رکن قومی اسمبلی عادل بازئی کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ تحریری فیصلے پر رد عمل میں الیکشن کمیشن نے کسی ایک سیاسی جماعت کی طرف جھکاؤ کے تاثر کو حقائق کے برعکس قرار دیا ہے۔

الیکشن کمیشن نے عادل بازئی ، ممبر قومی اسمبلی کی نااہلی کے اپنے فیصلے کو ایک مرتبہ پھر اپنی ویب سائٹ پر شائع کرتے ہوئے ایک اعلامیے میں کہا ہے کہ تبصرہ نگار اس پر اپنی رائے دینے سے قبل کم از کم ایک دفعہ اسے غور سے پڑھ لیں اور پھر فیصلہ کریں کہ کون سا ادارہ جانبدار ہے۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ نے عادل بازئی کو ڈی سیٹ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا

الیکشن کمیشن کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 63 اے 3 کمیشن کو اختیار دیتا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی سے ڈیکلیئریشن کی وصولی کے 30 روز کے اندر اس پر فیصلہ کرے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق ریکارڈ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عادل بازئی آزاد امیدوارکے حیثیت سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور ان کی کامیابی کا نوٹیفیکیشن 15 فروری کو جاری ہوا۔

مزید پڑھیں:الیکشن کمیشن کے معاندانہ رویے کیخلاف کے پی حکومت نے رٹ پٹیشن دائر کرنیکا فیصلہ کرلیا

مطلوبہ 3 دن کے اندر 16 فروری 2024 کو عادل بازئی نےمسلم لیگ ن میں شمولیت کا بیان حلفی پارٹی قیادت کو جمع کرایا جو 18 فروری 2024 کو الیکشن کمیشن کو موصول ہوا، جس کی منظوری الیکشن کمیشن نے 19 فروری 2024 کو دی اور اس بابت قومی اسمبلی کو 25 اپریل 2024 کو بذریعہ خط مطلع کیا گیا۔

’قومی اسمبلی نے ارکان اسمبلی کی پارٹی وابستگی فہرست اپنی ویب سائٹ پر آویزاں کردی جس میں سلسلہ نمبر 256 پر عادل بازئی کا نام مسلم لیگ ن سے وابستگی کے ساتھ موجود تھا، لیکن اس کے باوجود عادل بازئی 25 اپریل 2024 سے لیکر2 نومبر 2024 تک اپنی پارٹی وابستگی پر خاموش رہے۔‘

مزید پڑھیں:الیکشن کمیشن کو جمہوریت کا غیرجانبدار محافظ رہنا چاہیے، سپریم کورٹ

الیکشن کمیشن کے مطابق اپنے خلاف ریفرنس دائر ہونے کے بعد 2 نومبر 2024 کو عادل بازئی نے اس ضمن میں متعلقہ مقامی عدالت میں درخواست دائر کی۔

اسپیکر قومی اسمبلی کے دائر کردہ ریفرنسز کے مطابق 29 فروری 2024 کو رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے حلف اٹھانے والے عادل بازئی نے 12 جون کو فائنانس بل 2024 اور منی بل پر ووٹنگ کے دوران بل کے حق میں ووٹ نہیں دیا، انہوں نے 26 ویں آئینی ترمیم کی رائے شماری کےوقت بھی حصہ نہیں لیا۔

مزید پڑھیں:فلور کراسنگ پر رکن قومی اسمبلی عادل بازئی خان نااہل قرار

اس ضمن میں اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے ریفرنسز موصول ہونے کے بعد آئین اور قانون کے مطابق کاروائی کرتے ہوئے ریفرنسز کو کنفرم کرتے ہوئے عادل بازئی کی قومی اسمبلی کی رکنیت ختم کرکے اور متعلقہ قومی اسمبلی کی نشست خالی قرار دی گئی تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسپیکر الیکشن کمیشن رائے شماری رکن سپریم کورٹ عادل بازئی قومی اسمبلی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسپیکر الیکشن کمیشن سپریم کورٹ قومی اسمبلی الیکشن کمیشن کے قومی اسمبلی کی فروری 2024 کو سپریم کورٹ کے مطابق

پڑھیں:

اسلام آباد ہائیکورٹ کا الیکشن دھاندلی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔19 اپریل ۔2025 )اسلام آباد ہائیکورٹ نے این اے 18 ہری پور الیکشن دھاندلی کیس کے خلاف عمر ایوب کی درخواست پر تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کی جانب سے 6 صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ جاری کیا گیا. عدالت نے قرار دیا ہے کہ عمر ایوب کی درخواست اس عدالت کے سامنے قابل سماعت نہیں عدالت نے واضح کیا کہ وہ کیس کے میرٹ پر کوئی فائنڈنگ نہیں دے رہی اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ وہ عمر ایوب کے خلاف درخواست پر قانون کے مطابق فیصلہ کرے اور فریقین کو سن کر کارروائی کو آگے بڑھائے.

(جاری ہے)

عدالت نے جولائی 2024 سے جاری حکم امتناع کو ختم کر دیا ہے جو عمر ایوب کی درخواست پر الیکشن کمیشن کی کارروائی روکنے کے لیے جاری کیا گیا تھا فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت کی رائے میں یہ فیصلہ الیکشن کمیشن کو کرنا ہے اور اگر درخواست گزار اس فیصلے سے متاثر ہوں تو وہ سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر سکتے ہیں. عدالت نے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی ہے کہ فریقین کو سماعت کا مکمل حق دے کر قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے ساتھ ہی فیصلے کی کاپی الیکشن کمیشن کو بھی بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ وہ نوٹس جاری کر کے کارروائی کو آگے بڑھا سکے فیصلے کے مطابق عمر ایوب نے دھاندلی کی تحقیقات کے لیے الیکشن کمیشن کا 10 جولائی کا آرڈر چیلنج کیا تھا، جس پر عدالت نے حکم امتناع جاری کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کی کارروائی روک دی تھی.

عمر ایوب کا موقف تھا کہ الیکشن کمیشن نے درخواست پر 60 دنوں میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور ان کے مطابق 60 دن گزرنے کے بعد الیکشن کمیشن کی کارروائی غیر قانونی ہے واضح رہے کہ این اے 18 ہری پور میں عمر ایوب کے مخالف امیدوار نے دھاندلی تحقیقات کے لیے الیکشن کمیشن سے رجوع کر رکھا ہے.

متعلقہ مضامین

  • ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں،ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ کے صنم جاوید کی بریت فیصلے کیخلاف پنجاب حکومت کی اپیل پرریمارکس
  • انتخابی نظام میں بہت کچھ گڑ بڑ چل رہا ہے، راہل گاندھی
  • امریکا، سپریم کورٹ نے وینزویلا کے تارکین وطن کو بیدخل کرنے سے روک دیا
  • ججز ٹرانسفر سینیارٹی کیس میں رجسٹرار سپریم کورٹ،جوڈیشل کمیشن نے جواب جمع کروا دیئے
  • ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس، جوڈیشل کمیشن، رجسٹرار سپریم اور وزارت قانون نے جواب جمع کروا دیا
  • چیف جسٹس نے ججز کے تبادلوں پر رضامندی ظاہر کی تھی: رجسٹرار سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں،جوڈیشل کمیشن کا ججز سنیارٹی کیس میں جواب
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کا الیکشن دھاندلی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری
  • ایم کیو ایم نے سینیٹ کی خالی نشست کے انتخاب کیلئے نام فائنل کر لیے
  • این اے 18 ہری پور الیکشن دھاندلی کیس: عمر ایوب کی درخواست پر حکمنامہ جاری