاتمہ خوش آئند، پراپرٹی سیکٹر میں بہتری آئے گی ، راجہ سجاد حسین
  • خاموش طاقت، نایاب معدنیات کی دوڑ
  • اقبالؒ کے فلسفے کو اپنا کر معاشی خودانحصاری، یکجہتی کو فروغ دینا ہوگا، شہباز شریف
  • اقبال کے فلسفے کو اپنا کر معاشی خود انحصاری، یکجہتی کو فروغ دینا ہو گا: وزیراعظم
  • پاک افغان تعلقات کا نیا آغاز
  • عالمی چلینجز اور سماجی تقسیم کو ختم کرنے کیلیے علامہ اقبال کی تعلیمات مشعل راہ ہیں، وزیراعظم
  • انتہا پسندی کے خلاف نوجوانوں کی مؤثر حکمت عملی، جامعہ کراچی میں ورکشاپ کا انعقاد
  • امریکہ کے اندھا دھند محصولات کے اقدامات غلط ہیں،یونیڈو
  • برکس میکانزم گلوبل ساؤتھ میں اتحاد کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم بن چکا ہے ، رپورٹ