محکمہ صحت پنجاب میں ٹرانسفر کے نام پر کیسے فراڈ ہو رہا ہے ؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
محکمہ صحت پنجاب میں ٹرانسفر، پوسٹنگ معمول کی بات ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے دور میں ٹرانسفر، پوسٹنگ کے لیے آن لائن پورٹل کا آغاز کیا گیا تھا جس میں محکمہ صحت کے تمام ملازمین اپنی ٹرانسفر کے لیے اپلائی کرسکتے ہیں۔ آن لائن پورٹل پر روزانہ ہزاروں افراد ٹرانسفر اور پوسٹنگ کے لیے اپلائی کرتے ہیں۔ آن لائن پورٹل کو ہیلتھ انفارمیشن اینڈ سروسز ڈیلیوری یونٹ دیکھتا جس کی نگرانی سیکریٹری ہیلتھ اور ایڈیشنل سیکریٹری ہیلتھ کرتے ہیں۔
محکمہ صحت ذرائع کے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ کے اندر پچھلے ایک سال سے ٹرانسفر پوسٹنگ کے نام پر فراڈ ہو رہا ہے۔ محکمہ صحت کے ذرائع نے بتایا کہ جو لوگ آن لائن پورٹل پر ٹرانسفر اپلائی کرتے ہیں ان کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے، محکمہ کی جانب سے کال بھی کی جاتی ہے لیکن جب آرڈر نکلنا ہوتا ہے تو فیک کال ٹرانسفر کرنے والے کو کی جاتی ہے کہ آپ کا آرڈر اس وقت نکل سکتا ہے جب آپ ہمیں پیسے ٹرانسفر کریں گے۔
فیک کال کرنے والوں نے گریڈز کے حساب سے پیسے رکھے ہوئے ہیں اگر نرس یا ڈاکٹر کی ٹرانسفر ہے تو 3 سے 5 لاکھ روپے ٹرانسفر کرنے کی ڈیمانڈ کی جاتی ہے۔ اب ٹرانسفر کروانے والا مجبور ہوتا ہے اور وہ یہ ہی سمجھتا ہے محکمے کے اندر ایسے ہی ٹرانسفر ہوتے ہیں وہ فیک کال کرنے والوں کو جو پیسے طے ہوتے ہیں ان کو سینڈ کر دیتا ہے۔ محکمے سے نکلا ہوا آرڈر بھی ٹرانسفر کرنے والے کو ایک 2 روز میں موصول ہوجاتا ہے۔
مزید پڑھیں: کیا کوئٹہ میں سرکاری اسکول بھی ڈیجیٹل سہولیات سے لیس ہیں؟
محکمہ صحت کے ذرائع نے بتایا اس بات کا انکشاف اس وقت ہوا جب ڈیپارٹمنٹ کے افسر کو فون کال گئی کہ آپ کا ٹرانسفر ہو جائے گا آپ پیسوں کا بندوبست کریں جبکہ اس افسر کو پہلے سے آرڈر مل چکے تھے۔ محکمے نے چھان بین شروع کی تو پتا چلا کے پچھلے ایک سال سے محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ڈیپارٹمنٹ میں فیک کال کے ذریعے ٹرانسفر کے نام پر لوٹا جا رہا ہے۔
محکمہ صحت کے ایڈیشنل سیکریٹری ایڈمن محمد حسین رانا نے بتایا کہ وہ پچھلے 2 ماہ سے اس سیٹ پر آئے ہیں اور متعدد شکایت انہیں اس طرح کی موصول ہوئی ہیں کہ ٹرانسفر پوسٹنگ کے لیے اپلائی کرنے والوں کو فیک کال جاتی ہیں ان سے لاکھوں روپے لوٹے جارہے ہیں۔
محمد حسین رانا نے بتایا کہ ایف آئی اے کے اندر محکمے کی جانب سے اس حوالے سے درخواست دی گئی ہے اور فراڈ کرنے والوں کے نمبرز بھی دیے گئے ہیں۔ ایف آئی اے اب اس معاملے کو دیکھ رہی ہے۔ مجھے بھی ایف آئی اے والوں نے طلب کیا تھا، ان کو بتایا کہ کیسے یہ فراڈ ہو رہا ہے۔ محکمے کے اندر سے لوگ بھی ملے ہوئے جن کی مدد سے انہیں پتا چلتا ہے کہ اس بندے کا ٹرانسفر ہو گیا ہے یا ہونے والا ہے اور وہ فیک کال کرنے والوں کو بتاتے ہیں جس کے بعد وہ کال کرکے لوگوں سے لاکھوں روپے لوٹتے ہیں۔
مزید پڑھیں: ہر سال ہزاروں نرسیں برطانیہ چھوڑ کر بیرون ملک مقیم ہونے پر مجبور کیوں؟
