لاہور میں نجی یونیورسٹی کی طالبہ سے تین افراد کی اجتماعی زیادتی، مرکزی ملزم گرفتار
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
لاہور:
نجی یونیورسٹی کی طالبہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کیس میں اہم پیش رفت، پولیس نے مرکزی ملزم حسیب کو گرفتار کرلیا۔
پولیس کے مطابق ملزمان طلحہ اور حمزہ کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ طالبہ فاطمہ کا طبی معائنہ کروالیا گیا ہے، رپورٹ میں حقائق واضح ہوجائیں گے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم حسیب افضل، طلحٰہ خان اور حمزہ نے طالبہ کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا، طالبہ کی سوشل میڈیا پر حسیب افضل سے دوستی ہوئی تھی۔
ایس پی سول لائن کا کہنا ہے کہ ملزمان نے اجتماعی زیادتی کے دوران برہنہ ویڈیوز بھی بنائیں، باقی دو ملزمان کی گرفتاری کے لیے ٹیمیں چھاپے مار رہی ہیں۔
پولیس نے واقعے کا مقدمہ متاثرہ لڑکی کی مدعیت میں گینگ ریپ کی دفعات کے تحت درج کیا تھا۔
متاثرہ طالبہ نے ویمن پولیس سٹیشن میں مقدمے کے اندراج کیلئے درخواست دی تھی، متاثرہ لڑکی لاہور کی نجی یونیورسٹی میں ایم فل کی طالبہ ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اجتماعی زیادتی
پڑھیں:
سپریم کورٹ: زیادتی کے کیس میں ملزم کی سزا 20 سال سے کم کر کے 5 سال کر دی گئی
سپریم کورٹ نے ایک زیادتی کیس میں ملزم کی سزا میں کمی کرتے ہوئے 20 سال قیدِ بامشقت کی سزا کو 5 سال کر دیا۔ جسٹس شہزاد احمد نے اکثریتی فیصلے میں لکھا کہ واقعے کا مقدمہ 7 ماہ بعد درج کیا گیا، متاثرہ خاتون نے واقعے کے وقت مزاحمت نہیں کی، اور طبی معائنے میں تشدد یا مزاحمت کے نشانات سامنے نہیں آئے۔ ان کے مطابق اس بنیاد پر یہ کیس زبردستی زیادتی کے زمرے میں نہیں آتا۔
جسٹس صلاح الدین نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا اور اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ متاثرہ خاتون کی عمر تقریباً 24 سال تھی اور واقعے کے نتیجے میں بچہ پیدا ہوا، جس کی تصدیق ڈی این اے رپورٹ سے ہوئی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ جنسی جرائم کے مقدمات میں تاخیر غیر معمولی نہیں، کیونکہ معاشرتی دباؤ اور خوف کی وجہ سے متاثرہ خاتون رپورٹ درج کروانے میں وقت لے سکتی ہے۔ اسلحے کی موجودگی میں مزاحمت نہ ہونا فطری عمل ہو سکتا ہے، اور 7 ماہ بعد کیے جانے والے طبی معائنے سے مزاحمت کے نشانات ظاہر نہیں ہو سکتے۔ جسٹس صلاح الدین نے زور دیا کہ زیادتی ثابت نہ ہونے سے خودبخود رضا مندی ثابت نہیں ہوتی اور صرف سزا کم کرنے کے لیے جرم کی دفعہ تبدیل نہیں کی جا سکتی۔
یاد رہے کہ ٹرائل کورٹ نے ملزم کو 20 سال قیدِ بامشقت کی سزا سنائی تھی، اور لاہور ہائی کورٹ نے پہلے یہ فیصلہ برقرار رکھا تھا۔