ان کا کہنا تھا کہ ہم بہت جلد اپنے آن لائن پورٹل پر بھی وہ نمبرز لگا دیں گے کہ ان نمبرز سے اگر کسی کو ٹرانسفر پوسٹنگ کی کال آتی ہے تو ہر گز ان کے جھانسے میں نہ آئیں۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق اس فراڈ کو ٹریس کیا جارہا ہے جو نمبرز محکمے کی جانب سے دیے گئے ہیں ان کی لوکیشن مرادن یا افغانستان کی آتی ہے جس کی وجہ سے ٹریس کرنا مشکل ہو رہا ہے لیکن جلد اس معاملے کو حل کیا جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پنجاب فراڈ محکمہ صحت محکمہ صحت پنجاب مریم نواز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: فراڈ مریم نواز محکمہ صحت کے کرنے والوں ایف آئی اے کی جاتی ہے پوسٹنگ کے ہو رہا ہے نے بتایا کے اندر کے لیے ہیں ان
پڑھیں:
پنجاب کا کوئی محکمہ ترقیاتی اہداف حاصل نہیں کر سکا، فنانشل رپورٹ نے قلعی کھول دی
لاہور:پنجاب کا ایک بھی محکمہ رواں مالی سال میں ترقیاتی اہداف حاصل نہیں کر سکا، فنانشل رپورٹ نے کارکردگی کا پول کھول دیا۔
صوبائی اسمبلی میں پوسٹ بجٹ بحث کے لیے رواں مالی سال کے تیسرے کوارٹر کی فنانشل رپورٹ نے سرکاری محکموں کی کارکردگی کی قلعی کھول دی ، جس کے مطابق پنجاب کا ایک بھی سرکاری محکمہ رواں مالی سال کے تیسرے کوارٹر کے طے شدہ اہداف حاصل نہیں کرسکا ۔
رپورٹ کے مطابق پنجاب حکومت نے تیسرے کوارٹر کے لیے مجموعی طور پر 488 ارب 43 کروڑ روپے جاری کیے ، تاہم رواں مالی سال کے تیسرے کوارٹر تک مجموعی طور پر 355 ارب 43 کروڑ روپے خرچ کیے جاسکے ۔
محکمہ زراعت کو 3 ارب روپے کا بجٹ ملا لیکن ایک ارب 21 کروڑ روپے خرچ ہوسکے ۔ اسی طرح بورڈ آف ریونیو کو 30 ارب 50 کروڑ روپے کا بجٹ ملا تاہم 4 ارب 79 کروڑ روپے خرچ کیے گیے جب کہ محکمہ مواصلات و تعمیرات کو 4 ارب 62 کروڑ روپے جاری کیے گئے لیکن 2 ارب 91 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔
علاوہ ازیں محکمہ تعلیم کو 4 ارب 62 کروڑ روپے جاری کیے گئے لیکن2 ارب 91 کروڑ روپے خرچ کیے گئے ۔ محکمہ خزانہ کو 2 ارب 30 کروڑ روپے کا بجٹ ملے لیکن 1 ارب 33 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ محکمہ جنگلات، جنگلی حیات و ماہی پروری کو 324 ارب 24 کروڑ روپے جاری کیے گئے جبکہ 296 ارب 4 کروڑ روپے خرچ کیے ۔
اسی طرح محکمہ صحت کو ایک ارب 98 کروڑ روپے جاری ہوئے لیکن 1 ارب 26 کروڑ روپےکیے گئے ۔ محکمہ داخلہ کو 25 ارب 50 کروڑ روپے دیے گئے لیکن 2 ارب 18 کروڑ روپے ہی خرچ ہوئے جب کہ محکمہ ہاؤسنگ و پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کو 1 ارب 22 کروڑ روپے ملے جبکہ 67 کروڑ روپے خرچ کیے گئے ۔
صنعت، تجارت و سرمایہ کاری کو 1 ارب 64 کروڑ روپے جبکہ 27 کروڑ روپے خرچ کیے گئے ۔ محکمہ آبپاشی کو 19 ارب 50 کروڑ روپےملے لیکن 5 ارب 85 کروڑ روپے خرچ ہوسکے اور محکمہ لائیو اسٹاک و ڈیری ڈیولپمنٹ کو 1 ارب 97 کروڑ روپے ملے لیکن 93 کروڑ روپے خرچ کیے جاسکے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ محکمہ قانون و پارلیمانی امور کو 1 ارب 41 کروڑ روپے ملے لیکن ایک ارب روپےخرچ ہوسکے ۔ محکمہ معدنیات و کان کنی کو 31 ارب روپے ملے لیکن 12 ارب 6 کروڑ روپے خرچ ہوسکے ۔ محکمہ پولیس کو 16 ارب 25 کروڑ روپے ملے لیکن 13 ارب 93 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ متفرق مدات میں 24 ارب 17 کروڑ روپے جاری کیے گئے لیکن 7 ارب 65 کروڑ روپے خرچ کیے جاسکے۔